Hindu Ladki ke 3 Roze aur Doodh Dene wala Ped Ek Allah wale ka waqia

 All rights reserved. This story was originally published on  https://best.92islamicquotes.com       Reproduction or use without permission will be considered a copyright violation.


کسی جگہ ایک غیر مسلم رہا کرتا تھا اس کی ایک ہی بیٹی تھی جو جوان ہوچکی تھی وہ  اپنی بیٹی سے کہا کرتا  کہ ہر چیز انسان کے ہاتھ میں ہے  وہ جو چاہے کر سکتا ہے کیونکہ وہ کسی خدا کو نہیں مانتا تھا  وہ اپنی بیٹی سے کہتاتھا کہ یہ دنیا بھی خود بن  گئی ہے اس کی بیٹی سوال کرتی تھی  تو ہم کیسے  اس دنیا میں ائے یعنی  کیا خود ہی پیدا ہو گئے  اس نے کہا کوئی تو بنانے والا ہوگا نہیں ہمیں کوئی بنانے والا نہیں ہمارا کوئی خدا نہیں ہمارے ماں باپ تھے جن کی وجہ سے ہم اس دنیا میں ائے ہیں یعنی انسان ہی انسان کو لانے کی وجہ ہے .. وہ روز اپنی بیٹی کو یہی پاٹ پڑھایا کرتا تھا اور اس نے  اس جگہ کے رہنے والوں کو یہی بات بتائی تھی.. اس لیے وہ لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ہم انسان ہی اس دنیا میں سب سے  زیادہ طاقتور ہے... وہ لوگ لکڑی کاٹنے کے لیے پاس کی جنگل میں جایا کرتے تھے اس نے اپنی بیٹی کو یہ کام سکھا دیا تھا تو وہ لڑکی اکیلے اس جنگل میں چلی جایا کرتی تھی ایک  دن اس کا دل چاہا کہ میں اس جنگل کے اگے بھی جا کر دنیا دیکھوں تو وہ یوں ہی چلتی جا رہی تھی کہ اسے ایک بستی نظر ائی کہ جہاں پر بہت روشنی تھی.... روشنی دیکھ  وہ خود بخود اس بستی کے گھر جانے لگی  اندر داخل ہوئی تو وہاں پر سب بہت مسکرا رہے تھے اور بہت خوش تھے  یہ مغرب کا وقت تھا ان سب کے ہاتھوں میں کھانوں  یہ برتن تھے ایک  دسترخوان بچھا ہوا تھا جس پر کھانے رکھے گئے تھے  پھر سب اس دسترخوان پر بیٹھ گئے سب نے دعا پڑھی اور کھانا شروع کر دیا  ایک عورت نے اس بچی کو دیکھا تو کہا ادھر آٶ  تم بھی ہمارے ساتھ افطار کر لو بات  تو سمجھ میں نہیں آئ لیکن اسے بھوک لگی تھی اس لیے وہ بھی ان کے ساتھ کھانے بیٹھ گئی کھانا کھانے کے بعد وہ سب اٹھے اور  ایک مرد کے پیچھے کھڑے ہوکر سب نماز پڑھنے لگے.. اس کو سمجھ نہیں ا رہا تھا وہ کیا کر رہے ہیں وزن کو دیکھ رہی تھی  نماز پڑھنے کے بعد وہی عورت اس کے پاس ائی اور کہا  تم کون ہو اور کہاں سے ائی ہو  کہنے لگی یہاں سے کچھ دو ایک بستی ہے وہاں پر رہتی ہوں جنگل میں لکڑیاں گھٹنے ائی تھی تو روشنی لے کر یہاں چلی ائی اس نے کہا بہت اچھا کیا تم نے تم جانتی ہو یہ کون سا مہینہ ہے یہ رمضان کا مہینہ ہے  اس کو تو کچھ پتہ تھا نہیں رمضان کا مہینہ اس نے کہا یہ مہینہ بہت برکتوں والا ہوتا ہے اس میں ہم 




