Admi ki Shakal wali tawaif 1000 Pyase Kutte Allah wale ka waqia
آٹھ سو سال پہلے کی بات ہے محمد جلال الدین رومی جو بہت بڑے مزہبی عالم تھے .ترکی کے لوگ آپ کے درس و بیان کو بہت دور دور سے سننے آتے تھے.. اپ کی پسندیدگی ہے اس قدر بڑی تھی کہ وہاں پر ایک طوائفوں کا ٹولہ تھا جو کہ لوگوں کو اپنی طرف راغب کرتا تھا اور طوائفوں کے بارے میں ویسے بھی لوگ اچھا تو سوچتے نہیں ہیں چاہے وہ کسی مجبوری کی وجہ سے طواف بنی ہو یا پھر اس کی اس میں اپنی پسند شامل ہو اپنی غرض ہو بہرحال گناہ تو گناہ ہے لیکن اللہ والے کبھی انسان سے نفرت نہیں کرتے بلکہ وہ گناہ کو ناپسند کرتے ہیں اب ان میں ایک طوائف زادی جو کہ بہت خوبصورت تھی اور اس کی خوبصورتی کہ اس جگہ چرچے بھی تھے اس طوائف نے حضرت رومی رحمت اللہ علیہ کے بارے میں سنا تو اس کے دل میں اپ کی محبت پیدا ہوئی محبت کچھ اس طرح کے وہ بھی اپ کے درس و بیان اور نصیحت کو سننا چاہتی تھی لیکن اگر وہ اس طرح کھلے عام مسجد میں جاتی تو لوگ اسے پہچان لیتے اور اس کو وہاں سے نکال دیتے اور وہ سوچنے لگی کہ ایسے میں اس مسجد میں جاؤں اور ان کے بیان کو سنوں.. اور اس کا دل اس کوٹھے پہ نہیں لگ رہا تھا اس کا دل بار بار جاتا کہ وہ اللہ اور رسول کی باتیں سنیں اور انہی بڑے بزرگ سے ایک دن وہ طوائف بھی ان کو سننے کے لیے مسجد پہنچ گئی ۔ اس نے اس مقصد کے لیے اپنا حلیہ بدل لیا تھا۔ اب وہ غلطی رحمت اللہ علیہ کی مجلس میں پہنچی اواز اس کے کانوں میں رس گل رہی تھی اتنا خوبصورت بیاز سن کر اس کے دل کی کیفیت بدلنے لگی اس کے دل میں گناہ سے نفرت انے لگی ابھی وہ اللہ کی محبت میں ڈوب نہیں والی تھی حضرت رومی کی گفتگو سننے کے دوران اس کے ایک پرانے گاہک نے اسے پہچان لیا ۔ اس پر وہاں شور مچ گیا کہ ایک طوائف مسجد میں موجود ہے۔ لوگوں نے اسے وہاں سے نکالا اور باہر لے آئے۔ ہجوم میں غصہ بڑھ رہا اب تو زادی کو ڈر لگنے لگا کے کہیں اسے لوگ سنگسار نہ کر دیں لوگ یہیں پر پتھر مار کر اسے ختم نہ کردیں کیونکہ یہ سب جانتے ہیں میں یہاں کی مشہور طوائف ہوں اب اس کو اپنی موت سامنے نظر ارہی تھی پتہ نہیں صبح دیا مجھے پتہ نہیں
اسی لمحہ ایک اللہ والے اس ہجوم کے قریب پہنچے اور چیخ کر بولے : رک جائو۔ ہجوم
ساکت ہو گیا۔ سب اس الل والے کی طرف دیکھنے لگے جن کا حلیہ بالکل درویشانہ تھا اپ نے لوگوں سے کہا
تم لوگوں کو شرم آنی چاہیے۔ تیس لوگ ایک کمزور عورت پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ کیا
