Tajir ko Khwab mein Zinda kr diya 2 Heere Ghous pak ka waqia

<1 style="text-align: left;">Tajir ko Khwab mein Zinda kr diya 2 Heere Ghous pak ka waqia 

<1 style="text-align: left;">

<1 style="text-align: left;">عراق میں ایک بہت بڑا ہیرے کا تاجر تھا وہ اکثر اپنے کاروبار کے لیے ایک شہر شہر جاتا رہتا تھا اور ہمیشہ اللہ والوں کی دعا لے کر وہ اپنے کام کو شروع کرتا... ایک بار وہ عراق کے ایک بہت بڑے اللہ والے کے پاس گیا اور کہا حضور والا! میرا ملک شام کی طرف سفر کرنے کا ارادہ ہے اور میرا قافلہ بھی تیار ہے، سات سو دینار کا مالِ تجارت ہمراہ لے جاؤں گا۔اور اس بار میرے پاس بہت خوبصورت اور قیمتی ہیرے ہیں .. ہمیشہ میں اپ کی دعا لے کر جاتا ہوں اس بار میرا دل کچھ گھبرا رہا ہے اس لیے اپ میرے لیے خصوصی دعا کریں کہ میرا اس بار کا یہ سفر کامیاب رہے اور انشاءاللہ اگر یہ سفر کامیاب رہا تو میں اپ کی خدمت میں بہت سے تحفے دوں گا اللہ والے کہنے لگے مجھے اس بات کا لالچ نہیں کہ تم مجھے تحفے دو یا نہ دو لیکن میں اج کی رات عمل کروں گا پھر اس کے بعد تم سفر کے لیے نکلنا اللہ والے کے کہنے پر وہ رک گیا اور اس نے کہا ٹھیک ہے جب تک اپ اجازت نہیں دیتے میں سفر پر نہیں جاؤں گا وہ اپنے گھر چلا گیا یہاں پر اللہ والے نے اپنا عمل شروع کیا اور ساری رات وہ اللہ کی عبادت بھی کرتے رہے اور اس تاجر کے لیے اللہ سے خاص وظیفہ پڑھنے لگے جب وہ وظیفہ پڑھ رہے تھے تو ان کو ایک جھٹکا لگا اگے کے لیے کچھ اچھا نظر نہیں ارہا تھا سوچ لیا کہ میں اس تاجر کو منع کر دوں گا اگر وہ اس بار گیا تو بہت بڑا نقصان اٹھائے گا اگلے دن وہ تاجر اللہ والے کی خدمت میں پیش ہوا اس نے کہا حضرت اپ نے رات میں جو عمل کیا ہے مجھے اس کا بتا دیں کیونکہ اج شام کو ہی مجھے نکلنا پڑے گا. اللہ والے کے چینل پر پریشانی تھی تاجر نے کہا کیا ہوا حضرت اپ اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہیں تو انہوں نے کہا تم اج تو کیا اس پورے سال سفر ہی نہیں کر سکو گے وہ حیران ہوا اس نے کہا اپ نے تو بڑی انہونی بات کہہ دی ہے کہ میرا کاروبار تو اسی سفر سے ہی چلتا ہے میں اپنا سامان دوسری جگہ پہنچاتا ہوں اگر ایسا نہیں کروں گا تو پھر میرے بیوی بچے کھائیں گے کہاں سے تو انہوں نے کہا اگر تم اس سال سفر کرو گے تو تم سفر میں ہی قتل کردیئے جاؤ گے اور تمہارا مال و اسباب لوٹ لیا جائے گا۔ خاص کر تمہارے ہیرے تو اس بار لوٹ نہیں لوٹنے ہیں اور پھر تم زندہ بھی نہیں بچو گے جب زندہ ہی نہیں بچو گے تو پھر بیوی بچے تمہارے بغیر کیا کریں گے اس لیے بیزار یہی کہ تم اس سفر کو ملتوی کر دو اور اپنے ہی شہر میں کام کرو اج ہم نے کہا حضرت کچھ تو دعا کیجیے کہ اپ نے میرے لیے اللہ سے دعا نہیں کی تو انہوں نے کہا میں نے دعا بھی کی لیکن اپنے عمل کے نتیجے میں بتا رہا ہوں کہ رک جاؤ اور ظفر نہ کرو ورنہ بہت برا ہو جائے گا