روزہ رکھتے ہیں نماز پڑھتے ہیں اور ابھی جو تم نے کھایا تھا اس کھانے کو افطار کہتے ہیں  وہ اس کے اچھے رویے سے بہت خوش ہوئی تھی اس نے کہا جو بھی ہے مجھے اچھا لگا اپ کے پاس آکر  عورت کہنے لگی تم ہمارے پاس  جب چاہے  آسکتی ہو... اس عورت سے مل کر وہ اپنے گھر واپس اگئی  اج اس کے دل کی دنیا بدل گئی تھی وہ جو دیکھ کر ائی تھی اس نے اج تک ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا اس کی ماں تو تھی نہیں اس عورت کی شکل میں اسے ایک مامتا نظر ائی تھی  اپنے باپ سے یہ بات نہیں کی کیونکہ جانتی تھی کہ اس کا باپ اسے بہت مارے گا اور کہے گا کہ تم کہاں گئی تھی اور کیا کر کے ائی ہو  اب اس کا دل روز ہونے لگا کہ وہ اس گاؤں میں جائے وہ جنگل میں جانے کے بہانے اس گاؤں میں چلے جاتی اور ان کے ساتھ افطار کرتی ایک دن اس عورت نے کہا تم جانتی ہو کہ ہم سحری بھی کرتے ہیں اور یہ سحری  سورج نکلنے سے پہلے کی جاتی ہے  اس کی باتیں سن کر اس کا دل جھکنے لگا... ایک دن اس کا دل بہت گھبرا رہا تھا اس کا باپ گھر پر نہیں تھا اس نے سوچا کہ میں بستی چلی جاتی ہوں جب وہ میرا باپ پوچھے گا تو میں اسے بتا دوں گی کہ لکڑیاں کاٹنے گئی تھی وہ جنگل سے ہوتی ہوئی اس بستی وہ ہوتی تو وہاں پر کوئی بہت ہی نورانی چہرے والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے جو ان سب لوگوں کو کچھ کتاب پڑھا رہے تھے وہ بھی ان کے پاس اگر بیٹھ گئی  وہ اللہ والے تھے جو اس گاؤں کے سب سے بڑے بزرگ تھے... ان کی شخصیت میں کچھ ایسی بات تھی  کہ اس پر ایک سحر سے زیادہ طاری ہو گیا یعنی ایک جادو ہو گیا اور وہیں بیٹھ کر اپ کی باتیں سننے لگی اپ کی باتیں میں نے اس کے دل میں اتنا گھر گیا کہ اس کا دل نہیں چاہا کہ وہ وہاں سے اٹھے اور پھر  ایک دم اس کو جھٹکا لگا کے میں نے تو اپنے باپ کو بتایا نہیں ہے وہ بہت ناراض ہوگا وہ جلدی سے وہاں سے اٹھ کر جانے لگی اللہ والے نواز دی بیٹی ٹھہرو تم کہاں سے ائی ہو تو وہی عورت جس نے اس کو پہلے بھی دیکھا تھا اس نے کہا اللہ والے یہ بچی ہمارے پاس اتی ہے دو تین دن سے ا رہی ہے  اللہ والوں نے کہا تھا تم کہاں جا رہی ہو وہ میں نے اپنے بابا کو نہیں بتایا ہے تو وہ ناراض ہوں گے تو پھر وہ وہاں سے چلے گئی لیکن اب اس کا دل اپنے گھر پہ بالکل نہیں لگ رہا تھا  اس نے کہا اس عورت نے مجھ سے سحری کی بات کی تھی اور وہ رات 




میں کی جاتی ہے جب میرا باپ سو جائے گا تو میں چپکے سے اس گاؤں میں چلی جاؤں گی اس کے واپس ہونے کے بعد وہ اپنے گھر سے نکلی اور اس گاؤں پج کے جہاں پر ہر کوئی بہت خوش تھا اور سحری کی تیاری کر جا رہی تھی وہ اور اللہ والے کے بعد اگر بیٹھ گئی  اس کو دیکھ کر اللہ والے مسکرائے اور کہا اگئی تم کیا تم ہمارے ساتھ روزہ رکھنے ائی ہوں اس نے کہا روزہ کیا ہوتا ہے  اپ نے کہا کہ یہ تو جسم کی پاکی کرتی ہے اور یہ مہینہ ہے رمضان کا جس میں ہم سب روزے رکھتے ہیں اور یہ ہر مسلمان مرد و عورت اور فرض ہیں   ہم صبح سے لے کر شام تک بھوکے رہتے ہیں اللہ کی عبادت کرتے ہیں اپنے اپ کو برائیوں سے روکتے ہیں اور پھر اللہ ہمیں وہ انعام دیتا ہے جو کبھ

