3 Aurten Kutiya Bn gyi | Allah wale aur nek aurat ka waqia

 ایک اللہ والے کی بہن کسی دوسرے گاٶں میں رہا کرتی تھیں جو کہ انھی کی طرح اللہ کی عبادت کرنے والی اور نیک خاتون  تھیں اللہ والے کبھی ان سے ملنے ان کے گاٶں چلے جایا کرتے تھے لیکن اتفاق ہوا کہ اس بار وہ اپنی بہن سے ملنے ان کے گاوں نہ جاسکے اس  اللہ والی عورت کے تین بیٹے تھے جو کہ جوان ہوگئے تھے تو انھوں نے ان کی شادیاں کردیں ... انسان خود تو اچھا ہوتا ہے لیکن اکثر اس کا سامنا کسی اچھے انسان سے نہیں ہوتا یہی اس ساس کے ساتھ ہوا  جس کی وہ تینوں بہویں بہت چالاک اور شاطر تھیں اب وہ ساس جب اپنے کمرے میں نماز پڑھتی تو ان   کو بہت برا لگتا کہ یہ کیا ہر وقت اللہ اللہ کرتی رہتی ہے جب دیکھو گھر میں پڑی روٹیاں توڑتی رہتی ہے .. جبکہ وہ گھر کا سارا کام بھی کیا کرتی تھی اور اس کی عادت تھی کہ وہ صدقہ وغیرہ زیادہ سے زیادہ کرتی جب کوئی فقیر دروازے پر اتا تو کبھی اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹاتی اور یہ بات بہوؤں کو بہت غصہ دلاتی تھی وہ خاتون اپنے پڑوسوں سے کوئی خیال رکھتی ہوں اور بہت سے کہتی کہ تم لوگ کھانا زیادہ بیان کرو کیونکہ مجھے پڑوسیوں کو بھی کھانا دینا ہوتا ہے وہ لوگ دل ہی دل میں  اپنی ساس سے بہت زیادہ جلتی تھی اور نفرت بھی کرتی تھی کیونکہ وہ  بہوؤں کو صبح صبح اٹھا دیتی تھی اور کہتی تھی  کے اٹھ کر فجر کی نماز پڑھو گھر کو صاف کرو  ان کو عبادت کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا لیکن اپنی ساس کے ڈر سے وہ عبادت کر لیا کرتی تھی  ایک دن اس نے خاتون نے اپنی بہو کو اٹھایا اور کہا کہ فجر کی نماز پڑھ کے گھر کو اچھی طرح سے صاف کرو اج میں بہت سے لوگوں کو دعوت پر بلا رہی ہوں تو کہنے لگی کیا کوئی بڑے لوگ ا رہے ہیں تو ساس نے کہا نہیں نہیں میں بڑے امی لوگوں کی دعوت نہیں کر رہی بلکہ یہاں کے جتنے غریب ہیں وہ سب ہمارے پاس کھانا کھانے ا رہے ہیں اس لیے بڑا سا دسترخوان لگے گا اور تم تینوں نے مل کر ان کے لیے کھانا بنانا ہے اللہ تعالی خوش ہوتا ہے اپ زیادہ سے زیادہ کھانا کھلائیں  اللہ تعالی کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل  بھوکوں کو کھانا کھلانا ہے  وہ غصے سے کھولنے لگی کہ کیا مصیبت ہے جب سے اس گھر میں ائے ہیں بس کھانا ہی پکاتے رہتے ہیں کبھی یہ غریب کبھی وہ یتیم کبھی کوئی بیوہ کبھی کوئی فقیر نہ جانے یہ بڑھیا ہمارے پیچھے کوئی لگ گئی ہے اور اس کے بعد اتنا پیسہ اتا کہاں سے ہے جو یہ اتنے سارے لوگوں کو کھانا کھلاتی ہے وہ اپنے 





