Allah wale ek Banjh aurat ki 13 Aulad ek Bhuni Machli aur Cheel ka waqia in Urdu and Hindi
note : this story is written by owner of this blog (this is our ©️copyright work) so we don't give you any permission to copy this story and post on another website or youtube channel or any other social media platforms. Otherwise we will take leagal action
ایک پہاڑ پر کوئ اللہ کے نیک بندے رہا کرتے ان کو سب پہاڑ والے بابا کہتے وہ درویش انسان کبھی کسی سے کچھ نہ مانگتے بس اللہ کی ہی عبادت میں لگے رہتے نہ بھوک کی فکر نہ پیاس کا غم جب رب کھلادیتا کھالیتے جب پلادیتا پی لیتے اس پہاڑ کے نیچے ایک ندے بہتی تھی صاف و شفاف پانی کی ندی جس میں بہت ساری مچھلیاں موجود تھیں ایک مچھیرا اس ندی میں روز جال ڈالتا اور مچھلیاں پکڑتا وہ غیر مسلم مچھیرا تھا اس کی بیوی دنیا مین موجود نہیں تھی اس کا ایک ہی بیٹا تھا جو کام میں اپنے باپ کی مدد کرتا وہ اور اس کا بیٹا مفلسی میں زندگی گزار رہے تھے...بڑی مشکل سے گزر اوقات ہوتی تھی .کبھی جال میں مچھلی پھنستی کبھی نہ پھنستی اس دن وہ اپنے پاس رکھے ہوۓ بت کی پوجا کرتے کہ ہمارے حالات بدل دو ہمارے پاس بھی بہت سی مچھلیاں پھنسیں اور ہماری بھی زندگی عیش بھری گزرے ..کچھ ہی دور اس کے ایک مسلمان دوست کسان کا کھیت تھا وہ بھی غریب تھا.مچھیرا کبھی کبھی ایک مچھلی اس کو بھی دے دیا کرتا تھا..وہ کسان بے اولاد تھا اس کی بیوی روتی اور دعا کرتی کہ مجھے اولاد نرینہ عطا کردے لیکن کبھی کوئ خوشخبری نہ ملی.یہاں وہ مچھیرا بھی غربت کے ہاتھوں مارا جارہا ہے.یوں ہی دن گزرتے رہے لیکن مایوسی ختم نہ ہوئ بیٹا بھی باپ سے کہتا کہ کب ہماری زندگی بدلے گی کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ روز ایک ایک مچھلی پکڑنے کی بجاۓ ہمارے جال میں ہزاروں مچھلیاں پھنس جائیں تو وہ کہتا ہمارا خدا ہم سے ناراض ہے...ہم جو بھی دعا مانگے وہ اب قبول نہیں کرتا ایک دن انھی درویش کو اللہ کا حکم ہوا کہ جاؤ اس مچھیرے کا حال معلوم کرو جو ہمیں نہیں مانتا...لیکن ہم اس کو مایوس و نامراد نہیں دیکھ سکتے اللہ والے کو جب خواب کے ذریعے خبردی گئ تو آپ پہاڑ سے اتر کر ندی کے پاس آۓ اور لوگوں سے معلوم کیا کہ فلاں مچھیرا کہاں رہتا ہے...گاؤں والوں نے اس کی جھونپڑی کی طرف اشارہ کیا کہ وہ رہی اس کی جھونپڑی آپ اللہ کا نام لے کر وہاں پہنچے اواز لگائ میں ایک فقیر ہوں کیا کھانے کو کچھ مل سکتا ہے مچھیرا بولا ہمارے پاس تو خود فاقے ہیں تم بات کرتے ہو کہ تمھیں کھانے کے لیے کچھ دے دیں اچھا تو باہر تو آو مچھیرا باہر آیا تو ایک نورانی چہرے والے حضرت کو دیکھا کہا بابا میں بہت پریشان ہوں مچھلیاں جال میں پھنستی ہی نہیں اپنے بت سے مانگ مانگ کے تھک گیا ہوں لگتا ہے میرا خدا مجھ سے ناراض ہے ..