All rights reserved. This story was originally published on https://best.92islamicquotes.com Reproduction or use without permission will be considered a copyright violation."
تھے اپ کسی درخت کے نیچے بیٹھ کر لوگوں کو دین کی تعلیم دیا کرتے آپ کے علم اور اچھے عمل کی وجہ سے لوگ بےحد عزت کرتے تھے اور اپ کی محبت میں دور کا سفر کر کے بھی اپ کے پاس اکر اسلام سیکھتے اللہ والے کی میٹھی باتیں ان کے دل میں گھر کر لیتی اتنی بڑی شخصیت ہونے پر بھی کبھی انھوں نے غرور نہ کیا اپنے ہاتھوں سے آپ محنت کرتے جو ملتا اس پر رب کا شکر کرتے کبھی زیادہ کی تمنا نہ کی جو ملا اس پر شکر گزاری کی۔ یہی بات آپ اپنے شاگردوں کو بھی بتاتے اللہ کی مرضی پر راضی رہنے والے حضرت سب کے دل کی بات کو سنتے اور سمجھتے تھے جو اپ کو مانتے تھے وہ اپ کی بہت عزت کرتے تھے۔آپ ان تک ہر ممکن کوشش کرتے کہ دین کا یہ پیغام پہنچے۔دین کا یہ پیغام تو آپ صدیوں سے دیتے چلے آرہے تھے اور اس میں شامل تھے آپ کےبہت سے استاد جو اکثر آپ کو سفر کرنے کی صلاح دیتے کیونکہ سفر سے ہی تو منزل ملتی ہے سفر میں ہی برکت ہوتی ہے اپنی عمر کے ستر اسی سال گزارنے کے بعد بہت کم ہی ایسی جگہیں تھیں جہاں آپ تشریف نہ لے گئے ہوں پر اب بھی کچھ انوکھا ہونا باقی تھا ایک دن اپ تسبیح پڑھ رہے تھے کہ ہلکی سی نیند آگئی اس میں اپ نے ایک عجیب خواب دیکھا جس میں اپ کو کچھ اشارہ دیا جا رہا تھا کہ جیسے کہیں کسی کو آپ کی ضرورت ہے جب اپ کے شاگرد اپ کے پاس اکر بیٹھے تو اپ سامان باندھ رہے تھے انہوں نے کہا اپ کہیں جا رہے ہیں اپ فرمانے لگے ہاں مجھے بہت ضروری کام ہے اس کام سے کسی اور گاؤں جانا ہے تم لوگ اپنا خیال رکھنا میں جلد لوٹ اؤں گا یہ کہہ کر اپ سفر کرنے لگے یہ سفر بہت دور کا تھا اللہ کو اپنے دل میں بسائے اللہ عزوجل کی بنائی ہوئی ۔ دنیا کی آپ خوبصورتی دیکھتے ہوئے چلے جارہے تھے کہ ایک گاؤں نظر آیا آپ نے دل میں کہا کہ نماز کا وقت ہو رہا ہے میں نماز پڑھ لوں یہ سوچ کر اپ گاؤں میں تشریف لے آئے اس گاؤں کے
چاروں طرف ایک بہت گھنا سا جنگل تھا اس سے گزر کر اپ اس گاؤں میں ائے تھے اس جنگل سے جنگلی جانوروں کی بھیانک اوازیں بھی آرہی تھیں پر اپ کسی سے نہیں ڈرے اور بغیر پروا کیے گاٶں میں آگئے دوپہر کا وقت تھا سب عورتیں گھروں میں تھیں اور مرد کھیتوں میں کام کرنے گئے تھے اب اجازت لینے کی ضرورت تو تھی نہیں کیونکہ وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا تو اللہ والے ایک سائے دار کے پیڑ کے نیچے آگئے اور ایک مٹکے سے پانی نکال کر پہلے اپنی پیاس بجھائی اور پھر وضو کرکے اپ عبادت کرنے لگے اپ آس پاس سے بےخبر تھے کہ لوگ اپنے کھیتوں سے کھانا کھانے کے لیے اپنے گاؤں لوٹے تھے انہوں نے دیکھا ایک اجنبی بزرگ عجیب انداز میں کچھ کیے جارہےتھے اس گاؤں میں رہنے والے دین اسلام کو جانتے ہی نہیں تھے تو نماز کے بارے میں انہیں کیا معلوم ہوتا ان کے گاؤں میں تو اب تک کوئی اسلام کی بات کرنے آیا ہی نہیں تھا کیونکہ وہ لوگ بہت کٹھور تھے اور اپنے مذہب کے لوگوں کو ہی اس گاؤں میں برداشت کرتے تھے کوئی اگر غیر شخص وہاں آجاتا تو اسے مار کر باہر نکال دیتے یا سب سے ملکر اس کو دردناک سزا دیتے کہ وہ آنے والا شخص چاہے جتنا بہادر ہوتا وہ ڈر کے مارے اپنا مذہب بدل لیتا ان کے گاٶں کے پاس جنگل سے کوئی درندہ بھی ان کے گاؤں میں نہیں اتا تھا جب کہ اس جنگل میں شیر اور دوسرے خونخوار جانور رہا کرتے پر کوئی اب تک ان کی بستی میں گھسا نہیں تھا اسی بات کا سب کو گھمنڈ تھا کہ ہم جیسا بہادر تو کوئی آیا نہیں مضبوط جسموں والے بھی چیونٹی کی طرح مسل دیے جاتے اللہ والے کے کمزور سراپے جھکی کمر کو دیکھ کر وہ آوازیں کسنے لگے اب اللہ والے تو ان کی اواز نہیں سن رہے تھے کیونکہ اپ کی نماز اتنی پکی تھی کہ ادھر ادھر کی اواز نہیں سنائی نہیں دے رہی تھی دھیان تھا تو صرف اس کی طرف جس کی عبادت کررہے تھے جب بہت دیر تک آپ نماز پڑھتے رہے تو ان میں سے ایک ادمی کہنے لگا یہ اخر یہ درویشی لباس میں کون ہیں اس سے کہو یہ اٹھے اور بتائے یہ کونسا کام ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا
ان میں سے ایک شخص اللہ والے کے پاس ایا اور چیخ کر بولا اے بوڑھے رک جاؤ جو کچھ کر رہے ہو اس کام سے تم نہیں رکے تو ہم بہت برا کریں گے پر اپ کو اس کی اواز نہیں ائی وہ چلاتا رہا لیکن اپ کے کان سن نہیں رہے تھے اب جب اپ نے نماز پڑھ لی تو ان لوگوں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے کہ یہ لوگ کیا کررہے ہیں اور کیا پوچھ رہے ہیں اپ نے کہا بھائی لوگوں کیا ہوا تم لوگ کیا مجھ سے کچھ پوچھ رہے ہو کہ انہوں نے کہا اب تک اتنی دیر سے چلا رہے ہیں تمہیں اواز نہیں ائی اپ نے کہا باخدا مجھے اواز نہیں ائی یہ بتاؤ یہ کام کیا کر رہے ہو آپ مسکرائے اور کہا میں نماز پڑھ رہا ہوں ایک اللہ کو ماننے والے عبادت اسی طرح کرتے ہیں
اب وہ لوگ جو کہ اپنے اس دین کے علاوہ کوئی اور دین مانتے ہی نہیں تھے صرف انہوں نے اسلام کے بارے میں ایسی باتیں سنی تو ان کا خون کھول گیا وہ سوچنے لگے خدا تو وہ ہوتا ہے جو دکھائی دیتا ہے جو سامنے ہوتا ہے اس سے مانگ کر پتہ چلتا ہے کہ ہم کس سے مانگ رہے ہیں جو نظر نہیں آرہا اس اندیکھے خدا سے کون کیا لیتا ہے اللہ والی کی سمجھداری والی باتیں ان کی سمجھ سے باہر تھیں آپ کے چہرے پر بہت سکون تھا اور اس سکون سے ان کو جلن ہو رہی تھی کیونکہ اب تک ان کے گاؤں میں انے والا ڈر کر بھاگ جاتا تھا اور ان سب کے مضبوط لمبے چوڑے جسم دیکھ کر اس کی پیشانی سے پسینہ ٹپکنے لگتا اور یہ کون بوڑھا انسان تھا جو ان کو اتنے غصے میں دیکھ کر بھی اتنا مطمئن کھڑا تھا وہ لوگ اللہ والے کی باتوں سے غصہ میں پاگل ہوگئے کہ بے ادبی اور لعن طعن کرنے لگے۔ کوئی کہتا، "ایک تو اتنے بوڑھے ہو، اتنے کمزور جسم کے ساتھ سفر کیسے کرنے لگے پھر کسی اجنبی گاؤں میں گھس کر ایسی عجیب و غریب باتیں کر رہے ہو، جن کا کوئی سر ہے نہ پیر۔" ایک اور بولا، "یہ شخص ہمارے دین کے خلاف باتیں کر رہا ہے، اس کی عمر کا لحاظ کیا مگر یہ باز نہیں آیا!"
وہ لوگ بدتمیزی پر بدتمیزی کیے جارہے تھے، کوئی آپ پر آوازے کستا، تو کوئی آپ کو دھکے دینے کی دھمکیاں دیتا۔ ان کی زبانوں سے بے ادبی اور مذاق کے جملے نکلتے جا رہے تھے، اور ان کے دل اللہ والے کی باتوں کو سننے کے لیے بالکل بند ہو چکے تھے۔ اللہ والے نے صبر سے سب کی باتیں سنی، مگر آپ کی نظر میں نرمی اور دل میں سب کے لیے محبت تھی۔
اب ایک لمبا چوڑا طاقتور آدمی آپ کے سر پر آگیا اور کہا کہ اس بوڑھے کو تو میں ایک انگلی سے اٹھا کر باہر پھینک دیتا ہوں وہ یہ کرنے ہی والا تھا کہ ان کا ایک بزرگ بول پڑا نہیں اس نے ہماری مورتی کی توہین کی ہے جس کی ہم عبادت کرتے ہیں اس لیے یہ سزا کم ہے کہ اسے گاؤں سے باہر پھینک دیا جائے ہم اسی گاؤں میں رکھیں گے یہ ہمارا نوکر بن کر رہے گا میں نے اپنی کتاب میں پڑھا ہے کہ ایک مسلمان ادھر آئے گا اور ہمارے دلوں کو ہمارے مذہب سے ہٹائے گا شر پھیلائے گا یعنی ہم سب کو لڑوائے گا اسے روکنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑیگا اس کی باتیں سب کے پلے پڑگئیں کہ مسلمان تو واقعی اسی نیت سے ہماری بستی میں اجازت کے بغیر داخل ہوا ہے
اللہ والے کو گاؤں والوں نے تنگ کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ گاؤں کے سب لوگ اس بوڑھے بزرگ کی بات مان چکے تھے، جس نے کہا تھا کہ اللہ والے کو یوں گاؤں سے باہر نکال دینا کافی نہیں۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ انھیں گاؤں میں ہی قید رکھ کر اتنا تنگ کیا جائے کہ ان کی زندگی بوجھ بن جائے اور وہ خود موت کی دعا مانگنے لگے۔
گاؤں میں اعلان کردیا گیا کہ "یہ بوڑھا مسلمان ہے، اسے کسی طرح بھی سکون سے نہ بیٹھنے دیا جائے۔" اس اعلان کے بعد گاؤں کے لوگوں نے اللہ والے پر ظلم اور تنگ کرنے کے طریقے اختیار کر لیے۔ کبھی اس کے راستے میں کانٹے بچھا دیے جاتے، تاکہ جب وہ چلنے لگے تو اس کے پیروں میں کانٹے چبھیں اور ہر قدم اس کے لیے اذیت کا باعث بنے۔
کبھی اس کے سر پر پتھر پھینکے جاتے، اور جب آپ درد سے کراہتے تو لوگ ہنسنے لگتے اور مزید آوازے کسنے لگتے۔چھوٹے بچے بھی ان ظالموں کے کہنے پر اللہ والے کا مذاق اڑاتے، اس کی حالت پر ہنسی اڑاتے۔ کبھی ان کی لاٹھی چھپا دی جاتی، تاکہ وہ چلنے میں مشکل محسوس کرے اور زمین پر گر جائے۔ اور جب وہ زمین پر گرتے تو بچے اور بڑے سب ان کا مذاق بناتے۔ کبھی ان پر کیچڑ پھینک دیا جاتا، تاکہ ان کا لباس اور جسم گندا ہو جائے۔ آپ اس ظلم اور شرارتوں کو صبر سے برداشت کرتے، کہ وہ جانتے تھے کہ اللہ کے راستے میں تکلیفیں اٹھانا ان کے ایمان کا حصہ ہے۔
کبھی اس کے سر پر پتھر پھینکے جاتے، اور جب آپ درد سے کراہتے تو لوگ ہنسنے لگتے اور مزید آوازے کسنے لگتے۔چھوٹے بچے بھی ان ظالموں کے کہنے پر اللہ والے کا مذاق اڑاتے، اس کی حالت پر ہنسی اڑاتے۔ کبھی ان کی لاٹھی چھپا دی جاتی، تاکہ وہ چلنے میں مشکل محسوس کرے اور زمین پر گر جائے۔ اور جب وہ زمین پر گرتے تو بچے اور بڑے سب ان کا مذاق بناتے۔ کبھی ان پر کیچڑ پھینک دیا جاتا، تاکہ ان کا لباس اور جسم گندا ہو جائے۔ آپ اس ظلم اور شرارتوں کو صبر سے برداشت کرتے، کہ وہ جانتے تھے کہ اللہ کے راستے میں تکلیفیں اٹھانا ان کے ایمان کا حصہ ہے۔
جب بھی وہ نماز کے لیے بیٹھتے تو کوئی نہ کوئی شرپسند شور مچا کر ان کا دھیان بھٹکانے کی کوشش کرتا۔ صاف جگہ گندگی پھینک دی جاتی.
