Ek Budhi Aurat ki Bahu par Allah ka Azab Kyun Aya ?

 ایک بستی میں ایک بوڑھی عورت اپنے جوان بیٹے کے ساتھ رہتی تھی۔ وہ بہت ہی پرہیزگار اور اللہ کی عبادت کرنے والی تھی۔ اس کا بیٹا بھی پانچ وقت کا نمازی اور نیک انسان تھا۔ یہ بوڑھی ماں اپنے بیٹے کے لیے ایک ایسی بہو تلاش کر رہی تھی جو ہر دکھ سکھ میں اس کا ساتھ دے سکے اور گھر کو خوشحال بنا سکے۔ اس کا بیٹا کسی کمپنی میں نوکری کرتا تھا اور دونوں کی زندگی آرام سے   چل رہی تھی۔ ایک دن یہ بوڑھی عورت پاس والی بستی میں اپنے بیٹے کا رشتہ دیکھنے گئی۔ لڑکی ایک غریب گھر سے تعلق رکھتی تھی لیکن وہ شکل و صورت میں بہت خوبصورت تھی۔ بوڑھی عورت نے اس رشتے کو منظور کر لیا اور چند دنوں میں بہو کو اپنے گھر لے آئی۔ انہوں نے جہیز کے نام پر کچھ بھی نہیں لیا تھا مگر شادی کے دوسرے ہی دن بہو نے اپنے اصلی رنگ دکھانے شروع کر دیے۔ صبح اٹھتے ہی وہ کچن میں جا کر اپنے لیے ناشتہ بنا لائی لیکن اپنی ساس کے لیے کچھ نہیں بنایا۔ بوڑھی عورت عمر کے لحاظ سے اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ خود سے کام نہیں کر سکتی تھی۔   پھر بھی اس نے خاموشی سے اٹھ کر خود اپنے لیے ناشتہ بنایا۔ دھیرے دھیرے بہو نے سارا گھر کا کام بوڑھی ساس کے سر پر ڈال دیا۔ بوڑھی عورت نے کبھی بھی اپنے بیٹے کو اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا اور چپ چاپ ہر تکلیف برداشت کرتی رہی۔ جب کبھی اس کا بیٹا اپنی بوڑھی ماں کو کام کرتے ہوئے دیکھتا تو اسے تکلیف ہوتی اور وہ اپنی بیوی سے جھگڑنے لگتا لیکن بہو الٹا اپنی ساس سے جھگڑنے لگ جاتی۔ اس طرح ان کی شادی شدہ زندگی میں تناؤ بڑھتا گیا۔ کئی سال گزر گئے، ان سالوں میں اللہ پاک نے انہیں دو بیٹیوں سے نوازا تھا لیکن وہ اپنی  بیٹیوں کی ذمہ داری بھی اپنی ساس پر چھوڑ دیتی تھی۔ بوڑھیا کا بیٹا بیمار ہو چکا تھا مگر اس کی بیوی کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ وہ تو بس اپنی عیش و آرام والی زندگی میں مگن تھی کیونکہ اس نے بچپن سے ہی اپنے گھر میں غربت دیکھی تھی۔ اس گھر میں آ کر وہ ایسے حکم چلاتی تھی جیسے کسی بادشاہ کی بیٹی ہو۔ وہ گھر کے کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتی تھی۔ اس کے شوہر کی طبیعت دن بدن بگڑتی جا رہی تھی مگر اسے کسی بات کی کوئی فکر نہیں تھی۔ جب اس کا شوہر سانس لینے میں تکلیف محسوس کرتا تو وہ اپنی ساس سے چیخ کر کہتی، "تم نے اپنا بیمار  بیٹا میرے پلے باندھ دیا ہے، تم نے تو میری زندگی برباد کر دی ہے، میری ساری سہیلیوں کے بیٹے ہوئے ہیں اور تمہارے بیٹے نے مجھے ایک بیٹا تک نہیں دیا، الٹا دو دو بوجھ مجھ پر ڈال دیے ہیں، ایک بیمار شوہر اور دو بیٹیوں کی ذمہ داری۔" بوڑھیا اپنی بہو سے کہنے لگی، "بیٹی، تم نے تو پہلے دن سے ہی ہماری قدر نہیں کی۔ میرے بیٹے نے تمہیں دنیا کی ہر خوشی دی ہے، اب جب وہ بیمار ہے تو تم اس کی کیا قدر کرو گی؟ اور رہی بات بیٹے پیدا ہونے کی، یہ تو اللہ کی دین ہے، اس میں کسی کا کوئی بس نہیں ہوتا۔" بوڑھی عورت نے جب سے اپنے بیٹے   کی شادی کی تھی، اس نے اپنے گھر میں ایک دن بھی سکون سے سانس نہیں لی تھی۔ ان کی بہو ہر وقت لڑائی جھگڑا کرتی رہتی تھی۔ وہ ہمیشہ سج دھج کر سارا دن گھر سے باہر رہتی، کبھی سہیلیوں کے گھر چلی جاتی یا پھر اس کی سہیلیاں اس کے گھر آ جاتی تھیں۔ وہ نہ تو اپنی بیٹیوں کی دیکھ بھال کرتی تھی اور نہ ہی اپنے بیمار شوہر کا حال پوچھتی تھی۔ بیچاری بوڑھی عورت سارا دن اپنے بیٹے کی دیکھ بھال میں لگی رہتی تھی۔ ایک رات اس کے شوہر کی طبیعت اچانک بگڑ گئی۔ بیچاری بوڑھی عورت رات کو اٹھ اٹھ کر کبھی اپنے بیٹے کو شہد دے رہی تھی تو کبھی گرم پانی، مگر اس کی بہو کو کسی چیز کی  پرواہ نہیں تھی۔ وہ پاس بیٹھی سب دیکھ رہی تھی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کے بیٹے کی سانس ہمیشہ کے لیے بند ہو گئی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ بوڑھی عورت چیخ چیخ کر رو رہی تھی، تڑپ رہی تھی مگر اس کی بہو کی آنکھوں سے ایک بھی آنسو نہیں نکلا۔ وہ سارا دن ایسے ہی ایک کونے میں بیٹھی رہی، آتے جاتے لوگوں کو دیکھتی رہی۔ بوڑھی ماں کی پوتیاں بھی بلک بلک کر رو رہی تھیں۔ آس پاس کی عورتیں آ کر افسوس کر رہی تھیں، "ہائے بیچاری، بڑی جوانی میں بیوہ ہو گئی۔" مگر اس کی بہو کی آنکھوں میں ایک بھی آنسو نہیں تھا۔ اس بوڑھی ماں کا رو رو کر برا حال ہو چکا تھا۔ وہ شوگر کی مریض تھی، کبھی اس کی شوگر کم ہو جاتی  کبھی اس کا بی پی ہائی ہو جاتا۔ جب وہ اپنی بہو کو دیکھتی تو اس کا دل پھٹنے لگتا۔ وہ یہی سوچتی، "شاید میری بہو اپنے شوہر کے جانے پر خوش ہے، تبھی اس کی آنکھ سے ایک آنسو نہیں نکلا۔ جب میرا بیٹا بیمار تھا تب بھی وہ اس کی پرواہ نہیں کرتی تھی۔" لیکن یہ تو بیچاری ماں تھی جو اپنے بیٹے کا غم دل سے نکال نہیں پا رہی تھی۔ اسے اپنی پوتیوں سے بھی بہت زیادہ پیار تھا کیونکہ وہ اس کے بیٹے کی اولاد تھیں۔ بوڑھی ماں کہتی، "ان پوتیوں میں مجھے اپنے بیٹے کی جھلک نظر آتی ہے۔" لیکن ان کی ماں کو اپنی بیٹیوں سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ شاید وہ دنیا کی ایک انوکھی  ماں تھی جسے اپنی اولاد سے کوئی پیار نہیں تھا، مگر ان کی دادی اپنی پوتیوں پر جان چھڑکتی تھی۔ بوڑھی عورت اپنی پوتیوں کی بہت اچھی طرح سے پرورش کر رہی تھی۔ وہ انہیں قرآن پاک پڑھاتی، نماز پڑھنا سکھاتی اور بڑوں کا ادب کرنا بھی سکھاتی تھی۔ اب گھر میں کمانے والا کوئی نہیں بچا تھا، لیکن اس بوڑھی ماں کا رویہ اپنے محلے والوں کے ساتھ بہت اچھا تھا۔ سارا محلہ ان کی عزت کرتا تھا اور اکثر کوئی نہ کوئی محلے سے کھانا بنا کر ان کے گھر بھیج دیتا تھا لیکن اس بوڑھی ماں کی بہو نے کبھی کسی سے اچھے سے بات نہیں کی تھی اتنے اچھے برتاؤ کے باوجود اس کی بہو کا گھمنڈ ختم نہیں ہوا تھا وہ محلے میں کسی کو منہ نہیں لگاتی تھی اور اس کے اس رویے کو دیکھ کر محلے والوں نے بھی ان کے گھر آنا جانا اور لین دین کم کر دیا تھا جب پڑوسی ان سے دور ہونے لگے تو بوڑھی کی بہو اب پریشان رہنے لگی وہ سوچ میں پڑ گئی کیونکہ اسے خود کوئی بھی ہنر نہیں آتا تھا گھر کے کام کاج بھی اس نے کبھی ٹھیک سے کیے نہیں تھے اب تو گھر میں پیسے بھی ختم ہو چکے تھے اور سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ گھر کا خرچ کیسے چلایا جائے ساس اس دوران بہت پریشان تھی اور خود گھٹنوں کے درد اور شوگر کی مریض تھی اس کے لیے کوئی بھی کام کرنا مشکل ہو گیا تھا وہ اپنی پوتیوں کے سہارے اندر باہر آیا جایا کرتی تھی اگر اس نے وضو کرنا ہوتا تو اپنی پوتی کو ساتھ لے کر وضو کرتی اور کمرے میں جا کر عبادت میں مشغول ہو جاتی رات کو بھی اس کی پوتیاں اس کے ساتھ سویا کرتی تھیں اور وہ بوڑھی عورت ان کے پاس بیٹھ کر اللہ کی عبادت کیا کرتی تھی ایک دن اس بے چاری بوڑھی عورت کی طبیعت بگڑنے لگی تو اس نے اپنی بہو سے کہا مجھے کچھ کھانے کو دے دو میں نے تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ میں شوگر کی مریض ہوں اور مجھ سے بھوک برداشت نہیں ہوتی اس لیے مجھے وقت سے کھانا دیا کرو تم جانتی ہو کہ میرے گھٹنوں میں بہت درد ہے اس لیے میں خود سے کھانا بھی نہیں بنا سکتی یہ سن کر اس کی بہو اندر سے چلاتی ہوئی باہر آئی اور کہا اگر تمہیں آدھا گھنٹہ کھانا لیٹ مل جائے گا تو کون سا مر جاؤ گی اگر اتنی ہی بھوک لگی ہے تو اٹھ کر خود بنا پہلے ہی گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے اور اوپر سے صبح صبح تم نے چلانا شروع کر دیا ہے جب تم ساری رات اللہ کے سامنے سجدہ کرتی ہو تب تمہیں بھوک نہیں