بابا بولے بیٹا پتھر کے بت سے مانگے گا تو کیا پائیگا اصل خدا سے مانگ سب ملےگا سب سے بڑی چیز اطمینان سکون وہ بولا کون خدا اللہ والے بولے وہ جو ایک ہے سب کا پالنے والا ہے جس کی ہم عبادت کرتے ہیں وہ سب کو دیتا ہے چاہے اس کو مانے یا نہ مانے لیکن جو اس کو مان لے اس کی تو قسمت ہی بن جاتی ہے وہ بولا اچھا ایسا ہی ہے آپ کا خدا تو اگر آج میں جال پھینکوں میرے جال میں اتنی مچھلیاں پھنسے کہ کبھی میرا جال خالی نہ ہو اللہ والےنے کہا لو اللہ کا نام اور جال پھینکو مچھیرے نے الله کا نام لے کر ندی میں جال ڈال دیا اللہ والے بولے میں چلتا ہوں جو خبر ہو مجھے دینا میری عبادت کا وقت ہوگیا ہے اور ہاں مچھلی کے پیٹ سے جو ملے اسے سب سے بڑے جڑی بوٹی والے تاجر کو دکھانا اس کے بعد وہ پہاڑ پر چلے گئے اب یہاں مچھیرا اللہ والے پر بھروسہ کیے جال پانی میں ڈالے بیٹھا رہا اب دن بھر کے انتظار کے بعد دو بڑی سی مچھلیاں ہاتھ لگیں۔اس نے کہا یہ اس درویش کی دعا سے ہوا ہوگا ایک مچھلی میں اپنے اور اپنے بیٹے کے لیے رکھ لیتا ہوں اور ایک میں بازار میں بیچ دونگا ابھی وہ اپنا جال سمیٹ رہا تھا کہ ایک چیل تیزی سے جھپٹی اور اپنے پنجوں میں ایک مچھلی دبا کر اڑ گئی۔ مچھیرے کو بہت افسوس ہوا،کہ لو اتنی مشکلوں سے آج مچھلیاں جال میں پھنسی اب کیا کھاؤن کیا بیچوں...بیٹا بولا بابا اب کیا ہوگا مچھیرا بولا کوئ بات نہیں بیٹا اس اللہ والے نے کہا تھا کہ ضرور کوئ نہ کوئ مصلحت ہوتی ہے ہر کام میں آج میں نے مسلمانوں کے خدا سے مانگا ہے جس پر اس اللہ والے کا بہت توکل ہے میرا من کہتا ہے کہ آج ہمیں خوشی مل کر رہے گی پر بابا مجھے بھوک لگ رہی ہے تو چلو اسی مچھلی کو کاٹ لیتے ہیں وہ مچھلی گھر لے آے جو مچھلی کو کاٹا تو اس کے اندر سے ایک لال رنگ کا بیج نکلا بیٹا وہ بیج پھینکنے والا تھا کہ باپ کو یاد آیا اس نے کہا رکو اللہ والے نے کہا تھا مچھلی کے اندر سے جو ملے اس کو پھینکنا نہیں بلکہ اس کو جڑی بوٹی والے تاجر کی دکان مین لے جانا اب بیٹے کے ساتھ وہ پہنچا سب سے بڑے تاجر کے پاس جو اس نے اس لال بیج کو دیکھا تو کہا ارے یہ کہا سے ملا وہ بولا یہ مچھلی کے پیٹ سے ملا اس نے کہا یہ تو بیش قیمت جڑی بوٹی ہے یہ تو لاکھون مین بکتی ہے بس تم یہ مجھے دیدو مچھیرا خوش ہوا اس نے دو لاکھ درہم میں وہ ایک بیج بیچ دیا بیٹے کو خوشخبری دی صحیح کہا تھا اللہ والے نے میں ان کے رب کو مان گیا اب آگے سنیے وہ چیل اس مچھلی کو لے کر کہاں گئ.