گاؤں والے درویش اللہ والے کو ہر ممکن طریقے سے تکلیف دینا چاہتے تھے، مگر آپ نے ہر اذیت کو اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کیا۔ اللہ والے کے دل میں ان سب کے لیے محبت تھی اور وہ دعا کرتے تھے کہ اللہ پاک ان کو ہدایت دے اور ان کے دل نرم کرے۔ لیکن آپ جانتے تھے کہ اللہ کی راہ پر چلنا آسان نہیں ہے۔ اس گاٶں میں کوئی ایک بھی اچھا انسان نہیں تھا ورنہ انسان کے دل میں اچھائی ہوتی ہی ہے جو دوسرے انسان کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہے وہ کوئی بھی ہو پر معلوم ہوتا تھا کہ ان ان کو تو گھٹی میں ہی گھول کر یہ پلایا گیا ہے اور سکھایا گیا ہے کہ تم نے کسی پر رحم نہیں کرنا
اس گاؤں میں مرد تو مرد، عورتیں بھی سخت دل اور بے رحم تھیں۔ ان کے دلوں میں نہ تو کسی بزرگ کا احترام تھا اور نہ ہی ہمدردی ۔ ان کی اکڑ اور غرور بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ ان کے دل سخت اور ان کی زبانیں تلخ تھیں۔ گاؤں کی عورتیں بڑی مغرور تھیں، اور شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہر سال ایک بیٹے کو جنم دیتی تھیں، جس پر انہیں بڑا ناز تھا۔
اس گاؤں میں مرد تو مرد، عورتیں بھی سخت دل اور بے رحم تھیں۔ ان کے دلوں میں نہ تو کسی بزرگ کا احترام تھا اور نہ ہی ہمدردی ۔ ان کی اکڑ اور غرور بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ ان کے دل سخت اور ان کی زبانیں تلخ تھیں۔ گاؤں کی عورتیں بڑی مغرور تھیں، اور شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہر سال ایک بیٹے کو جنم دیتی تھیں، جس پر انہیں بڑا ناز تھا۔
ان عورتوں کے دل میں دنیا کی نعمتوں پر اتنا غرور تھا کہ وہ خود کو بے حد طاقتور اور حسین ملکائیں سمجھنے لگی تھیں۔ ان کی زندگی میں کسی چیز کی کمی نہ تھی؛ جو چاہتیں وہی ملتا، جو کہتیں پورا ہو جاتا۔ یہ لوگ اس قدر عیش و آرام میں مگن تھے کہ ان پر کبھی کوئی مشکل یا آزمائش نہ آئی تھی۔ ہر عورت کا بیٹوں کو پیدا کرنا ، مال و دولت کی فراوانی، اور زندگی میں آسانیوں نے انہیں گھمنڈ میں مبتلا کر دیا تھا۔ اللہ کے حکم اور عبادت کی انہیں کوئی پرواہ نہ تھی، اللہ کو وہ جانتی نہیں تھیں اور وہ خود کو ہر طرح کی ضرورت اور آزمائش سے پرے سمجھتی تھیں۔
گاؤں کی ان عورتوں کے غرور کا عالم یہ تھا کہ وہ اللہ والے کو نہ صرف حقیر سمجھتیں بلکہ ان کی بےعزتی کے لیے بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں.ان کے دلوں میں ذرہ برابر بھی رحم نہ تھا۔
ان عورتوں نے کبھی زندگی میں کوئی امتحان یا تکلیف نہیں دیکھی تھی، جس سے ان کے دل سخت اور بے حس ہو گئے تھے۔ ان کے لیے زندگی عیش و آرام کی کوئی داستان تھی، اور انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ دنیا فانی ہے مٹ جانے والی ہے اور یہ نعمتیں آزمائش بھی ہو سکتی ہیں۔ اللہ والے نے ان سب کے رویوں کو دیکھ کر دل میں صبر کیا اور دعا کی کہ اللہ پاک ان سب کو ہدایت دے،
گھمنڈ نے ان کو کہی کا نہ چھوڑا تھا اللہ والے کے گاؤں سے باہر جانے کی سارے راستے بند کر دیے گئے تھے اس لیے اپ جانتے تھے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپ کو وہاں رہنا ہے
اس گاؤں کے باہر جو جنگل تھا وہاں پانی کا کنواں تھا جس سے سب پانی پیتے اللہ والے کے آنے سے پہلے ان عورتوں کی خدمت گزار عورتیں یعنی نوکرانیاں اس کنویں سے پانی بھر کر لاتی تھیں لیکن اب چونکہ اپ کو سزا دی جا رہی تھی اس لیے آپ کو پانی بھرنے کے لیے مجبور کیا جاتا۔ کنواں کوئی بہت پاس نہیں تھا بلکہ دور چل کر جانا پڑتا تھا سوچنے کی یہی تو بات تھی اس کنویں سے پانی بھرنا اور پھر مٹکے اٹھا کر واپس لانا ایک بہت مشکل کام تھا لیکن گاؤں کی عورتیں آپ پر اپنے پانی کے برتن تھوپ دیتیں، اور آپ کو ایک کے بعد ایک بھاری برتن بھر کر لانا پڑتا. ہر بار جب وہ کنویں سے پانی بھرتے تو عورتیں جان بوجھ کر مزید برتن تھما دیتیں تاکہ ان کا کمزور جسم اس بوجھ کو برداشت نہ کر سکے۔آپ کی تھکن کو نظر انداز کر کے وہ ان کی بے بسی پر ہنستی رہتیں۔اللہ والے بھوکے پیاسے سب کے کام کرتے کسی ملازم کی طرح.
اس گاؤں کے باہر جو جنگل تھا وہاں پانی کا کنواں تھا جس سے سب پانی پیتے اللہ والے کے آنے سے پہلے ان عورتوں کی خدمت گزار عورتیں یعنی نوکرانیاں اس کنویں سے پانی بھر کر لاتی تھیں لیکن اب چونکہ اپ کو سزا دی جا رہی تھی اس لیے آپ کو پانی بھرنے کے لیے مجبور کیا جاتا۔ کنواں کوئی بہت پاس نہیں تھا بلکہ دور چل کر جانا پڑتا تھا سوچنے کی یہی تو بات تھی اس کنویں سے پانی بھرنا اور پھر مٹکے اٹھا کر واپس لانا ایک بہت مشکل کام تھا لیکن گاؤں کی عورتیں آپ پر اپنے پانی کے برتن تھوپ دیتیں، اور آپ کو ایک کے بعد ایک بھاری برتن بھر کر لانا پڑتا. ہر بار جب وہ کنویں سے پانی بھرتے تو عورتیں جان بوجھ کر مزید برتن تھما دیتیں تاکہ ان کا کمزور جسم اس بوجھ کو برداشت نہ کر سکے۔آپ کی تھکن کو نظر انداز کر کے وہ ان کی بے بسی پر ہنستی رہتیں۔اللہ والے بھوکے پیاسے سب کے کام کرتے کسی ملازم کی طرح.