میں کچھ نہیں کہہ سکتا تقدیر تو اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے اور میرا عمل تمہارے لیے بہت خطرناک نظر ارہا ہے اس لیے بہتر ہے کہ گھر لوٹ جاؤ.. اس کو سمجھ نہیں ارہی تھی اب وہ ان کی اجازت کے بغیر جا بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ ہمیشہ مشورہ کر کے ہی جاتا تھا اور اس پاس تو اس کے پاس بہت قیمتی ہیرے بھی تھے وہ بڑا اداس ہوا اور اپنے گھر اگیا اس کی بیوی نے کہا اپ کی اداس ہیں کیا ہوا ہے تو اس نے سارا ماجرہ بتا دیا کہ اس دن تو کیا دوسرے دن بھی نہیں بلکہ پورے سال میں سفر کر ہی نہیں سکتا اب کیا ہوگا ہم کہاں سے کھائیں گے اللہ والے نے مجھے سختی سے منع کر دیا اور کہتے ہیں یہ سفر نا کرو کیونکہ میری جان جا سکتی ہے بیوی نے کہا بات تو اپ ٹھیک کہتے ہیں اگر اپ کاروبار ہی نہیں کریں گے تو پھر ہمارے گھر میں رزق کیسے ائے گا اپ کی تو روزی ایسی چلتی ہے تو اس نے کہا مجھے سمجھ نہیں ارہی میں ذرا سونے لگا ہوں اس نے دو نفل نماز حاجت ادا کی اور پھر سونے کے لیٹ گیا.. وہ گہری نیند سو رہا تھا کہ اسے خواب میں ایک سفید داڑھی والے بزرگ نظر ائے انہوں نے کہا تمہاری پریشانی کا حل صرف ایک ہی ہستی کے پاس ہے تم بغداد ان کے پاس چلے جاؤ وہ تمہارے مسئلے کو حل کر دیں گے.... ان بزرگ نے کس کا نام لیا تھا اسے نہیں پتہ چل رہا تھا وہ پھر سے سونے کے لٹ گیا دوسرے دن بھی اسے وہی خواب ایا وہ زر کہہ رہے تھے جاؤ تمہارا حل بغداد کے والی کے پاس ہی ملے گا ان کے پاس جائے بغیر تم کہیں بھی سفر نہیں کرنا دوسرے دن بھی خواب دیکھ کر اس کی عجیب سی کیفیت ہو گئی وہ کس کا ذکر کر رہے تھے یہ نہیں پتہ چلا اب جی تیسری بار بھی جب اسے ان بزرگ نے کہا کہ جاؤ وقت ضائع نہیں کرو تمہارے کاروبار کو نقصان نہیں پہنچے گا ان سے ملے بغیر نہیں جانا اب وہ جگہ تو اپنی بیوی سے کہا تین دن سے مسلسل خواب دیکھ رہا ہوں کوئی بزرگ اتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بغداد کے شہنشاہ کے پاس چلے جاؤ بیوی نے کہا کہیں وہ شہنشاہ بغداد شیخ عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ علیہ کے بارے میں تو نہیں فرما رہے تھے کیونکہ وہی بغداد کے بادشاہ ہیں گو کہ سارے سلطنت ان کے ہاتھ میں ہے پر پھر بھی درویشی والی زندگی گزارتے ہیں یہ بہتر رہے گا کہ اپ کا دل اتنا اداس ہے اور اپ اتنے مایوس ہو رہے ہیں اپ ان کے پاس چلے جائیے بیوی کی بات بتانے پر اس کا دل بھی خوش ہو گیا کہ چلو مجھے کوئی تو آسر ملا وہ بغداد شریف پہنچا بہت ہی مغموم تھا یعنی وہ بہت دکھی تھا... گھر سے دعا کر کے نکلا تھا کہ میری ملاقات حضور غوث الاعظم سے ہو جائے جب وہ بغداد شریف پہنچا اس کی دعا قبول ہوئی اور اس کی .