وہ چیل اڑتی ہوئی ایک پہاڑی کی طرف جا پہنچی۔ ایک دوسری چیل نے اس سے مچھلی چھیننے کے لیے اس پر حملہ کر دیا۔ دونوں چیلوں میں چھینا جھپٹی ہونے لگی اور مچھلی چیل کے پنجوں سے پھسل کر پہاڑی پر رہنے والے اسی اللہ والے کی جھونپڑی کے سامنے گر پڑی۔ درویش نے مچھلی کو اٹھایا اور آسمان کی طرف دیکھ کر کہا، "اے الله! تو نے میری دعا قبول کر لی۔ میں نے مچھلی ہی تو مانگی تھی۔ مگر تجھ کو تو معلوم ہے کہ میرے پاس مچھلی پکانے کے لیے نہ تو تیل ہے اور نہ مصالحہ۔ مجھے تو پکی پکائی مچھلی چاہیے۔ میں یہ مچھلی نہیں کھا سکتا۔ اسے واپس منگوا لے اور مجھے پکی ہوئی مچھلی بھجوادے
یہ کہہ کر اللہ والے جھونپڑی میں چلے گۓ اور تھوڑی دیر کے بعد جب وہ دوبارہ باہر آۓ تو مچھلی وہاں نہیں تھی۔ اسے ایک چیل نے اٹھا لیا اور وہ دوسری چیلوں سے بچتی ہوئی، جو اس سے مچھلی چھیننے کے لیے اس کا پیچھا کر رہی تھیں، پہاڑی کے نیچے کی طرف اڑ رہی تھی لیکن دو چیلوں نے اس پر حملہ کر دیا اور اس سے مچھلی چھیننے کی کوشش کی۔ اس لڑائی میں چیل کے پنجوں سے وہ مچھلی نکل کر ایک غیب کسان کے آنگن میں جا گری۔ کسان کی بیوی نے دوڑ کر وہ مچھلی اٹھا لی اور کسان سے بولی، "میں تم سے کتنے دنوں سے کہہ رہی تھی کہ میرا دل مچھلی کھانے کو چاہ رہا ہے۔ تم نے تو لا کر نہ دی، الله میاں نے آج مجھے بھیج دی۔ میں نے منّت مانی تھی کہ جب بھی مچھلی پکاؤں گی پہاڑی والے بابا کو بھیجوں گی۔ اب میں مصالحہ پیس کر مچھلی پکائے دیتی ہوں۔ تم بابا کو جا کر دے آؤ اور کہنا کہ بابا دعا کریں کہ ہمارا ہونے والا بچہ زندہ اور سلامت رہے۔"
کسان کی بیوی نے مچھلی پکائی کہ اتنے میں کسان کا دوست مچھیرا وہاں آ گیا۔ کسان نے اپنے دوست سے کہا، "تم اچھے وقت پر آ گئے۔ آج مچھلی پکی ہے۔ کھانا کھا کر جانا۔"
مچھیرے نے تعجب سے پوچھا، "مگر تم کو مچھلی کہاں سے مل گئی؟ وہ تو میں ہی تم کو لا کر دیتا ہوں۔"
"بس یوں سمجھ لو الله میاں نے آسمان سے ٹپکادی ہمارے آنگن میں۔" کسان نے سارا ماجرا سنایا کہ کس طرح چیل وہ مچھلی وہاں گرا گئی۔ مچھیرا یہ سن کر مسکرایا مگر کچھ بولا نہیں۔
جب کسان پہاڑی بابا کو مچھلی دینے گیا تو مچھیرا بھی اس کے ساتھ گیا۔ کسان نے پکی ہوئی مچھلی کا پیالہ پیش کیا اور دعا کی درخواست کی۔
درویش نے ان دونوں کو دیکھا اور پوچھا، "مچھلی کہاں سے آئی؟"
کسان نے کہا، "آسمان سے گری، بیوی نے منّت مانی تھی کہ اگر اسے مچھلی ملی تو وہ پہاڑی والے بابا کو پہلے کھلائے گی اور دعا کرائے گی کہ اس کا ہونے والا بچہ زندہ اور سلامت رہے۔"
اب درویش مچھیرے سے بولا، "تم کون ہو؟"
مچھیرے نے کہا، "میں مچھیرا ہوں۔ آج صبح دو مچھلیاں پکڑی تھیں۔ ایک میرے کنبے کی قسمت کی تھی اور دوسری چیل اٹھا کر لے گئی۔"