اللہ والے کو وہاں رہتے ہوئے ایک مہینہ ہوگیا تھا اس بیچ ان لوگوں نے ناکوں چنے چبوا دیے تھے کہ وہ لوگ آپ کو نماز بھی پڑھنے نہیں دیتے
ایک دن اپ نے دعا کی اے رب عزوجل اے رب العالمین تو جانتا ہے میری نیت کیا ہے پر یہ لوگ مجھے تنگ کرنے سے پیچھے نہیں ہٹ رہے تو جانتا ہے کہ میں دن بھر عبادت نہیں کرپاتا اب میں تو اسے قبول کر لینا مجھے تو کامیابی عطا کرنا جو اصل میں میرے مذہب اسلام کی کامیابی ہے ایک دن کی بات ہے دن بھر اپ کام کر کے بہت تھک گئے تھے پر زبان سے کوئی شکوہ نہیں کیا اب رات میں اپ نے اللہ کا ذکر شروع کردیا اسی پل گاؤں میں چہل پہل شروع ہو گئی کہ جیسے کوئی بہت انہونی سی ہو گئی ہے اللہ کی کرنی ایسی تھی کہ کسی کا دھیان اپ کی طرف نہیں گیا یعنی اپ کو عبادت کرنے سے کوئی روکنے نہیں ایا سب اپنے کاموں میں لگے رہے یہاں تک کہ صبح کا اجالا پھیل گیا اپ نے فجر کی نماز بھی پڑھ لی تھی کچھ دیر آپ ارام کرنا چاہتے تھے اب
ان میں سے ایک عورت اپ کے پاس ائی اور کہا کہ اے بوڑھے کیا تمہیں خبر ملی ہے کہ اج ہماری گاؤں کی سب سے خوبصورت عورت نے ایک بچے کو جنم دیا ہے وہ میری بہو ہے یہ اس کی پہلی اولاد ہے بیٹا ہوا ہے بیٹا یہ ہماری خوش نصیبی ہے اس لیے بہت بڑا جشن منایا جا رہا ہے اس جشن کو منانے میں تم ہمارا ساتھ دو گے تو کاموں کے لیے تیار ہو جاؤ اور کمر کس لو پھر وہ وہاں سے جانے لگی لیکن پلٹ کر ائی اور کہا کہ چلو اج اس خوشی میں میں تمہیں دو روٹی کھلا دیتی ہوں تاکہ تمہارے اندر طاقت رہے اپ مسکرا دیے اس نے کہا کمال کی بات ہے کہ اتنے کام کرنے پر بھی مسکرارہے ہو کس مٹی سے بنے ہو جو خاموشی سے چپ کر کے سب کام کرتے ہو اور کچھ نہیں کہتے تمہاری جان کی تمہیں کوئی فکر نہیں ہے یا کچھ اور سوچ رہے ہو اپ نے کہا نہیں میں اللہ پاک کے حکم سے اس گاؤں میں ایا ہوں اور اس کے حکم سے یہاں سے چلا بھی جاٶنگا ہر ایک پر پر ہر اس کی مرضی چلتی ہے ہم تو بس کٹھ پتلیاں ہیں جو اس کے اشاروں پر چلتے ہیں اور اس کے حکم کے انتظار میں رہتے ہیں وہ چڑ کر بولی پھر سے اپنے اللہ کی بات کرنا شروع کر دی تمہاری سزا یہی ہے کہ تم ہمارے سارے کام کرو اب میں تمہارے پاس پانی کے برتن لے کر اتی ہوں ایک ایک کر کے تم نے وہ پانی کے مٹکے بھر کر لانے ہیں کیونکہ بہت بڑی دعوت ہے اور پانی کی کمی نہیں ہونی چاہیے کھانے میں بھی وہ پانی استعمال ہوگا اور پینے کے لیے بھی جلدی سے تم کام کی تیاری کرو میں گاؤں کی اور عورتوں کے ساتھ اتی ہوں یہ کہہ کر وہ عورت چلی گئی اور پھر بہت ساری عورتیں پانی کے برتن لائیں اپ نے اللہ کا نام لیا اور دعا کی رب کریم تو مجھے ہمت طاقت دینا کہ میں یہ کام کر سکوں میرے دین کا نام نیچے نہیں ہونے دینا تو سب سے بڑا ہے اور تو سب سے بڑا رہے گا اللہ اکر کہہ کر اپ نے جتنے پانی کے برتن ہاتھ میں اسکتے تھے اٹھا لیے اور کنویں کی طرف بڑھ گئے پر پہنچ کر اپ نے برتن کو بھرا پھر ایک برتن سر پر اور دوسرے برتن ہاتھ میں پکڑ کر اپ چلنے لگے کہ پیچھے سے اپ کو
کسی جانور کے دھاڑنے کی اواز ائی کہ جیسے کوئی دانت نکال رہا ہو آپ نے پلٹ کر دیکھا تو درختوں کے پیچھے سے ایک ببر شیر غرا کر اپ کی طرف دیکھ رہا تھا اپ نے اس سے کہا اے اللہ کے بنائے ہوئے تو مجھ پر کیا حملہ کرنے والا ہے اس نے کوئی جواب نہیں دیا اپ نے کہا دیکھ میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ہوں وہ جیسے اپ کی بات کو سن رہا تھا اور سمجھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں کوئی راز تھا پر بےزبان بولتا کیسے بس وہاں کھڑا رہا اور شیر کی واز میں کچھ نہ کچھ کہنے کی کوشش کرتا رہا اپ نے اسے اشارہ جاٶ سمجھ گیا ہوں جو کہنے آئے وقت آنے دو جو چاہتے ہو ہوجائیگا اپ کے حکم پر وہ واپس جنگل میں چلا گیا اپ نے برتن اٹھائے اور گاؤں میں اگئے پھر باری باری سارے مٹکے پانی سے بھرے اور وہاں پر جمع کر دیے عورتیں بڑی حیران تھیں کہ ایک بوڑھا کمزور شخص جوانوں کی طرح بلکہ جوانوں سے بھی بڑھ کر کس طرح پھرتی سے کام کرتا ہے بغیر کھائے پیے ہم میں تو اتنی طاقت نہیں نہ ہی ہمارے مردوں میں بلکہ ہمارے مرد تو کسی کام کے نہیں ہیں اچھا ہے اس بوڑھے کی شکل میں ہمیں ایک کام کرنے والا نوکر مل گیا ہے. یہ کام ہو چکا تھا اپ نے کہا کہو اور کیا کام کروانا ہے ہنس کر کہنے لگی بڑی طاقت ہے تمہارے اندر بس اب جشن شروع ہونے کا انتظار کرو وہ ہنستی ہوئی اپنے گھر جانے لگی کہ ایک عورت کے چیخیں مارنے کی اواز ائی بچاؤ میرے بچے کو بچاؤ یہ شیر میرے بچے کو اٹھا کر لے کر جا رہا ہے مردوں نے بھی یہ اواز سنی تھی پورا گاؤں دوڑتا ہوا اس گھر کی طرف گیا جہاں سے عورت کے چیخنے اور دھاڑیں مار کر رونے کی اوازیں ارہی تھی لیکن جب تک وہ لوگ وہاں پہنچتے وہ چیتا جو جنگل کی طرف سے ایا تھا اس بچے کو اٹھا کر لے گیا یہ وہ نئی نویلی ماں تھی جو اس عورت کی بہو جس نے بیٹے کو جنم دیا تھا اور اسی خوشی میں جشن منایا جا رہا تھا اور اب تو کوئی جشن نہیں تھا ساری خوشی غارت ہو گئی چیتا اس بچے کو اٹھا کر لے گیا تھا وہ ایک دن کا
بچہ تھا ماں کا تو غم سے کلیجہ پھٹا جا رہا تھا ان کے گھر کی خوشی ملیا میٹ ہو رہی تھی وہ سب ایک دوسرے کو مدد کے لیے پکارنے لگے مردوں نے لاٹھیاں اٹھائی اور جنگل کی طرف دوڑے ان میں وہ طاقتور مرد بھی تھا جس نے اللہ والے کو اٹھا کر گاٶں سے باہر پھینکنے کی دھمکی دی تھی وہ سب جنگل کی طرف گئے پر کچھ دیر کے بعد ناکام واپس لوٹے اور کہا ہمیں تو وہ شیر کہیں نہیں دکھ رہا تھا یقینا اس نے بچے کو کھا لیا ہوگا اب تک کیسے بچ سکتا ہے وہ یہ کہنے کے دیر تھی کہ ماں نے چیخ ماری اور بے ہوش ہو گئی سب عورتیں اسے سنبھالنے میں لگ گئی کتے میں اللہ والے نے کہا کیا میں تم لوگوں کی کوئی مدد کر سکتا ہوں وہ عورتیں جو پہلے ہی اللہ والے سے چڑتی تھی کہنے لگی تم اپنی حالت دیکھو صحت دیکھو اور مدد کرنے کی بات کرتے ہو ہمارے گاؤں کے طاقتور ہٹے کٹے مرد ناکام ہو کر اگئے اور تم کہتے ہو کہ تم ہمارے کام اؤ گے کہ تمہارے اندر اتنی ہمت ہے کہ ایک شیر مقابلہ کر سکو وہ بوڑھا جس نے اللہ والے کے لیے سزا رکھی تھی وہ کہنے لگا چلو ہم اپنے معبود سے مانگتے ہیں ہماری مورتی ہماری بات سنے گی سب گاؤں والے ہاتھ جوڑ کر مرتی کے سامنے کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے تم ہمیں دینے والے ہو ہماری مشکل کو اسان کر دو ماں بھی ہاتھ جوڑے فریاد کررہی تھی اس امید پر کہ سالوں سے اس مورتی کی عبادت کرتے رہے تھے اور اب تو سب سے زیادہ ضرورت تھی کیونکہ پہلی بار جنگل کا شیر ان کے گاٶں میں گھسا تھا ورنہ ایسا تو پہلے کبھی نہ ہوا تھا خود پر اسقدر بھروسہ تھا کہ تگڑے مرد بھی بےبسی سے کھڑے بس سوچ ہی رہے تھے کیا کیا جائے تو ادھر ماں کا جگر چھلنی تھا یہ کیسے ہو گیا کہ وہ شیر ہمارے بچے کو ترنوالا سمجھ کر لے گیا بس وہ اسے کھائے نہیں اس کی زندگی بخش دے اس کے دل سے یہی صدا نکل رہی تھی اللہ والے گہری نظروں سے ان سب کو دیکھ رہے تھے اور ان سب کی دعا کو سن رہے تھے لیکن بیچ میں بولتے تھے وہ لوگ بگڑ جاتے اور اپ پر غصہ نکالتے بہت دیر تک وہ
ان میں سے ایک عورت اپ کے پاس ائی اور کہا کہ اے بوڑھے کیا تمہیں خبر ملی ہے کہ اج ہماری گاؤں کی سب سے خوبصورت عورت نے ایک بچے کو جنم دیا ہے وہ میری بہو ہے یہ اس کی پہلی اولاد ہے بیٹا ہوا ہے بیٹا یہ ہماری خوش نصیبی ہے اس لیے بہت بڑا جشن منایا جا رہا ہے اس جشن کو منانے میں تم ہمارا ساتھ دو گے تو کاموں کے لیے تیار ہو جاؤ اور کمر کس لو پھر وہ وہاں سے جانے لگی لیکن پلٹ کر ائی اور کہا کہ چلو اج اس خوشی میں میں تمہیں دو روٹی کھلا دیتی ہوں تاکہ تمہارے اندر طاقت رہے اپ مسکرا دیے اس نے کہا کمال کی بات ہے کہ اتنے کام کرنے پر بھی مسکرارہے ہو کس مٹی سے بنے ہو جو خاموشی سے چپ کر کے سب کام کرتے ہو اور کچھ نہیں کہتے تمہاری جان کی تمہیں کوئی فکر نہیں ہے یا کچھ اور سوچ رہے ہو اپ نے کہا نہیں میں اللہ پاک کے حکم سے اس گاؤں میں ایا ہوں اور اس کے حکم سے یہاں سے چلا بھی جاٶنگا ہر ایک پر پر ہر اس کی مرضی چلتی ہے ہم تو بس کٹھ پتلیاں ہیں جو اس کے اشاروں پر چلتے ہیں اور اس کے حکم کے انتظار میں رہتے ہیں وہ چڑ کر بولی پھر سے اپنے اللہ کی بات کرنا شروع کر دی تمہاری سزا یہی ہے کہ تم ہمارے سارے کام کرو اب میں تمہارے پاس پانی کے برتن لے کر اتی ہوں ایک ایک کر کے تم نے وہ پانی کے مٹکے بھر کر لانے ہیں کیونکہ بہت بڑی دعوت ہے اور پانی کی کمی نہیں ہونی چاہیے کھانے میں بھی وہ پانی استعمال ہوگا اور پینے کے لیے بھی جلدی سے تم کام کی تیاری کرو میں گاؤں کی اور عورتوں کے ساتھ اتی ہوں یہ کہہ کر وہ عورت چلی گئی اور پھر بہت ساری عورتیں پانی کے برتن لائیں اپ نے اللہ کا نام لیا اور دعا کی رب کریم تو مجھے ہمت طاقت دینا کہ میں یہ کام کر سکوں میرے دین کا نام نیچے نہیں ہونے دینا تو سب سے بڑا ہے اور تو سب سے بڑا رہے گا اللہ اکر کہہ کر اپ نے جتنے پانی کے برتن ہاتھ میں اسکتے تھے اٹھا لیے اور کنویں کی طرف بڑھ گئے پر پہنچ کر اپ نے برتن کو بھرا پھر ایک برتن سر پر اور دوسرے برتن ہاتھ میں پکڑ کر اپ چلنے لگے کہ پیچھے سے اپ کو