ی کسی کو نہیں ملا اس نے کہا اللہ کون ہے میرا باپ کہتا ہے ہمارا کوئی خدا نہیں  ہم سب ی ہی بنے ہیں اللہ  پانی نے کہا ہرگز نہیں ایکل خدہا کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا ہاں وہ ایک ہے جس کا کوئی شریک نہیں جس نے ہم سب کو پیدا کیا ہے  لیکن وہ ہمارا باپ نہیں  پاک ہےر کمی  سے وہ پاک ہے  اور توجہ سے اپ کی باتیں سن رہی تھی اسی وقت سب نے سحری کا اعلان کیا تو وہ اللہ والے کے ساتھ بیٹھ کر سحری کرنے لگی اس کو اپ کی صحبت میں اتنا اچھا لگ رہا تھا کہ وہ وہاں سے اٹھنا ہی نہیں چاہتی تھی سحری کرنے کے بعد اللہ والے نے کہا  کیا تم مسلمان ہونا چاہتی ہو کیونکہ کسی کو اس کی مرضی کے بغیر  اپنے دین میں شامل نہیں کیا جا سکتا  وہ کہنے لگی جی ہاں میں تو خود پریشان تھی کہ میرا کیا کوئی مذہب نہیں میرا کوئی خدا نہیں میں خدا کی عبادت کرنا چاہتی ہوں جس طرح اپ لوگ کرتے ہیں اپ کے چہرے پر سکون دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے للہ والے  نے اسے کلمہ پڑھا دیا وہ مسلمان تھی اس نے روزہ رکھ لیا  ان کے ساتھ پہلی بار زندگی میں نماز پڑھی اس کے دل کو بہت قرار ایا پھر اس نے اللہ والے سے قران میں پڑھا اور اپنے گھر واپس اگئی اس کا باپ اب تک سو رہا تھا کچھ دن تو  اس  کے باپ  اپ کو پتہ نہیں چلا کہ وہ کیا کہا نہیں ویو شکر سے روزہ رکھ لیتی تھی  جب اپ گھر پر نہیں ہوتا تو وہ بستی میں چلے جاتی ہے قران پاک پڑھتی اس طرح اس نے رمضان  کے روزے گزارنے شروع کر دیے تھے  

وہ شخص جب کام سے واپس آتا تو کھانے کے لیے اسے بلاتا پر کچھ دنوں سے  وہ کھانے کے لیے اسے بلا رہا تھا تو وہ کہتی  مجھے  



بھوک نہیں یا میں نے کھالیا ہے وہ روزے سے ہوتی تو کیا کہتی جھوٹ بھی یونہی کہنا پڑ رہا تھا. ایک دن دو دن کی بات نہیں یہ ہر دن ہونے لگا تو اس نے کہا میری بیٹی کہیں بیمار تو نہیں اس نے بیٹی کو پاس بلایا اور کہا تم  کھانا کیوں  نہیں کھاتی ہو اس نے کہا کہ   اپ کے انے سے پہلے کھا لیتی ہوں ... پہلے تو باپ کا انتظار کیا کرتی تھی اور باپ کے آنے سے پہلے کھانا کھالیتی ہے باپ کو کچھ عجیب تو لگا وہ چپکے سے سحری کرتی اور روزہ کھولتی تھی جب باپ گھر پر نہ ہوتا تو جو قرآن مجید اللہ والے نے دیا تھا اسکو پڑھتی رہتی جب کوئ آس پاس نہ ہوتا تو مسلمانوں کی بستی میں چلی جاتی  اب ایک دن  اس کے باپ کے کسی ساتھی نے  اس کو جنگل سے دور جاتے دیکھا وہ اس کا پیچھا کرنے لگا تو وہ تو اللہ والے  بستی کے اندع جارہی تھی ..خدا کو نا ماننے والی اس بستی میں کیوں جارہی تھی  آدمی نے اس کے باپ سے  شکایت کر دی اور کہا کہ تمھاری  بیٹی جنگل سے گزر کر  مسلمانوں کی بستی کی طرف جاتی دکھی ہے  زراپتہ تو لگاٶ کیا کرتی پھر رہی ہے باپ جو بیٹی سے پہلے ہی سوال کررہا تھا جس کا وہ کوئ جواب نہیں دے رہی تھی دل تو چاہا اس کی جان ہی لے لے پر اس نے بیٹی سے  یہ تو نہیں پوچھا کہ کہا جاتی ہو تم کیونکہ وہ 