درویش سارا ماجرا سن کر بولا، "ہم سب نے مچھلی کھانے کی خواہش کی۔ الله نے ایک ہی وقت میں ہم سب کی خواہش جس انداز میں پوری کی، یہ اس کی ذات کا ادنی سا کرشمہ ہے۔ ہمیں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔" مچھلیاں پھنس جائیں اور آج میری زندگی بدل جاۓ اگر ایسا ہوا تو میں کلمہ پڑھ لونگا آپ نے کہا تو ٹھیک ہے اب اس ندیسے کچھ دور ایک کسان کا کھیت تھا وہ کسان اپنی بیوی کے ساتھ زندگی بسر کررہا تھا ان کو زندگی سے ویسے تو کوئ شکایت نہیں تھی بس وہ بے اولاد تھے شادی کو کافی عرصہ بیت گیا لیکن اولاد نہ ہوئ وہ اولاد کے لیے رو رو کر دعا کرتی لیکن اللہ تعالی نے اس کی دعا نہیں سنی پھر ایک دن اس کو پتہ چلا کہ درویش بابا پہاڑ پر رہتے ہیں ان کی دعا سے اللہ پاک اولاد نرینہ عطا کرتا ہے تو اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ ہم لوگ اس درویش بابا کے پاس چلتے ہیں اور ان سے دعا کرواتے ہیں تو شوہر نے کہا کہ نہیں میں ان باتوں پہ یقین نہیں کرتا تم کو جو مانگنا ہے اللہ سے مانگو میں کسی درویش کے پاس نہیں جاؤں گا لیکن بیوی اس بات پر اڑی رہی پھر اس نے اپنے شوہر سے تو بولنا بند کر دیا لیکن دل میں دعا کر دی یا اللہ کچھ ایسا سبب بن جائے میں کسی طرح بابا جی کے پاس پہنچ کر ان سے دعا کروا لوں......ایک دن اس نے نفل نماز ادا کی اور دعا کی میں منت مانتی ہوں کہ اج اگر میرے گھر میں مچھلی ا جاتی ہے تو میں اس کو درویش بابا کی خدمت میں پیش کروں گی آج اگر ایسا ہوا تو ان کو میں مچھلی کھلاؤں گی ..
مچھیرے نے الله کا نام لے کر ندی میں جال ڈالا۔ دن بھر کے انتظار کے بعد دو بڑی سی مچھلیاں ہاتھ لگیں۔ وہ اپنا جال سمیٹ رہا تھا کہ ایک چیل تیزی سے جھپٹی اور اپنے پنجوں میں ایک مچھلی دبا کر اڑ گئی۔ مچھیرے کو بہت افسوس ہوا، مگر پھر وہ کچھ سوچ کر مسکرایا۔ اس کا بیٹا چیل اور اپنی قسمت کو کوسنے لگا۔ مچھیرے نے کہا، "بیٹا الله کا شکر ادا کرو کہ ایک مچھلی بچ گئی۔ دوسری مچھلی ہماری قسمت میں نہیں تھی۔ جو چیز جتنی قسمت میں ہوتی ہے اتنی ہی ملتی ہے۔ قسمت کو کوسنا ناشکروں کا کام ہے۔"
وہ چیل اڑتی ہوئی ایک پہاڑی کی طرف جا پہنچی۔ ایک دوسری چیل نے اس سے مچھلی چھیننے کے لیے اس پر حملہ کر دیا۔ دونوں چیلوں میں چھینا جھپٹی ہونے لگی اور مچھلی چیل کے پنجوں سے پھسل کر پہاڑی پر رہنے والے ایک درویش کی جھونپڑی کے سامنے گر پڑی۔ درویش نے مچھلی کو اٹھایا اور آسمان کی طرف دیکھ کر کہا، "اے الله! آپ نے میری دعا قبول کر لی۔ میں نے مچھلی ہی تو مانگی تھی۔ مگر آپ کو تو معلوم ہے کہ میرے پاس مچھلی پکانے کے لیے نہ تو تیل ہے اور نہ مصالحہ۔ مجھے تو پکی پکائی مچھلی چاہیے۔ میں یہ مچھلی نہیں کھا سکتا۔ اسے واپس منگوا لیجیے اور مجھے پکی ہوئی مچھلی بھجوائیے۔"