کسی جانور کے دھاڑنے کی اواز ائی کہ جیسے کوئی دانت نکال رہا ہو آپ نے پلٹ کر دیکھا تو درختوں کے پیچھے سے ایک ببر شیر غرا کر اپ کی طرف دیکھ رہا تھا اپ نے اس سے کہا اے اللہ کے بنائے ہوئے تو مجھ پر کیا حملہ کرنے والا ہے اس نے کوئی جواب نہیں دیا اپ نے کہا دیکھ میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ہوں وہ جیسے اپ کی بات کو سن رہا تھا اور سمجھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں کوئی راز تھا پر بےزبان بولتا کیسے بس وہاں کھڑا رہا اور شیر کی واز میں کچھ نہ کچھ کہنے کی کوشش کرتا رہا اپ نے اسے اشارہ جاٶ سمجھ گیا ہوں جو کہنے آئے وقت آنے دو جو چاہتے ہو ہوجائیگا اپ کے حکم پر وہ واپس جنگل میں چلا گیا اپ نے برتن اٹھائے اور گاؤں میں اگئے پھر باری باری سارے مٹکے پانی سے بھرے اور وہاں پر جمع کر دیے عورتیں بڑی حیران تھیں کہ ایک بوڑھا کمزور شخص جوانوں کی طرح بلکہ جوانوں سے بھی بڑھ کر کس طرح پھرتی سے کام کرتا ہے بغیر کھائے پیے ہم میں تو اتنی طاقت نہیں نہ ہی ہمارے مردوں میں بلکہ ہمارے مرد تو کسی کام کے نہیں ہیں اچھا ہے اس بوڑھے کی شکل میں ہمیں ایک کام کرنے والا نوکر مل گیا ہے. یہ کام ہو چکا تھا اپ نے کہا کہو اور کیا کام کروانا ہے ہنس کر کہنے لگی بڑی طاقت ہے تمہارے اندر بس اب جشن شروع ہونے کا انتظار کرو وہ ہنستی ہوئی اپنے گھر جانے لگی کہ ایک عورت کے چیخیں مارنے کی اواز ائی بچاؤ میرے بچے کو بچاؤ یہ شیر میرے بچے کو اٹھا کر لے کر جا رہا ہے مردوں نے بھی یہ اواز سنی تھی پورا گاؤں دوڑتا ہوا اس گھر کی طرف گیا جہاں سے عورت کے چیخنے اور دھاڑیں مار کر رونے کی اوازیں ارہی تھی لیکن جب تک وہ لوگ وہاں پہنچتے وہ چیتا جو جنگل کی طرف سے ایا تھا اس بچے کو اٹھا کر لے گیا یہ وہ نئی نویلی ماں تھی جو اس عورت کی بہو جس نے بیٹے کو جنم دیا تھا اور اسی خوشی میں جشن منایا جا رہا تھا اور اب تو کوئی جشن نہیں تھا ساری خوشی غارت ہو گئی چیتا اس بچے کو اٹھا کر لے گیا تھا وہ ایک دن کا
بچہ تھا ماں کا تو غم سے کلیجہ پھٹا جا رہا تھا ان کے گھر کی خوشی ملیا میٹ ہو رہی تھی وہ سب ایک دوسرے کو مدد کے لیے پکارنے لگے مردوں نے لاٹھیاں اٹھائی اور جنگل کی طرف دوڑے ان میں وہ طاقتور مرد بھی تھا جس نے اللہ والے کو اٹھا کر گاٶں سے باہر پھینکنے کی دھمکی دی تھی وہ سب جنگل کی طرف گئے پر کچھ دیر کے بعد ناکام واپس لوٹے اور کہا ہمیں تو وہ شیر کہیں نہیں دکھ رہا تھا یقینا اس نے بچے کو کھا لیا ہوگا اب تک کیسے بچ سکتا ہے وہ یہ کہنے کے دیر تھی کہ ماں نے چیخ ماری اور بے ہوش ہو گئی سب عورتیں اسے سنبھالنے میں لگ گئی کتے میں اللہ والے نے کہا کیا میں تم لوگوں کی کوئی مدد کر سکتا ہوں وہ عورتیں جو پہلے ہی اللہ والے سے چڑتی تھی کہنے لگی تم اپنی حالت دیکھو صحت دیکھو اور مدد کرنے کی بات کرتے ہو ہمارے گاؤں کے طاقتور ہٹے کٹے مرد ناکام ہو کر اگئے اور تم کہتے ہو کہ تم ہمارے کام اؤ گے کہ تمہارے اندر اتنی ہمت ہے کہ ایک شیر مقابلہ کر سکو وہ بوڑھا جس نے اللہ والے کے لیے سزا رکھی تھی وہ کہنے لگا چلو ہم اپنے معبود سے مانگتے ہیں ہماری مورتی ہماری بات سنے گی سب گاؤں والے ہاتھ جوڑ کر مرتی کے سامنے کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے تم ہمیں دینے والے ہو ہماری مشکل کو اسان کر دو ماں بھی ہاتھ جوڑے فریاد کررہی تھی اس امید پر کہ سالوں سے اس مورتی کی عبادت کرتے رہے تھے اور اب تو سب سے زیادہ ضرورت تھی کیونکہ پہلی بار جنگل کا شیر ان کے گاٶں میں گھسا تھا ورنہ ایسا تو پہلے کبھی نہ ہوا تھا خود پر اسقدر بھروسہ تھا کہ تگڑے مرد بھی بےبسی سے کھڑے بس سوچ ہی رہے تھے کیا کیا جائے تو ادھر ماں کا جگر چھلنی تھا یہ کیسے ہو گیا کہ وہ شیر ہمارے بچے کو ترنوالا سمجھ کر لے گیا بس وہ اسے کھائے نہیں اس کی زندگی بخش دے اس کے دل سے یہی صدا نکل رہی تھی اللہ والے گہری نظروں سے ان سب کو دیکھ رہے تھے اور ان سب کی دعا کو سن رہے تھے لیکن بیچ میں بولتے تھے وہ لوگ بگڑ جاتے اور اپ پر غصہ نکالتے بہت دیر تک وہ
لوگ ہاتھ جوڑے کھڑے رہے کوئی رو رہا تھا
کوئی منتیں کر رہا تھا یہاں تک کے وہ بوڑھا اس مورتی سے بار بار کہتا کہ میں نے تمہارے لیے کیا کچھ نہیں کیا ہے اج میرے گاؤں کی عزت کا سوال ہے وہ شیر رحم کر دے رحم ایسا لگ رہا تھا دعا کا کوئی اثر نہیں ہوگا رات کا اندھیرا چاروں طرف پھیل چکا تھا عورتوں نے مردوں سے کہا کہ جاؤ ایک بار پھر سے جنگل کی طرف جاؤ اور دیکھ کر اؤ شیر ہو سکتا ہے بچے کو لے کر بیٹھا ہو ویسے اس پہر جبکہ جنگل خوفناک ہو گیا تھا جنگل میں جانا جہاں پر درندوں کی بھرمار تھی کسی خطرے سے خالی نہیں تھا اب تک تو اس بات پر ان کو گھمنڈ تھا کہ ہمارے ہوتے ہوئے کبھی ہمارے گاؤں میں کوئی درندہ پھٹکا نہیں پر ایک شہر نے ان کے گاؤں میں اکر ان کا بچہ اٹھا کر یہ تو ثابت کر دیا تھا کہ اب کچھ بھی ہو سکتا تھا دل کو انہوں نے کڑا کیا کیونکہ عزت کا سوال تھا اور بہادری اج نہیں دکھائی جاتی تو کب دکھائی جاتی مرد پھر سے جنگل کی طرف گئے لیکن ڈھونڈنے پر بھی وہ شیر انہیں نہیں ملا بلکہ صرف اس کے غرانے کی اواز ارہی تھی وہ جہاں اس کی اواز اتی وہاں جاتے پر وہ وہاں ہوتا ہی نہیں غائب ہو رہا تھا یا ان سے کھیل کھیل رہا تھا تلاش کرنے پر بھی وہ نظر ہی نہیں ایا وہ سب تھکے ہارے واپس اگئے یہاں پر عورتیں ماتم کرنے لگی سوگ کا سما تھا جہاں ابھی خوشی کی لہر دوڑ رہی تھی اب وہاں پر کسی کی موت ہو گئی ہو ایسا لگ رہا تھا ظاہر سی بات ہے چیتے نے اب تک بچے کو کھا ہی لیا ہوگا سب کا یہی خیال تھا اللہ والے جو ان کے ظلم پر بھی ان کے لیے بددعا نہیں کر رہے تھے بلکہ دعا کر رہے تھے یا اللہ یہ کیا معاملہ ہے کیوں ان کے ساتھ یہ سب ہو رہا ہے تو کرم کر دے کرم کرنے والا ہے تو اپ دعا کرنے لگے کہ وہی عورت جو اپ کا مذاق اڑاتی تھی وہ اپ کے پاس ائی اس نے کہا تم اپنے رب سے دعا مانگ رہے ہو نا ہمارے لیے بھی دعا کرو پہلی بار اس نے اللہ والے کے اگے ہاتھ جوڑے تھے وہ کہنے لگی ہم برباد ہو گئے ہمارے اپنے خدا نے اب تک ہماری نہیں سنی لیکن میں تمہارے اگے اب منت کرتی ہوں کہ جو بھی تمہارا رب ہے اس سے کہو کہ ہمارا بچہ
واپس کر دیا جائے اس عورت کے کہنے پر گاؤں کے مرد چیخنے لگے کیا الا بلا بک رہی ہو اس کا رب ہمارا کیا کام کر سکتا ہے جب ہمارا دکھنے والا رب ہمارے کام نہیں آرہا اللہ والے نے کہا کیا میں کوشش کر سکتا ہوں بچے کو لانے کی کوشش سب تو منع ہی کر دیتے ہیں لیکن اس عورت نے جلدی سے کہا ہاں اگر اپ کے اندر ہمت ہے تو جائیے میرے بچے کو واپس لے ائیے میں اپ کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گی اللہ والے نے کہا اس سے پہلے کہ میں جنگل کی طرف جاؤں میں اللہ کا نام لینا چاہتا ہوں اس کی عبادت سے ہی مدد مانگنا چاہتا ہوں اج تو انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا کیونکہ یہ سب کی جان پر بنی ہوئی تھی اللہ والے نے ان سب کے سامنے وضو کیا اور عبادت کرنے لگے اپ نے رب کے حضور اپنی حاجت پیش کی کہ جو مشکل ہے وہ اسان ہو جائے اس کے بعد اپنی لاٹھی اٹھائی اور تھیلا لیے جنگل کی طرف چلے گئے وہ ادمی جس کو اپنی طاقت پر بڑا غرور تھا اس نے کہا میں بھی ساتھ چلتا ہوں اپ نے کہا چلو تم بھی دیکھ لینا قدرت کا کرشمہ وہ ہنسنے لگا اور کہا کہ میں تم سے کتنا اونچا ہوں کتنا لمبا ہوں مجھ سے جو کام نہ ہوا وہ تم جیسے کمزور بوڑھے سے کیسے ہوگا چلو دیکھتے ہیں تمہاری اوقات اس کے بعد وہ اپ کے ساتھ چل پڑا جنگل میں اکر اپ کنویں کے پاس کھڑے ہو گئے اور لاٹھی زمین پر ٹھک ٹھک مارنے لگے پھر کہا جنگل کے راجہ تو مجھے سن سکتا ہے جہاں بھی ہے میری اواز سنے تو یہاں آجا تیرا کچھ نہیں بگاڑا جائے گا تو بس اس معصوم بچے کو ہمارے حوالے کر دے میں نے تجھ سے کہا تھا کہ جو رب دیتا ہے وہ تجھے رزق کریم دے گا بہت زیادہ رزق عطا کرے گا پر تو نے گاؤں کے بچے کو ہی اٹھا لیا جو ابھی پیدا ہوا ہے یہ ٹھیک نہیں ہے یہ لوگ خوش تھے ان کی خوشی کو تو نے ختم کیا ہے ایسا مت کر تو ایک اللہ کو ماننے والا ہے اور وہی تجھے کو کھلاتا ہے پلاتا ہے تو اب تک کسی کے سامنے نہیں ایا تو اب کیوں ارہا ہے تو ان کو تنگ کیوں کر رہا ہے اپ ایسے باتیں کر رہے تھے جیسے وہ شیر وہیں کھڑا سن رہا ہے وہ ادمی زور زور سے