حضرت سیدنا محی الدین شاہ جیلاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ملاقات ہوگئی اس کی روتی شکل دیکھ کر حضور غوث الاعظم رحمت اللہ علیہ نے فرمایا اے تاجر کیا ہوا کیوں پریشان ہو تو اس نے کہا اپ نے کیسے جانا کہ میں تاجر ہوں اپ رحمت اللہ علیہ نے فرمایا میں تو یہ بھی جانتا ہوں کہ تم یہاں کے اس ارادے سے ائے ہو اس نے کہا حضرت مجھے میرے شیخ نے منع کر دیا ہے کہ میں سفر کروں اگر یہ سفر نہیں کروں گا تو پھر میں تو بہت گھاٹے میں رہوں گا انہوں نے کہا ایک دن نہیں بلکہ سارا سال تمہیں سفر نہیں کرنا اگر میری موت اس طرح لکھی ہے تو اسی طرح سے اپ رحمت اللہ علیہ نے فرمایا بے شک زندگی اور موت اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے تم کیا چاہتے ہو اس نے کہا میں چاہتا ہوں کہ یہ سفر کروں کیونکہ اس سفر سے مجھے بہت فائدہ ملے گا اور اگر میں کامیاب رہا تو اپ کے لیے بہت سے تحفے لے کر اؤں گا بلکہ ایک بڑا سا ہیرا اپ کی نظر میں پیش کروں گا اپ نے فرمایا ہم کسی لالچ میں تمہارا کام نہیں کریں گے تم ہمیں ہیرا دو یا نہ دو بس تمہارا کام ہو جانا چاہیے تم اس قدر اداس ہو اور گھر کے کفیل ہو تمہارے بیوی بچے تمہارے طرف نظر رکھتے ہیں اگر تم کسی کام کے نہ رہے دونوں نقصان انہیں بھی اٹھانا پڑے گا اس لیے ہم تمہارے لیے دعا کرتے ہیں اس نے کہا تو کیا میں ملک شام جا سکتا ہوں.. اپ رحمت اللہ علیہ مسکرائے اور فرمایا
<1 style="text-align: left;">اگر تم سفر کرنا چاہتے ہو تو جاؤ اللہ تعالی تمہیں اپنی امان میں رکھے انشاءاللہ تمہیں کچھ نہیں ہوگا تم اپنے سفر سے صحیح و تندرست واپس آؤ گے کوئی تمہیں چھو بھی نہیں سکتا ہے اس نے کہا لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ مجھے کچھ نہیں ہوگا جبکہ میرے شیخ تو یہی کہہ چکے ہیں کہ میں زندہ نہیں بچوں گا اپ نے کہا میں نے کہا نا کہ زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے میں تمہارے لیے دعا کر رہا ہوں اور میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں میں اس کا ضامن ہوں.. تم اللہ کا نام لے کر سفر پر نکلو ..آپ کی بشارت سن کر یعنی خوشخبری سن کر وہ تاجر اپنے گھر واپس ایا اور اپنی بیوی سے کہا کہ میں حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ علیہ کے دربار سے ا رہا ہوں وہ کہتے ہیں کہ تم سفر کرو انشاءاللہ یہ سفر وسیلہ ظفر بنے گا یعنی ہمارے لیے بہت فائدہ مند بنے گا تو اس نے کہا اور اپ کے شیخ نے جو کہا تھا کہ اپ کو اس بار تکلیف اٹھانا پڑے گی تو اس نے کہا کہ وہ میرے ضمانت لے چکے ہیں اب اللہ اور ان کا معاملہ ہے میں تو ان پر یقین کر کے سفر پر جا رہا ہوں اس کے بعد اس نے اپنا سامان باندھا اور ہیرے ایک بوری میں ڈال کر سفرپر چلا گیا اور ملک شام میں جاکر اس نے بھاری قیمت میں اپنا مال فروخت کیا.. اس کا وہ ہیرا تو لاکھوں دینار میں بکا تھا اب وہ تاجر شام میں ہی تھا اس نے سوچا کہ میں کچھ دن یہاں رہ کر پھر اپنے سفر کو کروں گا یعنی اپنے وطن عراق واپس جاؤں گا اس کے بعد وہ تاجر اپنے کسی کام کے لئے حلب چلاگیا،احلب سیریا شام کا ایک شہر ہے وہاں ایک مقام پر اس نے اپنے لاکھ دینار رکھ دیئے اوررکھ کر دیناروں کو بھول گیا نیند بہت زیادہ تھی کہ آتے ہی سوگیا...