وہ  مکر  بھی سکتی تھی اس نے اس نے کہا بیٹی میرے لیے ٹھنڈا شربت بنا کر لاٶ   وہ اس کے لیے مت لے کے ائی تو اس نے اسے کہا تم اپنے لیے بھی لے کر اؤ  وہ  منع کرنے لگی تو کہنے لگا کیوں کہ تم میرے ساتھ شربت بھی نہیں پی سکتی... اس کا تو روزہ تھا وہ کیسے وہ شربت  پی سکتی تھی  اس نے کہا نہیں میں نہیں پی سکتی ہوں کیوں  وہ اس کو ڈانٹنے  لگا اور اس پر ہاتھ اٹھادیا کہ  مجھ سے چھپ کر ان مسلمانوں کی بستی میں  جاتی ہے  بتا کیا پٹی پڑھائی ہے  ان لوگوں نے

تو اس نے کہا  وہ لوگ کوئی پٹی نہیں پڑھا رہے ہیں بلکہ انہوں نے مجھے سیدھا راستہ دکھایا ہے  مجھے بتایا ہے کہ یہ دنیا یونہی اپنے آپ نہیں  بنی ہے نہ ہی ہم نے خود کو پیدا کیا ہے بلکہ کوئی خدا ہے جو سب کچھ چلا رہا ہے...اس  غیر مسلم کو مسلم بیٹی کی بات پر بہت غصة آیا اس نے کہا تو کیسی بے مطلب کی باتیں کرتی ہے  تیرے دماغ میں زہر بھر دیا ہے اٌن لوگوں نے اب تو تجھے اس  کی سزا ملے گی نا جانے کیا کر کے بیٹھی ہے 

سب سے پہلے یہ شربت پی 







وہ رونے لگی   نہیں پی سکتی روزہ ہے میرا رمضان کا مہینہ ہے میں روزہ نہیں توڑ سکتی  مارنا ہے تو مجھے جان سے مار دو لیکن میں روزہ نہیں توڑوں گی

وہ چیخا اس نے کہا کہ تم مسلمان تو نہیں ہو گئی 

ہاں میں مسلمان ہو چکی ہوں میں نے  کلمہ پڑھ لیا ہے اب تو اس کا پارہ دماغ پر چڑھ گیا.....اسنے ایک عورت کو بلایا اور کہا اس کو نہلاٶ یہ تو ہمارے دشمنوں کے کھانے کھا کر آئ ہے وہ منع کرتی رہ گئی لیکن اس  کا روزہ توڑوادیا گیا وہ  بہت روئی بہت اس نے ان کے آگے ہاتھ جوڑے  اور کہا کہ نہیں ایسا نہیں کرو میں نے دل سے اس مزہب  کو اپنایا ہے 

لیکن اس کی ایک نہیں سنی گئی اسے غسل دے دیا گیا  کہ جیسے وہ ناپاک ہو پھر اس کو ایک کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا ...وہ تو دل سے مسلمان ہوئ تھی چاہے اسکا باپ گلا کیوں نہ گھونٹ دیتا وہ اس  کو کھانے کے لیے بھی کچھ نہ دیتا جا بوجھ کر کہ وہ روزہ نہ رکھے پر وہ ارادے کی پکی تھے  بغیر سحری کا روزہ رکھتی  اور  نماز پڑھتی جو کچھ قران اسے سکھایا گیا تھا وہ سورتیں دہراتی رہتی دل سے دعا کرتی کیا اے رب ذوالجلال  اللہ تو میری مدد کے لیے کسی کو بھیج دے  میں  تجھے مانتی ہوں اور تیرے سوا کسی کو نہیں مان سکتی  چاہے تیری راہ  میں  قربان کیوں نہ ہونا  پڑے اب اتنے دنوں سے اللہ والے اس لڑکی کو دیکھ رہے تھے وہ نہیں ائی تھی اپ جان گئے کہ وہ بہت بڑی مصیبت میں ہے تو اپ نے   اسی عورت کو بلا کر کہا  کہ وہ جو بھلی لڑکی یہاں اتی تھی