ہنسنے لگا اس نے کہا ہو گیا تمہارا تماشہ اب واپس چلیں اس شیر نے بچے کو کھا لیا ہے ماں کو صبر کرنا ہی ہوگا اپ نے کہا ماں صبر کرے گی لیکن وہ اس سے زیادہ شکر کرے گی کیونکہ اس کا بچہ واپس ائے گا اس کی خوشی اس سے چھینی نہیں جائیگی کیسے ائے گا شیر تمہیں نہیں سن رہا وہ ہے ہی نہیں آپ اس شخص کو کیا بتاتے کہ کیا کچھ دیکھا ہے اور کیا کچھ سمجھ لیا ہے شیر اس وقت سامنے کیوں نہیں ایا اس میں بھی حکمت تھی اس میں بھی اک راز پوشیدہ تھا جو اپ اس کے سامنے اس وقت تو کھول نہیں سکتے تھے ہر کام وقت پر ہی اچھا لگتا ہے اور جس میں اللہ کی رضا ہوتی ہے وہی کام بہترین ہوتا ہے اپ نے اس کی اواز سن کر کہا ہاں صحیح کہا تم نے چلو واپس چلتے ہیں طنزیہ مسکراہٹ سے اسنے آپ کو دیکھا آپ نے اسے نظرانداز کیا اور لاٹھی ٹیکتے ہوئے گاؤں واپس اگئے اپ خالی ہاتھ تھے بچہ اپ کے ہاتھ میں نہیں تھا وہ عورت بھاگتی ہوا ہے اس نے کہا میں نے اپ پر بھروسہ کیا اور اپ بڑی امید دلا کر جنگل گئے تھے یہ کیا کہاں ہے میرا پوتا کہاں ہے کہاں ہے میرا بیٹا اپ نے کہا فکر مت کرو وہ آجائے گا وہ اتنا چھوٹا بچہ ہے کل کا پیدا ہوا بچہ چل کر ائے گا نہیں وہ شیر اسے لے کر ائے گا کسی کو اپ کی بات پر یقین ہی نہیں آرہا تھا یہ بوڑھا تو پہلے دن سے ہی ایسی باتیں کر کے ہمارا دماغ خراب کرتا ہے اس کی فضول کی باتوں کی وجہ سے ہم سب اس مصیبت میں گھر گئے ہیں اب کیا کرنا چاہیے اپ نے کہا صبح ہونے کا انتظار کرو اب تو اندھیرا ہو گیا ہے اور اندھیرے میں تو کچھ بھی نظر نہیں آئے گا یہ بوڑھا تو بڑے دعوے کر رہا تھا بڑا آیا تھا ایک درندے کو حکم دینے والا وہ ادمی کہنے لگا پتہ ہے اس نے کیا کیا یہ تو ہوا میں ایسی باتیں کر رہا تھا جیسے وہ اس کی بات سن کر سر جھکاکر اس کے پاس چلا ائے گا جیسے وہ اس کا کوئی نوکر ہے اللہ والے نے کچھ نہیں کہا انہوں نے کہا چلو ابھی گھر چلتے ہیں پھر صبح ہم اس کو ڈھونڈنے جائیں گے ماں چلا اٹھیی اس نے کہا تمھاری رات تو گزر جائے گی میرا کیا ہوگا میرا تو سب کچھ لٹ
گیا وہ شیر بہت خونخوار ہے صبح تک اسے موقع کیوں دے رہے ہو تو کیا کریں اس کا شوہر چلا اٹھا کیا کریں ہم نے پورا جنگل چھان مارا وہ شیر ہمیں نظر نہیں ایا اس کی اواز اتی بھی رہی اب تم یہ بات مان لو تمہارا بچہ بچے گا نہیں تمہارے دل کی تسلی کے لیے پھر بھی ہم صبح ضرور جائیں گے اس نے کہا تم لوگ کیسے لوگ ہو ایک تو میرے بچے کو اس نے اٹھا لیا ارے ابھی وقت ہے اتنے میں اللہ والے بول پڑے بیٹی میری بات سنو تمہارے بچے کو کچھ نہیں ہوگا صبح تک تمہارے بیٹے کو وہ چیتا خود لے کر اجائے گا تم بھروسہ رکھو کس پر بھروسہ رکھوں اس خدا پر جس کو میں نے پوجا جس کی عبادت کی اور یہ میرے دل کے درد کو نہیں سمجھ رہا میرے جگر کے ٹکڑے کو وہ لے گیا اور اپ کہتے ہیں کہ یقین رکھو تم اس پر یقین نہیں رکھو جس کو تم نے ہمیشہ مانا ہے تم میرے رب پر یقین رکھو جو تمہارا بھی ہے وہ اللہ ہے اگر یقین میں نے کر لیا اس پر تو کیا وہ اللہ میری سنے گا ہاں وہ سنے گا وہ ضرور سنے گا تو ٹھیک ہے وہ شیر واپس آجاتا ہے اور میرے بچے کو کچھ نہیں ہوتا ذرا سی بھی کھروچ نہیں لگتی تو میں تمہارے رب پر ایمان لے اؤں گی اللہ والے نے اس کو تسلی کے الفاظ بول تو دیے تھے پر آپ نے اللہ تعالی سے دعا بھی لازمی کرنی تھی اللہ تعالی سے اپ نے دعا کرنا شروع کی اپ کی انکھوں میں انسو اگئے تھے ایک اللہ سے دعا مانگتے ہوئے آپ کو سب دیکھ رہے اور مذاق بھی بنارہے تھے یہ کیا چپکے چپکے مانگ رہے ہیں اللہ والے کی آنکھوں کے سچے آنسو گواہی تھے اس بات کی کہ آپ سب کے لیے کتنے فکرمند ہیں اب رات تو بہت ہی بڑی تھی کیونکہ غم کی رات بڑی ہی ہوتی ہے لیکن غم کے بعد اندھیرا ختم ہوتا ہے اور روشنی اجاتی ہے صبح ہوئی تو اپ نے ان سب کے سامنے ہی عبادت کی اور وہ کچھ کہہ نہیں سکے پر وہ ادمی اپ کو گھور کر دیکھ رہا تھا اس کا دل جل رہا تھ کہ جس نے اپ کو سزا دی تھی اپ جس طرح اللہ کی مالا جپ رہے تھے اس کے تن بدن میں آگ لگ رہی تھی اس نے پھر سے سب کے کانوں میں زہر ڈالا کہ دیکھو یہ شخص اپنی منمانی کر رہا
ہے ہمارے سامنے یہ عبادت کرتے جا رہا ہے اور ہم کچھ نہیں کہتے اب بہت ہو گیا ہے
واپس کر دیا جائے اس عورت کے کہنے پر گاؤں کے مرد چیخنے لگے کیا الا بلا بک رہی ہو اس کا رب ہمارا کیا کام کر سکتا ہے جب ہمارا دکھنے والا رب ہمارے کام نہیں آرہا اللہ والے نے کہا کیا میں کوشش کر سکتا ہوں بچے کو لانے کی کوشش سب تو منع ہی کر دیتے ہیں لیکن اس عورت نے جلدی سے کہا ہاں اگر اپ کے اندر ہمت ہے تو جائیے میرے بچے کو واپس لے ائیے میں اپ کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گی اللہ والے نے کہا اس سے پہلے کہ میں جنگل کی طرف جاؤں میں اللہ کا نام لینا چاہتا ہوں اس کی عبادت سے ہی مدد مانگنا چاہتا ہوں اج تو انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا کیونکہ یہ سب کی جان پر بنی ہوئی تھی اللہ والے نے ان سب کے سامنے وضو کیا اور عبادت کرنے لگے اپ نے رب کے حضور اپنی حاجت پیش کی کہ جو مشکل ہے وہ اسان ہو جائے اس کے بعد اپنی لاٹھی اٹھائی اور تھیلا لیے جنگل کی طرف چلے گئے وہ ادمی جس کو اپنی طاقت پر بڑا غرور تھا اس نے کہا میں بھی ساتھ چلتا ہوں اپ نے کہا چلو تم بھی دیکھ لینا قدرت کا کرشمہ وہ ہنسنے لگا اور کہا کہ میں تم سے کتنا اونچا ہوں کتنا لمبا ہوں مجھ سے جو کام نہ ہوا وہ تم جیسے کمزور بوڑھے سے کیسے ہوگا چلو دیکھتے ہیں تمہاری اوقات اس کے بعد وہ اپ کے ساتھ چل پڑا جنگل میں اکر اپ کنویں کے پاس کھڑے ہو گئے اور لاٹھی زمین پر ٹھک ٹھک مارنے لگے پھر کہا جنگل کے راجہ تو مجھے سن سکتا ہے جہاں بھی ہے میری اواز سنے تو یہاں آجا تیرا کچھ نہیں بگاڑا جائے گا تو بس اس معصوم بچے کو ہمارے حوالے کر دے میں نے تجھ سے کہا تھا کہ جو رب دیتا ہے وہ تجھے رزق کریم دے گا بہت زیادہ رزق عطا کرے گا پر تو نے گاؤں کے بچے کو ہی اٹھا لیا جو ابھی پیدا ہوا ہے یہ ٹھیک نہیں ہے یہ لوگ خوش تھے ان کی خوشی کو تو نے ختم کیا ہے ایسا مت کر تو ایک اللہ کو ماننے والا ہے اور وہی تجھے کو کھلاتا ہے پلاتا ہے تو اب تک کسی کے سامنے نہیں ایا تو اب کیوں ارہا ہے تو ان کو تنگ کیوں کر رہا ہے اپ ایسے باتیں کر رہے تھے جیسے وہ شیر وہیں کھڑا سن رہا ہے وہ ادمی زور زور سے
ہنسنے لگا اس نے کہا ہو گیا تمہارا تماشہ اب واپس چلیں اس شیر نے بچے کو کھا لیا ہے ماں کو صبر کرنا ہی ہوگا اپ نے کہا ماں صبر کرے گی لیکن وہ اس سے زیادہ شکر کرے گی کیونکہ اس کا بچہ واپس ائے گا اس کی خوشی اس سے چھینی نہیں جائیگی کیسے ائے گا شیر تمہیں نہیں سن رہا وہ ہے ہی نہیں آپ اس شخص کو کیا بتاتے کہ کیا کچھ دیکھا ہے اور کیا کچھ سمجھ لیا ہے شیر اس وقت سامنے کیوں نہیں ایا اس میں بھی حکمت تھی اس میں بھی اک راز پوشیدہ تھا جو اپ اس کے سامنے اس وقت تو کھول نہیں سکتے تھے ہر کام وقت پر ہی اچھا لگتا ہے اور جس میں اللہ کی رضا ہوتی ہے وہی کام بہترین ہوتا ہے اپ نے اس کی اواز سن کر کہا ہاں صحیح کہا تم نے چلو واپس چلتے ہیں طنزیہ مسکراہٹ سے اسنے آپ کو دیکھا آپ نے اسے نظرانداز کیا اور لاٹھی ٹیکتے ہوئے گاؤں واپس اگئے اپ خالی ہاتھ تھے بچہ اپ کے ہاتھ میں نہیں تھا وہ عورت بھاگتی ہوا ہے اس نے کہا میں نے اپ پر بھروسہ کیا اور اپ بڑی امید دلا کر جنگل گئے تھے یہ کیا کہاں ہے میرا پوتا کہاں ہے کہاں ہے میرا بیٹا اپ نے کہا فکر مت کرو وہ آجائے گا وہ اتنا چھوٹا بچہ ہے کل کا پیدا ہوا بچہ چل کر ائے گا نہیں وہ شیر اسے لے کر ائے گا کسی کو اپ کی بات پر یقین ہی نہیں آرہا تھا یہ بوڑھا تو پہلے دن سے ہی ایسی باتیں کر کے ہمارا دماغ خراب کرتا ہے اس کی فضول کی باتوں کی وجہ سے ہم سب اس مصیبت میں گھر گئے ہیں اب کیا کرنا چاہیے اپ نے کہا صبح ہونے کا انتظار کرو اب تو اندھیرا ہو گیا ہے اور اندھیرے میں تو کچھ بھی نظر نہیں آئے گا یہ بوڑھا تو بڑے دعوے کر رہا تھا بڑا آیا تھا ایک درندے کو حکم دینے والا وہ ادمی کہنے لگا پتہ ہے اس نے کیا کیا یہ تو ہوا میں ایسی باتیں کر رہا تھا جیسے وہ اس کی بات سن کر سر جھکاکر اس کے پاس چلا ائے گا جیسے وہ اس کا کوئی نوکر ہے اللہ والے نے کچھ نہیں کہا انہوں نے کہا چلو ابھی گھر چلتے ہیں پھر صبح ہم اس کو ڈھونڈنے جائیں گے ماں چلا اٹھیی اس نے کہا تمھاری رات تو گزر جائے گی میرا کیا ہوگا میرا تو سب کچھ لٹ