لگتی جب کھانا بنے گا تو میں دے دوں گی چپ چاپ بیٹھی رہو نہیں تو اپنے بیٹے کے پاس چلی جاؤ ویسے بھی گھر میں بھوک کا ڈیرا پڑ چکا ہے اس بے چاری بوڑھی ماں کو اپنی پوتیوں اور اپنی بوڑھی ساس کی کوئی فکر نہیں تھی وہ خود گھر میں جو تھوڑا بہت ہوتا کھا کر اپنے کمرے میں جا کر سو جاتی دادی اور پوتیاں دونوں روتی رہتی مگر انہیں روٹی نہیں ملتی تھی آج بھی صبح صبح ساس نے اپنی بہو کو آواز لگائی تھی کہ ناشتے میں کچھ ہو تو مجھے دے دو لیکن جب کمرے کا دروازہ کھلا تو ان کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں دونوں بچیوں نے پھٹے پرانے کپڑے پہن رکھے تھے ان کے بال بکھرے ہوئے تھے اور دونوں کے گال لال تھے جیسے کسی نے تھپڑ مار کر انہیں لال کر دیا ہو وہ ہچکیاں لے کر رو رہی تھیں بوڑھی دادی اپنی پوتیوں کی سسکیاں سن کر تڑپ اٹھی اور بہو سے کہنے لگی ان بچیوں کو کیا ہوا ہے یہ کیا حال بنا رکھا ہے پھٹے پرانے کپڑے کیوں پہنائے ہیں انہیں تب بہو نے بے رخی سے جواب دیا آج سے یہ دونوں کمائیں گے اور ہم کھائیں گے یہ سن کر دادی حیران رہ گئی اور بولی کیا مطلب ہے تمہارا ان معصوم بچیوں سے تم کیا کروانے جا رہی ہو بہو نے بے شرمی سے کہا کام نہیں کرواوں گی یہ لوگ بھیک مانگیں گے یہ سن کر ساس کا غصہ پھوٹ پڑا اور وہ بولی خبردار جو تم نے میری پوتیوں سے بھیک منگوانے کی کوشش کی تم ہٹی کٹی ہو لوگوں کے گھر جا کر کوئی نوکری کرو تم اچھے پیسے کما سکتی ہو تب بہو نے بے شرمی سے جواب دیا میں نے کوئی ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہے پہلے تمہارے بیمار بیٹے کی دیکھ بھال کرتی رہی اور اب تم اور تمہاری پوتیوں کے لیے برتن مانجھوں جھاڑو پونچھا لگاؤں میں یہ کام ہرگز نہیں کر سکتی میری طرف سے تم لوگ مرو یا جیو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اتنا کہہ کر بہو نے اپنی دونوں بیٹیوں کا ہاتھ پکڑ کر انہیں گھر سے باہر دھکا دے دیا دونوں بچیاں گرتے گرتے بچیں پھر وہ کہنے لگی جب تک پیسا لے کر واپس نہ آؤ گھر میں مت آنا جاؤ بھیک مانگو اور خبردار جو تم نے اپنے آنسو پونچھے تمہیں روتے ہوئے دیکھ کر ہی لوگ تمہیں بھیک دیں گے اگر تم لوگ خالی ہاتھ واپس آئے تو تمہاری ایسی حالت کروں گی کہ تم خود کو پہچان نہیں پاؤ گی ڈری سہمی ہوئی دونوں بچیاں گھر سے باہر نکل گئیں ساس جھڑک کر بولی یہ تم کیا کر رہی ہو بہو تم نے کیا غضب کر دیا تم جیسی ماں میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھی ماں تو اپنے بچوں کی خوشی کے لیے ہر مشکل خود پر لے لیتی ہے تاکہ اس کے بچے بھوکے نہ رہیں میں نے بہت سی عورتوں کو دیکھا ہے جو اینٹیں تک اٹھاتی ہیں پتھر اٹھا کر مزدوری کرتی ہیں اور پھر گھر آ کر اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتی ہیں مگر تم کیسی ماں ہو بہو نے ٹھنڈے دل سے جواب دیا میں ایسی ہی ہوں اگر میں نے ان پر ترس کھایا تو پھر لوگ ان پر ترس نہیں کھائیں گے اور میں کیوں باہر جا کر کماؤں جب یہ دونوں ہیں یہ روئیں گی بھیک مانگیں اور لوگ ان پر ترس کھا کر انہیں پیسے دیں گے پھر ہی تمہیں کھانا ملے گا ماں جی اگر تم نے میرے کام میں دخل دیا یا اپنی پوتیوں کی محبت میں مجھے ستایا تو یاد رکھنا میں کسی کو کھانا نہیں دوں گی یہ کہہ کر بہو اپنے کمرے میں چلی گئی مگر دادی کی آنکھوں سے آنسو لگاتار بہہ رہے تھے اس بوڑھی عورت نے ایسا نردی ماں کا روپ کبھی نہیں دیکھا تھا پورا دن دادی کا دل پریشان رہا بار بار اس کا دھیان اپنی معصوم پوتیوں کی طرف جاتا وہ بچیاں کبھی دروازے کے پاس بھی کھڑی نہیں ہوئی تھیں اور ان کی ماں نے کیسے بے رحمی سے انہیں باہر دھکا دے کر پھینک دیا تھا دادی سوچتی رہی کہ نہ جانے وہ کہاں چلی گئی ہوں گی میں تو چل کر ان کے پیچھے بھی نہیں جا سکتی یہی سوچ سوچ کر اس کی آنکھوں میں آنسو بہ رہے تھے وہ بڑی مشکل سے اٹھی اور دھیرے دھیرے چلتے ہوئے دروازے تک پہنچی دروازہ کھولا اور دائیں بائیں گلی میں دیکھنے لگی مگر پوتیوں کا کوئی اتا پتا نہیں تھا دوپہر کا وقت تھا اور مئی کا مہینہ سخت گرمی تھی دروازے تک آتے آتے دادی پسینے سے تر ب تر ہو چکی تھی۔ اس ظالم ماں نے اپنی بچیوں کو بغیر جوتے چپل کے ننگے پیر گھر سے باہر بھیج دیا تھا۔ بیچاری بوڑھی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ قریب ایک دو گھنٹے تک دروازے پر کھڑی اپنی پوتیوں کا انتظار کرتی رہی۔ بیچاری بوڑھی دادی دروازے پر کبھی بیٹھ جاتی اور کبھی کھڑی ہو کر اپنی پوتیوں کا راہ دیکھتی رہتی۔ دل میں بار بار وہ بوڑھی دادی یہی دعا کر رہی تھی، اے میرے اللہ! میری پوتیاں جہاں بھی ہوں صحیح سلامت واپس آ جائیں، انہیں کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ اسے یہ فکر بھی ستانے لگی کہ گاؤں والے کیا کہیں گے کہ گھر میں کوئی کمانے والا نہیں ہے اس لیے بچیوں کو بھیک مانگنے کے لیے بھیج دیا۔ جب شام ہوئی تو بوڑھی دادی نے اپنے گھٹنوں پر زور دیتے ہوئے اٹھ کر کمرے میں جا کر اللہ سے رو رو کر دعا کی، "اے میرے اللہ! میری پوتیاں ٹھیک ٹھاک گھر واپس آ جائیں۔" جیسے جیسے اندھیرا گھنا ہو رہا تھا، دادی کی بےچینی بڑھتی جا رہی تھی۔ مگر بچیوں کی ماں کو کوئی فرق نہیں پڑا، وہ اپنے کمرے میں آرام سے سو رہی تھی۔ کافی اندھیرا ہو چکا تھا لیکن دونوں پوتیوں کا اب بھی کوئی پتہ نہیں تھا۔ بیچاری بوڑھی دادی اپنے کمرے سے خود کو گھسیٹتے ہوئے باہر جانے لگی۔ تبھی باہر کا دروازہ کھلا اور دونوں پوتیاں گھر میں آئیں۔ ان کی حالت بہت خراب تھی، پیاس سے ان کا برا حال تھا، ہونٹ سوکھ گئے تھے اور وہ بالکل نڈھال لگ رہی تھیں۔ ان کی حالت دیکھ کر دادی کا کلیجہ جل اٹھا۔ وہ دوڑ کر ان کے پاس گئی، اپنی باہیں پھیلائیں اور دونوں پوتیاں روتی ہوئی دادی کے گلے لگ گئیں۔ جب ان کی ظالم ماں نے اپنی بچیوں کی آواز سنی تو وہ جلدی سے دروازہ کھول کر باہر آئی۔ بوڑھی دادی سوچ رہی تھی کہ شاید اب ان کی ماں اپنی بچیوں کی حالت دیکھ کر تڑپ اٹھے گی، انہیں اپنے سینے سے لگائے گی اور اپنی غلطی کا احساس ہوگا، مگر اس کی سوچ ایک دم غلط ثابت ہوئی۔ ظالم ماں نے کہا، "یہ رونا دھونا بعد میں کرنا، پہلے یہ بتاؤ کہ کتنے پیسے لے کر آئی ہو؟" دونوں بچیوں نے دن بھر بھیک مانگ کر جو چند سکے اور کچھ پھٹے پرانے روپے اکٹھے کیے تھے، وہ اپنی ماں کو پکڑائے۔ ان کی ظالم ماں نے اتنے کم پیسے دیکھ کر کہا، "بس! اتنے ہی پیسے لے کر آئی ہو؟ ان پیسوں سے میں کیا کروں؟ اپنے لیے کھانا بناؤں یا تم تینوں کا بوجھ اٹھاؤں؟ اس بجلی کا بل کہاں سے ادا کروں گی؟ اتنے پیسوں میں کیا بنے گا؟ اور زیادہ پیسے کیوں نہیں لے کر آئیں؟" دونوں بچیاں خاموش تھیں۔ پھر ان کی ماں غصے سے بولی، "میں نے تمہیں سمجھا کر بھیجا تھا کہ رو رو کر مانگنا تاکہ لوگوں کو تم پر ترس آئے، تبھی وہ تمہیں پیسے دیں گے۔ لگتا ہے تم نے کسی کے سامنے صحیح سے رو کر بھیک ہی نہیں مانگی!" یہ سن کر بڑی بیٹی بولی، "ماں! ہمیں دادی نے ہمیشہ سکھایا ہے کہ انسان صرف اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے اور اسی سے مانگتا ہے۔ جب ہم نے اللہ سے مانگا تو ہمیں پیسے مل گئے۔ ہم نے اللہ سے کہا، اے اللہ! ہمیں پیسے دے دے، نہیں تو ہماری ماں ہمیں روٹی نہیں دے گی۔ پھر لوگوں نے ہماری حالت دیکھ کر ہمیں پیسے دینا شروع کیا۔" یہ سن کر ظالم ماں اپنی بیٹیوں پر اور بھی زیادہ غصہ ہو گئی۔ اس نے کہا، "اگر بغیر مانگے ہی تمہیں اتنے پیسے مل سکتے ہیں تو اگر تم صحیح سے مانگتیں تو اور زیادہ پیسے ملتے!" پھر وہ بولی، "آج میں تم تینوں کو روٹی نہیں دوں گی!" یہ سن کر بوڑھی دادی کا غصہ پھوٹ پڑا۔ اس نے کہا، "بچیاں صبح سے بھوکی پیاسی ہیں، ان کی حالت دیکھو، تمہیں ان پر ترس نہیں آ رہا؟ تم ایک ماں ہو، ہر ماں کا دل اپنی اولاد کے لیے نرم ہوتا ہے، تم اتنی سخت دل کیسے ہو سکتی ہو؟" بوڑھی کی باتیں سن کر بہو غصے سے بولی، "تم سارا دن بس بولتی رہتی ہو، بیمار بڑھیا!" یہ کہہ کر اس نے پیسے اٹھائے اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ دونوں پوتیاں اپنی دادی کے پاس آ کر کہنے لگیں، "دادی! ماں ہمیں روٹی نہیں دے گی، ہمیں بہت تیز بھوک لگی ہے، کچن میں بھی کھانے کو کچھ نہیں ہے۔" دادی نے کہا، "تم مجھے سہارا دے کر کچن تک لے چلو، میں تم دونوں کے لیے روٹی بنا دیتی ہوں۔" دونوں پوتیوں نے اپنی دادی کو سہارا دے کر چولہے تک پہنچایا۔ بیچاری بیمار بوڑھی دادی نے کانپتے ہاتھوں سے سوکھی روٹی بنا کر پوتیوں کو کھلائی، روٹی کے ساتھ پانی پلا کر ان کی بھوک مٹائی۔ پھر دونوں بچیوں نے ننھے ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ دادی نے اپنی پوتیوں کو سمجھایا، "صبر کرنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے۔" لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ ان کی ظالم ماں روز ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرے گی۔ بیچاری بوڑھی دادی کو اپنی بہو پر بہت غصہ آتا تھا مگر وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ وہ بس پیچھے سے روتی رہتی اور اللہ سے دعا کرتی، "اے میرے اللہ! یہ کیسی ظالم ماں ہے جو اپنے بچوں پر ذرا بھی ترس نہیں کھاتی؟ اس نے کبھی اپنے بیمار شوہر پر بھی رحم نہیں کیا تھا۔" اس بوڑھی دادی کی حالت ایسی تھی کہ وہ بڑی مشکل سے لنگڑا کر چل پاتی تھی۔ گھر میں جو روکھا سوکھا کھانا ملتا، اسے پانی میں بھگو کر کھا لیتی اور اپنی پوتیوں کے لیے آنسو بہاتی رہتی۔ کبھی کبھی اسے اپنے اوپر غصہ آتا تھا کہ وہ اتنی بے بس کیوں ہے؟ وہ سوچتی، "کاش میں اتنی قابل ہوتی کہ لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنی پوتیوں کو پال سکتی۔ جیسے میں نے اپنے بیٹے کو پال کر بڑا کیا!" اس بوڑھی دادی نے اپنے شوہر کے گزر جانے کے بعد لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنے بیٹے کو پالا تھا۔ جب اس کا بیٹا بڑا ہوا اور کام کرنے لگا، تب جا کر اس کی زندگی میں کچھ سکون آیا تھا۔ لیکن جب سے اس کے بیٹے کو دمے کی بیماری ہوئی، وہ پریشان رہنے لگی تھی۔ بیٹے کی بیماری کے باعث وہ خود بھی بیمار رہنے لگی۔ اس کا بیٹا بہت علاج کراتا مگر زیادہ کام نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اسے دم گھٹنے لگتا تھا۔ بوڑھی دادی کو لگتا تھا کہ اس کی بہو اپنے شوہر کا بہت خیال رکھے گی اور وہ جلد ٹھیک ہو جائے گا، مگر بہو نے نہ تو اپنے شوہر کا خیال رکھا اور نہ اپنی ساس کا۔ وہ تو ہر وقت اپنے شوہر کو طعنے دیتی رہتی تھی کہ اس کی بیماری نے اس کی زندگی برباد کر دی ہے۔ بوڑھی دادی نے کبھی اپنی بہو کے ساتھ برا سلوک نہیں کیا تھا لیکن اس کی بہو دل کی بہت بری تھی۔ اسے اپنی بیٹیوں پر بھی ترس نہیں آتا تھا۔ یہ دیکھ کر بوڑھی عورت کو بہت حیرت ہوتی تھی۔ وہ سوچتی، "عورت چاہے جیسی بھی ہو، ماں بننے کے بعد اپنی اولاد کے لیے ہر تکلیف اٹھاتی ہے، مگر یہ کیسی ماں ہے جو کڑی دھوپ میں اپنے بچوں کو بغیر کھانا دیے بھیک مانگنے بھیج دیتی ہے؟" ابھی بچیوں کو گئے ہوئے دو گھنٹے ہی ہوئے تھے، تبھی دروازہ زور سے کھٹکھٹایا گیا۔ ان کی ظالم ماں اپنے کمرے میں سو چکی تھی۔ بیچاری بوڑھی دادی اپنے آپ کو گھسیٹتے ہوئے دروازے تک پہنچی اور بڑی مشکل سے دروازہ کھولا۔ سامنے اس کی پوتی گھبرائی ہوئی کھڑی تھی اور رو رہی تھی۔ دادی نے پوتی کا چہرہ دیکھ کر کہا، "کیا ہوا؟ اور تمہاری چھوٹی بہن کہاں ہے؟" بڑی پوتی روتے ہوئے کہنے لگی، "دادی! میری چھوٹی بہن باہر سڑک پر گرم زمین پر بے ہوش پڑی ہے!"