وہ کافی دنوں سے یہاں نہیں ارہی ہے  جی حضرت میں بھی دیکھتی ہوں کہ وہ نہ سحر میں اتی ہے نہ افطاری میں  جب کہ ہم کو تو اس کی عادت سے ہو گئی تھی  اللہ جانے اس کے ساتھ کیا معاملات ہیں  اللہ والے نے کہا پتہ لگانا پڑے گا کہ بچی کسی بڑی مشکل میں ہے یا نہیں  اپ نے  دعا کی کہ اللہ مجھے اس کا حال بتا دے کہ وہ بچی  صحیح حال میں ہے یا نہیں  تو ابھی اپ کو نظر ایا کہ وہ ایک اندھیری کوٹھری میں پڑی ہے بھوکی پیاسی اور روزہ رکھا ہے اس نے نہ پانی ہے نہ کھانے کے لیے کچھ ہے  اپ کو بڑا دکھ ہوا اپ کی انکھوں میں انسو اگئے کہ  کہ یہ تو سچی مومن کی نشانی ہے  اپ بستی والوں کے پاس ائی اور کہا اس بچی کو بہت بڑی سزا مل رہی ہے ہمیں اس کی مدد کے لیے جانا ہوگا انہوں نے کہا ہاں ہم  آپ کے ساتھ چلتے ہیں اس کے بعد اللہ والے نے  کچھ بہادر لوگوں کو جن میں عورتیں بھی شامل تھی اپنے ساتھ لیا اور اس 





لڑکی کی  بستی میں جانے کے لیے تیار ہو گئے  سب روزے فروں کا قافلہ  اللہ کو نہ  ماننے والے لوگوں کے گاؤں پہنچ گیا  اس لڑکی کے باپ نے جب اتنے سارے لوگوں کو اپنے گاؤں میں اتا ہوا دیکھا تو اپنے ساتھی سے کہا حملہ کرو اللہ والے نے ہاتھ  کا اشارہ کیا کہ حملہ نہیں کرنا کیونکہ ہم یہاں پر لڑنے نہیں ائے ہیں ہم  سپوز دار ہیں تو روزے کی حالت میں جھگڑنا تو بالکل ٹھیک نہیں ہے اور یہ بات ایسی ہے کہ اس میں ہم ایک دوسرے کے گریبان  نہیں پکڑیں گے بلکہ سمجھائیں گے کہ کون غلط ہے  اس لڑکی کا باپ  کہنے لگا غلط تم لوگ ہو تم لوگوں نے میری بیٹی کے ساتھ بہت برا کیا اس کو تم نے کلمہ پڑھانے کی جرات کیسے کی.... یہ تو اس کی خو ش قسمتی ہے کہ اللہ وحدہ لاشیک لہ  نے اس کو مسلمان کیا ورنہ یہ تو ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں کہ وہ کلمہ پڑھ لے  اور سچے دل سے مسلمان ہو کر نماز روزے کی پابندی بھی کرے تمہاری  بیٹی ایک نیک لڑکی ہے تمہاری خوش نصیبی ہے  وہ کہنے لگا میں نے میرے اپنی بیٹی کو کبھی یہ نہیں کہا کہ ایک خدا نے ہمیں پیدا کیا ہے بلکہ ہم سب انسان خود سے اس دنیا میں ائے ہیں یہ دنیا خود بخود بن گئی اور تم نے اس کو کہا کہ ایک خدا ہی سب کچھ چلا رہا ہے  تم نے میری بیٹی کے دماغ کو بدلا ہے میں تمہیں جان سے مار دوں گا.... اللہ والے نے کہا کیوں تم خود  سے اس دنیا میں اگئے  تمہارے کوئی ماں باپ نہیں تھے  ان کی کوئی ماں باپ نہیں تھے  جب کوئی اپنے ماں باپ کے کے ذریعے ہی اس دنیا میں ا سکتا ہے تو سوچو  جس نے یہ ذریعہ بنایا ہے وہ کون ہوگا  کیا تم نے اپنے آپ کو بنایا ہے یا اپنے ہاتھوں سے کسی انسان یا جانور کو پیدا کر سکتے ہو  کیا تمہیں لگتا ہے کہ یہ سب کسی انسانی ہاتھ کا کمال ہے