شوہروں سے پوچھتی کہ اخر اپ کی ماں کے پاس کوئی جائیداد ہے تو وہ کہتے ہیں ہماری ماں کو صدقہ و خیرات کرنے کا بہت شوق ہے یہ خاندان ہی کچھ ایسا ہے کہ یہاں پر  نیکیوں کو پسند کیا جاتا ہے اس لیے تم وہی کرو جو ہماری ماں چاہتی ہے   شوہر تو کام پر چلے جاتے تھے وہ اپنی ماں کے بہت فرمانبردار تھے لیکن ان کی پیٹھ پیچھے ان کی بیویاں سازش رچاتی تھیں کہ کس طرح اپنی بوڑھی ساس کو ہم تنگ کریں لیکن اللہ کی کرنی کہ کبھی وہ ان کو تکلیف نہیں پہنچا سکی تھی ایک دن  جب ساس  اپنے کمرے میں سونے کے لیے گئیں تو  تو تینوں کو اپس میں کھٹا بیٹھ کر باتیں کرنے کا موقع مل گیا  ایک بہو کہنے لگی میں تو تھک گئی ہوں  پتہ نہیں اس بڑھیا سے ہمارا کب پیچھا چھوٹے گا کب یہ دنیا چھوڑ کر جائے گی تاکہ ہم لوگ سکون کی سانس لے سکیں تب چھوٹی بہو نے کہا  یہ بڑھیا روز روز بڑی دیگوں میں کھانے پکواتی ہے  جس نے ہماری ناک میں دم ہو گیا ہے تب بیچ والی بہو نے کہا اس بڑھیا کی وجہ سے ہم اپنے بچوں کی اچھی طرح سے دیکھ بھال نہیں کر پا رہے ہیں نہ ہی ان کی اچھی طرح سے پرورش ہو رہی ہے  ہم تو بس فقیر و غریبوں کو کھانا ہی کھلاتے رہتے ہیں اپنے گھر والوں کو تو ہم دیکھتے ہی نہیں ہیں یہ کسی نہ کسی طرح یہاں سے نکل جائے  ایک دن کی بات ہے چھوٹی بہو نے جھوٹ موٹ اپنے ہاتھ پر پٹی باندھ لی اور شوہر کے آنے کا انتظار کرنے لگی چھوٹا  بیٹا جب گھر ایا تو اس کا  یہ حال دیکھ کر پریشان ہو گیا اس نے روتے ہوئے اپنے شوہر سے کہا  کہ اج ماں جی نے مجھ سے سارے گھر کا کام کروایا یہاں تک کہ یہاں پر 50 لوگ ائے تھے ان کے لیے بھی کھانا اکیلے بنایا ہے میں نے اور میرا ہاتھ بری طرح سے کٹ گیا ہے اب مجھے درد ہو رہا ہے مجھے اس گھر میں نہیں رہنا ہے اپ کی ماں نے ہمیں تنگ کر کے رکھا ہوا ہے نہ اپنی خبر لے سکتے ہیں نہ ہی اپنے بچوں کی اپ یا تو ہمیں اللہ کریں یا ان کو اس گھر سے کسی اور جگہ بھیج دیں  چھوٹا بیٹا ماں کا اتنا فرمودار نہیں تھا اپنی بیوی کی حالت دیکھ کر اسے غصہ ایا وہ اپنی اماں کے پاس ائے اس نے کہا اپ نے کیا ہماری بیویوں کو نوکر سمجھ رکھا ہے جو ان سے ہزاروں لوگوں کو کھانا پکواتی رہتی ہیں اپ کو اتنا ہی شوق ہے تو اپنے بھائی کے گھر چلی جائیے وہاں جا کر ان کے ساتھ نیکی کے کام کریے گا بیٹے  کو پہلی بار اس لہجے میں بات کرتے دیکھ کر ماں کو بہت دکھ ہوا انہوں نے کہا تم لوگ کیا چاہتے ہو وہ کہنے لگا ہم 