یہ انصاف ہے اُس کے ساتھ کسی انصاف کی ضرورت نہیں ہے، مجمع میں سے کوئی بولا، " یہ طوائف یہاں ایک مرد کے لباس میں آئی تاکہ ہم اچھے مسلمانوں کو دھوکا دے سکے۔ تو ہم نماز پڑھنے والے اللہ کا کلام سننے والے اور کہا یہ گناہوں کی دلدل میں لپٹی ہوئی عورت
" تم لوگ مجھے یہ بتارہے ہو کہ اس عورت کو
مارنا چاہتے ہو کہ یہ مسجد کیوں آئی ہے کیا یہ جرم نہیں ہے ؟ اللہ والے کے لہجے میں اب طنز نمایاں تھا۔
یہ " طوائف ہے “ ہجوم میں سے کوئی چلایا مسجد میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے“۔ ہجوم
طوائف طوائف کے نعرے لگانا شروع ہو گیا ۔ ایک نے کہا : پتھر اٹھاو مل کر اس طوائف کو مارتے ہیں“ چلو ثواب کمائیں اس زانی عورت کو سنگسار کریں اس ایک جملے نے اللہ والے کے جلال کو مزید تیز کر دیا ۔ رک جائو اور مجھے ایک بات بتائو ۔ کیا تم واقعی اس عورت سے نفرت کرتے ہو اور اس کے ساتھ تم لوگوں کے اندر اسے حاصل کرنے کی خواہش ہے ؟ جس مرد نے اس عورت کو پہچانا تھا اللہ والے اس کی طرف دیکھ کر کہنے لگے یہ بتاؤ رات میں چھپ کر اپنی بیوی سے اس کے پاس کون جاتا تھا تم نا تو زانی یہ بھی ہوئی تو تم بھی کوئی کم گنہگار نہیں ہو .. اللہ والے نے طوائف کو اشارہ کیا کہ میرے پیچھا کر کھڑی ہو جاؤ طوائف درویش کے پیچھے چھپ گئی، جیسے ایک چھوٹی سی بچی خطرہ دیکھ کر اپنی ماں کے پیچھے چھپ گئی ہو۔
اسی عزت دار شخص نے اللہ والے سے کہا: تم اس علاقے میں اجنبی ہو، تو اس عورت کو نہیں جانتے یہ بہت مکار ہے تم بہت بڑی غلطی کر رہے ہو، تمہیں ہمارا پتہ نہیں ہے۔ تم اس سے دور رہو ۔ کوئی اور بولا : تم کیسے درویش ہو ؟ کیا تمہارے پاس ایک طوائف کو بچانے سے بہتر کوئی اور کام نہیں ہے ؟
اللہ والے ایک لمحے کے لیے خاموش رہے جیسے وہ اس سوال پر غور کر رہے ہو ۔ انھوں نے غصے کا
اظہار نہیں کیا اور پُر سکون رہے پھر کہا : " پہلے تم لوگ یہ بتائو کہ تم لوگ مسجد میں عبادت کے لیے جاتے ہو یا اپنے ارد گرد لوگوں کو دیکھنے ؟ کیا مسجد میں خدا سے اہم وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں تم لوگ تکتے رہتے ہو ؟ اگر تم اللہ رب ذوالجلال کی عبادت کرنے گئے تھے تو پھر تمہیں تو یہ عورت وہاں نظر ہی نہیں آنی چاہیے تھی۔ حلیہ بدلنا تو دور کی بات ہے، اگر اس نے کپڑے تک نہ پہنے ہوتے پھر بھی وہ تم لوگوں کو نظر نہیں آنی چاہئے تھی. اگر اتنے ہی پاک صاف اور اپنے اپ کو شریف کہتے ہو تمہیں نماز پڑھتے ہوئے کسی اور کی طرف دھیان جانا ہی نہیں چاہیے تھا جائو لوٹ جائو اور حضرت رومی کا وعظ سنو ۔ اس کمزور عورت کو مارنے سے وہ کام زیادہ بہتر ہے کہتا ہوں کسی اللہ کے نیک بندے کی نصیحت سن لو اور دین کے صحیح معنی سمجھ لو اللہ والے کی اواز میں اتنا روب اور اتنا جوش تھا کہ وہ لوگ ڈر گئے