یہ کہہ کر درویش جھونپڑی میں چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد جب وہ دوبارہ باہر آیا تو مچھلی وہاں نہیں تھی۔ اسے ایک چیل نے اٹھا لیا اور وہ دوسری چیلوں سے بچتی ہوئی، جو اس سے مچھلی چھیننے کے لیے اس کا پیچھا کر رہی تھیں، پہاڑی کے نیچے کی طرف اڑ رہی تھی لیکن دو چیلوں نے اس پر حملہ کر دیا اور اس سے مچھلی چھیننے کی کوشش کی۔ اس لڑائی میں چیل کے پنجوں سے وہ مچھلی نکل کر ایک غریب کسان کے آنگن میں جا گری۔ کسان کی بیوی نے دوڑ کر وہ مچھلی اٹھا لی اور کسان سے بولی، "میں تم سے کتنے دنوں سے کہہ رہی تھی کہ میرا دل مچھلی کھانے کو چاہ رہا ہے۔ تم نے تو لا کر نہ دی، الله میاں نے آج مجھے بھیج دی۔ میں نے منّت مانی تھی کہ جب بھی مچھلی پکاؤں گی پہاڑی والے بابا کو بھیجوں گی۔ اب میں مصالحہ پیس کر مچھلی پکائے دیتی ہوں۔ تم بابا کو جا کر دے آؤ اور کہنا کہ بابا دعا کریں کہ ہمارا ہونے والا بچہ زندہ اور سلامت رہے۔"
کسان کی بیوی نے مچھلی پکائی کہ اتنے میں کسان کا دوست مچھیرا وہاں آ گیا۔ کسان نے اپنے دوست سے کہا، "تم اچھے وقت پر آ گئے۔ آج مچھلی پکی ہے۔ کھانا کھا کر جانا۔"
مچھیرے نے تعجب سے پوچھا، "مگر تم کو مچھلی کہاں سے مل گئی؟ وہ تو میں ہی تم کو لا کر دیتا ہوں۔"
"بس یوں سمجھ لو الله تعالی نے آسمان سے ٹپکادی ہمارے آنگن میں۔" کسان نے سارا ماجرا سنایا کہ کس طرح چیل وہ مچھلی وہاں گرا گئی۔ مچھیرا یہ سن کر مسکرایا مگر کچھ بولا نہیں۔
جب کسان پہاڑی بابا کو مچھلی دینے گیا تو مچھیرا بھی اس کے ساتھ گیا۔ کسان نے پکی ہوئی مچھلی کا پیالہ پیش کیا اور دعا کی درخواست کی۔
درویش نے ان دونوں کو دیکھا اور پوچھا، "مچھلی کہاں سے آئی؟"
کسان نے کہا، "آسمان سے گری، بیوی نے منّت مانی تھی کہ اگر اسے مچھلی ملی تو وہ پہاڑی والے بابا کو پہلے کھلائے گی اور دعا کرائے گی کہ اس کا ہونے والا بچہ زندہ اور سلامت رہے۔"
اب درویش مچھیرے سے بولا، "تم کون ہو؟"
مچھیرے نے کہا، "میں مچھیرا ہوں۔ آج صبح دو مچھلیاں پکڑی تھیں۔ ایک میرے کنبے کی قسمت کی تھی اور دوسری چیل اٹھا کر لے گئی۔"
درویش سارا ماجرا سن کر بولا، "ہم سب نے مچھلی کھانے کی خواہش کی۔ الله نے ایک ہی وقت میں ہم سب کی خواہش جس انداز میں پوری کی، یہ اس کی ذات کا ادنی سا کرشمہ ہے۔ ہمیں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔اب اللہ والے بولے تو مچھیرے دیکھا تم نے اللہ کون ہے ایک مچھلی کا تمھارے پاس سے میرے پاس آنا پھر کسان تک جانا...
Comments
Post a Comment