وہ ادمی غصے سے کہنے لگا یہ  ہاں انسان اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے پہاڑوں کو بھی اکھاڑ سکتا ہے اللہ والے نے کہا اگر اچھا ایسا ہے تو چلو میرے سامنے  کچھ ایسا کر کے دکھاؤ کہ میں مان جاؤں تمہیں  چلو ایک درخت زمین سے اگا کر دکھاؤ  میں  مان لوں گا کہ تم  خود ہی اس دنیا میں اگئے اور تمہیں کسی خالق نے یعنی خدا نے نہیں بنایا ہے  وہ کہنے لگا یہ کیسی باتیں کرتے ہو میں کسی درخت کو زمین سے کیسے نکال سکتا ہوں  تم خود تو کہہ رہے تھے انسان بہت طاقتور ہوتا ہے وہ سب کچھ کر سکتا ہے  ہاں اس کے ہاتھ میں ہے اس کے ہاتھ میں اختیار ہے تو چلو نا ایک 






پودا ہی پیدا کر کے دکھا دو  اس  کو  کچھ سمجھ نہیں ا رہا تھا وہ کیا جواب دے کیونکہ وہ زمین میں بیج ڈالتا پھر پانی ڈالتا پھر اس میں سے کئی دنوں کے بعد ایک پودا نکلتا  اور وہ ایک بڑے  درخت کی شکل لیتا اور وہ اللہ والے کہہ رہے تھے کہ ابھی اسی وقت زمین سے ایک پیڑ نکال کر دکھاؤ.... اللہ والے نے کہا کس سوچ میں گم ہوں میرے دوست تم سوچ رہے ہو نا کہ میں بیج لاؤں گا زمین میں اس بیج کو میں ڈالوں گا پھر وہ سارا عمل کروں گا جس سے کوئی پودا بنتا ہے پھر پودے کے بعد وہ درخت بنتا ہے جس پر پھل لگتے ہیں تو یہ تو کافی دنوں کے بعد ہوگا  تم نے کیا کہا اپنی بیٹی کو تمہیں کیا تعلیم دی کہ ہم سب خود دنیا میں اگئے یہ دنیا خود بخود بن گئی اس کو بنانے والا کوئی خالق و مالک نہیں اپنی بیٹی کو قید خانے سے باہر نکالو  اج دیکھتے ہیں تم سچے ہو یہ ہمارا قرآن .. اللہ والے کے کہنے پر اس نے اپنی بیٹی کو قرت خانے سے باہر نکلوا دیا وہ لڑکی بہت بری حال میں تھی اس کا روزہ تھا اللہ والے نے اس پر پڑھ کر دم کیا تو اس کی حالت کچھ بہتر ہو گئی  اللہ والے نے کہا تمہاری بیٹی ابھی کچھ دنوں پہلے مسلمان ہوئی ہے تم نے اس کا تین دن سے کھانا پینا بند کیا ہوا ہے لیکن اس کی تم اللہ سے محبت دیکھو کہ بغیر سحری کا روزہ رکھا افطار نہیں کیا اس نے تین دن کا روزہ اس نے بغیر کھائے پیے رکھا اللہ سے محبت کا یہ عالم اس لڑکی سے پوچھو  تم نے تو اس کو مارنے میں کوئی بھی قدر نہیں چھوڑی تھی لیکن اللہ جسے چاہے زندہ کرتا ہے جیسے چاہے مارتا ہے  اے بیٹی اپنے باپ کو بتاؤ کون ہے اللہ اللہ وہ ہے جس نے مجھے تمہیں سب کو پیدا کیا ہے  اور اسے کوئی پیدا نہیں کر سکتا اسے کوئی نہیں بنا سکتا یہ دنیا خود سے وجود میں نہیں ائی ہے وہ ادمی کہنے لگا میں مانتا ہی نہیں ہوں چاہے تم ساری دلیلیں سارے ثبوت دے دو  انسان ہی ہے جو کسی وجود کو دنیا میں لانے کا ایک راستہ  بنتا ہے جیسے ہمارے ماں باپ  اور ان کے بغیر کوئی بھی بچہ اس دنیا میں نہیں  آسکتا ہے اور یہ کام کسی خدا کے بغیر ہی ہوتا ہے.. اللہ والے نے گاؤں والوں کی طرف دیکھ کر کے ہر تم لوگ بھی اس بات کو مانتے ہو ان لوگوں نے کہا نہیں ہم اس بات کو نہیں مانتے  اللہ والوں نے اس کے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر کہا تم لوگ اس بات کو مانتے ہو ہاں مسواک کو مانتے ہیں کہ اس دنیا میں ہم اپنے ماں باپ کی وجہ سے ائے ہیں 