دھیرے دھیرے ہجوم چھٹ گیا۔
طوائف کے ہوش ٹھکانے آئے تو وہ بولی " اے اللہ والے ، میں ، آپ کا کیسے شکریہ ادا کروں“۔ اللہ والے فرمانے لگے بیٹی تمہیں میرا کوئی شکریہ ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم اللہ پاک کے
علاوہ کسی کے شکر گزار نہیں ہیں ۔طوائف نے کہا کہ میں اپ کو نہیں پہچانتی ہوں اب اس علاقے کے نہیں ہیں کیا اپنا نام بتا سکتے ہیں اللہ والے نے فرمایا کہ میں شمس تبریز ہوں ۔ بظاہر تم نے خود کو کھو دیا ہے لیکن تمہارے دل میں اللہ کی محبت ہے نا کیا تم دوبارہ اپنی اصلی ذات کے ساتھ جڑنا نہیں چاہو گی ؟ تمہارا رنگ اس لیے بگڑ گیا ہے کیونکہ ان تمام برسوں میں تم نے اپنے آپ کو یہ یقین دلایا ہے کہ تم اندر اور باہر سے میلی ہوچلی ہو طوائف بولی میں واقعی اچھی نہیں ہوں ۔ اور شاید لوگ صحیح کہتے ہیں کہ ایک اللہ والے کی محفل میں ایک چھت کے نیچے میں نہیں بیٹھ سکتی ہوں میں اتنی ناپاک ہوں
مجھے علم نہیں میں کیسے حلال کما کر اپنی زندگی
گزاروں
شمس نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہا: "کیا ہم سب پہلے ایک چھت کے نیچے نہیں رہ رہے. بادشاہ ہو ملکہ ہو کنواری ہو یا کوئ درویش کوئ شریف عزت دار انسان ہو یا ایک طوائف ہو ہم سب
اس ایک آسمان کے نیچے ہی تو رہتے ہیں .کیا یہ ایک اللہ نے ہم پر اپنی رحمت کا سایہ کرنے میں کوئ فرق رکھا.
۔اللہ والے کہنے لگے میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔ ایک دن ایک طوائف نے گلی میں ایک کتے کو پیاسا دیکھا ۔ کتا سورج کی تیز دھوپ میں بے بس لیٹا تھا اور اسے سخت پیاس لگی ہوئی تھی۔ اس طوائف نے اپنا جوتا اتارا اس میں ایک قریبی کنویں سے پانی بھر کر لائی کتے کو پلایا اور چلی گئی ۔ اگلے دن طوائف کی ایک صوفی سے ملاقات ہو گئی۔ جونہی اس صوفی سے ملاقات ہو گئی۔ جو نہی اس صوفی نے اسے دیکھا تو اس نے آگے بڑھ اس طوائف کو خوشخبری دی طوائف کو ایک دھچکا سا لگا۔ صوفی بولا : تم نے جو ہمدردی کتے کے ساتھ دکھائی تھی وہ خدا کو اتنی بھائی ہے کہ تمہارے سارے گناہ بخش دیے گئے ہیں ۔ یہ واقعہ سُن کر ڈیزرٹ روز بولی: اگر میں پورے شہر کے پیاسے کتوں کو پانی پلائوں تو بھی میرے گناہ معاف نہیں ہوں گے۔
شمس بولا : تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو ؟ یہ تو صرف خدا کو پتہ ہے کون نیک اور کون گناہگار ہے۔
اور تم کیسے کہہ سکتی ہو جنہوں نے تمہیں آج مسجد سے دھکے دے کر نکالا ہے، وہ خدا کے بہت قریبی ہیں اور تم اللہ کریم سے دور ہو۔ طوائف بولی : ان مردوں کو یہ بات کون بتائےگا.
