7 bahu sas ki biryani iftar mein paka ke kha gyi | sas aur bahu ki kahani

 All rights reserved. This story was originally published on  https://best.92islamicquotes.com       Reproduction or use without permission will be considered a copyright violation."



رمضان کی حسین چمکتی ہوئی رات تھی۔کہی دور چھوٹے سے ایک گاؤں میں گھروں کے چراغ روشن ہو چکے تھے، ہر طرف سحری کی تیاری زوروں پر تھی۔ گرم روٹیوں کی بھینی بھینی خوشبو، پکوانوں کی مہک اور لوگوں کی ہلکی پھلکی باتوں سے گاؤں میں ایک خوبصورت رونق پھیلی ہوئی تھی۔ بچے بڑے خوشی خوشی دسترخوان پر بیٹھے، رمضان کی برکتوں پر باتیں کر رہے تھے، اور بزرگ دعاؤں میں مصروف تھے۔ یہ وقت رحمت اور سکون کا تھا، مگر کسی کو معلوم نہ تھا کہ اسی رات ایک شیطانی سازش گاؤں کی پاکیزہ فضا کو آلودہ کرنے کے لیے تیار ہو رہی تھی ۔گاؤں سے تھوڑا آگے ایک اندھیرا جنگل تھا۔ہر طرف گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ درخت ساکت کھڑے تھے، جیسے سب کچھ رُک گیا ہو۔ لیکن ایک جگہ ہلکی سی روشنی جھلک رہی تھی،ایسے میں اس کی آنکھوں میں غصہ بھرا ہوا تھا۔ وہ شخص جس کا دل ایمان سے خالی تھا ۔ وہ شیطان کی راہ پر چل رہا تھا۔ اسے نہ تو اللہ کی رضا کی پرواہ تھی اور نہ ہی سچائی کی۔ آگ کی روشنی میں اس کا مکروہ چہرہ بےحد خوفناک لگ رہا تھا۔ یہ تھا جادوگر ہامان ۔ ہامان ۔جس کا دل شیطان کی محبت اور گناہ کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ جادو کی دنیا کا سب سے بڑا استاد سمجھا جاتا تھا، مگر اس کی جادوگری ظلم اور دھوکے سے بھری ہوئی تھی۔ہامان جس کا نام ہی دہشت پھیلانے کے لیے کافی تھا۔ وہ شیطانی قوتوں کا ایسا پیروکار تھا، جس نے بے شمار ایمان والوں کو راہِ حق سے ہٹا کر گمراہی میں دھکیل دیا تھا۔

اس کا جادو کسی کی زندگی چھین کر ہی طاقت حاصل کرتا تھا، اور اگر وہ زندگی کسی پاکیزہ اور نیک دل انسان کی ہوتی، تو اس کی شیطانی قوت کئی گنا بڑھ جاتی!

مگر اس بار اس کے راستے میں کوئی بڑی رکاوٹ تھی۔ تین دن کا چلہ کاٹنے کے باوجود بھی اس کا جادو مکمل نہ ہو سکا تھا۔ وہ بےچینی سے سوچ رہا تھا کہ آخر کہاں کمی رہ گئی ہے۔ اتنے میں کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ دروازہ آہستہ سے کھلا، اور اس کا شاگرد آصف اندر آیا۔

"کیا خبر لائے ہو؟" ہامان نے غصے سے پوچھا۔ آصف نے سر جھکاتے ہوئے کہا، "استاد! بہت مشکل ہے، اس کا خون لینا ممکن نہیں لگ رہا۔"

 ایسا لگتا ہے جیسے کوئی اسے بچا رہا ہو۔" ہامان نے دانت پیستے ہوئے کہا، "ہاں! اس پر ایک بزرگ کا سایہ ہے، وہ اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ پر جب تک اس کے خون کا ایک قطرہ نہیں ملے گا، میرا عمل کامیاب نہیں ہوگا!" اس کی آنکھوں میں سرخی بھر آئی۔ وہ جانتا تھا کہ اگر یہ جادو ناکام ہوا تو اس کی ساری طاقت ختم ہو سکتی ہے۔ اس نے آصف کو سختی سے حکم دیا، "جاؤ! کسی بھی طرح اس کا خون لے کر آؤ، مگر احتیاط سے! کوئی شک نہ کرے، ورنہ لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔اس کے بعد جو ہامان نے آصف کو بتایا وہ سن کی اسکی آنکھیں چمکنے لگیں۔

پھر رات کے اندھیرے میں دو قہقہے گونجے۔

اگلی صبح سورج کی روشنی ہر طرف پھیل چکی تھی۔ رمضان کی رونقیں اپنے عروج پر تھیں۔ گاؤں کے روزے دار اپنے روزمرہ کے کام کررہے تھے ۔اس گاؤں میں آپسی پیار بہت زیادہ تھا اور بزرگوں کا احترام انکی تربیت کا حصہ تھا۔ اس گاؤں کی بزرگ عورتوں میں ایک نورانی چہرے والی خاتون تھیں۔ آمنہ ماں۔آمنہ ماں جن کو چاہے کوئی چھوٹا ہو یا بڑا سب آمنہ ماں ہی پکارتے

گاؤں کی سب سے مہربان اور نیک دل خاتون تھیں۔ جو ہمیشہ دوسروں کی مدد کے لیے آگے رہتی تھیں۔ وہ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر انہیں دین کی باتیں سکھاتی تھیں ۔

آمنہ ماں نہایت پرہیزگار اور عبادت گزار تھیں۔ بڑھاپے میں بھی وہ اتنی چلتی پھرتی صحت مند تھیں کہ لوگ حیران ہوتے کہ اس عمر میں بھی وہ اپنے سارے کام خود کیسے کر لیتی ہیں۔

وہ بہت خوش اخلاق اور نرم دل خاتون تھیں، ہر ایک کے ساتھ محبت سے پیش آتی تھیں۔ان کی زندگی دوسروں کے لیے ایک مثال تھی ۔ گاؤں میں مشہور تھا کہ ان پر ایک اللہ والے کی خاص نظرِ کرم ہے اور ان بزرگ اللہ والے کی دعا نے ان کو بہت نوازا ہے کیونکہ ایک وقت ایسا آیا جب آمنہ بی بہت تکلیف میں تھیں، کیونکہ حکیموں نے کہہ دیا تھا کہ وہ کبھی ماں نہیں بن سکتیں اور ہمیشہ بانجھ رہینگی۔ یہ سن کر وہ بہت مایوس اور غمگین ہوگئیں ۔ ان کے لیے یہ خبر بہت بڑی آزمائش تھی، خاص طور پر جب عمر بھی ڈھل چکی تھی اور امیدیں ختم ہو چکی تھیں پر آمنہ ماں کا دل کہی نہ کہی صدا لگاتا. ھوگا قدرت کا معجزہ ہوگا اور پھر سچ میں وہ دن آگیا جب آمنہ بی کسی کام سے باہر گئیں تو راستے میں ایک درخت کے نیچے ایک اللہ والے بزرگ کو بیٹھے دیکھا۔ ان کے چہرے پر ایسا مہربان سکون تھا کہ آمنہ ماں بےاختیار ان کے پاس جا پہنچیں اور اپنی پریشانی بیان کر دی۔

بزرگ، جنہیں سب "شاہ جی" کہتے تھے، مسکرا کر بولے، "کیا تمہیں یقین ہے کہ اللہ تمہیں اولاد دے سکتا ہے؟" آمنہ بی نے پورے یقین کے ساتھ سر ہلایا۔ شاہ جی نے دعا کی، اور ان کی دعا کا ایسا اثر ہوا کہ ایک کے بعد ایک، آمنہ بی بی کے ہاں سات بیٹوں کی پیدائش ہوئی۔

یہ واقعہ گاؤں کے لیے حیرانی کا باعث بن گیا تھا۔ آمنہ بی بی کی زندگی میں خوشیاں لوٹ آئیں۔ جب ان کے بیٹے جوان ہوئے تو ان کی شادیاں ہو گئیں اور سات بہوئیں گھر میں آگئیں۔ یہ سب بہوئیں نیک اور محنتی تھیں، وہ ایک سے بڑھ کر ایک تھیں ہر کوئی بڑھ چڑھ آمنہ ماں کی خدمت کرنے کی کوشش کرتا۔