کوئی خدا کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ... سب کچھ صرف انسان کا ہے  کہ سب انسان کے غلام ہیں  چاہے جانور ہو چاہے پرندے ہوں چاہے وہ پیڑ پودے کیوں نہ ہو ..اللہ والے نے کہا تو ایک پیڑ تو ایک پودا ننھا سا پودا زمین سے نہیں نکال سکا بڑے بڑے دعوے کرتا ہے اب تو جاننا چاہتا ہے خدا کون ہے  اپ نے دعا کی اے رب رحمن تجھے اس عظیم مقدس مہینے کا واسطہ کہ جس میں قران پاک نازل ہوا ہے جو تیرے پیغمبر اخر الزماں صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی امت کا مہینہ ہے یہ کہتا ہے کوئی خدا نہیں تو بتا دے خدا ہے تو ایک ہے تیرا کوئی شریک نہیں تو نے یہ پوری کائنات یہ پورا جہاں بنایا ہے تو نے ہمیں پیدا کیا تو چاہے  تو ناممکن کام ممکن ہو جاتا ہے اپ اس بستی میں جو نہ ممکن کام ہے اس کو ممکن کر دے جو اب تک انہوں نے نہیں دیکھا وہ تو ان کو دکھا دے ان اندھوں کو تو دیکھنے والا بنادے  اپ نے دعا کی تھی کہ زمین ہلنا شروع ہو گئی اور ایک بڑے قد کا درخت زمین  سے باہر نکلا   نہ کوئی بیج نہ کوئی پانی وہ درخت سب کے سامنے  تن کر کھڑا ہو گیا اس ادمی کا تو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اللہ والے نے کہا کیا دیکھتے ہو تم  کس نے کیا ہے یہ کام  یقینا سوچ رہے ہو گے کہ میں نے کوئی منتر پھوکا ہے ایسا کچھ بھی نہیں  میں کوئی یہاں پر ہر طرف دکھانے نہیں ایا یہ سب  اللہ کے ہاتھ میں ہے اس نے کہا اگر تمہارا اللہ اس درخت کو زمین کے اندر سے نکال سکتا ہے تو چلو اس درخت سے کہو کہ یہ دودھ دے کر دکھائے  دودھ تو جانور دیتے ہیں یہ درخت تو دودھ دے ہی نہیں سکتا تمہارا رب اگر اتنا بڑا قادر ہے تو اس سے کہو کہ اس درخت سے دودھ کی ندی بہا  کر دکھا دے تو مان لوں گا اللہ کو کسی کو  ثبوت دینے کی  حاجت نہیں بلکہ ہم  اس  کے اگے ہاتھ پھیلاتے ہیں ہم اللہ کو حکم نہیں دیتے وہ ہمیں حکم دیتا ہے.. اس نے کہا اے برے انسان درخت کو تم نے اگا کر دکھا دیا چلو ٹھیک ہے لیکن اب اس سے  وہ کام کر کے دکھاؤ جو یہ کر ہی نہیں سکتا .. اللہ نے جس کو جس کام کے لگایا ہوا ہے اس کو وہ کام کرنے تو اس درخت سے دودھ نکال کر تجھے کیا ثبوت چاہیے  تم بات کو ٹال رہے ہو تم یہ کام کر ہی نہیں سکتے اس لیے اب جاؤ یہاں سے  جس کی عبادت کرنی ہے کرو میری بیٹی تمہارے خدا کی مدد نہیں کرے گی  اس کی بیٹی کے اندر ہمت ا گئی اس نے کہا یہ نہیں ہو سکتا میں نے اس خدا کو مانا ہے میں 