تینوں بھائی چاہتے ہیں کہ اپ  اپنے بھائی کے گھر چلی جائیے تو وہ کہنے لگی میں بھائی کے گھر چلی جاؤں جب کہ تم میرے جوان بیٹے ہو تمہارا فرض ہے میری خدمت کرنا  ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے ہم اپ کی خدمت کر رہے ہیں لیکن اپ تو ہماری بیویوں کو یہاں کی خادمائیں  سمجھ چکی ہیں اس لیے ہم اپ سے تنگ ا گئے ہیں اپ اس گھر چھوڑ کر چلے جائیے  یہاں ہم ایک اور کر چھوڑ چلے جائیں گے ماں نے بڑے بیٹوں کی طرف دیکھا تو وہ بھی اپنی بیویوں کی زبان بول رہے تھے ماں کو بہت دکھ ہوا انہوں نے کہا ٹھیک ہے بیٹا میں یہاں سے جا رہی ہوں کیونکہ میں تم لوگوں کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی ہوں انہیں یہ خبر نہیں تھی ان کی ماں کہاں جا رہی ہے ان کے ذہن میں یہی تھا کہ وہ اپنے بھائی کے گھر ہی جائینگی جو دوسرے گاؤں میں رہتے ہیں  انہوں نے اپنے کچھ جوڑے لیے اور گھر سے نکل گئی وہ کہاں جا رہی تھی انہوں نے ہی خبر تھی وہ اپنے بھائی کے پاس نہیں جانا چاہتی تھی کیونکہ بلا وجہ بھائی پریشان ہو جاتے وہ ویسے ہی دین کے کاموں میں لگے رہتے تھے  وہ بہن اپنے بھائی پر پہنچ نہیں بننا چاہتی تھی اب وہ چلتی جا رہی تھیں کہ انہیں راستے میں  ایک خوبصورت سا نوجوان نظر ایا جو کہ اپنے ہاتھوں میں تھیلا اٹھائے ہوئے انہی کی طرف چلتا ا رہا تھا نوجوان نے کہا ماں جی اپ اکیلی کہاں جا رہی ہیں  تو کہنے لگی کہیں نہیں  بیٹا بس منزل کی تلاش میں ہوں اس لیے سفر کر رہی تھی اس نے کہا لگتا ہے اپ اکیلی ہیں اپ کا کوئی نہیں ہے وہ چپ ہو گئی لڑکا کہنے لگا کوئی بات نہیں یہاں قریب ہی میرا ایک چھوٹا سا گھر ہے جہاں میں اکیلا رہتا ہوں اپ ائیے وہاں پر میرے ساتھ رہیے  وہ خوبصورت سا لڑکا بوڑھی عورت  کو لے کر اپنے گھر اگیا وہ بہت ہی چھوٹا سا لیکن سکون والا گھر تھا جو جنگل کے بیچ بنا ہوا تھا اس  گھر کے سامنے ایک  صاف شفاف پانی والی ندی بہہ رہی تھی بوڑھی ماں نے کہا بیٹا تم تو بہت اچھی جگہ رہتے ہو  کہ تمہارا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے اس نے کہا نہیں میں یتیم ہوں اس لیے اپ میری ماں ہیں اج سے اپ یہاں پر رہیے گا  اس بوڑھی عورت نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اس نے کہا کہ میں نماز پڑھنا چاہتی ہوں  لڑکے نے ان کو ایک کمرہ دکھا دیا اور کہا کہ اب یہاں پر رہیے اپنی عبادت کریں اور جتنا دل چاہے نماز پڑھیے اس کے بعد وہ لڑکا وہاں سے چلا گیا  بوڑھی عورت  حیران اس بات 





پر ہوتی تھی کہ  اتنا جوان ہو کر بھی اللہ کا نیک بندہ یعنی بہت عبادت گزار تھا ہر وقت نماز پڑھتا رہتا تھا پر کبھی گھر میں ہوتا اور کبھی گھر سے چلا جاتا تھا  وہ وہاں ا کر بہت چپ ہو گئی تھی جس ماں کو اس کے بیٹے ہی گھر سے نکال دے وہ ماں بھلا کہ جیسے کہ اپ سوال کر سکتی تھی  اللہ تعالی سے دعا کرتی ہیں یا اللہ اگر تو میری نیکیوں کو دیکھتا ہے تو بس مجھے تو رسوا نہ کرنا اور کسی کا محتاج نہیں کرنا تو جانتا ہے کہ مجھے غریبوں کو کھانا کھلانا