رمضان ہو یا کوئی اور تہوار، سب بہوئیں ساتھ ساتھ رہاکرتیں آمنہ بی بی کی قسمت اچھی تھی کہ انہیں ایسی بہوئیں ملی تھیں جو انہیں اپنی ماں جیسا مانتی تھیں اور اس کے پیچھے وجہ تھی ان کے شوہر جو اپنی ماں کو پلکوں پر بٹھاتے۔وہ سات بیٹے ماں کے بہت خدمت گزار تھے، کیونکہ انہوں نے دیکھا تھا کہ کس طرح ماں نے انہیں محنت سے پالا اور اچھا انسان بنایا۔

آمنہ بی کی گود میں پروان چڑھے وہ جوان بیٹے محنت کش اور دیانت دار تھے۔ سب کا روزگار الگ الگ تھا—کوئی لکڑہارا تھا کوئی مچھیرا، لیکن سب حلال روزی کماتے اور اپنے گھر والوں کا اچھا خیال رکھتے۔

آمنہ ماں کی سب بہوئیں عام گھروں سے آئی تھیں، مگر سب سے چھوٹی بہو صائمہ ایک امیر گھرانے سے بیاہ کر آئی تھی۔ یہ بھی ایک حسن اتفاق تھا کیونکہ اس کے والد آمنہ بی کی بہت عزت کرتے تھے، اسی لیے انہوں نے اپنی لاڈلی بیٹی کی شادی سب سے چھوٹے بیٹے، دانش، سے کر دی، یہ دیکھے بغیر کہ وہ لکڑہارا ہے کیونکہ وہ ہیرا تھا۔دانش صبح سویرے اٹھ کر اللہ کی عبادت کرتا پھر جنگل چلاجاتا وہاں اور بھی لکڑہارے اس کے ساتھ ملکر لکڑیاں کاٹتے پھر وہ ان لکڑیوں کو بیچ دیاکرتا روکھی سوکھی جو کماتا ماں کے ہاتھ میں پیسہ رکھتا۔

آمنہ بی ایک سمجھدار اور سادہ عورت تھیں، جنہوں نے اپنی ساری زندگی اپنے بچوں کے لیے وقف کر دی تھی۔ سات بیٹوں کی ماں ہونے کے باوجود وہ ہر ایک سے الگ محبت کرتی تھیں، مگر سب سے چھوٹا بیٹا دانش ماں سے کچھ زیادہ ہی محبت کرتا تھا۔ شادی کے بعد بھی اس کی یہی خواہش تھی کہ ماں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ اس نے اپنی بیوی صائمہ سے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ اپنی ماں کا دل نہیں دکھا سکتا۔ صائمہ نے بھی شروع میں کوئی اعتراض نہیں کیا اور ساس کی خدمت کو اپنی ذمہ داری سمجھا۔

لیکن وقت کے ساتھ ساتھ صائمہ کے دل میں عجیب سی بےچینی پیدا ہونے لگی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کا شوہر اس پر بھی اتنی ہی توجہ دے جتنی وہ اپنی ماں پر دیتا تھا، مگر اسے محسوس ہونے لگا کہ وہ تو بس ساس کی خدمت کے لیے بیاہی گئی ہے۔ صائمہ کا تعلق جس امیر گھرانے سے تھا، وہاں اسے کبھی کسی کام کے لیے نہیں کہا گیا تھا، وہ اٹھ کر پانی بھی نہیں پیتی تھی۔لیکن یہاں حالات بالکل مختلف تھے۔ چند مہینوں میں ہی وہ دل ہی دل میں کڑھنے لگی، مگر کبھی کسی کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار نہ کرتی۔

ایک بار صائمہ کا بھائی آصف ان کے گھر رہنے آیا، تو وہ سب سمجھ گیا۔ وہ اپنی بہن کے دل کی بات جانتا تھا۔ وہ اسے سمجھانے کے بجائے اس کی غلط سوچ کو بڑھاوا دینے لگا۔ وہ کہتا، "تمہاری شادی کسی کی خدمت کے لیے نہیں ہوئی، تمہیں تمہاری مرضی کی زندگی جینے کا حق ہے۔" صائمہ جو پہلے ہی دل میں شکوے رکھتی تھی، اب اور اندر ہی اندر جلنے لگی۔

وہ دن بھر گھر کے کام کرتی، ساس کی باتوں پر سر ہلاتی، شوہر کے سامنے مسکراتی، مگر جب رات میں سب سو جاتے، یا کوئی دن کے وقت آس پاس نہ ہوتا تو وہ چپکے سے جنگل کی طرف نکل جاتی، جہاں اس کا بھائی اس کا انتظار کرتا۔ وہ صرف آصف کے سامنے اپنے دل کی بھڑاس نکالتی۔ "میں تھک چکی ہوں، مجھے لگتا ہے میں اس گھر میں صرف ایک نوکرانی ہوں،" وہ دھیمے لہجے میں کہتی۔ آصف اسے زخموں پر نمک چھڑکتا "یہ سب تمہارے خاموش رہنے کا نتیجہ ہے، اگر تم نے اب بھی کچھ نہ کیا تو ہمیشہ کے لیے دب کر رہ جاؤ گی۔"

اب صائمہ کے دل میں ایک ضد پیدا ہو گئی تھی، مگر وہ زبان سے کچھ نہ کہتی۔ اس نے اپنا رویہ بدل لیا۔ پہلے جو ساس کے لیے دل لگا کر کام کرتی تھی، اب محض دکھاوے کے لیے ہاتھ پیر ہلاتی ۔ پہلے جو شوہر کی ہر بات خوشی خوشی مانتی تھی، اب خاموشی سے سن کر نظرانداز کر دیتی۔ سب کو لگتا کہ صائمہ پہلے جیسی ہی ہے، مگر اندر ہی اندر وہ ایک جنگ لڑ رہی تھی، جو کسی کو نظر نہیں آرہی تھی۔

دن گزرتے گئے، اور صائمہ کی خاموش ناراضگی بڑھتی گئی۔ صائمہ کبھی منہ سے کوئی شکایت نہ کرتی۔ وہ ہنستی، مسکراتی، سب کے ساتھ بات کرتی، مگر رات کے اندھیرے میں بھائی سے جا کر اپنے دل کی بڑھاس نکالتی۔

یہ جنگ ابھی خاموش تھی، مگر کب یہ خاموشی ایک طوفان میں بدل جائے گی، یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ جب تک موقع ہاتھ نہ لگتا تب تک تو اسے شرافت سے رہنا تھا۔

اب رمضان کا مہینہ آچکا تھا۔جب وہ افطار بناتی تو سوچتی کہ بس کسی طرح موقع ہاتھ لگ جاۓ تو اس بڑھیا کو مزا چکھا دوں کہ اس کی نیک نامی مٹی میں مل جائے۔اب تک اس کی نیت کے بارے میں سواۓ اس کے بھائی کے کسی کو بھی نہیں معلوم تھا۔

رمضان کے پرنور دن اور راتوں میں جہاں ہر طرف جگمگ چہرے تھے وہی اس کا شیطانی دماغ اس کو آمنہ بی کے خلاف کررہا تھا ۔ آمنہ بی جن کے پاس کوئی پرکھوں کی جائیداد نہیں تھی انھوں نے اپنے زور بازو پر بچوں کی پرورش کی تھی ۔پر ایک دن صائمہ نے کچھ ایسا دیکھا کہ جس سے اس کی رال ٹپکنے لگی۔وہ ایک معمول کا دن تھا۔ آمنہ بی اپنے کمرے میں عبادت میں مصروف تھیں۔ روشنی مدھم تھی، اور وہ خاموشی سے اللہ کا ذکر کر رہی تھیں۔ اچانک، صائمہ وہاں سے گزری تو اس نے دیکھا کہ آمنہ بی ایک صندوق کے اندر جھانک رہی تھیں، اور اس صندوق سے روشنی پھوٹ رہی تھی۔ صائمہ وہیں دروازے کے قریب رک گئی اور چھپ کر دیکھنے لگی۔ اس کے دل میں فوراً شک پیدا ہوا، "اچھا! تو یہ غریبی کا ڈھونگ رچاتی ہیں، اصل میں ان کے پاس بہت سونا اور دولت چھپی ہوئی ہے!" اس کی آنکھوں میں لالچ ابھرنے لگا۔


صائمہ جس کو شادی کے بعد اس کے والد نے صاف کہہ دیا تھا کہ "جو تمہارا شوہر کھلائے پلائے، اسی میں گزارا کرو، ہم سے کوئی امید نہ رکھو۔ یہ بات صائمہ کو ہمیشہ چبھتی رہی تھی۔ اب موقع مل ہی گیا کہ وہ کچھ کردکھائے۔

وہ سوچنے لگی، "اگر یہ دولت میرے ہاتھ لگ جائے تو میری ساری تکلیفیں دور ہو جائیں گی۔ شوہر تو مجھے کچھ نہیں دے سکتا، کم از کم ساس کی دولت ہی میرے کام آ جائے!" مگر سوال یہ تھا کہ وہ یہ دولت حاصل کیسے کرے؟ اگر سیدھا مانگتی تو آمنہ بی کبھی بھی نہ دیتیں، اور اگر زبردستی کرتی تو بات بگڑ سکتی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔

اسی کشمکش میں، ایک دن اس نے اپنی جٹھانیوں کو ایک ساتھ بٹھایا اور چالاکی سے ان کے دل میں بھی لالچ ڈالنا شروع کیا۔ "دیکھیں، ہم سب دن رات اس بڑھیا کی خدمت کرتے ہیں، ہمارے شوہر بھی اپنی ماں کے دیوانے ہیں، لیکن ایک راز کی بات سنیں۔ یہ بڑھیا اپنے پاس ایک بہت بڑی دولت چھپا کر بیٹھی ہے، اور ہم سب کو اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا!"