اللہ والے بولے یہ بات تم انہیں بتائو گی۔ طوائف بولی: آپ کا خیال ہے وہ میری بات سنیں گے ؟ وہ لوگ تو مجھ سے نفرت کرتے ہیں ۔ اللہ والے بولے اگر تم چاہتی ہو کہ دوسرے تمہارے ساتھ مختلف انداز میں سلوک کریں، تو پھر سب سے پہلے تم اپنے ساتھ سلوک کو تبدیل کرو۔ اس کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں کہ تم اپنے آپ سے محبت کر
سکو۔ جس اللہ کی تلاش میں ہو نا اس پر یقین کرکے دیکھو تم جاٶ پھر سے مسجد میں داخل ہو اس دوائ فرینڈ والے پر بھروسہ کیا اور مسجد کی طرف بڑھ گئی اب لوگوں نے جب اس کو مسجد کی طرف اتے دیکھا تو پھر سے اسے پکڑ لیا اس نے دیکھا کہ اللہ والے اس وقت اس کے ساتھ نہیں تھے دراصل اپ چپ کر زانہ منظر دیکھ رہے تھے اس طوائف کی یقین کو اپ دیکھنا چاہتے تھے کہ وہ اللہ پر کتنا ایمان رکھتی ہے پھر لوگوں نے کہا چلو بہت ہو گیا ہے یہ پھر سے مزید میں ا کر ناپاکی پھیلانا جاتی ہے ہم اس کو سر عام جلا دیتے ہیں تاکہ جو بھی گناہ کرنے والا ہو وہ ڈر جائے اور کبھی بھی مسجد کی طرف نہ ائے لوگوں نے لکڑی اکٹھی کی اور اس طوائف کو رسی سمیت لکڑی سے باندھ دیا پورے شہر کو اکٹھا کر لیا گیا تھا اب لوگ اس طوائف کے جلنے کا منظر دیکھ رہے تھے وہی ادمی جو رات کی تنہائی میں اسے ملنے جاتا تھا وہی برباد عاشق اس کی طرف آکر کہنے لگا تو نے ہم کو کہیں کا نہ چھوڑا اگر خاموشی سے اپنے کھوٹے پر ہی بیٹھی رہتی تو ہم تیرے سب سے بڑے چاہنے والے تھے لیکن تو نے مسجد میں ا کر ہمیں مجبور کر دیا ہے کہ ہم تجھے جلا کر مار ڈالے طوائف نے کہا اللہ کا نام لیتے ہو اللہ کے گھر میں آللہ کو سجدے کرنے آتے ہو لیکن تم سب ناپاک ہو تم سب اپنے اپ کو سچے مسلمان کہتے ہو کم از کم میں اللہ کا نام لے کر اس دنیا سے جاؤں گی مجھے کوئ غم نہ ہوگا کہ میں اب اپنے اندر کے شیطان کو مارچکی ہوں وہ کلمہ پڑھنا شروع ہو گئی اس کے کلمے پڑھنے کی اتنی شدت کو دیکھ کر بہت سے لوگ تو کام گئے تھے لیکن وہ ادمی نہیں کانپا جیسے ہی اس لکڑی کو اگ لگانا چاہتا تیز ہوا چلتی وہ اگ بار بار بجھ جاتی کئ بار کے عمل کے بعد جب وہ بے بس ہوگیا تو آخر کہنے لگا کون سی طاقت ہے جو مجھے ایسا کام کرنے سے روک رہی ہے میں اچھا کام ہی تو کر رہا ہوں تو اللہ والے اس وقت سامنے ا کہنے لگے تو نے رب کا نام لیا تو نے رب کے حضور سجدہ کیا تو نے اللہ کے اتنے بڑے نیک بندے کا کلام بھی سنا ان کی نصیحت بھی سنی لیکن تجھے اللہ پر یقین نہیں ہے تو اس عورت کو جلانا کیوں چاہتا ہے تو کہنے لگا میں اس کو اس لیے جناب عورت ہے اور تو کتنا پاک ہے یہ بتا دے تو نے بھی تو اس کو گندا کیا ہے نا.. گھر کے شریف معزز مرد بیوی بچوں والے ہی تو رات کے اندھیرے میں طوائفوں کے پاس جاتے ہیں یہ جب تک کوٹھے پر رہی تو نے اس کو پھولوں کا ہار پہنایا اور جب یہ مسجد میں ائی کلمہ پڑھنا چاہا اپنے اپ کو سدھارنا چاہا اللہ کے نیک بندے کی صحبت اس نے چاہی بجائے اس کے کہ تو اس کو سراہے اور اس کو تو ہمت دے کے یہ اچھا کام کرنے جا رہی ہے تو اس کو اگ لگانا چاہتا ہے تو پہلے اپنے گریبان میں جھانک اللہ والے کی اس بات پر وہ ادمی خباثت سے اپ کی طرف بڑھا اور اپ کو بھی اگ لگانا چاہی لیکن ایک بار پھر سے تیز ہوا چلی اور اگ جو اس ادمی کے ہاتھ میں تھی وہ اگ اس کے بدن پر لگ گئی اور سب کے سامنے جل کر راکھ ہو گیا
Comments
Post a Comment