کتنا اچھا لگتا ہے لیکن میرے بیٹوں نے تو اسی وجہ سے مجھے گھر سے نکال دیا میں ان سے کوئی شکوا نہیں کرتی نہ ہی انہیں بدعا دیتی ہوں  بس دل اداس اس لیے ہوتا ہے کہ میں یہاں پر کسی کو کھانا نہیں کھلا سکتی وہ یہ سوچ رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی دیکھا تو وہاں پر  بہت سے فقیر اور عورتیں کھڑی ہوئی تھی انہوں نے کہا اپ لوگ یہاں پر کس لیے کہنے لگی ہم نے سنا ہے یہاں پر  کھانا کھلایا جا رہا ہے   بوڑھی عورت نے کہا نہیں یہاں پر تو کوئی بھی کھانا کھلانے والا نہیں نہ ہی میں نے کھانا بنایا ہے وہ کہنے لگے ارے اپ کیسی بات کرتی ہیں بوڑھی مائی وہ دیکھیے دیگیں پک رہی ہیں انہوں نے باہر جا کر دیکھا تو وہاں بڑی بڑی دیگوں  میں  کھانا پک رہا تھا  انہیں کون پکا رہا تھا کچھ نہیں پتہ تھا  وہ لڑکا بھی وہاں پر نظر نہیں ا رہا تھا بہرحال دسترخوان تو لگ ہی چکا تھا سب لوگوں نے کھانا کھایا بوڑھی ماں نے بھی کھانا کھایا اور اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا اللہ  تو نے میری دعا کو اس طرح سنا میں تو بس سوچ ہی رہی تھی اور یہ کھانا خود بخود پک گیا یہ کیسے ہوا میں نہیں جانتی پھر بھی تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے  وہ سمجھ رہی تھی کہ یہ دسترخوان صرف ایک دن کیر لگا ہے پر ایسا نہیں تھا وہ جب بھی فجر کی نماز پڑھنے کے بعد باہر اتی تو وہاں پر دے کے پک رہی ہوتی اور خود بخود لوگ وہاں ا جاتے اور لنگر چلتا رہتا پر وہ لڑکا اسی وقت وہاں سے کہیں چلا جاتا  اب وہ  سمجھ گئی تھی کہ اس میں کوئی نہ کوئی تو راز ہے کیونکہ یہ انہونی بات کسی عام سے  انسان کی طرف سے نہیں ہو سکتی یہ لڑکا کوئی اللہ کا نیک بندہ ہے  کچھ رات ایسے ہوتے ہیں جن کو کھولنا مناسب نہیں ہوتا اس لیے وہ بھی خاموش نہیں کھانا تو خود بخود پکتا تھا پکانے والا کون تھا نظر نہیں اتا تھا اب یہ اس بات کی شہرت گاؤں میں ہونے لگی وہ گاؤں جہاں پر اس عورت کے 



اپنے بچے رہا کرتے تھے  تینوں بہت تک کی خبر پہنچی کہ جنگل میں ایک ایسا گھر ہے جہاں پر بس کھانا ہی پکتا رہتا ہے گاؤں کے جتنے غریب اور غرباء ہیں فقیر ہیں مسکین ہیں اور جن کے گھر کھانا نہیں ہوتا وہ تو وہیں پر جا کر کھانا کھا کر اتے ہیں کوئی بھی اب بھوکا نہیں رہتا ہے ان تینوں نے سوچا چلو ہم بھی وہاں جا کر دیکھتے ہیں یہ کون ہے جو اس قدر بڑا دسترخان لگا رہا ہے  ایک  دن وہ تینوں بہو ہیں شوہروں سے چھپ کر چنگل میں پہنچی وہاں ایک چھوٹا سا گھر بنا ہوا تھا اور اس گھر کے اندر کون تھا یہ تو نہیں پتہ تھا پر باہر بڑی بڑی دیگیں پک رہی تھی اور لوگ کھانا بھی کھا رہے تھے ان کو بھی کھانے کے لیے بلایا