یہ سن کر بوڑھی دادی غصے میں آگئی اور زور زور سے اپنی بہو کو پکارنے لگی، ظالم ماں شور سن کر باہر آئی اور بولی، ’’کیا ہوا؟ کیوں چلا رہی ہو؟ سونے بھی نہیں دیتی؟‘‘ اب اپنی بیٹی کو دیکھ کر وہ پھر بولی، ’’تو یہاں کیا کر رہی ہے؟ میں نے تجھے بھیک مانگنے بھیجا تھا اور تو ابھی تک یہیں کھڑی ہے؟‘‘ بوڑھی دادی نے کہا، ’’ارے بہو! اتنی ظالم مت بنو، تمہاری چھوٹی بیٹی دھوپ میں بے ہوش پڑی ہے، جاؤ اسے لے کر آؤ، دیکھو بڑی بیٹی کیسے رو رہی ہے، اس کے رونے پر ترس کھاؤ۔‘‘ بڑی بیٹی روتے ہوئے کہنے لگی، ’’ماں! میری چھوٹی بہن بھوک اور پیاس سے دھوپ میں بے ہوش ہوگئی ہے۔‘‘ یہ سن کر ظالم ماں بولی، ’’واہ! یہ تو اور بھی اچھی بات ہے، اب تم لوگ رو رو کر لوگوں سے کہو کہ تمہاری بہن بے ہوش ہوگئی ہے، اس نے دو دن سے کچھ نہیں کھایا، خدا کے لیے ہمیں پیسے دے دو۔ اس طرح اور زیادہ پیسے ملیں گے۔‘‘ بوڑھی دادی تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کی بہو اتنی ظالم ہو جائے گی، اسے اپنی بیٹی کے بے ہوش ہونے پر ذرا بھی دکھ نہیں ہوا۔ بوڑھی دادی نے کہا، ’’ارے بہو! اتنی ظالم مت بنو، اتنا ظلم تو کوئی دشمن بھی نہیں کرتا۔ ماں کی ایک پکار عرش تک ہلا دیتی ہے، اگر کوئی ماں اپنی اولاد پر ظلم کرے گی تو بچے کی آہ کہاں تک جائے گی؟ بہو! اتنا لالچ اچھا نہیں ہوتا، جاؤ جا کر اپنی بیٹی کو گھر لے کر آؤ، ایسا نہ ہو کہ اسے دھوپ میں کچھ ہو جائے۔‘‘ ظالم عورت نے بے شرمی سے کہا، ’’ارے کچھ نہیں ہوتا، ان لڑکیوں کو، یہ بہت ڈھیٹ ہوتی ہیں، اتنی جلدی نہیں مریں گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ بے چاری بوڑھی دادی خود کو گھسیٹتے ہوئے بڑی پوتی کے ساتھ سڑک تک پہنچی، جہاں چھوٹی بچی بے ہوش پڑی تھی۔ اس کے چاروں طرف بہت سارے لوگ کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک آدمی کہنے لگا، ’’آپ کو شرم نہیں آتی؟ اتنی چھوٹی بچی کو بھیک مانگنے کے لیے بھیجا اور اب وہ بے ہوش ہوگئی ہے؟‘‘ اب بوڑھی دادی بے چاری کیا جواب دیتی؟ اس نے محلے کے ایک آدمی سے کہا، ’’بیٹا! اسے گود میں اٹھا کر میرے گھر تک چھوڑ دو، میں خود اپنے گھٹنوں کے درد سے پریشان ہوں، بچی کو اٹھا نہیں سکتی، میں تو بغیر سہارے کے چل بھی نہیں سکتی۔‘‘ اس آدمی کو بچی پر ترس آگیا، اس نے بچی کو گود میں اٹھا کر ان کے گھر تک پہنچا دیا۔ بوڑ بوڑھی دادی اپنی بے ہوش پوتی کو دیکھ کر رونے لگی۔ اس نے بڑی پوتی سے کہا، ’’بیٹی، جاؤ اپنی بہن کے لیے پانی لے کر آؤ۔‘‘ بڑی پوتی جلدی سے پانی لے کر آئی۔ بوڑھی دادی نے چمچ کی مدد سے اپنی بے ہوش پوتی کو پانی پلایا۔ کچھ دیر بعد اس کی پوتی نے آنکھیں کھولیں، لیکن اس کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔ وہ دھیمی آواز میں کہہ رہی تھی، ’’ماں، مجھے بھوک لگی ہے، مجھے کچھ کھانے کو دے دو، میری آنکھوں میں اندھیرا چھا رہا ہے۔‘‘ یہ سن کر دادی کا دل تڑپ اٹھا۔ اس نے فوراً روٹی بنائی اور اسے پانی میں نرم کر کے پوتی کو کھلانے لگی۔ جب دونوں بہنوں نے تھوڑی سی روٹی کھائی تو پھر سے بھیک مانگنے کے لیے تیار ہو گئیں۔ دادی نے کہا، ’’بیٹی، اتنی دھوپ میں مت جاؤ، تم پہلے ہی بے ہوش ہو گئی تھی۔‘‘ لیکن دونوں بہنیں کہنے لگیں، ’’دادی، اگر ہم بھیک مانگنے نہیں گئیں تو ماں ہمیں مارے گی اور کہے گی کہ تم پیسے کیوں نہیں لائیں؟