گھر کی طرف روانگی اس دن نہ ہوسکی وہ سوتا رہا اس نے ایک خواب دیکھا کہ اس کے ساتھ بہت سارے لوگ ہیں جو اس کے قافلے والے تھے...وہ لوگ اونٹوں پر سوار ایک جنگل سے گزر رہے تھے ویران سنسان سا جنگل سب خوش تھے کہ اس بار منافع دوگنا ہوا تھا...لاکھوں دینار لیے سب اپنے گھروں کی اور جارہے تھے اب خواب کا رخ بدلہ وہ 
<1 style="text-align: left;">خواب میں کیا دیکھنے لگا کہ اچانک عرب کے بدو وہ لوگ جو دیہاتی ہوتے ہیں ان سیاہفام عربیوں نے اس کے قافلے پر حملہ کردیا سب کے ہوش اڑگئے کثیر رقم تحفے تھے ان سب کے پاس ڈاکوٶں نے سارا ان کا قافلہ لوٹ لیا ہے نہ صرف لوٹ لیا بلکہ قافلے کے کافی آدمیوں کوقتل بھی کر دیا کہ کیا فائدہ ایسے جینے میں خالی ہاتھ لوٹ کر جاٶگے پھر وہ جنگلی ڈاکو اس تاجر شخص کے پاس آۓ اس کا سامان پہلے لوٹا اوروہ ہیرا جو وہ شیخ شہنشاہ بغداد غوث الاعظم کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے لے کر جارہا تھا وہ بھی ان لوگوں نے زبردستی لوٹا ان ظالموں نے دوسروں کی طرح اس پر بھی حملہ کردیا وہ اپنا بچاٶکرنے کے لیے بھاگنے لگا پر ایک ڈاکو نے تلوار چلادی جس سے اس کا سر قلم ہوگیا جب ان بے دردوں بے حسوں نے اس کو مار ڈالا تو لاشوں کو کچلتے ہوئے وہ سب چلے گئے خواب میں خود کو مرتا دیکھ کر وہ گھبرا کر بیدار ہوا یعنی جاگا وہ زندہ تھا یعنی ہاتھ پیر سلامت تھے سب کچھ ٹھیک تھا....قافلہ اس کے ساتھ تو پہلے بھی نہیں تھا اس لیے اب اس کا ان کی کیافکر ہوتی خواب سمجھ کر اپنے ذہن کو اس نے جھٹکا اور شکر کیا کہ یہ محض ایک خواب تھا اب اس کو گھر کی طرف جانے کی تیاری کرنی تھی جب وہ تیار ہو گیا اور اپنے سفر پر نکلنے لگا تو اسے اچانک جاتا ہے کہ میں نے شام کے کسی مقام پر اپنے لاکھ دینار رکھے تھے اور ہیرا بھی وہیں ساتھ تھا ارے وہ تو میں بھول کر جا رہا ہوں وہ فورا ًدوڑتا ہوا اس جگہ پر پہنچا تو اللہ کا کرم کہ وہ لاکھوں دینار وہاں ویسے ہی پڑے ہوئے مل گئے، پر وہاں اس کو وہ ہیرا نہیں تھا جو اس نے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو ہدیہ کرنا تھا اس کو بڑا افسوس ہوا کافی دیر تک ہیرے کو ڈھونڈتا رہا اور لگتا تھا کہ کوئی چرا کر لے گیا ہے لیکن اس نے پیسے بھی چھوڑے یہ بات سمجھ نہیں ائی اب وہ واپس اپنے دینار لے کر اپنے خیمے پر پہنچا اور واپسی کی تیاری کرکے بغدادلوٹ آیا۔ راستے میں جنگل تھا وہاں پر اسے کوئی بھی پریشان کرنے نہیں ایا جس طرح اس کو بتایا گیا تھا یعنی اس کے بزرگ نے اسے بتایا تھا کہ وہ واپسی میں لوٹ بھی لیا جائے گا اور اس کو مار بھی دیا جائے گا لیکن کچھ بھی نہیں ہوا حضور خشک عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی دعا سے وہ بچ گیا لیکن کیسے بچا یہ بات اسے نہیں پتہ تھی وہ بہت خوش تھا پہلے جم مقابلے میں اس بار اس کو بیشمار فائدہ ہوا تھا یہ خوشخبری اس نے اپنی بیوی کو سنائی پھر بیوی نے کہا کہ اپ بغداد جائیے اور سب سے پہلے پیران پیر دستگیر روشن ضمیر قطب ربانی قدس سرہ النورانی کا شکریہ ادا کریں وہ تازہ دم ہوکر بغداد کی طرف روانہ ہو گیا 