گیا  تو انہوں نے کیا کریں کار کر دیا نہیں بھائی ہم صدقہ و خیرات والے کھانا نہیں کھاتے  اب کوئی فقیر بھکاری تھوڑی ہیں  ایک عورت نے کہا ایسی بات نہیں ہے یہ کھانا بہت شفا والا ہے ہم نے سنا ہے جو یہ کھانا کھاتا ہے اس کی تمام مرادیں پوری ہو جاتی ہیں اور اگر وہ بیمار ہوتا ہے تو  وہ صحت مند بھی ہو جاتا ہے وہ کہنے لگے ہم ان باتوں پہ یقین نہیں کرتے ہم ویسے ہی اپنی ساس کی وجہ سے بہت عاجز ہیں پھر ایک بہو بولی  اچھا یہ بتاؤ یہ گھر کس کا ہے یہ بہت امیر اور رئیس ادمی لگتا ہے  جو روز اتنے کھانے  سب کو کھلا رہا ہے وہ کہنے لگی کہ یہاں کوئی ادمی نہیں بلکہ عورت رہتی ہے سنا ایک ضعیفہ ہے کہ جن کو کھانا کھلانے کا بہت شوق ہے وہ تینوں چوکی کہیں ہماری ساس تو نہیں لیکن وہ تو اپنے بھائی کے گھر دوسرے گاؤں گئے ہیں  چھوٹی بابا نے کہا چلو گھر میں چل کے دیکھتے ہیں وہ چپکے سے گھر میں داخل ہوئی تو ان کو ایک کمرے سے کسی کے قران پاک پڑھنے کی اواز ارہی تھی لیکن وہ کسی عورت کی نہیں بلکہ مرد کی اواز تھی  وہ تینوں وہاں کھڑی سوچ ہی رہی تھی کہ کمرے سے ایک  چمکتے نورانی چہرے بڑی سی سفید  داڑھی والے بزرگ نکلے جن کے چہرے پر اتنا جلال تھا کہ وہ تینوں کانپ گئی انہوں نے کہا کون ہو تم لوگ  نہیں کوئی نہیں ہم تو باہر کھانا کھانے ائے تھے تو کھانا کھایا یا نہیں جی جی کھا لیا انہوں نے جھوٹ بولا اور وہاں سے چلی گئی  باہر ا کر چھوٹی بہو کہنے لگی ہاں میں تو ڈر گئی تھی کہیں ہماری ساس تو نہیں یہ تو کوئی  کوئی اور بزرگ تھے  وہ تینوں  اپنی ساس کا ذکر کر کے مذاق اڑانے لگی اس بڑھیا نے تو اتنا پریشان  کیا ہوا تھا کہ بس وہی ذہن پر سوار ہے اچھا ہے وہ ہمیں نہیں ملی اور کھانا بھی ہم نے نہیں کھایا نہ جانے کون سا 




صدقہ خیرات والا کھانا ہے وہ تینوں اسی طرح بد زبانی اور گستاخی کر رہی تھیں  بیج کی بہو چیخی ارے مجھے کیا ہو رہا ہے دونوں بہو نے اس کو دیکھا تو اس کا چہرہ بدل رہا تھا  دونوں کے بھی اپنے اندر بدلاؤ محسوس ہونے لگا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ تینوں کتیا کی شکل میں بدل گئیں... اب ان کے منہ میں انسانی زبان کہاں تھی   نہ ہی انسان کی طرح وہ کسی کو اپنے درد کے بارے میں بتا سکتی تھی وہ کسی نے کسی نہ گھر پہنچی تو وہاں پر ان کے شوہر بیٹھے ہوئے تھے جو تین کتیاٶں کو گھر میں گھستا دیکھا تو وہ ان کے پیچھے ڈنڈا لے کر بھاگے  وہ ڈری سہنی باہر اگئی اور کسی دیوار کے پیچھے چھپ گئی  انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ انسان سے جانور کیسے بن گئیں   دیوار کے میرے چپ کر وہ سونے لگی شوہر کہہ رہے تھے نہ جانے ہماری بیویاں کہاں چلے گئی