بڑی بھابھیاں، جو ہمیشہ دب کر رہتی تھیں، اب حیران ہو کر صائمہ کی باتیں سن رہی تھیں۔ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ آمنہ بی کے پاس دولت کا خزانہ ہو سکتا ہے۔ پہلے تو وہ کچھ بولیں نہیں، مگر جب صائمہ نے ان کے دل میں لالچ بھرا تو وہ بھی جال میں پھنس گئیں۔ایک بہو بولی "اگر واقعی ایسا ہے تو ہمیں اس کے بارے میں کچھ کرنا چاہیے، دوسری بھابھی عیاری سے کہنے لگی"اگر وہ ہمیں یہ صندوق دینا چاہتی تو پہلے ہی دے دیتی، اس کا مطلب ہے کہ وہ دولت اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے!"

اب سب بہوؤں کے دل میں لالچ پیدا ہو چکا تھا۔ وہ سب مل کر کوئی ایسا طریقہ سوچ رہی تھیں کہ "سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔" کسی کو بھی کھل کر ساس کے خلاف جانے کی ہمت نہیں تھی، لیکن سب کا دل چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح یہ دولت ان کے ہاتھ آ جائے۔

ایک دن صائمہ نے ایک نئی ترکیب نکالی۔ اس نے جٹھانیوں سے کہا، "میں ایک ایسے عامل کو جانتی ہوں جو بڑے بڑے کام بنا دیتا ہے۔ اگر ہم سب مل کر اس کے پاس جائیں، تو وہ ہمیں کوئی ایسا طریقہ بتا سکتا ہے جس سے ہم یہ دولت حاصل کر سکیں، بغیر کسی کو شک میں ڈالے!" سب بہوئیں پہلے تو ڈر گئیں، مگر پھر لالچ کے آگے ہار مان گئیں۔

صائمہ نے بتایا کہ وہ عامل جنگل میں رہتا ہے،وہ بڑے بڑے کام چٹکی بجا کر کردیتا یے اور وہ اس طرح کا عمل کر سکتا ہے کہ آمنہ بی بی خود ہی اپنی دولت ان کے حوالے کر دیں۔ لیکن یہ کام تب ہی ہو سکتا تھا جب ان کے شوہر کام پر گئے ہوں، تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ سب نے منصوبہ بنایا کہ جیسے ہی موقع ملے گا، وہ سب بہانے سے عامل کے پاس جائیں گی۔

اب وہ وقت قریب آچکا تھا جب بہوؤں کی چالاکی اور لالچ کا امتحان ہونے والا تھا۔ وہ سب بےچینی سے اس دن کا انتظار کر رہی تھیں، جب گھر میں کوئی مرد نہ ہوگا، اور وہ اپنی سازش کو کامیاب بنا سکےگیں۔ دولت کی چمک نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا تھا۔

جب بڑی جٹھانی کا شوہر مچھلیاں پکڑنے چلا گیا اور دوسری جٹھانیوں کے شوہر بھی اپنے اپنے کاموں پر روانہ ہو چکے تھے، تو صائمہ کے لیے موقع اچھا تھا کہ وہ اپنی چال کو عملی جامہ پہنائے۔ لیکن ایک مشکل ابھی باقی تھی۔ اس کا اپنا شوہر دانش ابھی تک گھر میں تھا۔ وہ جانے کے لیے تیار نہیں تھا، کیونکہ آمنہ بی کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔ وہ روزے سے تھیں اور کمزوری محسوس کر رہی تھیں، اس لیے دانش ان کے پاس رکنا چاہتا تھا۔

صائمہ نے فوراً موقع کی نزاکت کو سمجھا اور چالاکی سے بات سنوارنے لگی۔ اس نے دانش کو یقین دلایا کہ ان کی ساس کی دیکھ بھال کے لیے وہ اور باقی بہوئیں کافی ہیں۔سات بہوئیں اکلوتی ساس کی خدمت کر سکتی ہیں، اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ اس نے دانش کو نرمی اور پیار سے سمجھایا کہ وہ اپنا کام چھوڑ کر گھر پر رکنے کی فکر نہ کرے، وہ خود امی کا خیال رکھ لے گی۔

دانش کو صائمہ کی باتوں پر یقین آ گیا، اور وہ کام پر چلا گیا۔ جیسے ہی وہ گھر سے نکلا، صائمہ نے جلدی سے اپنی جٹھانیوں کو اشارہ کیا۔ سب بہوئیں پہلے سے تیار تھیں، وہ دبے قدموں باہر نکلیں۔ آمنہ بی بی اپنے کمرے میں عبادت میں مصروف تھیں اور ان کی عبادت ہمیشہ گھنٹوں جاری رہتی تھی۔ یہ ان کے لیے بہترین موقع تھا۔

صائمہ اور اس کی جٹھانیاں ایک سنسان راستے پر چلتی چلتی جنگل پہنچیں، جہاں ایک عامل پہلے سے موجود تھا۔ وہ ایک بڑے درخت کے نیچے بیٹھا آنکھیں بند کیے کچھ پڑھ رہا تھا۔ اس کے چاروں طرف تعویذ اور عجیب و غریب چیزیں بکھری ہوئی تھیں۔ جیسے ہی وہ بہوئیں وہاں پہنچیں، عامل نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں اور ایک نظر ان سب پر ڈالی۔

عامل نے انہیں غور سے دیکھا اور بولا کہ وہ جانتا ہے وہ کس کام سے آئی ہیں۔ وہ پہلے ہی ان کے ارادوں کو بھانپ چکا تھا۔ اس نے کہا کہ وہ ان کا کام کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے اسے کچھ دھَن (دولت) چاہیے۔ صائمہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر کہا کہ جو بھی مانگے گا، اسے دیا جائے گا، کیونکہ وہ سب اسی دولت کے لیے آئی ہیں۔

عامل نے سر ہلایا اور کہا کہ کام آسان نہیں ہوگا، لیکن اگر وہ اس کے طریقے پر عمل کریں تو کامیابی یقینی ہوگی۔ اس نے بتایا کہ انہیں ایک خاص عمل کرنا ہوگا، جس کے ذریعے آمنہ بی کی طاقت کمزور ہو جائے گی اور وہ اپنی دولت خود ان کے حوالے کر دیں گی۔ اس کے ساتھ ہی، اس نے ایک تعویذ نکال کر بہوؤں کے حوالے کیا 

بہوئیں بےحد خوش ہو گئیں۔ انہیں لگا کہ ان کی مشکل آسان ہو گئی ہے اور جلد ہی وہ اس دولت پر قبضہ جما لیں گی۔ صائمہ سب سے زیادہ پرجوش تھی، کیونکہ یہ منصوبہ اسی کا بنایا ہوا تھا۔ اس نے اپنی جٹھانیوں کو یقین دلایا کہ اب ان کے شوہروں کو بھی اپنی ماں سے زیادہ بیویوں کی اہمیت سمجھ میں آئے گی۔

عامل نے کچھ چیزیں انہیں دیں اور کہا کہ جو کچھ بھی ہوگا، اس کا اثر صرف آمنہ بی پر پڑے گا، لیکن انہیں بہت محتاط رہنا ہوگا کہ کسی کو کوئی شک نہ ہو۔ اگر عمل کامیاب ہو گیا، تو آمنہ بی بی خود ان کے سامنے اپنی دولت رکھ دیں گی۔ لیکن اگر کچھ غلط ہو گیا، تو نتیجہ الٹا بھی ہو سکتا ہے۔