<1 style="text-align: left;">    جب بغداد شریف پہنچا تو اس نے سوچا کہ پہلے اپنے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوں کہ وہ عمرمیں بڑے ہیں یا حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوں کہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے میرے سفر کے متعلق جو فرمایا تھا بالکل درست ہوا ہے میں بالکل صحیح سلامت زندہ اپنے گھر واپس ایا اور بلکہ ان کی دعاؤں سے مجھے لاکھوں دینار بھی ملے ہیں... اسی سوچ و بچار میں تھا کہ حسن اتفاق سے شاہی بازارمیں اپنے بڑے شیخ سے اس کی ملاقات ہوگئی.... اس کو شیخ اللہ والے اس کے پاس ہے کہا کیا سوچتے ہو تم کہ پہلے مجھ سے ملو گے نہیں تمہیں پہلے ان سے ہی ملنا چاہیے کہ جو مجھ سے بھی بڑے ہیں بے شک میری عمر ان سے زیادہ ہے پر وہ درجے میں مقام میں مجھ سے اور تمام ولیوں سے بڑے ہیں اس لیے تو میں اصولا تو انہی کے پاس جانا چاہیے تو وہ کہنے کیوں مطلب اس سے کیا کوئ فرق پڑتا ہے کہ میں پہلے اپ سے ملوں یا ان سے دو کہنے لگے تو میں ان سے ہی ملنا پڑے گا بلکہ تمہیں ان کا شکریہ ادا کرنا پڑے گا پھر اس کے شیخ نے اس کو ارشاد فرمایا کہ تم پہلے حضورغوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضری ہی دوکیوں کہ وہ محبوب سبحانی ہیں انہوں نے تمہارے حق میں سَتَّر(۷۰) مرتبہ دعا مانگی ہے یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے تمہارے واقعہ کو اصلیت سے خواب میں تبدیل فرما دیا اور مال کے ضائع ہونے کو بھول جانے سے بدل دیا۔ بات اس کو سمجھ نہ آئ کہ کیا جو خواب دیکھا وہ سچ تھا اور ایسا ہوا تو پھر وہ اب تک قتل کیوں نہ ہوا اسی جنگل سے گزر کر ہی تو آرہا ہے اب بےقراری کے عالم میں جب تاجر غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے شکریہ ادا کیا کہ صحیح سلامت وہ گھر تک آگیا پر وہ بات جو سمجھ نہ آئ وہ اس نے کہہ دی کہ حضرت کیا جو خواب میں نے دیکھا وہ سچ تھا آپ نے میری ضمانت آخر کس طرح لی آپ مسکرائے اور اس کو نہایت پیار سے اپنے پاس بٹھا کر آپ نے فرمایاکہ”جو کچھ شیخ حمادرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے شاہی بازارمیں تجھ سے بیان فرمایا ہے بالکل ٹھیک ہے کہ میں نے سَتَّر(۷۰)مرتبہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں تمہارے لئے دعا کی.... وہ یہ کہ جب تم اپنے کام سے فارغ ہو گئے اور سیریا کے ایک مقام حلب پر تم کسی کام سے گئے تو وہاں پر تم اپنے دینار بھول گئے تھے اور وہی راجہ تم نے مجھے ہدیہ کرنا تھا وہ بھی وہیں پر تم بھول گئے