‘‘ یہ کہہ کر وہ دونوں باہر چلی گئیں، اور بوڑھی دادی اپنی پوتیوں کو باہر جاتے دیکھ بے بسی سے رونے لگی۔ اب تو پورے محلے کو پتہ چل چکا تھا کہ یہ عورت اپنی بچیوں سے بھیک منگواتی ہے۔ کچھ محلے کی عورتیں اس ظالم ماں کے گھر آئیں اور اس سے کہنے لگیں، ’’تمہیں شرم نہیں آتی؟ تم خود تو صحت مند اور جوان ہو، سارا دن گھر میں آرام کرتی ہو اور اپنی معصوم بچیوں کو اتنی کڑی دھوپ میں بھیک مانگنے بھیجتی ہو؟ ارے، تم کیسی ماں ہو؟ ہم اپنے بچوں کو دھوپ میں باہر نہیں نکلنے دیتے، اور تم اپنی بچیوں کو ننگے پاؤں بھیک مانگنے بھیجتی ہو! ایک بار تم خود ننگے پاؤں باہر جا کر دیکھو، پھر سمجھ میں آئے گا۔‘‘ ظالم عورت نے بے شرمی سے جواب دیا، ’’اگر تمہیں میری بیٹیوں پر اتنا ترس آتا ہے تو ایک مہینے کا خرچہ مجھے دے دو، میں انہیں گھر میں بٹھا لوں گی۔ جب سے میں نے اس گھر میں قدم رکھا ہے، میری زندگی برباد ہو گئی ہے۔ پہلے بیمار شوہر ملا، پھر دو بچیوں اور ایک بوڑھی عورت کا بوجھ مجھ پر ڈال دیا گیا۔ اب کیا میں گھروں میں کام کر کے انہیں کھلاؤں؟ یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔‘‘ یہ سن کر عورتیں حیران رہ گئیں۔ انہیں یہ دیکھ کر یقین ہو گیا کہ اس عورت کو اپنی بچیوں کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ظالم ماں نے ان عورتوں سے کہا، ’’یہ میرے گھر کا معاملہ ہے، تم سب یہاں سے دفع ہو جاؤ، اور خبردار جو دوبارہ یہاں قدم رکھا۔‘‘ آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا، بچیاں بڑی ہونے لگیں۔ ایک دن بڑی پوتی نے دادی سے کہا، ’’دادی، کچھ لڑکے ہمیں تنگ کرتے ہیں۔ جب وہ ہمیں 10 پیسے دیتے ہیں تو ہمارا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمیں چھیڑتے ہیں۔‘‘ یہ سن کر بوڑھی دادی کو بہت غصہ آیا۔ اس نے بہو سے کہا، ’’آج کے بعد میری پوتیوں کو بھیک مانگنے کے لیے مت بھیجنا، ہمیں بھوکا رہنا منظور ہے، مگر میں اپنی پوتیوں کو بھیک مانگنے کے لیے نہیں بھیجوں گی۔‘‘ اگلے دن جب ظالم ماں نے پھر سے بچیوں کو بھیک مانگنے کے لیے بھیجنا چاہا تو دادی بچیوں کے آگے آ کر کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی، ’’نہیں، اب میں انہیں باہر نہیں جانے دوں گی۔ جب ہم بھوکے رہ سکتے ہیں تو تم بھی بھوکی مرو۔ سارا دن خود اچھے سے کھاتی ہو اور ہمیں ایک سوکھی روٹی تک نہیں دیتی۔‘‘ ظالم بہو نے اپنی ساس کو دھکا دے کر پلنگ پر بیٹھا دیا اور کہا، ’’اے بوڑھی! خبردار اگر میرے معاملے میں ٹانگ اڑائی! تمہیں سوکھی روٹی مل رہی ہے، اسی پر شکر ادا کر۔ میری بچیوں کے ساتھ چاہے کچھ بھی ہو، تمہیں کیا تکلیف ہے؟ انہیں بھیک تو مانگنی ہی پڑے گی۔‘‘ بوڑھی دادی بے بسی میں آنسو بہانے لگی۔ اسے اپنی پوتیوں کی تکلیف دیکھ کر بہت دکھ ہوتا تھا، مگر ظالم ماں کو اپنے بچوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ وہ صرف پیسوں کی لالچی تھی۔ بچیاں بھیک مانگ کر روز اچھے پیسے لاتیں اور ان کی ماں پیسے گن کر خوش ہوتی۔پھر ایک دن ایسا ہوا جسے بوڑھی دادی برداشت نہیں کر پائی۔ جب بچیاں رات کو گھر آئیں تو بڑی بیٹی کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس کی رنگت اُڑ چکی تھی اور وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ اپنی پوتیوں کی ایسی حالت دیکھ کر بوڑھی دادی کا دل بیٹھ گیا۔ بڑی پوتی روتے ہوئے دادی کے گلے لگ گئی اور بتانے لگی، ’’گلی کے آوارہ لڑکے ہمیں تنگ کرتے ہیں، ہمارے کپڑے پھاڑتے ہیں، بال کھینچتے ہیں اور ہمیں ویران گلیوں میں لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دادی، اب میں بھیک مانگنے نہیں جاؤں گی۔‘‘ بوڑھی دادی کا غصہ بہو پر پھوٹ پڑا، مگر ظالم ماں نے ایک لفظ بھی نہیں سنا۔ وہ بس اتنا بولی، ’’مجھے بس پیسے چاہییں، چاہے جو ہو جائے۔‘‘  اگلے دن جب بچیاں نماز پڑھ رہی تھیں، ظالم ماں نے بڑی بیٹی کے بال کھینچتے ہوئے کہا، ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ دھوپ نکل آئی ہے اور تم ابھی تک نماز پڑھ رہی ہو؟ آج بھیک مانگنے نہیں جاؤ گی؟‘‘ دادی نے کہا، ’’ارے بہو! اللہ کا خوف کرو، قرآن پاک کا لحاظ کرو، میری پوتیاں آج سے بھیک مانگنے نہیں جائیں گی۔‘‘ ظالم بہو غصے میں دادی پر ٹوٹ پڑی، اس کا ہاتھ مروڑ کر اسے پیچھے دھکا دیا اور بری طرح پیٹنے لگی۔ دادی پہلے سے ہی گھٹنوں کے درد سے پریشان تھی اور اب اُٹھنے کے قابل بھی نہیں رہی۔ دادی کی حالت دیکھ کر پوتیاں چپ چاپ باہر بھیک مانگنے چلی گئیں۔ ظالم ماں نے دادی کا پنکھا بند کر دیا اور خود کمرے میں جا کر آرام کرنے لگی۔ بیچاری بوڑھی دادی گرمی اور درد سے تڑپ رہی تھی۔ اسے اپنی قسمت پر رونا آ رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی، ’’اگر کسی گھر میں بوڑھی عورت آ جائے تو گھر جہنم بن جاتا ہے۔‘‘  شام کو جب بچیاں واپس آئیں تو مغرب کی نماز ادا کرنے لگیں۔ جیسے ہی بڑی بیٹی نماز کے لیے کھڑی ہوئی، ظالم ماں نے جائے نماز کھینچ کر اسے نیچے گرا دیا اور کہا، ’’تجھے معلوم نہیں کہ پہلے پیسے دینے تھے؟ تم سب ہر وقت سجدہ کرتی رہتی ہو۔‘‘ بڑی بیٹی کی پیشانی سے خون بہنے لگا، مگر ظالم ماں نے ایک بار بھی اسے دیکھا تک نہیں۔ وہ پیسے لے کر اپنے لیے عمدہ قسم کا کھانا بنانے لگی، جس کی خوشبو پورے گھر میں پھیل رہی تھی۔ دادی اب اُٹھنے کے قابل نہیں رہی۔ دونوں بیٹیاں یہ سوچ کر خوش تھیں کہ آج گھر میں اچھا کھانا بن رہا ہے، لیکن ظالم ماں نے تینوں کے لیے صرف سوکھی روٹی اور پانی رکھ دیا۔  بچیوں نے سوکھی روٹی اور اپنی ماں کے سامنے عمدہ کھانا دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ چھوٹی بیٹی نے کہا، ’’ماں، ہمیں بھی کچھ دے دو، ہم روز سوکھی روٹی کھا کر سو جاتے ہیں۔‘‘ ظالم ماں نے کہا، ’’اگر تجھے یہ کھانا کھلا دیا تو لوگ تجھ پر ترس نہیں کھائیں گے اور بھیک نہیں دیں گے۔‘‘ وہ ظالم عورت کھانے کا پہلا نوالہ لینے ہی والی تھی کہ اس کے منہ کے تیور بدلنے لگے۔ وہ نوالہ اس کے گلے میں اٹک گیا۔ اس نے گلا پکڑ لیا اور الٹا سیدھا لیٹنے لگی۔ اس کے پورے جسم پر سیاہ دھبے اُبھر آئے، جیسے اس نے کوئی زہریلی چیز کھا لی ہو۔ وہ تڑپ تڑپ کر مر گئی۔ پھر اس کی شکل دھیرے دھیرے ایک کتیا میں بدل گئی۔  گاؤں کے لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ تبھی زمین سے ایک کوبرا سانپ نکلا اور اسے پکڑ کر زمین کے اندر کھینچ لے گیا۔ گاؤں والوں نے فیصلہ کیا کہ اب سے تینوں دادی پوتیوں کا خرچہ پورا گاؤں اُٹھائے گا۔ اب دونوں بچیاں قرآن کی تعلیم لینے لگیں اور اسکول بھی جانے لگیں۔


Author Name : Rabia Naz Saeedi 

Publish Date: 15 June 2023




Comments