بہوئیں یہ سن کر کچھ لمحے کے لیے خاموش ہو گئیں، مگر لالچ کے آگے سب باتیں معمولی لگ رہی تھیں۔ وہ جنگل سے واپس آ گئیں، اور سب کے دل میں ایک ہی بات تھی— اب دولت ان کے ہاتھ میں آنے والی ہے۔ لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کے لالچ اور سازش کا نتیجہ کیا ہوگا۔

رات کے اندھیرے میں جب سب اپنے بستروں پر تھیں، صائمہ کی آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔ وہ بےچینی سے اس لمحے کا انتظار کر رہی تھی جب وہ عامل کی دی گئی ترکیب کو آزما سکے گی۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی جیت حاصل کرنے والی ہے۔پھر صائمہ مکاری سے مسکرا نے لگی۔ اسے اپنے چالاک ذہن پر بے حد ناز تھا کہ کیسے اس نے اپنی جٹھانیوں کو اپنی باتوں میں الجھا رکھا تھا۔ وہ سب اپنی جگہ خوش تھیں کہ وہ مل کر آمنہ بی بی کی دولت حاصل کرنے کے لیے ایک عامل کے پاس جا رہی ہیں، مگر انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ صائمہ اصل میں کچھ اور ہی کھیل کھیل رہی ہے۔ وہ درحقیقت اپنے بھائی اصف کے ساتھ مل کر کسی اور عامل کے پاس جا رہی تھی، جو کوئی عام عامل نہیں تھا بلکہ جادوگری کی دنیا کا سب سے بڑا جادوگر ہامان تھا۔

صائمہ کو معلوم تھا کہ اس کی جٹھانیاں بیوقوف نہیں تھیں بلکہ بہت شاطر تھیں۔ اگر وہ صائمہ کی سازش کو ذرا بھی سمجھ جاتیں، تو اس کے سارے منصوبے پر پانی پھیر دیتیں۔ اسی لیے صائمہ نے انہیں ایک الگ راستے پر لگایا، تاکہ وہ اس کی اصل چال کو نہ سمجھ سکیں۔ اس نے انہیں ایک جعلی عامل کے پاس لے جا کر مطمئن کر دیا، جبکہ وہ خود اور اس کا بھائی کسی اور بڑے کھیل کی تیاری کر رہے تھے۔

ہامان ایک ایسا جادوگر تھا جس کے پاس بڑے بڑے لوگ اپنے کام نکلوانے آتے تھے۔ اس کے علم میں اتنی طاقت تھی کہ وہ کسی کو بھی اپنی مرضی کے مطابق قابو میں کر سکتا تھا۔ صائمہ کے بھائی نے اس کے پاس جا کر اپنی خواہش ظاہر کی، اور ہامان نے اسے یقین دلایا کہ وہ ان کا کام کر دے گا، مگر اس کے لیے انہیں بےحد صبر اور مکمل یقین رکھنا ہوگا۔

یہ کام اتنا آسان نہیں تھا۔ کئی دنوں سے وہ عمل جاری تھا، مگر ہر بار کسی نہ کسی طرح رکاوٹ آجاتی تھی۔ صائمہ کی بےچینی بڑھ رہی تھی۔ وہ سب کچھ فوراً حاصل کرنا چاہتی تھی اور ایک پل بھی انتظار کے لیے تیار نہیں تھی۔ اسے لگا تھا کہ یہ کام پلک جھپکتے ہی ہو جائے گا، مگر ہر بار ناکامی اس کا راستہ روک لیتی تھی۔

اسے ایک اور خوف بھی تھا— جٹھانیاں بہت چالاک تھیں، اگر انہیں کچھ بھی محسوس ہوا، تو وہ اس کی ساری محنت برباد کر سکتی تھیں۔ وہ کسی بھی حال میں اپنی دولت ان کے ساتھ بانٹنا نہیں چاہتی تھی، وہ سب کچھ اکیلے حاصل کرنا چاہتی تھی۔

اس دن صائمہ کی بےچینی بڑھ رہی تھی۔ آج اس کا بھائی اصف ہامان سے ملنے گیا تھا اور وہ جلدی سے اس کی خبر لینا چاہتی تھی۔ اسے امید تھی کہ شاید آج ان کا منصوبہ پورا ہو جائے۔ دوسری طرف، اصف جیسے ہی ہامان کے پاس پہنچا، تو وہ بہت غصے میں تھا۔

ہامان نے غصے سے کہا، "تمہیں کیا خبر کہ جس عورت کی موت کے لیے تم لوگ میرے پاس آئے ہو، اسے ختم کرنا اتنا آسان نہیں ہے! اگر میں اسے مار بھی دوں، تو بھی وہ بزرگ اسے واپس لے آئیں گے۔ تمہیں اندازہ نہیں کہ وہ کتنے طاقتور ہیں۔"

اصف نے حیرانی سے کہا، "تو پھر کوئی نہ کوئی حل نکالنا پڑے گا۔ میری بہن صائمہ سخت پریشان ہے۔ آخر تمہارا جادو کس کام کا، جب تم ایک بوڑھی عورت کو ہرا نہیں پا رہے؟" اصف کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ہامان کیوں لرز رہا تھا۔

اصل میں، ہامان جانتا تھا کہ وہ بزرگ کوئی عام آدمی نہیں تھے۔ ان کا نام شاہ جی تھا، اور وہ اللہ کے نیک بندے تھے۔ وہ کئی جادوگروں کو شکست دے چکے تھے۔ بہت عرصے پہلے ہامان کا شاہ جی سے سامنا ہوا تھا، جب شاہ جی نے اسے خبردار کیا تھا کہ وہ اپنے شیطانی عمل سے باز آ جائے ورنہ انجام برا ہوگا۔

مگر ہامان ہار ماننے والا نہیں تھا پھر ایک دن وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ شاہ جی کے پاس پہنچا۔ شاہ جی اس وقت تسبیح پڑھ رہے تھے۔ ہامان نے ان پر آگ پھینکی، لیکن حیرت انگیز طور پر آگ شاہ جی کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ پھر ہامان نے آندھی بنا کر ان پر حملہ کیا، لیکن اللہ کی قدرت سے وہ آندھی بھی شاہ جی کو ہلا نہ سکی۔

بلکہ شاہ جی نے ہامان کو زمین پر پٹخ دیا۔ اس وقت ہامان بے بس ہو گیا اور وہاں سے بھاگ نکلا، لیکن جاتے جاتے کہہ گیا، "میں لوٹ کر آؤں گا اور تمہارا سب کچھ برباد کر دوں گا!" شاہ جی نے جواب دیا، "اللہ جس کے ساتھ ہوتا ہے، اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔"

اب ہامان پھر اپنی شیطانی طاقت کا استعمال کر رہا تھا، لیکن اسے ہر بار ناکامی ہو رہی تھی۔ اس نے آنکھیں بند کیں، اور کچھ پڑھنے لگا۔

اچانک اس کی آنکھیں جلنے لگیں، اور اس نے کہا، "اب بس ایک کام باقی ہے۔ اگر خون کا ایک قطرہ مل جائے، تو میں شاید کچھ کر سکوں۔"

اصف فوراً صائمہ سے ملا اور سرگوشی میں کہا، "تمھیں اپنی ساس کے خون کا ایک قطرہ لانا ہے صائمہ نے حیرت سے دیکھا، پھر شیطانی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آگئی۔اسے لگا تھا یہ بہت آسان ہوگا پر صائمہ بار بار کوشش کر رہی تھی کہ کسی نہ کسی طرح آمنہ بی بی کے خون کا ایک قطرہ حاصل کر لے، مگر عجیب بات تھی کہ جب بھی وہ کوئی چال چلتی، وہ ناکام ہو جاتی۔ کبھی چھری تیز ہونے کے باوجود آمنہ بی کا ہاتھ نہیں کٹتا، تو کبھی وہ خود ہی کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر بچ جاتیں۔ صائمہ حیران تھی کہ آخر کون سی ایسی طاقت ہے جو آمنہ بی کو ہر بار بچا لیتی ہے۔ یہ سب دیکھ کر وہ جھنجھلا گئی، لیکن اس نے ہار ماننے کے بجائے ایک نیا طریقہ سوچنے کا فیصلہ کیا۔