اس کے بعد تو میں اپنے سفر پر روانہ ہونا تھا وہ ڈاکو اس انتظار میں تھے ان کو خبر مل چکی تھی کہ تم بہت سے دینار اور ہیرے لے کر اس راستے سے گزرو گے وہ لوگ اسی ارادے کے ساتھ وہاں کھڑے تھے کہ تمہیں مار کر سارا مال لوٹ لیں گے تو میں دیکھو قافلے والے تمہارے ساتھ نہیں تھے اس بار تم اکیلے گئے تھے لیکن وہ قافلہ کہاں سے ایا اللہ کی عطا اللہ کی شان سے جب ہم نے اس سے بار بار دعا کی اس کو منایا اور کہا کہ رب تجھے زندگی عطا کر دے تیرے بیوی بچوں کے لیے اور وہ تو رب ہے وہ ناممکن کو ممکن کر دیتا ہے ویسے تمھاری تقدیر میں تمہاری موت لکھی جا چکی تھی پر رب نے تمہاری موت کو اس طرح ٹالا کہ اصلیت میں جو کچھ ہونے والا تھا اسے خواب میں بدل دیا اور قافلے والے ویسے تو تمھارے ساتھ نہیں تھے خواب میں ہی وہ سارے لوگ تمہارے ساتھ شامل ہوئے اور پھر تم خواب کی ہی حالت میں اس جنگل میں پہنچے.. ڈاکو جو کہ تمھیں لوٹنے اور قتل کرنے کے لیے معاف بیٹھے ہوئے تھے خواب میں انہوں نے تمہیں لوٹا بھی اور تمہیں قتل بھی کر دیا یعنی تمہارے سر کو قلم بھی کر دیا اپ سب کچھ اسی طرح بتا رہے تھے جو خواب اس تاجر نے دیکھا تھا کہ جیسے اپ وہیں پر موجود تھے پھر اپ نے کہا کہ تمہارا ہیرا نہیں بچا جو تم ہمیں ہدیہ کرنے ائے تھے کچھ نہ کچھ تو جانا ہی تھا تمہاری جان کے بدلے وہ ہیرا چلا گیا ہم نے تمہاری ضمانت لی تھی ہم نے تم سے کہا تھا ہم ضامن بنیں گے تو اللہ کے حضور تب تک دعا کرتے رہے جب تک تم نیند سے جاگ نہ گئے....اللہ پاک نے تمھیں ایک نئ زندگی بخشی کیوں وہی اس چیز پر قادر ہے جو تمھارے استاد صاحب نے فرمایا وہ سچ تھا اس بار تم لوٹ کر نہ آتے پر اللہ پاک بہت رحیم وکریم ستار ہے غفور ہے رحمن ہے مجیب ہے مولائے عرش عظیم ہے اس جیسا کوئ نہیں وہ اتنا کریم ہے سمیع و بصیر ہے کہ اپنے ایک عاجز بندے کی بات کو اس نے ٹالا نہیں..اس نے ہماری زبان کا پاس رکھا تم کو نقصان نہ ہونے دیا وہ تاجر روتے ہوئے کہنے لگا شیخ بےشک ہمارا رب تو بہت ہی شان والا ہے جس نے آپ جیسے ولی کو ہم جیسے گناھگاروں کے بیچ بھیجا جو دوسروں کے لیے بھی اسی تڑپ سے دعا مانگتے ہیں جیسے کوئ انسان اپنے لیے خلوص سے دعا کرتا ہے آپ نے تومجھ سے کچھ نہ چاہا بغیر کسی لالچ کے مجھے اتنا نواز دیا میں آپ کو کیا ہیرا دیتا آپ نے اس سے بڑھ کر مجھ پر عنایتوں کی مہربانیوں کی بارش کردی ہے اللہ عزوجل کے بعد آپ کا شکرگزار ہوں کہ جس شخصیت کی محبت کی مثال کہیں نہیں ملتی جو اپنے ہو کہ پرائے ہوں سب کے لیے ایک سے ہیں میں تو آپ کا مرید بن گیا آپ کی محبت نے مجھے خرید لیا اس کے بعد حضور کی دعا لے کر وہ ہمیشہ سفر پر جاتا اور شیخ الشیوخ کی دعا کا ہی صدقہ تھا کہ وہ ہر بار فائدے میں رہتا.
<1 style="text-align: left;">
<1 style="text-align: left;">
<1 style="text-align: left;">
<1 style="text-align: left;">
<1 style="text-align: left;">

Comments