ہیں مگر بتائیں  اگر وہ تین ان کے سامنے اتی تو وہ پھر سے انہیں مارنے کے لیے بھاگتے اس لیے وہ مجبورا ان کے سامنے آنہیں سکتی تھیں  اشرف المخلوقات سے انسان سے ایک جانور بنتے ہوئے ان کو احساس ہو رہا تھا کہ ایک انسان کو اللہ نے کیا درجہ دیا ہے اور ہم قدر نہیں کرتے  بلکہ ناشکری کرتے ہیں  یہاں پر تینوں بیٹے پریشان تھے اپنی ماں کی تو فکر نہیں تھی لیکن بیویوں کی ضرورت تھی کہ وہ کہاں گئی ہیں  بھی گزرتے ہیں لیکن ان کو تلاش کرنے پر بھی میویاں نظر نہیں ائی جبکہ ان کی تینوں بیویاں وہیں کھڑی رہتی تھیں بھونکتی تھیں تو بھگادی جاتی تھیں  نہ بچے ماؤں کو پہچان رہے تھے  وہ ان کے پاس انسو بہانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا  جب اس حالت میں کوئی دن گزر گئے تو سب سے چھوٹی کتیا نے اپنی زبان میں دونوں سے کہا  کہ ہم جنگل میں اسی جگہ جاتے ہیں جہاں پر وہ کھانا کھلایا جاتا ہے  ہو سکتا ہے وہ کھانا کھا کر ہمیشہ مل جائے اور ہم انسانی حالت میں ا جائے یہ سن کر وہ تینوں جنگل کی طرف چلی گئی  وہاں پر بھی کھانا کھلایا جا رہا تھا پر  گاؤں کے ان غریب نادار  بھکاری ان کو پکانا شروع کر دیا کوئی لاد مار رہا تھا کوئی ان کو دھتکار رہا تھا  کیونکہ وہ انسان نہیں جانور تھیں  اب  احساس ہورہا تھا کہ جو رویہ وہ کسی فقیر غریب کے ساتھ رکھتی تھی اج وہی ان کے ساتھ ہو رہا تھا  سب پلٹ کر مل رہا تھا تینوں انسو بہانے لگی کہ کس 




طرح کوئی ان کو کھانا کھلا دے اتنے میں وہی خوبصورت نوجوان ان تینوں کتیاوں کے پاس آیا اور ان کو کہا  لگتا ہے تم لوگ بھوکی ہو لیکن یہ کھانا تمہارے لیے نہیں ہے  یہ کھانا ان کے لیے ہے جو انسان ہے  وہ انسان جن کے دل میں انسانوں کا درد ہے ہر ایک کا درد ہے اور تم لوگ تو وہ ہو جنہوں نے ہمیشہ بے حد سے دکھائی اور ایک ضعیفہ کے دل کو توڑا  وہ تو ویسے ہی اپنی حالت سے پریشان تھی اب نہ سمجھیے کیفیت میں اس نوجوان کو دیکھ رہی تھی نوجوان نے کہا مجھے پتہ ہے کہ تم لوگ کبھی انسان تھی اور یہ حالت بھی تمہاری اپنی حرکتوں کی وجہ سے ہے چلو میرے ساتھ ان تینوں کو پکڑ کر وہ گھر لے ایا  یہاں پر وہی بڑے بزرگ اللہ والے تھے وہ مسکرائے اور کہا  اگر تم تینوں اس دن اکڑ بازی نہ کرتی اور یہ کھانا کھا لیتی تو تمھارا  یہ حشر نہ ہوتا لیکن تم کیوں وہ کھانا کھاتی ہو تو غریب ہو مسکنوں کا کھانا تھا اور تم لوگ تو بھکاریوں کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتی تھی  اور جو اللہ کی نیک بندی ان کو کھانا کھلاتی تھی تم نے تو اس کو بھی اپنے گھر سے نکال دیا تھا  وہ تینوں جانور بنی اب کیا کہتی بس اشک بہارہی تھیں  اللہ والے نے کہا اللہ کے حکم