کافی غور و فکر کے بعد صائمہ کو ایک ترکیب سمجھ آہی گئی۔ اس نے سوچا کہ اگر سیدھے طریقے سے خون حاصل نہیں ہو سکتا تو کسی چالاکی سے لینا ہوگا۔ اس نے ارادہ کیا کہ وہ آمنہ بی کو کوئی ایسا کام کرنے کے لیے کہے گی، جہاں وہ خود ہی انجانے میں اپنا خون گرا دیں۔ اس بار وہ بہت محتاط تھی اور اس نے بڑی ہوشیاری سے اپنا منصوبہ تیار کر لیا، تاکہ کوئی بھی اس کی چالاکی کو سمجھ نہ سکے۔

آمنہ بی جو ہمیشہ اپنی بہوؤں کے کام میں ہاتھ بٹایا کرتی تھیں۔ ایک دن صائمہ ان کے پاس آئی اور میٹھے لہجے میں بولی، "امی، کیا آپ سبزی کاٹ دیں گی؟" آمنہ بی بی نے مسکرا کر کہا، "کیوں نہیں، بیٹی! لاؤ، میں کاٹ دیتی ہوں۔" صائمہ نے جلدی سے سبزی اور چھری لا کر ان کے ہاتھ میں تھما دی۔

آمنہ بی بی جیسے ہی سبزی کاٹنے لگیں، تو انہیں محسوس ہوا کہ چھری معمول سے زیادہ تیز دھار ہے۔ یہ وہی چھری تھی جسے صائمہ نے خاص طور پر تیز کروایا تھا، تاکہ آمنہ بی بی کے ہاتھ میں کٹ لگ جائے اور وہ کسی طرح ان کے خون کا قطرہ حاصل کر سکے۔ آمنہ بی بی نے بے دھیانی میں سبزی کاٹنی شروع کی، اور اچانک ان کی انگلی پر چھری چل گئی۔ خون کا ایک قطرہ انگلی سے ٹپکنے لگا۔

صائمہ کی آنکھوں میں چمک آگئی۔

جیسے ہی آمنہ بی بی کی انگلی سے خون کا قطرہ ٹپکا، صائمہ نے فوراً ایک صاف کپڑے سے ان کی انگلی دبا دی اور میٹھے لہجے میں بولی، "امی، زیادہ خون بہنے نہ پائے، میں آپ کی مدد کر دیتی ہوں!" آمنہ بی بی نے محبت سے سر ہلایا، انہیں اندازہ بھی نہیں تھا کہ ان کی بہو کی نیت کیا ہے۔ صائمہ نے نہایت چالاکی سے کپڑے میں لگے خون کے قطرے کو بچا کر رکھ لیا۔


وہ بےچینی سے موقع کا انتظار کرنے لگی کہ کب اپنے بھائی اصف کو یہ خون کا قطرہ پہنچائے۔ آخر کار، رات کے اندھیرے میں جب سب لوگ سو چکے تھے، تو وہ دبے قدموں باہر نکلی اور طے شدہ جگہ پر جا کر اصف کو وہ کپڑا دے دیا، جس میں آمنہ بی بی کا خون تھا۔ "یہ لو، اب ہامان کو دے آؤ اور اسے کہو کہ جلدی عمل مکمل کرے!" صائمہ نے سرگوشی میں کہا۔ اصف نے کپڑا لیا اور محتاط نظروں سے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے تیزی سے نکل گیا۔

آصف سیدھا ہامان کے پاس پہنچا اور خون کا کپڑا ہامان کو دے دیا یہ دیکھتے ہی ہامان کی آنکھیں چمکنے لگیں۔

اب ہامان سنسان جنگل میں بیٹھا تھا۔ چاروں طرف گھنا اندھیرا تھا، اور درختوں کے پتّے ہوا میں سرسرا رہے تھے۔ اس کے سامنے زمین پر ایک چمکدار دائرہ بنا تھا، جس میں وہ آمنہ بی کے خون کی چند بوندیں ڈال چکا تھا۔ جیسے ہی خون دائرے میں گرا، ایک سیاہ شعلہ بلند ہوا اور دائرے کے اندر چکر کاٹنے لگا۔ ہامان نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور شیطانی ورد شروع کر دیا۔ اس کے چہرے پر ایک مکروہ مسکراہٹ تھی، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ آمنہ بی اب اس کے قابو میں آنے والی ہیں۔

کچھ دیر بعد، ہامان نے آنکھیں کھولیں۔ اس کی آنکھیں خون کی طرح سرخ ہو چکی تھیں، اور اس کے ارد گرد ایک عجیب سی دھند پھیلنے لگی۔ وہ سرگوشی میں بولا، "اب وقت آ گیا ہے کہ میں آمنہ بی بی کے ذہن اور یادداشت پر قابو پا لوں!"

اسی وقت، آمنہ بی بی جو اپنے کمرے میں عبادت میں مصروف تھیں، چونک اٹھیں۔ انہیں محسوس ہوا جیسے ان کا سر بھاری ہو گیا ہے، اور دماغ دھندلا ہونے لگا ہے۔ ہاتھ کانپنے لگے، اور ایک لمحے کے لیے انہیں لگا جیسے کوئی ان کے ذہن پر قبضہ کررہا ہے ۔ان کا دل ڈوبنے لگا۔ لیکن وہ سمجھ نہیں پا رہی تھیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

جنگل میں بیٹھا ہامان یہ سب محسوس کر رہا تھا اور خوشی سے ہنسنے لگا۔ "ہاہاہا! اب یہ بڑھیا اپنی یادداشت کھو دے گی، اپنے بیٹے کو نہیں پہچانے گی، اور سب کو پاگلوں کی طرح دیکھے گی!" اس کا ارادہ تھا کہ آمنہ بی کو کمزور کر دے، تاکہ گھر میں صائمہ کی حکومت ہو جائے اور سب کچھ اصف اور صائمہ کے قابو میں آجائے سے بڑھ کر اس سے خوشی تھی اپنی جیت کی کیونکہ یہ سب وہ اپنے لیے ہی تو کر رہا تھا ایک پاکیزہ روح کو اپنے قبضے میں کرنا چاہتا تھا 

آمنہ بی کی طبیعت اب مسلسل خراب رہنے لگی تھی۔ وہ بیٹھے بیٹھے رونے لگتی تھیں اور اکیلے میں کچھ باتیں بھی کرتی رہتی تھیں۔ گھر کی بہو صائمہ، جو پہلے ہی اپنی ساس سے بغض رکھتی تھی، یہ سب دیکھ کر خوش ہوتی تھی۔ اس نے اپنی جٹھانیوں کو بھی اطلاع دے دی کہ عامل نے اپنا کام شروع کر دیا ہے اور آمنہ بی کی حالت بگڑ رہی ہے۔ عامل ہامان نے کہا تھا کہ جب تک ممکن ہو، اپنی ساس کو تکلیف دو، مگر بیٹوں کے سامنے کچھ ظاہر نہ ہونے دو۔

جب آمنہ بی کے بیٹے کام پر چلے جاتے تو صائمہ اور اس کی جٹھانیاں اسے ستانے لگتیں۔ وہ اس سے پانی بھرواتیں اور طرح طرح کی باتیں سنا کر تنگ کرتیں۔ آمنہ بی کا ذہن کمزور پڑنے لگا، اور وہ چیزیں بھولنے لگیں۔ اس کی حالت دن بہ دن بگڑ رہی تھی، مگر جب بھی وہ تنہائی میں ہوتی، دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیتی اور اللہ سے مدد مانگتی رہتی۔


ایک دن دانش جب اپنی ماں کے پاس آیا تو آمنہ بی نے اسے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ یہ دیکھ کر دانش اور اس کے بھائی سخت پریشان ہو گئے۔ دوسری طرف، صائمہ ایک بار پھر اچھی بہو بننے کا ڈھونگ رچانے لگی۔ وہ اپنی ساس کا خیال رکھنے کا دکھاوا کرتی، جس کی وجہ سے دانش کو سکون رہتا۔ ماں کے لیے سات بیٹوں کی محبت فطری تھی، مگر ساتوں بہوئیں دشمن بن چکی تھیں اور اس کی تباہی کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھیں۔

ہامان کا جادو تیزی سے اثر کر رہا تھا، اور اب وہ اپنے شیطانی عمل کو مزید بڑھانے والا تھا۔ کچھ دن بعد، اس نے صائمہ کو ایک خوفناک پیغام بھجوایا۔ اس نے کہا کہ اگر صائمہ اور اس کی جٹھانیاں اپنے شوہروں پر مکمل حکومت چاہتی ہیں اور ساس کی چھپی دولت پانا چاہتی ہیں تو انہیں اپنی ساس کا گوشت کھانا ہوگا۔ وہ کوئی عام حکم نہیں تھا بلکہ ایک ایسا خوفناک مطالبہ تھا جسے سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔


یہ بات سن کر صائمہ کچھ دیر کے لیے سن ہو گئی۔ انسان کا گوشت کھانے کا خیال ہی اسے لرزا دینے کے لیے کافی تھا۔ مگر ہامان نے سختی سے کہا تھا کہ اگر خزانے کا راز پانا ہے اور شوہروں کو غلام بنانا ہے، تو انہیں یہ کام کرنا ہی ہوگا۔ ہامان کا جادو تب ہی مکمل ہوگا جب آمنہ بی کا گوشت پکایا جائے اور پورے گھر کو کھلایا جائے۔


صائمہ نے یہ بات اپنی جٹھانیوں کو بتائی تو وہ سب پہلے تو ڈر گئیں اور انکار کر دیا۔ ان میں سے ایک نے کہا، "ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ ہم آدم خور تو نہیں!"ہم مسلمان ہیں حرام گوشت کیسے کھاسکتے ہیں۔ لیکن صائمہ نے انہیں بہکانے کی کوشش کی۔ اس نے کہا، "کیا تم خزانہ نہیں چاہتیں؟ کیا تم اپنے شوہروں کو اپنے قابو میں نہیں کرنا چاہتیں؟ اگر ایسا چاہتے ہو، تو وہی کرو جو عامل نے کہا ہے۔

یہ بات سن کر سب بہوئیں گہری سوچ میں پڑ گئیں۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ کام نہایت خوفناک ہے، مگر ان کے دل میں لالچ بھی تھا۔ آخرکار، وہ اس بات پر راضی ہو گئیں کہ وہ آمنہ بی کو قتل کریں گی اور اس کے گوشت کو پکا کر کھائیں گی۔

اب ان کے درمیان یہ منصوبہ بننے لگا کہ ساس کو کس دن اور کیسے قتل کیا جائے۔ وہ ہر پہلو پر غور کر رہی تھیں تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ ان کی آنکھوں میں اب صرف دولت چمک تھی، اور وہ اپنے ضمیر کو مکمل طور پر دفن کر چکی تھیں۔

سچ ہے کہ لالچ انسان سے کیا کچھ کروا سکتی ہے، وہ اپنا ضمیر، رشتے اور یہاں تک کہ انسانیت بھی بیچ سکتا ہے۔

رمضان کے مقدس مہینے میں، جب ہر نیکی کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے، اس گھر میں ایک بھیانک سازش تیار کی جا رہی تھی۔ جہاں لوگ اس مہینے میں عبادت اور بھلائی کی طرف راغب ہوتے ہیں، وہیں چھوٹی بہو صائمہ اپنی ساس کو قتل کرنے کی تدبیریں سوچ رہی تھی۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنی جٹھانیوں کو بھی قائل کر لیا، اور جب سب نے دل سخت کر لیا، تو انہوں نے آمنہ بی کو بہانے سے کمرے میں لے جا کر بےدردی سے قتل کر دیا۔

آمنہ بی پہلے ہی اپنے حواس میں نہیں تھیں، وہ اپنی تکلیفیں بھی بھولتی جا رہی تھیں۔ وہ بےبس تھیں اور کسی سے اپنی تکلیف کہنے کے قابل بھی نہ تھیں اور پھر صائمہ کو موقع مل گیا وہ بہلا پھسلا کر آمنہ ماں کو جنگل لے گئی یہ سازش بنانے والا آصف تھا جو ہم نبی کو مارنے کے لیے سارا انتظام کر چکا تھا اور جب سائیواں امنہ ماں کو لے کر جنگل بہت ہی تو پھر اس ظالم شخص نے ایسا وار کیا کہ امنامہ ایک ہی جھٹکے میں زمین پر گر گئی اور کی موت ہو گئی پھر اس ظالم نے اپنی بہن کے ساتھ مل کر اس کے جسم کی بوٹیاں بنائیں وہ دونوں ایمان سے ایسے خارج ہو چکے تھے کہ انہیں نہ شرم ائی نہ خوف اور ندامت محسوس ہوئی۔ صائمہ اپنی جٹھانیوں کو بتا چکی تھی کہ وہ آمنہ ماں کا گوشت لے کر آرہی ہے جب تک وہ کھانا بنانے کی تیاری کریں ان سب نے بڑی بے رحمی سے ایک بڑی دیگ چڑھادی۔ ایسا لگ رہا تھا کوئی بڑی دعوت ہے جب صائمہ ساس کا گوشت لے آئی تو سب ملکر ساس کا گوشت کو پکانے لگیں، جیسے کسی جانور کا گوشت ہو۔

افطار کا وقت قریب آرہا تھا، اور گھر میں گوشت کی بریانی کی خوشبو پھیل چکی تھی۔ جب آمنہ بی کے بیٹے کام سے لوٹے تو ایک بیٹے نے حیرت سے کہا، "بڑی مزیدار خوشبو آرہی ہے، کیا بنایا ہے؟" اس کی بیوی فوراً بولی، "آپ سب کی پسندیدہ بریانی پکائی ہے۔" سب خوش تھے کہ روزے کے بعد عمدہ کھانے کا انتظام کیا گیا ہے۔

دانش کو خیال آیا کہ اماں نظر نہیں آرہیں، تو اس نے پوچھا، "ماں کہاں ہیں؟" صائمہ نے چالاکی سے جھوٹ بولا، "خالہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، وہ ان کے پاس گئیں ہیں۔" چونکہ خالہ دوسرے گاؤں میں رہتی تھیں، اس لیے بیٹوں کو کوئی شک نہ ہوا۔ افطار کا وقت ہو چکا تھا اور سب نے بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کر دیا۔

کسی کو معلوم نہ تھا کہ وہ جو بریانی کھا رہے ہیں، وہ اپنی ہی ماں کے گوشت کی بنی ہوئی تھی۔ اس میں اتنے مسالے ملائے گئے تھے کہ کسی کو انسانی گوشت کا ذائقہ محسوس نہ ہو۔ سب نے مزے لے کر کھایا اور تعریفیں بھی کیں۔

صائمہ نے بھی خوشی سے وہی بریانی کھائی، کیونکہ اسے یقین تھا کہ اب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی ہے۔ کھانے کے بعد سب کو بہت زیادہ نیند آنے لگی، جیسے کوئی طاقت انہیں سونے پر مجبور کر رہی ہو۔ ایک ایک کر کے سب اپنے کمروں میں جا کر گہری نیند سو گئے۔

مگر صائمہ جاگ رہی تھی۔ اس کے دل میں خوشی کی ایک عجیب لہر دوڑ رہی تھی۔ وہ جلدی سے آصف سے ملنے کے لیے نکلی۔ جیسے ہی وہ اس کے پاس پہنچی، آصف نے ایک شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "ساس کو پکا کر سب کو کھلا دیا گیا ہے، اب بس انتظار کرو، تمہاری کامیابی مکمل ہو چکی ہے۔"

ہامان کی طرف سے پیغام آیا کہ اب وہ اس گھر کی ملکہ ہے، اس کا شوہر اس کا غلام بن چکا ہے، اور اب وہ جس طرح چاہے حکومت کر سکتی ہے۔ یہ سن کر صائمہ کے چہرے پر خوشی کی چمک آ گئی۔ وہ کتنے دنوں سے اسی لمحے کا انتظار کر رہی تھی، اور اب اس کا خواب پورا ہونے جا رہا تھا۔

جادوگر ہامان تک یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ آمنہ بی کو قتل کر دیا گیا ہے۔ وہ خوشی سے جشن منا رہا تھا کیونکہ اس قتل کے پیچھے اس کا اپنا ہی تو مقصد چھپا ہوا تھا۔ دراصل، وہ شاہ جی کو ہرانا چاہتا تھا اور اسے نیچا دکھانا چاہتا تھا۔ اگر وہ عام طریقے سے آمنہ بی کو مرواتا، تو شاہ جی فوراً جان جاتے اور بدلہ لیتے، لیکن ہامان نے ایک ایسا شیطانی جادو کیا تھا کہ کسی کو بھی اس کا علم نہ ہو سکا۔