گیا وہ شیر بہت خونخوار ہے صبح تک اسے موقع کیوں دے رہے ہو تو کیا کریں اس کا شوہر چلا اٹھا کیا کریں ہم نے پورا جنگل چھان مارا وہ شیر ہمیں نظر نہیں ایا اس کی اواز اتی بھی رہی اب تم یہ بات مان لو تمہارا بچہ بچے گا نہیں تمہارے دل کی تسلی کے لیے پھر بھی ہم صبح ضرور جائیں گے اس نے کہا تم لوگ کیسے لوگ ہو ایک تو میرے بچے کو اس نے اٹھا لیا ارے ابھی وقت ہے اتنے میں اللہ والے بول پڑے بیٹی میری بات سنو تمہارے بچے کو کچھ نہیں ہوگا صبح تک تمہارے بیٹے کو وہ چیتا خود لے کر اجائے گا تم بھروسہ رکھو کس پر بھروسہ رکھوں اس خدا پر جس کو میں نے پوجا جس کی عبادت کی اور یہ میرے دل کے درد کو نہیں سمجھ رہا میرے جگر کے ٹکڑے کو وہ لے گیا اور اپ کہتے ہیں کہ یقین رکھو تم اس پر یقین نہیں رکھو جس کو تم نے ہمیشہ مانا ہے تم میرے رب پر یقین رکھو جو تمہارا بھی ہے وہ اللہ ہے اگر یقین میں نے کر لیا اس پر تو کیا وہ اللہ میری سنے گا ہاں وہ سنے گا وہ ضرور سنے گا تو ٹھیک ہے وہ شیر واپس آجاتا ہے اور میرے بچے کو کچھ نہیں ہوتا ذرا سی بھی کھروچ نہیں لگتی تو میں تمہارے رب پر ایمان لے اؤں گی اللہ والے نے اس کو تسلی کے الفاظ بول تو دیے تھے پر آپ نے اللہ تعالی سے دعا بھی لازمی کرنی تھی اللہ تعالی سے اپ نے دعا کرنا شروع کی اپ کی انکھوں میں انسو اگئے تھے ایک اللہ سے دعا مانگتے ہوئے آپ کو سب دیکھ رہے اور مذاق بھی بنارہے تھے یہ کیا چپکے چپکے مانگ رہے ہیں اللہ والے کی آنکھوں کے سچے آنسو گواہی تھے اس بات کی کہ آپ سب کے لیے کتنے فکرمند ہیں اب رات تو بہت ہی بڑی تھی کیونکہ غم کی رات بڑی ہی ہوتی ہے لیکن غم کے بعد اندھیرا ختم ہوتا ہے اور روشنی اجاتی ہے صبح ہوئی تو اپ نے ان سب کے سامنے ہی عبادت کی اور وہ کچھ کہہ نہیں سکے پر وہ ادمی اپ کو گھور کر دیکھ رہا تھا اس کا دل جل رہا تھ کہ جس نے اپ کو سزا دی تھی اپ جس طرح اللہ کی مالا جپ رہے تھے اس کے تن بدن میں آگ لگ رہی تھی اس نے پھر سے سب کے کانوں میں زہر ڈالا کہ دیکھو یہ شخص اپنی منمانی کر رہا
ہے ہمارے سامنے یہ عبادت کرتے جا رہا ہے اور ہم کچھ نہیں کہتے اب بہت ہو گیا ہے
کتاب میں لکھا تھا یہ مسلمان ہمیں پریشان کرنے کے لیے بہت کچھ کریں گے اور دیکھو اج ہم سب پریشان کھڑے ہیں ہماری خوشی غمی میں بدل گئی اس کو ہم بہت کڑی سزا دیں گے وہ سب غصے میں اپ کی طرف بڑھنے لگے کہ شیر کے غرانے کی اواز ائی وہ ڈر کر پیچھے ہٹے وہ وہی بڑا سا شیر بچے کو اپنے دانتوں میں دبائے وہاں پر کھڑا تھا ان سب کو خونی نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے بچے کی جگہ اب ان سب کو کھا جائے گا وہ لوگ ڈر کے مارے پیچھے ہٹنے لگے ساری غرور خاک میں مل گیا تھا اللہ والے مسکرائے اور شیر کے پاس اکر کہا لاؤ اس بچے کو میرے حوالے کر دو یہ تمہارا کھانا نہیں ہے تمہیں اس بچے کے پیدا ہونے کی خوشی میں بہت سا کھانا کھلایا جائے گا بس اسے مت کھاؤ کسی ماں کا دل ہے یہ ماں کو دکھ نہیں دو اپ کی بات پر وہ دانت دکھانے لگا جیسے ضد کر رہا ہو کہ یہ بچہ میں نہیں دوں گا اپ کو جلال اگیا اپ نے کہا تم میری بات نہیں مانو گے جو کچھ اس کے دل میں تھا اللہ سب جانتا تھا اس نے یہ سب کچھ کیوں کیا تھا آنکھوں کی کہانی پڑھ رہے تھے اللہ والے پر جو اس نے کیا یہ بات آپ کو اچھی نہیں لگی آپ کے حکم پر وہ وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا اپ کے پاس ایا اور بہت ہی ادب سے وہ بچہ اپ کے ہاتھ میں دے دیا اپ نے جھک کر بچے کو اپنی گود میں لیا اور پیار سے دیکھنے لگے بچے کا چہرہ چمک رہا تھا جیسے وہ اللہ والے کی نگاہوں کو پڑھ رہا ہو اللہ والے نے اس بچے کو اچھی طرح سے دیکھا کہ کہی چوٹ تو نہیں لگی یا اسے کوئی خراش نہیں ائی تھی ببر شیر اسے کھانے تھوڑی گیا تھا اس کے پیچھے ایک راز تھا اپ نے اس بچے کو ماں کے حوالے کیا اور کہا لو تمہارا جگر کا ٹکڑا اسے کچھ نہیں ہوا بچے کو ماں کو دے کر اپ نے چیتے کہا جاؤ تمہارا کام ہو گیا ہے پر اب جو ہونے والا تھا اس کے بارے میں تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا وہ تھوڑا سا پیچھے ہٹا پھر تیزی سے دوڑنے لگا اور اس بوڑھے پر جس نے اللہ والے کو سزا دینے کا حکم دیا اس پر چھلانگ لگادی وہ
اپنے دانت کو اس کی گردن پر رکھ کر اس کا سارا خون پی جاتا اس کی بوٹیاں بوٹیاں کر دیتا پر ایسا نہ ہوا اللہ والے کسی جوان ادمی کی طرح دوڑتے ہوئے اس کے پاس ائے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے چیتے کو اٹھا کر زمین پر پٹخی لگادی ایسا پٹخا کہ وہ شیر کسی کمزور جانور کی طرح بلبلانے لگا جیسے اس سے گستاخی ہو گئی ہو اپ نے کہا میں نے تم سے کہا تھا نا یہاں سے چلے جاؤ کسی کو کوئی بھی نقصان نہیں پہنچانا پر تم نے اس ادمی پر حملہ کیوں کیا وہ بوڑھا شخص تو ڈرا سہما کھڑا تھا جس کی ابھی جان چلی جاتی اگر اللہ والے اس شیر کو اٹھا کر زمین پر پھینکتے نہیں اپ کے سوال پر سب حیران رہ گئے کہ ایک جانور زبان سے کیا بتائیگا درویش جب سے آیا ہے تب سے ہی ایسی انہونی باتیں کیے جارہا ہے وہ بات کررہا ہے کہ جس پر کوئی کسی حال میں یقین کر ہی نہیں سکتا تھا پر سارے گاٶں والوں کی تو حیرت تب بڑھی جب وہ شیر بولنے لگا انھی کی طرح بول رہا تھا کہ تم سب کیا دیکھتے ہو اپنے کرتوت یاد ہیں یا نہیں پھر تھوڑا سنبھل کر لفظوں کو تول کر بولنے لگا اے اللہ کے نیک بندے میں اس کے ساتھ وہی کر رہا تھا جو اس نے اپ کے ساتھ کیا ہے اس نے اپ کو بہت درد دیا ہے تکلیف دی ہے نوکر بنا کر رکھا میں اپ کا غلام ہوں اچھا صرف یہی وجہ تھی جس کی وجہ سے تو نے اس پر حملہ کیا وہ چپ رہا اپ نے کہا بولو کیا کوئی اور راز بتانا چاہتے ہو
اپنے دانت کو اس کی گردن پر رکھ کر اس کا سارا خون پی جاتا اس کی بوٹیاں بوٹیاں کر دیتا پر ایسا نہ ہوا اللہ والے کسی جوان ادمی کی طرح دوڑتے ہوئے اس کے پاس ائے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے چیتے کو اٹھا کر زمین پر پٹخی لگادی ایسا پٹخا کہ وہ شیر کسی کمزور جانور کی طرح بلبلانے لگا جیسے اس سے گستاخی ہو گئی ہو اپ نے کہا میں نے تم سے کہا تھا نا یہاں سے چلے جاؤ کسی کو کوئی بھی نقصان نہیں پہنچانا پر تم نے اس ادمی پر حملہ کیوں کیا وہ بوڑھا شخص تو ڈرا سہما کھڑا تھا جس کی ابھی جان چلی جاتی اگر اللہ والے اس شیر کو اٹھا کر زمین پر پھینکتے نہیں اپ کے سوال پر سب حیران رہ گئے کہ ایک جانور زبان سے کیا بتائیگا درویش جب سے آیا ہے تب سے ہی ایسی انہونی باتیں کیے جارہا ہے وہ بات کررہا ہے کہ جس پر کوئی کسی حال میں یقین کر ہی نہیں سکتا تھا پر سارے گاٶں والوں کی تو حیرت تب بڑھی جب وہ شیر بولنے لگا انھی کی طرح بول رہا تھا کہ تم سب کیا دیکھتے ہو اپنے کرتوت یاد ہیں یا نہیں پھر تھوڑا سنبھل کر لفظوں کو تول کر بولنے لگا اے اللہ کے نیک بندے میں اس کے ساتھ وہی کر رہا تھا جو اس نے اپ کے ساتھ کیا ہے اس نے اپ کو بہت درد دیا ہے تکلیف دی ہے نوکر بنا کر رکھا میں اپ کا غلام ہوں اچھا صرف یہی وجہ تھی جس کی وجہ سے تو نے اس پر حملہ کیا وہ چپ رہا اپ نے کہا بولو کیا کوئی اور راز بتانا چاہتے ہو
وہ اس شخص کو گھورے جارہا تھا پھر آپ کے سوال پر کہنے لگا کیا سناٶں اپنے غمزدہ دل کی داستان میرا ایک ہی بچہ تھا جس میں میری دنیا بستی تھی اس گاؤں کے پاس کے جنگل میں رہنے پر بھی کبھی میرے دل میں خیال نہیں ایا کہ ان گاؤں والوں پر حملہ کروں یا ان کو میں کھا لوں کیونکہ میں اپنے بچے کی محبت میں اتنا گم تھا کہ اللہ تعالی تو مجھے کھانا دے کیا کرتا تھا کبھی میں ان گاؤں والوں کے پاس نہیں ایا کیونکہ مجھے ضرورت محسوس نہیں ہوئی میرا پیٹ جنگل میں ہی رہ کر بھر جایا کرتا میں اپنے بچے کے ساتھ خوشی خوشی