تمہارے کہنے پر اپنا مذہب نہیں بدلوں گی میں تمہارا باپ ہوں تمہارا پیدا کرنے والا تم نے مجھے نہیں پیدا کیا ہے تم صرف ذریعہ ہو بنانے والا تو وہ ہے جو سب سے بڑا ہے وہ پاک ہے  انسان تو نے میری بیٹی کو میرے خلاف کر کے اچھا نہیں کیا اللہ والوں نے کہا ہمارا مذہب کبھی بھی ایسی تعلیم نہیں دیتا ہے کہ چھوٹے بڑوں کا ادب نہ کریں لیکن تو نے اس کے رب کو  اور اپنے رب کی شان میں گستاخی تو ہم مسلمان برداشت نہیں کر سکتے چل اگر تیری یہی خواہش ہے کہ تو دیکھنا چاہتا ہے اس اللہ کی طاقت تو اے اللہ تو اس  بے دین کو دین والا بنانے کے لیے اس درخت سے دودھ کی ندی جاری کر دے  کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کسی کے خیال  میں بات نہیں تھی  کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے بھلا ایک درخت سے دودھ کیوں نکلےگا وہ تو جانور دیتے ہیں ان کا کام ہے  لیکن اللہ والے کی زبانی  جو الفاظ ان کے منہ سے نکلے اللہ تعالی نے ان کی دعا کو قبول کر کے اس درخت سے دودھ کی ندی  بہا دی  دودھ بہتا جا رہا تھا.... اللہ نے کہا بستی والوں اپنے پیالے لے کر ا جاؤ اور اس درخت سے دودھ بھرتے چلے جاؤ تم کو ایسا دودھ کہیں نہیں ملے گا اور سب نے جب اپنے برتن بھرنے شروع کیے  تو پورے بستی والوں کے دودھ کے برتن بھر گئے لیکن وہ دودھ رکا نہیں اس وقت اللہ والوں نے کہا چلو افطار کا وقت ہو گیا ہے  میرے بستی والا تم سب بھی دودھ کے گلاس بھر لو  اسے اچھی لڑکی نے سب کو  برتن لا کے دے دیے  سب نے دودھ سے برتنوں کو بھر لیا پھر اللہ والوں نے دعا مانگی افطار کا وقت ہو گیا تھا اذاں اپ نے جیسے ہی ازا دی سب نے روزہ افطار کیا  تین دن کے بعد اس لڑکی نے دودھ  سے روزہ افطار کیا  افطار کرنے کے بعد اللہ والے نے کہا چلو نماز پڑھ لی جائے اس کے بعد اپ نے امامت کی اور ثواب کے پیچھے کھڑے ہو گئے وہ بستی والے تو بس اپ کو دیکھ ہی رہے تھے کیونکہ ان کو تو اب بھی اپنی انکھوں پر یقین نہیں ا رہا تھا یہ کیا کرامت ہم نے دیکھ لی  یہ کیا ہوا ہے ہماری انکھوں کے سامنے کبھی سوچا نہیں تھا کہ کوئی اس طرح کر بھی سکتا ہے  مغر کی نماز پڑھنے کے بعد اللہ والے نے کہا اب کیا کہتے ہو تم لوگ کیا تم  لوگ کلمہ پڑھنا چاہو گے اے خدا کو مانو گے یا اب بھی  اسی  اپنی زندگی گزارو گے اندھیرے میں  لڑکی کے باپ نے کہا میں بہت شرمندہ ہوں میں ہی ان سب کو بھٹکانے والا تھا  جب میرے پاس ہی علم نہیں تھا تو 


میں ان کو کیا علم بانٹتا اج مجھے اپ نے روشنی دکھا دی اج مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ ہے جو سب کر سکتا ہے  میں اس بات پر گھمنڈ کرتا تھا کہ ایک انسان کو بہت طاقت ملی ہے اور یہ طاقت خود اس کی اپنی وجہ سے ہے پر ایسا نہیں انسان کو  انسان بنانے والا تو وہ ایک ہی رب ہے جس کو اپ نے مانا اور جس کو میری بیٹی نے مانا پھر اس نے اپنی بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھا اور اللہ والے نے ان سب بستی والوں کو کلمہ پڑھا دیا  اس طرح ایک لڑکی کی وجہ سے پورا گاؤں مسلمان ہو گیا  

Author Name: Rabia Naz Saeedi 

Publish Date : 23 March 2024

Comments