ہامان نے آمنہ بی کے خون کا ایک قطرہ اپنے جادو میں استعمال کیا تھا، جس کی وجہ سے شاہ جی کا عمل کچھ وقت کے لیے کمزور پڑگیا تھا اب وہ اپنی جیت پر خوش ہو رہا تھا اور کہہ رہا تھا، "میں نے اس عامل کو شکست دے دی جو کبھی مجھ جیسے بڑے جادوگر سے مقابلہ کرنے چلا تھا۔اس کی چال کامیاب ہو گئی تھی، اور اب وہ بے خوف تھا کہ کوئی اس کے خلاف کچھ نہیں کر سکے گا۔

ادھر صائمہ، جو ساس کے خزانے کو حاصل کرنے کے لیے بےتاب تھی، ایک دن چپکے سے آمنہ بی کے کمرے میں گئی۔ اس نے صندوق کھولنے کی کوشش کی، مگر وہ بالکل بھی نہیں کھل رہا تھا۔ اس نے بہت زور لگایا، لیکن ناکام رہی۔ جتنا زیادہ وہ کوشش کرتی، اتنا ہی صندوق اپنی جگہ جما رہتا، جیسے کسی غیبی طاقت نے اسے بند کر رکھا ہو۔

جب صائمہ سے کچھ نہ ہوا تو اس نے اپنی جٹھانیوں کو بلایا اور سب نے مل کر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ سب نے باری باری کوشش کی، لیکن صندوق پھر بھی نہ کھلا۔ وہ حیران تھیں کہ آخر یہ صندوق کیوں نہیں کھل رہا، جبکہ اس میں ضرور خزانہ چھپا ہوا ہے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ وہ شوہروں سے مدد بھی نہیں مانگ سکتی تھیں، کیونکہ اگر وہ پوچھتے کہ انہیں صندوق کھولنے کی ضرورت کیوں پڑی، تو ساری حقیقت سامنے آجاتی۔

رات ہو چکی تھی، وہ خاموشی سے بستر پر لیٹ گئی۔ اس نے سوچا کہ صبح آصف سے کہے گی کہ وہ صندوق کھول کر دیکھے۔ اس کا شوہر دانش پہلے ہی سو چکا تھا۔ اچانک، اس نے کسی کی دبی دبی چیخیں سنیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی مدد کے لیے پکار رہا ہو، مگر آواز صاف نہ تھی۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا، مگر کچھ نظر نہ آیا۔

صبح دانش نے اپنی بیوی سے پوچھا، "اماں جی کو کافی دن ہو گئے، وہ واپس کیوں نہیں آئیں؟ مجھے ان کی یاد ستا رہی ہے۔" اس کی بیوی نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی، مگر دانش کو تسلی نہ ہوئی۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ خود اپنی ماں کو خالہ کے گھر سے لے کر آئے گا۔ وہ فوراً وہاں جانے کی تیاری کرنے لگا۔


دانش جب خالہ کے گھر پہنچا تو اس نے حیران کن بات سنی۔ خالہ نے بتایا کہ اس کی ماں تو وہاں کبھی آئی ہی نہیں! یہ سن کر دانش کی پریشانی بڑھ گئی۔ اس نے گاؤں کے ہر کونے میں جا کر اپنی ماں کو تلاش کیا، مگر وہ کہیں بھی نہیں ملی۔ اس کے بھائی بھی اپنی جگہ ماں کو ڈھونڈنے میں لگے ہوئے تھے، مگر وہ کہیں نظر نہ آئیں۔ اگر وہ زندہ ہوتیں تو کسی نہ کسی کو ضرور ملتیں۔


اپنی ماں کی گم ہونے کا صدمہ دانش کو اندر سے کھائے جا رہا تھا۔ وہ اکثر سوچتا کہ آخر وہ کہاں جا سکتی ہیں؟ وہ کھوئے کھوئے رہنے لگا اور کھانے پینے کا بھی ہوش نہ رہا۔ دن رات ایک ہی سوال ذہن میں گردش کرتا کہ آخر اماں جی کہاں چلی گئیں؟


ایک دن وہ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے گیا۔ اچانک، اس کے کانوں میں قرآن پاک کی تلاوت کی ایک نہایت خوبصورت آواز پڑی۔ اس نے زندگی میں کبھی اتنی دلکش اور روح کو سکون دینے والی آواز نہیں سنی تھی۔ وہ حیران ہوا کہ جنگل میں یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے؟


وہ آواز کے پیچھے پیچھے چل پڑا اور جلد ہی اس کی نظر ایک نہایت خوبصورت اور نورانی بزرگ پر پڑی۔ وہ ایک چٹان پر بیٹھے قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔ ان کے چہرے پر عجب سی روشنی تھی۔ جیسے ہی بزرگ کی نظر دانش پر پڑی، وہ مسکرا دیے۔

انہوں نے دانش کے چہرے کی اداسی کو دیکھی تو پوچھا، "بیٹا، کیوں پریشان ہو؟" دانش کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے اپنی ماں کی گمشدگی کی ساری کہانی سنا دی۔ بزرگ نے آنکھیں بند کر لیں اور گہری سانس لی، پھر بولے، "تمہاری والدہ آسانی سے نہیں ملیں گی۔ ان پر بہت برا ظلم ہو چکا ہے، مگر ظالم خود اپنے جرم قبول نہیں کرے گا۔" یہ سن کر دانش کی سانسیں رکنے لگیں۔ اس کے ذہن میں کئی سوال گردش کرنے لگے۔ اب وہ ہر حال میں اس راز سے پردہ اٹھانا چاہتا تھا۔ وہ اللہ والے جن سے سے وہ ملا کوئی اور نہیں 

شاہ جی تھے جب انہیں اپنے علم سے پتا چلا کہ آمنہ بی کسی بڑی مشکل میں پھنس چکی ہے، تو وہ بہت پریشان ہو گئے۔ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ کوئی بڑا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے، لیکن انہیں پوری سچائی معلوم نہیں تھی۔ اسی لیے وہ گاؤں پہنچے، مگر وہاں جا کر حیران رہ گئے کیونکہ آمنہ بی کی موت ہوگئی تھی اور ان کی کوئی قبر موجود ہی نہیں تھی۔ ان کے لیے یہ بہت بڑا سوال تھا کہ آخر وہ کہاں گئی اور اس کے ساتھ کیا ہوا؟

شاہ جی نے اس راز کو جاننے کے لیے عبادت اور غور و فکر کا فیصلہ کیا۔ وہ اللہ سے مدد مانگتے رہے اور گہری سوچ میں ڈوبے رہے۔ 

دانش اپنی ماں سے بےحد محبت کرتا تھا، اور اگر اسے فوراً سچائی بتا دی جاتی، تو وہ غصے میں آ کر اپنی بیوی صائمہ کو مار ڈالتا۔ وہ جذباتی اور غصیلا تھا، اور اپنی ماں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ شاہ جی نے اسے اس وقت کچھ نہ بتایا۔ انہیں معلوم ہو گیا کہ آمنہ بی کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ عام دشمنی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے کالا جادو، لالچ اور دھوکہ تھا۔ جادوگر ہامان نے آمنہ بی کے خون کے چند قطروں سے ایک ایسا خوفناک جادو کیا تھا، جس کے بعد آمنہ بی کی اپنی ہی بہوؤں نے اسے مار کر افطار میں پکا کر کھا لیا تھا۔ یہ سن کر شاہ جی کا دل دہل گیا، مگر انہوں نے صبر سے کام لیا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اس کھیل کے پیچھے ایک بڑا راز چھپا ہے۔

یہ سب کچھ ایک خاص صندوق کے لیے کیا گیا تھا، جو آمنہ بی کے پاس تھا 

مگر اس بھیانک کھیل میں صرف بہوئیں شامل نہیں تھیں، بلکہ صائمہ کا بھائی آصف بھی اس میں شریک تھا۔ وہ ہامان کے ساتھ ملا ہوا تھا اور جادو کے ذریعے اس صندوق تک پہنچنے کا راستہ بنا رہا تھا۔ آصف جانتا تھا کہ اگر آمنہ بی ختم ہو جائے، تو اس کا مقصد آسانی سے پورا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس نے ہامان کے ذریعے آمنہ بی پر جادو کروایا، اور بہوؤں کو ایسا کرنے پر اکسایا۔

اب ان کو اس کی سزا تو ملنی ہی تھی۔

ساتوں بیٹے الگ الگ ماں کو تلاش کررہے تھے دانش البتہ اللہ والے کی بات پر چپ تھا ۔ وہ رات بہت نورانی تھی جب شاہ جی لاٹھی ٹیکتے ہوئے ان کے گاؤں میں داخل ہوئے۔ گاؤں والوں کو اکٹھا کیا جو ان کو جانتے تھے پھر انہوں نے ایک عجیب اعلان کیا کہ وہ ایک خاص دعا کرنے والے ہیں۔جس سے آمنہ بی کہاں چھپ کر بیٹھی ہیں پتہ چل جائیگا۔