زندگی گزار رہا تھا اس کی شرارت بھری حرکتوں کو دیکھ کر میں جیتا تھا پر ایک دن یہ آدمی اس نے بوڑھے کو کہا یہ شخص جنگل میں آیا جبکہ میں شکار کے لیے اندر جنگل میں گیا ہوا تھا اور میرا بچہ وہیں پر کھیل رہا تھا یہ شخص میرے بچے کو مجھ سے چھین کر لے گیا تھا جب میں واپس ایا تو میرا بچہ گم تھا بہت تلاش کیا پھر سارا جنگل چھان مارا پر میرا بچہ مجھے کہیں نہیں دکھا پھر سوچا بستی میں جا کر دیکھتا ہوں اور جب میں بستی کی طرف ایا تو یہاں بھی مجھے میرا بچہ نہ دکھا میں اپنے بچے کی یاد میں خون کے انسو بہایا کرتا پھر ابھی کچھ دنوں پہلے مجھے پتہ چلا کہ میرے بچے کو مار دیا گیا تھا اور اس بوڑھے نے اسے مارا تھا تبھی میں یہاں ایا اور انہی کا ایک بچہ اٹھا کر اپنے ساتھ لے گیا اس کی بستی انہوں نے اسے برے کام سے نہیں روکا بلکہ اس کے ساتھ مل گئے اس لیے میں وہ بدلہ لینے ایا کہ میری اولاد کو مجھ سے دور کیا تو میں ان کی اولاد کو بھی ان سے الگ کر دوں گا کھا جاٶنگا اگر اپ کا حکم نہ ہوتا تو میں اسی وقت ان کے بچے کو چٹ کر گیا ہوتا اگر اپ مجھے منع نہیں کرتے وہ کسی غلام کی طرح اپ کے سامنے تھا جیسے کوئی بچہ اپنے بڑے کی بات مانتا ہے معاف کردو اللہ بھی معاف کرتا ہے اب تم یہاں سے چلے جاؤ تمہارا غم ہلکا نہیں لیکن بدلہ ایسے نہیں لیتے ایک ماں تڑپی اور کوئی نہیں اپ کی بات پر اس نے احترام سے سر جھکایا اور واپس جانے لگا کیا اللہ والے ایک بار پھر سے فرمانے لگے ٹھہرو میں تمھیں کچھ دینا چاہتا ہوں تمھارا تحفہ بچے کی موت سے لے کر اب تک اس نے شکار نہ کیا تھا بس جو روکھا سوکھا مل جاتا کھالیتا کہ جس دن اس کے بچے کو اٹھایا گیا تھا وہ جنگل میں شکار کے لیے ہی تو گیا تھا آپ نے اپنے تھیلے میں سے ایک بڑا گوشت کا ٹکڑا نکالا کوئ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تھیلے کے اندر وہ گوشت کا ٹکڑا ہوگا اپ نے وہ گوشت اس شیر کے آگے ڈال دیا لو تمہارا کھانا ہماری طرف سے یہ تمہارے لیے انعام ہے کہ تم نے ہماری بات کو مانا اور ہمارے فرمانبردار ہوئے اس نے سب کے سامنے وہ گوشت
کھالیا اور شکریہ کے طور پر اپ کے بہت پاس اکر قدموں کو چومنے لگا پھر وہ جنگل کی طرف جانےلگا تو ایک اور قدرت کا کرشمہ تیار کھڑا تھا اس شیر کا بچہ اس کا انتظار کررہا اس نے اللہ والے کی طرف دیکھا جیسے بات کو سمجھ نہ رہا ہو اور سمجھ بھی رہا ہو مشکور نگاہوں سے اللہ والے کی طرف دیکھنے لگا اللہ والے نے فرمایا تمھارے صبر کا میٹھا پھل جس بچے کو تم سے لے لیا گیا تھا اللہ تعالی نے وہ بچہ تمہیں لوٹا دیا ہے اب اس بچے کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارو اور کبھی اس گاؤں پر اب حملہ نہیں کرنا چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ دوڑتا ہوا بچے کے پاس گیا اور خوب پیار کیا پھر دونوں جنگل میں چلے گئے یہ آنکھوں دیکھا سچ کیسے ہضم ہوتا وہ سب حیران تھے کہ جن حضرت کی ہم نے قدر نہیں کی جن کو ہم نے ایک نوکر بنا کر پانی بھروایا جن کو ایک معمولی شخص سمجھ کر ہم نے حد کر دی ظلم کی پر انہوں نے اف تک نہیں کی اور یہ جانور جو کہ خونخوار ہے درندہ ہے جو کہ ایک جھٹکے میں کسی کو بھی مار سکتا ہے یہ جنگلی جانور ان کا اتنا تابعدار اتنی محبت کرنے والا ان سب کے دل پگھلنے لگے وہ شرمندہ ہو رہے تھے احسان پر احسان جو کر دیا گیا تھا شیر تو اب وہاں سے جا چکا تھا اللہ والے ان سب کی طرف پلٹے اور کہا کہ پیارے گاؤں والوں میرا سفر اسی مقصد سے یہاں پر تھا کہ یہ شیر جس کے بچے کو تم لوگوں نے مارا تھا وہ شیر تمہارے بچے کو اٹھانے کے اور بدلہ لینے کے لیے کھول رہا تھا سو میرے استاد نے مجھے حکم دیا کہ تم کو سمجھاٶں میں لفظوں سے سمجھاتا تم لوگ سمجھتے نہیں اس لیے اللہ تعالی نے وہ کرشمہ دکھایا کہ یہ شیر بولنے لگا اور اس نے خود وہ راز بتا دیا یہ ساری طاقت اللہ تعالی کی ہے ہم صرف اس کے ایک نوکر ہیں کیا اب مانوگے اسے وہ عورت بول پڑی جس کا وہ بیٹا تھا اس نے کہا میں نے تو اپ کو اسی وقت مان لیا تھا جب اپ میرے بچے کے لیے جنگل میں گئے تھے اب میں ان سب سے کہتی ہوں کہ جو کچھ ہم نے گناہ کیا ہے اس کی معافی مانگی جائے سب اس بات کا احساس کر چکے تھے کہ اولاد تو جانور کی بھی اتنی ہی قیمتی ہوتی ہے جیسے انسان کی کسی
پر رحم کرنا ہی تو اصل انسانیت ہے جو ان کے اندر بالکل نہیں تھی اور خدا تو سب پر مہربان ہی ہوتا ہے بس انسان اپنے اپ کو بدل لے تو وہ کبھی شکوہ نہیں کرتا خود پر اور خود کی طاقت پر غرور کرنے والے سب نے اپ کے اگے ہاتھ جوڑ دیا انہوں نے جو کچھ دیکھا تھا اس کو کبھی اپنی زندگی میں دیکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے وہ تو غفلت میں جی رہے تھے اپنے اپ کو بڑا ماننے والے اور خود کی طاقت پر بھرم رکھنے والے اج ایک جانور کے سامنے زمین پر اگرے تھے اپ نے کہا میں کوئی معاف کرنے والا نہیں ہوں میں نے وہی کیا جو میرا مذہب کہتا ہے میرا دین کہتا ہے کہ کسی کوبددعا نہ دی جائے میرا دین کہتا ہے کہ کسی سے بدلہ نہ لیا جائے میرا دین کہتا ہے دھوکے کا جواب دھوکے سے نہ دیا جائے وہ جو اپ کی باتوں کو سننا نہیں چاہتے تھے اج دل و جان سے اپ کے ہر ہر لفظ کو سن رہے تھے اور اپنے دل و دماغ میں اتار رہے تھے ان کے دل میں اب یہی تھا کہ ہم ان کے دین میں داخل ہو جائیں کہ جس میں کسی کے ساتھ برا نہیں کیا جاتا کہ جس میں جانوروں پر بھی رحم کیا جاتا ہے اور انسان تو ہے ہی سب سے افضل صرف ہمیں سیدھا راستہ دکھانے کے لیے اتنے ظلم برداشت کرنے والے یہ بزرگ جن کو وہ کھونا نہیں چاہتے تھے پر وہ شخص جو اپنے آپ کو بڑا ہی طاقتور سمجھ رہا تھا اور ان سب سے کہا تھا کہ یہ اللہ والے تو بس یوں ہی باتوں کی پل بناتے ہیں اس نے کہا مجھے لگتا ہے کہ یہ شیر اس اللہ والے کا بھیجا ہوا ہے کیونکہ اب تک دیکھو شہر نے اس گاؤں پر حملہ نہیں کیا اور نہ ہی ہمارے پاس ا کر ہمارے بچے کو اٹھایا یہ اللہ والے کے انے پر ہی کیوں یہ شیر یہاں ایا اس کی اس بات پر وہ بوڑھا شخص جس پر شیر کا حملہ ہوا تھا ہاں میں ہاں ملانے لگا کہ وہ بھی یہی میں سوچ رہا تھا کہ اس وقت ہی وہ شیر یہاں کیوں ایا اللہ والے نے کہا اس شیر نے تمہارے سامنے ساری باتیں کی اپنے بچے کے دکھ کو بیان کیا اور تم نے خود اس کے بچے کو اس کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا پر تمہیں اب بھی یقین نہیں ارہا کہ وہ شیر ہمارا بلایا ہوا نہیں تھا بلکہ وہ اللہ کی طرف
زندگی گزار رہا تھا اس کی شرارت بھری حرکتوں کو دیکھ کر میں جیتا تھا پر ایک دن یہ آدمی اس نے بوڑھے کو کہا یہ شخص جنگل میں آیا جبکہ میں شکار کے لیے اندر جنگل میں گیا ہوا تھا اور میرا بچہ وہیں پر کھیل رہا تھا یہ شخص میرے بچے کو مجھ سے چھین کر لے گیا تھا جب میں واپس ایا تو میرا بچہ گم تھا بہت تلاش کیا پھر سارا جنگل چھان مارا پر میرا بچہ مجھے کہیں نہیں دکھا پھر سوچا بستی میں جا کر دیکھتا ہوں اور جب میں بستی کی طرف ایا تو یہاں بھی مجھے میرا بچہ نہ دکھا میں اپنے بچے کی یاد میں خون کے انسو بہایا کرتا پھر ابھی کچھ دنوں پہلے مجھے پتہ چلا کہ میرے بچے کو مار دیا گیا تھا اور اس بوڑھے نے اسے مارا تھا تبھی میں یہاں ایا اور انہی کا ایک بچہ اٹھا کر اپنے ساتھ لے گیا اس کی بستی انہوں نے اسے برے کام سے نہیں روکا بلکہ اس کے ساتھ مل گئے اس لیے میں وہ بدلہ لینے ایا کہ میری اولاد کو مجھ سے دور کیا تو میں ان کی اولاد کو بھی ان سے الگ کر دوں گا کھا جاٶنگا اگر اپ کا حکم نہ ہوتا تو میں اسی وقت ان کے بچے کو چٹ کر گیا ہوتا اگر اپ مجھے منع نہیں کرتے وہ کسی غلام کی طرح اپ کے سامنے تھا جیسے کوئی بچہ اپنے بڑے کی بات مانتا ہے معاف کردو اللہ بھی معاف کرتا ہے اب تم یہاں سے چلے جاؤ تمہارا غم ہلکا نہیں لیکن بدلہ ایسے نہیں لیتے ایک ماں تڑپی اور کوئی نہیں اپ کی بات پر اس نے احترام سے سر جھکایا اور واپس جانے لگا کیا اللہ والے ایک بار پھر سے فرمانے لگے ٹھہرو میں تمھیں کچھ دینا چاہتا ہوں تمھارا تحفہ بچے کی موت سے لے کر اب تک اس نے شکار نہ کیا تھا بس جو روکھا سوکھا مل جاتا کھالیتا کہ جس دن اس کے بچے کو اٹھایا گیا تھا وہ جنگل میں شکار کے لیے ہی تو گیا تھا آپ نے اپنے تھیلے میں سے ایک بڑا گوشت کا ٹکڑا نکالا کوئ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تھیلے کے اندر وہ گوشت کا ٹکڑا ہوگا اپ نے وہ گوشت اس شیر کے آگے ڈال دیا لو تمہارا کھانا ہماری طرف سے یہ تمہارے لیے انعام ہے کہ تم نے ہماری بات کو مانا اور ہمارے فرمانبردار ہوئے اس نے سب کے سامنے وہ گوشت