سے تم انسانوں کی طرح بولنے لگ جاؤ اور کہو اپنے جرم کے بارے میں  اللہ کے حکم سے وہ جانور انسان کی طرح بولنے لگی ایک چھوٹی بہو نے کہا ہم مانتے ہیں ہم نے  ہمیشہ غرور کیا اور ایک بوڑھی ماں کا دل دکھایا لیکن اپ کون ہیں  اور اپ کو یہ سب کیسے پتہ ہے اللہ والے نے کہا وہ بوڑھی ماں جس کا تم نے دل دکھا کر اسے گھر سے نکالا وہ کوئی اور نہیں میری بہن ہے  پر کیا وہ اپ کے پاس نہیں گئی تھی نہیں  وہ میرے پاس نہیں آتی ..... وہ خدا اور عورت ہے اور وہ ہرگز برداشت نہیں کرتی کہ اس کا بھائی اس کے لیے پریشان ہو  پر تم نہیں جانتی کہ میری بہن کے پاس میں نے اپنے خاص ادمی بھیجا ہوا تھا جو تم لوگوں کو نظر نہیں اتا تھا اور جب میری بہن مشکل میں ائی تو اس نے ہی میری بہن کو راستہ دکھایا اور اس گھر میں ٹھہرایا مجھے اپنے علم کے ذریعے پتہ چل گیا تھا کہ تو انہیں ان کے گھر سے نکال چکے ہو اس لیے میں نے اپنے خاص خادم  کو اپنی بہن کی خدمت کے لیے رکھا  تم لوگ سوچتی تھی نا کہ میری بہن اتنے لوگوں کا کھانا کیسے کھلا دیتی ہے تو یہ بھی اللہ کے کرم سے اس کی عطا سے ہی ہو رہا تھا کیونکہ جب  کوئی نیک بندہ اللہ کی راہ میں ایک گنا خرچ کرتا ہے تو اللہ دس کو دس گنا دیتا ہے  ہم بے شک دوسرے گاؤں میں رہتے تھے لیکن ہماری نظر اپنی بہن پر تھی اس لیے ہم نے سوچا کہ ہماری بہن کو تم لوگوں نے تکلیف ہو جائی ہے تو ہم خود 





یہاں چل کر ائیں لیکن یہ جو تمہارا حال بنا ہے یہ سب اللہ کی طرف سے ہے اس میں کسی کو کوئی بددعا شامل نہیں اگر تم اس دن وہ کھانا کھا لیتی تو تم یہ جانور نہ بنتی پر تم نے غرور کیا اور غرور کے سزا تو بہت ہی بھیانک ہوتی ہے  اللہ والے کی بات سن کر وہ رونے لگے اور کہا ہمیں معاف کر دیجیے ہمیں ماجی سے ایک بار ملا لیجیے ہم ان سے معافی مانگیں گے بے شک زندگی بھر ہم انسان نہ بنے لیکن وہ ہمیں معاف کر دیں ہم بہت نادم ہیں  اس بیچ میں احساس ہو گیا کہ ایک انسان کو اللہ نے جو درجہ دیا ہے اس پر وہ اگر غرور کر لے تو وہ کس  جگہ جا گرتا ہے اور وہی حال ہمارا ہوا ہے نہ ہمارا شوہر ہمیں پہچانتا ہے نہ بچے نہ ہم گھر کے رہے نہ گھاٹ کے  اس لیے وہ ایک بار ماجھی سے کہیں کہ وہ ہمیں معاف کر دیں اللہ والے کی پرجلال انکھوں میں وہ دیکھ نہیں پا رہی تھی پھر انہوں نے کہا اے  نوجوان ہماری بہن کو بلا کر لاؤ  اور ان کی والدہ کو بلا کر لے ایا   جن کی انکھوں میں ڈھیروں انسو تھے وہ تینوں کہنے لگیں ہمیں معاف کر دے ماں جی اور ان کے قدموں سے لپٹ گئی  وہ اللہ والی  خاتون تھیں بھلا کسی کو معاف کرنا نہ معاف کرنا تو اللہ کا کام ہے وہ کہنے لگی میں نے تم سے کوئی ناراض  نہیں ہوں نہ  میں تم سے