بہوؤں کے دل میں پہلے ہی خوف بیٹھ چکا تھا، مگر جیسے ہی شاہ جی کا اعلان ہوا، سب سے زیادہ گھبراہٹ صائمہ اور دوسری بہووں کے چہروں پر تھی۔ صائمہ نے غصے میں آکر اپنے شوہر دانش سے کہا، "یہ بوڑھا کون ہے؟ یہاں آکر ایسی باتیں کیوں کر رہا ہے؟" دانش نے سخت لہجے میں جواب دیا، "یہ کوئی عام آدمی نہیں، بہت بڑے بزرگ ہیں۔ جو کریں گے، بالکل ٹھیک کریں گے! صائمہ اور باقی بہوؤں کی حالت اور خراب ہو گئی۔ وہ آپس میں سرگوشیاں کرنے لگیں کہ کہیں ان کا راز فاش نہ ہو جائے۔

اب سب کی نظریں شاہ جی پر تھیں کہ وہ کیا کرنے والے ہیں۔ شاہ جی نے آسمان کی طرف دیکھ کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے، اور پورے گاؤں میں گہری خاموشی چھا گئی۔ جیسے ہی دعا ختم ہوئی، اچانک ہر بہو کے پیٹ میں درد ہونا شروع ہو گیا اور ان کے منہ سے کچھ چیز نکلنے لگی۔وہ گوشت کے ٹکڑے تھے۔ اور پھر ان میں سے اواز آئی یہ میں ہوں تمھاری ساس جس کا گوشت کھایا تم سب آدم خوروں نے۔پھر دور سے ایک سفید روشنی نظر آنے لگی، اور اس روشنی میں ایک شفاف سایہ نمودار ہوا۔ جب لوگوں نے غور سے دیکھا، تو ان کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔ وہ آمنہ بی کی روح تھی! ان کے بیٹے یہ منظر دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، کیونکہ وہ اپنی ماں کو روح کی شکل میں دیکھ رہے تھے۔

آمنہ بی کہنے لگی میرے بچوں تم لوگ نے جو بریانی کھائی تھی افطار میں وہ کسی اور کی گوشت کی نہیں بلکہ میرے گوشت کی تھی اس لیے ان کے منہ سے یہ سڑا ہوا گوشت نکل رہا ہے اور تو اور میرے بیٹوں تم سب کو بھی میرا گوشت کھلا دیا یہ سب صرف اس لیے کیا گیا کہ میرے بیٹے مجھ پر جان نچھاور کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ میرے پاس بہت سا پیسہ ہے جو میں نے چھپا کر رکھا ہے یہ سب ایک صندوق کے لیے کیا گیا، جس میں ہیرے موتی تو نہیں پر اس سے بڑھ ایک ہیرا ہے قرآنِ پاک جو میں نے شاہ جی سے پایا تھا۔اس کو پڑھ کر مجھ بانجھ کو سات بیٹے ملے میں وہ قران ساتوں بہووں کو دینا چاہتی تھی کہ تم سب مل کر اس کو پڑھو تمہیں بھی انشاءاللہ نیک اولاد عطا ہوگی پر مجھے کیا پتہ تھا کہ میری چھوٹی بہو صائمہ تو مجھے مارنے کا منصوبہ بناچکی ہے ارے مجھ غریب کے پاس کون سی دولت تھی سوائے دین اور ایمان کے پھر آمنہ بی نے اپنے بیٹوں کی طرف دیکھا اور کہا میرے بچوں میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں تمہاری بیویوں نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا لیکن اللہ تعالی تم سب کو خوش رکھے بس اللہ کے کلام کو سمجھو اور سب کے ساتھ صرف بھلائی کرو لالچ سے کچھ نہیں ملتا۔اب تو صائمہ کا پول کھل ہی گیا تھا

صائمہ اور اس کی جٹھانیوں کے چہروں پر پہلے ہی خوف نظر آرہا تھا، مگر جیسے ہی آمنہ بی کی روح نے حقیقت بیان کی، ان کی حالت بگڑنے لگی۔ صائمہ نے چلاکر کہا یہ جادوگری ہے۔ وہ اپنے شوہر سے کہنے لگی یہ جھوٹ بول رہے ہیں ایسا کچھ نہیں ہے میں تو امنہ ماں سے بہت پیار کرتی تھی انہوں نے جادو کر کے کسی اور کی روح کو امنہ ماں کی شکل دی ہے یہ کہا ہی تھا اس نے کہ ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر پڑا یہ امنہ ماں نے مارا تھا پر مارنے والا نظر نہیں ایا تھا ایک اواز گونجی "تو خالی ہاتھ تھی تو خالی ہاتھ ہے تو خالی ہاتھ رہے گی" میں اپنے سات بیٹوں کی ماں ہوں ۔دانش گھور کر صائمہ کو دیکھ رہا تھا۔ شاہ جی نے کہا سنو یہ جادوگری نہیں اصل جادوگر کو دیکھنا ہے تو بلاتا ہوں۔شاہ جی یہ بول کر کچھ ورد کرنے لگے کہ اچانک جادوگر ہامان وہاں آپہنچا۔ اس کے ساتھ صائمہ کا بھائی آصف بھی تھا۔بیٹوں کو تو پتہ نہیں تھا وہ کون ہے پر دوسری بہوئیں اس کو دیکھ کر کہنے لگی یہ تو وہ نہیں ہم تو کسی اور عامل کے پاس جاتے تھے شاہ جی نے کہا ہاں کیونکہ یہ تمہیں بے وقوف بنا کر کسی اور کے پاس لے کے گئی اصل کھیل تو اس نے اس جادوگر سے کھلوایا۔ہامان نے چلا کر کہا، "تو مجھے ہرا نہیں سکتا دیکھا نہ کیسے تجھے بیوقوف بناکر بڑھیا کی بریانی پکوادی جو کچھ ہوا، وہ میری طاقت سے ہوا! یہ سب میری جادوگری کا کمال تھا۔ بڑھیا کی روح میری کنیز بنے گی۔ بوڑھے شاہ جی! تو نے میری راہ میں بہت رکاوٹ ڈالی، مگر اب تیرا وقت ختم ہو چکا ہے!" وہ جیسے ہی شاہ جی پر حملہ کرنے کے لیے بڑھا، شاہ جی نے فوراً سورہ ناس اور سورہ فلق پڑھ کر اس پر پھونک ماری۔ جادوگر تڑپنے لگا، اس کے جسم سے دھواں اٹھنے لگا، اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ جل کر ختم گیا۔ آصف نے یہ منظر دیکھا، تو وہ ڈر کر بھاگنے لگا، مگر اس کو بھی سزا مل گئی۔

جوں ہی آصف کی موت ہوئی، صائمہ کی بھی چیخیں گونجنے لگیں۔ وہ بہت بری حالت میں تھی وہ ایسی موت مر رہی تھی گاؤں کے تمام لوگ اس کا خوفناک انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ باقی بہوئیں بھی اپنی اپنی سزائیں بھگت رہی تھیں، اور ان کے شوہر بے بس ہو کر سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ جن عورتوں نے دولت اور شوہروں کی محبت کے لیے اپنی بوڑھی ساس کو مار ڈالا تھا، ان کے لیے قدرت کا فیصلہ یہی ہونا تھا۔


سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔ اس کے بعد شاہ جی نے بیٹوں سے کہا، "تم لوگ اپنی ماں کی دعا کا نتیجہ ہو، اس نے تمہیں بڑی محبت سے پالا ہے۔ لیکن افسوس کہ تمہاری بیویاں ہی اس کی دشمن بن گئیں، اور اللہ نے ان کو ان کے اعمال کی سزا دے دی۔ یہ سب تمہارے سامنے ہے، اس میں کوئی جادو نہیں۔"

آخر میں شاہ جی نے کہا، "اب تم سب اپنی ماں کی مغفرت کی دعا کرو۔ میں یہاں سے جا رہا ہوں، میرا کام مکمل ہو چکا ہے۔" یہ کہہ کر وہ وہاں سے روانہ ہو گیا، اور گاؤں والوں کے دلوں میں اس واقعے کی عبرت ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئی۔


Author:[ Rabia Naz Saeedi ] | Published on: [13April 2023]













Comments