کھالیا اور شکریہ کے طور پر اپ کے بہت پاس اکر قدموں کو چومنے لگا پھر وہ جنگل کی طرف جانےلگا تو ایک اور قدرت کا کرشمہ تیار کھڑا تھا اس شیر کا بچہ اس کا انتظار کررہا اس نے اللہ والے کی طرف دیکھا جیسے بات کو سمجھ نہ رہا ہو اور سمجھ بھی رہا ہو مشکور نگاہوں سے اللہ والے کی طرف دیکھنے لگا اللہ والے نے فرمایا تمھارے صبر کا میٹھا پھل جس بچے کو تم سے لے لیا گیا تھا اللہ تعالی نے وہ بچہ تمہیں لوٹا دیا ہے اب اس بچے کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارو اور کبھی اس گاؤں پر اب حملہ نہیں کرنا چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ دوڑتا ہوا بچے کے پاس گیا اور خوب پیار کیا پھر دونوں جنگل میں چلے گئے یہ آنکھوں دیکھا سچ کیسے ہضم ہوتا وہ سب حیران تھے کہ جن حضرت کی ہم نے قدر نہیں کی جن کو ہم نے ایک نوکر بنا کر پانی بھروایا جن کو ایک معمولی شخص سمجھ کر ہم نے حد کر دی ظلم کی پر انہوں نے اف تک نہیں کی اور یہ جانور جو کہ خونخوار ہے درندہ ہے جو کہ ایک جھٹکے میں کسی کو بھی مار سکتا ہے یہ جنگلی جانور ان کا اتنا تابعدار اتنی محبت کرنے والا ان سب کے دل پگھلنے لگے وہ شرمندہ ہو رہے تھے احسان پر احسان جو کر دیا گیا تھا شیر تو اب وہاں سے جا چکا تھا اللہ والے ان سب کی طرف پلٹے اور کہا کہ پیارے گاؤں والوں میرا سفر اسی مقصد سے یہاں پر تھا کہ یہ شیر جس کے بچے کو تم لوگوں نے مارا تھا وہ شیر تمہارے بچے کو اٹھانے کے اور بدلہ لینے کے لیے کھول رہا تھا سو میرے استاد نے مجھے حکم دیا کہ تم کو سمجھاٶں میں لفظوں سے سمجھاتا تم لوگ سمجھتے نہیں اس لیے اللہ تعالی نے وہ کرشمہ دکھایا کہ یہ شیر بولنے لگا اور اس نے خود وہ راز بتا دیا یہ ساری طاقت اللہ تعالی کی ہے ہم صرف اس کے ایک نوکر ہیں کیا اب مانوگے اسے وہ عورت بول پڑی جس کا وہ بیٹا تھا اس نے کہا میں نے تو اپ کو اسی وقت مان لیا تھا جب اپ میرے بچے کے لیے جنگل میں گئے تھے اب میں ان سب سے کہتی ہوں کہ جو کچھ ہم نے گناہ کیا ہے اس کی معافی مانگی جائے سب اس بات کا احساس کر چکے تھے کہ اولاد تو جانور کی بھی اتنی ہی قیمتی ہوتی ہے جیسے انسان کی کسی
پر رحم کرنا ہی تو اصل انسانیت ہے جو ان کے اندر بالکل نہیں تھی اور خدا تو سب پر مہربان ہی ہوتا ہے بس انسان اپنے اپ کو بدل لے تو وہ کبھی شکوہ نہیں کرتا خود پر اور خود کی طاقت پر غرور کرنے والے سب نے اپ کے اگے ہاتھ جوڑ دیا انہوں نے جو کچھ دیکھا تھا اس کو کبھی اپنی زندگی میں دیکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے وہ تو غفلت میں جی رہے تھے اپنے اپ کو بڑا ماننے والے اور خود کی طاقت پر بھرم رکھنے والے اج ایک جانور کے سامنے زمین پر اگرے تھے اپ نے کہا میں کوئی معاف کرنے والا نہیں ہوں میں نے وہی کیا جو میرا مذہب کہتا ہے میرا دین کہتا ہے کہ کسی کوبددعا نہ دی جائے میرا دین کہتا ہے کہ کسی سے بدلہ نہ لیا جائے میرا دین کہتا ہے دھوکے کا جواب دھوکے سے نہ دیا جائے وہ جو اپ کی باتوں کو سننا نہیں چاہتے تھے اج دل و جان سے اپ کے ہر ہر لفظ کو سن رہے تھے اور اپنے دل و دماغ میں اتار رہے تھے ان کے دل میں اب یہی تھا کہ ہم ان کے دین میں داخل ہو جائیں کہ جس میں کسی کے ساتھ برا نہیں کیا جاتا کہ جس میں جانوروں پر بھی رحم کیا جاتا ہے اور انسان تو ہے ہی سب سے افضل صرف ہمیں سیدھا راستہ دکھانے کے لیے اتنے ظلم برداشت کرنے والے یہ بزرگ جن کو وہ کھونا نہیں چاہتے تھے پر وہ شخص جو اپنے آپ کو بڑا ہی طاقتور سمجھ رہا تھا اور ان سب سے کہا تھا کہ یہ اللہ والے تو بس یوں ہی باتوں کی پل بناتے ہیں اس نے کہا مجھے لگتا ہے کہ یہ شیر اس اللہ والے کا بھیجا ہوا ہے کیونکہ اب تک دیکھو شہر نے اس گاؤں پر حملہ نہیں کیا اور نہ ہی ہمارے پاس ا کر ہمارے بچے کو اٹھایا یہ اللہ والے کے انے پر ہی کیوں یہ شیر یہاں ایا اس کی اس بات پر وہ بوڑھا شخص جس پر شیر کا حملہ ہوا تھا ہاں میں ہاں ملانے لگا کہ وہ بھی یہی میں سوچ رہا تھا کہ اس وقت ہی وہ شیر یہاں کیوں ایا اللہ والے نے کہا اس شیر نے تمہارے سامنے ساری باتیں کی اپنے بچے کے دکھ کو بیان کیا اور تم نے خود اس کے بچے کو اس کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا پر تمہیں اب بھی یقین نہیں ارہا کہ وہ شیر ہمارا بلایا ہوا نہیں تھا بلکہ وہ اللہ کی طرف
سے بھیجا گیا تھا وہ گاؤں والے جن کو اللہ تعالی اللہ والے پر یقین تھا انہوں نے کہا ہم اپ کو مانتے ہیں یہ لوگ نہ مانیں اللہ والے چپ تھے ان کی باتوں سے اپ کے دل کو صدمہ پہنچا تھا اللہ تعالی نے اتنی بڑی نشانی دکھا دی تھی تب بھی وہ لوگ نہیں مان رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ اپ ہی جادوگر ہیں اور اپ نہیں اس شیر کو منتر پڑھ کے وہاں بلایا جب کسی کے منہ سے کچھ جملے نہیں نکلتے اپنی صفائی کے لیے تو پھر قدرت انتقام لیتی ہے شیر کو تو اپ نے وہاں سے بھیج دیا تھا ان سب کی جان بچا لی تھی لیکن ان باتوں کا جب کوئی جواب نہ ملا تو آپ نے معاملہ اللہ پر چھوڑا اور اپنے قدم باہر کی طرف بڑھادئیے تبھی اس صورت میں کی گود میں موجود بچہ کلمہ پڑھنا شروع ہو گیا وہ ایسے کلمہ پڑھ رہا تھا جیسے اسے کوئی ذات کلمہ پڑھا رہی ہے پر کوئی دکھ نہیں رہا تھا سب کے منہ کھلے کے کھلے تھے کہ جو بچہ کل ہی پیدا ہوا ہے اور وہ بغیر کسی کے سکھائے گواہی دے رہا ہے کہ اللہ ایک ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور جب اس بچے نے کلمہ پڑھا تو اس کی ماں بھی خوشی سے چہکنے لگی اور کہا کہ میں بھی اپنے بیٹے کی طرح مسلمان ہونا چاہوں گی اور ان لوگوں کو اگر کوئی نشانی نہیں دکھتی تو نہ سہی پر میں پورے دل سے ایمان لاتی ہوں جب کوئی مرد نہ بولا تو وہاں کھڑی عورتیں کہنے لگی ہاں ہم اللہ کو مان گئے اب ہمیں کلمہ پڑھا دیجیے کیونکہ اس سے بڑی نشانی اور نہیں ہوگی مگر اللہ والے اب بھی اس بوڑھے کی طرف دیکھ رہے تھے کیونکہ اس کا کلمہ پڑھنا بہت ضروری تھا اس کے چہرے پر رنگ ارہے تھے جا رہے تھے اللہ والے نے ان سب مردوں کی طرف دیکھ کر کہا کہ صرف عورتوں کو مسلمان ہونا بھی لازمی نہیں بلکہ یہاں کے مرد بھی اللہ کو مانے تو بات ہوگی اپ کی بات میں بہت دم تھا کہ سب نے ایک ساتھ کلمہ پڑھ لیا یہاں تک کہ اس بوڑھے نے بھی اپ کے دین کو اپنالیا یہ کام کوئی زور زبردستی پہ نہیں ہوا تھا بلکہ اللہ تعالی کے ہونے کا ثبوت ہر ایک چیز نے دیا تھا اپ نے مسکراتے ہوئے پھر اس بچے کو گود میں لیا اور اس کے کان میں اذان
دی اذان کی آواز اتنی خوبصورت تھی کہ سب کے دل پرنور ہوگئے ساری بستی اور جنگل جگمگاگیا غرور ختم ہوگیا عاجزی اور ادب آگیا اس گاٶں کے پہلے مسلمان بچے کا اسلامی نام بھی اپ نے رکھا اور ان سب کو دعا دی اج صحیح معنوں میں وہاں جشن منانے کا موقع تھا کیونکہ دل اور چہروں پر سچائی کا رنگ بکھرگیا تھا پر مسلمان ہونے پر بھی بوڑھے کے چہرے پر اب بھی ڈرو خوف تھا اللہ والے نے اس کے چہرے کو دیکھا اور کہا کہ اب یہ شیر کبھی تمہارے گاؤں میں نہیں ائے گا تم اس بات کی فکر نہیں کرنا وہ ایسا ہرگز نہیں کرے گا جس سے سب کو نقصان ہو اسے جو چاہیے تھا اللہ نے دے دیا پر یہ بھی سچ ہے کہ جو تم نے گناہ کیا ہے اس گناہ کی معافی تمہیں تبھی مل سکتی ہے جب تم اچھے کام کرو
سب نے اپ کا شکریہ ادا کیا اور اپ سے وہاں پر کچھ دن اور روکنے کی یہ پہلا تو ان پر ظلم کیا گیا اور ان کو وہاں پر نوکر بنایا گیا تھا لیکن اب ان کی مہمان نوازی کے لیے فرمائش کی جا رہی تھی اب تو اپ کے پاس موقع تھا کہ اپ ان کی بات کو ٹھکرا سکتے تھے لیکن وہی تو ایمان والا ہوتا ہے جو بدلہ لینے کی طاقت رکھنے پر بھی بدلہ نہ لے اپ نے کہا کہ ٹھیک ہے میں تمہاری بات کو ٹالوں گا نہیں اپ کا اس بستی میں رکنا ان کے لیے برکت کا باعث تھا کیونکہ اب وہاں رہ کر اپ نے ان لوگوں کو اچھے برے کی تمیز بھی سکھانی تھی اللہ والے اس بستی میں اسی حیثیت سے رہنے لگے جس طرح دوسرے لوگ اپ کی عزت کیا کرتے اس طرح وہ لوگ بھی اپ پر اپنا دل و جان نچھاور کرنے کو تیار تھے
تو دوستو جو خواب اللہ والے نے دیکھا تھا اس خواب کی تعبیر پوری ہو ہی گئی تھی جس کام کے لیے اپ کو اس گاؤں میں بھیجا گیا تھا وہ کام مکمل کر ہی دیا پر کس طرح یہ تو اللہ والے ہی جانتے تھے کیونکہ اگر اللہ کا ساتھ نہ ہوتا تو وہ اتنی مشکل کبھی نہیں جھیل سکتے تھے اللہ والے نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا جو کام کرنے کے لیے اپ نکلے تھے وہ کام اپنے سرانجام دے دیا اور اب جانا وہیں پر تھا جہاں سے اپ نے
اپنا سفر شروع کیا تھا کیونکہ اپ کے شاگرد اپ کا انتظار کر رہے تھے ان کو اپ نے اپنی داستان سفر سنانی تھی تاکہ ان کا ایمان اور بڑھ جائے اب اپ کے ماننے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو اسلام کے بارے میں بالکل نہیں جانتے تھے بلکہ اب وہ لوگ بھی اپ کے پاس اسلام کی تعلیم لینے انے لگے جس میں وہ بوڑھا سب سے اگے تھا کیونکہ اس نے ہی یہ ساری برائی پھیلائی تھی
Author Name : Rabia Naz Saeedi
Publish Date : 09 November 2024
Comments
Post a Comment