کوئی گلا رکھتی ہوں  نہ ہی میں نے تم لوگوں کے ابھی کوئی بد دعا کے الفاظ نکالے یہ سب اللہ کی طرف سے ہوا ہے  صدقہ و خیرات تو بری بلاؤں سے بچاتا ہے بری موت سے بچاتا ہے بری بیماری سے بچاتا ہے میں تو اس لیے ہی زیادہ سے زیادہ قرات کرتی تھی تاکہ میرے بچے ان آفات  سے بچ جائیں لیکن تم لوگوں نے ہی مجھے گھر سے نکال دیا  دیکھو میرے رب نے مجھے پیاس رہنا چھوڑا میرے بھائی میرے  محرم نے مجھے اکیلا نہ چھوڑا  ماں جی اپ نے ہمیں معاف کر دیا اب ہم یہاں سے چلتے ہیں وہ روتی ہوں اتے جانے لگی تو انہوں نے کہا نہیں اس حالت میں نہیں جاؤ گی بلکہ تم لوگوں کو احساس ہے اور میں بھی تم لوگوں کو جانور بنا دیکھ کر اچھا محسوس نہیں کر رہی ہوں انہوں نے اپنے بھائی اللہ والے کی طرف دیکھ اور کہا کہ بھائی ان کے لیے دعا کیجئے وہ کہنے لگی ان تینوں سے کہو کہ جب اپنے شوہروں کو بلا کر لائیں وہ تینوں  اللہ والے کے حکم پر اپنے شوہروں کو بلانے چلے 



گئے پہلے تو ان کے شوہروں نے ان کو وہاں سے مار کر بھگانا چاہا لیکن جب وہ تینوں بول پڑی تو ان کو یہ اگے نہ گیا کہ یہ ان کی ہی بیویاں ہیں اور پھر ان کے کہنے پر وہ کچھ گھر میں اگئے  یہاں پر ان کی ماں اور ان کے مامو جان کھڑے تھے ماں کو دیکھ کر وہ شرمندہ ہوئے مامو جان نے کہا کہ تم لوگ بیٹے کے فرض کو بھول گئے  ایک بوڑھی ماں کو گھر سے نکال کر تم نے کون سا اچھا کام کیا تو پھر تمہاری بیویوں کو تو سزا بھگتنی ہی تھی  برا تو تمہارے ساتھ بھی ہو جاتا ہے لیکن تمہاری ماں کے دیے گئے صدقے نے تم کو بچایا  اور تمہاری بیویوں نے اپنے کرتوت کی سزا پائی ہے  اللہ والے کہنے پر وہ تینوں بیٹے بھی روتے ہو ماں کے پاس ائے اور معافی مانگنے لگے ماں نے کہا بھائی جان اب تو معاف کر دیجیے اب اپ دعا کیجئے اللہ تعالی سے اللہ والے نے پھر اللہ تعالی کے حضور دعا کی یا اللہ ان کی بگڑی شکلیں ان کی اپنی وجہ ے ہیں اس کے ذمہ دار یہ خود ہیں بے شک انسان اپنے اوپر ظلم خود کرتاہے  معاف کرنے والا مہربان ہے ایک ماں کے صدقہ خیرات کے  طفیل تو اس کی بہو کو پھر سے انسانی  شکل میں لے آ اللہ والے کی دعا قبول ہوئی اور وہ تینوں ہوے پھر سے انسان بن گئی وہ  ساس سے کہنے لگیں چلیں  گھر چلیے اب ہم مل کر سب کو کھانا کھلائیں گے  اب اپ جو کہیں گی وہی ہوگا اللہ والے کی اجازت سے  نیک بہن اپنے بچوں کے ساتھ گھر  واپس اگئی اور پھر کبھی وہ کھانا نہ رکا  اللہ تعالی نے وہ دے کے بھی ان کو تحفے میں دے دی تھی جس میں جب بھی کھانا پکتا تو کبھی وہ کھانا ختم نہیں ہوتا  بے شک نیک عمل اپ کو مصیبت سے بچاتے ہیں  انہیں ایک عمل میں سب سے بہترین عمل ہے کسی بھوکے کو کھانا کھلانا

ہے

Comments