Ek Bolne wala Janaza Ek Bichoo Ek Haar Aur Ek Lalchi Khubsurat Aurat Allah wale ka waqia
حضرت سٙری سقٙطی بغداد کے ایک صوفی رہے ہیں سقطی کباڑے کا سامان بیچنے والے کو کہتے ہیں۔ سری بھی پہلے یہی کام کرتے تھے... آپ رحمۃ اللہ علیہ جنید بغدادی کے ماموں تھے.. ایک روز آپ مدینہ منورہ کی جامع مسجد میں بیٹھا ہوۓ تھے لوگوں سے کچھ باتیں کر رہا تھا ساتھ آپ وعظ و بیان بھی فرمارہے تھےجو لوگ سن رہے تھے کہ ایک نو جوان خوبصورت لباس جو اس وقت کے امیر لوگ پہنتے تھے پہنے ہوئے مسجد کے اندر آیا اور ساتھ میں اس کے یار دوست تھے آپ نے وعظ جاری رکھا اب اللہ والوں کے منہ سے کوئی بھی بات اللہ تعالی کی طرف سے نکلوائی جاتی ہے تاکہ سامنے والے کی اصلاح ہو جائے اور جو کہ اس نوجوان کو اللہ تعالی نے بہت سی دولت دی ہوئی تھی اور دولت حلال نہیں تھی بلکہ حرام تھی اور وہ خود کو بہت بڑا انسان سمجھتا تھا اس وقت وہ مدینہ میں کسی کاروبار کے سلسلے میں ایا تھا لیکن اپنے اپ کو ایک بڑا تاجر مان کر وہ بہت غصہ سے مزی تھی اور اس مسجد کو وہ دیکھنے ایا تھا نماز پڑھنے نہیں اب بیان کے دوران اپ نے یہ الفاظ کہے تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ ضعیف، قوی کی نافرمانی کرتا ہے۔ وہ جو مسجد کی خوبصورتی دیکھ رہا تھا اچانک سے اس نوجوان کا رنگ بدل گیا وہ اپ کے پاس نہیں ایا بلکہ اسی وقت مسجد سے باہر چلا گیا... اگلے روز وہ مسجد میں آیا لیکن اس بار مسجد کو دیکھنے نہیں بلکہ نماز پڑھنے اول سلام علیک کی اور پھر دو رکعت نفل پڑھ کر آپ کی مجلس میں بیٹھ گیا اور کہنے لگا اے سری ! میں نے کل آپ سے یہ سنا تھا کہ آپ نے کہا تھا کہ ”ضعیف ، قوی کی نافرمانی کرتا ہے تو مطلب کیا ہے میں نے کہا مولی ( یعنی خداوند کریم ) سے زیادہ کوئی قوی نہیں اور بندے سے زیادہ کوئی ضعیف نہیں لیکن یہ پھر بھی اس کی نافرمانی کیے جاتا ہے۔ یہ سن کر وہ دھاڑے مار مر کر رونے لگا اور کہنے لگا ہائے مجھ سے کتنا بڑا گناہ ہو گیا بہت بڑا گناہ کبیرہ ہو گیا وہ اس روز تو چلا گیا دوسرے روز آیا تو فقط دو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ دوستوں میں سے بھی کوئی ساتھ نہ تھا۔آپ سے اس نے نہایت نرمی سے ادب سے پوچھا اللہ کے پاس پہنچنے کا کون سا راستہ ہے آپ نے کہا اگر تم عبادت کرنا چاہتے ہو تو دن کو روزے رکھو اور راتوں کو نماز پڑھو اور اگر محض اللہ کو چاہتے ہو تو اس کے سوا ہر چیز کو چھوڑ دو اور مسجدوں یا ویران جگہ یا قبرستان میں رہا کرو چنانچہ وہ یہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا کہ قسم ہے خدا کی میں مشکل ہی سے رستہ کو طے کروں گا.. کیونکہ خود کو تو میں برباد کر چکا ہوں جوانی میں نے اپنی گناہوں میں گزاری ہے اب میرا یہ راستہ نہ جانے اسان ہو گا یا مشکل ہوگا آپ نے بس اسے اتنا کہا کہ اللہ پر توکل اور یقین رکھو.... اس کے بعد میں وہاں سے چلا گیا اور پھر نہیں ایا
تھوڑے دنوں کے بعد آپ کے پاس چند لڑ کے آئے اور پوچھنے لگے احمد کو کیا ہو گیا ۔ یعنی وہ کہاں گیا اس کی بیوی بہت پریشان ہے اور اسے ڈھونڈ رہی ہے. وہ کئی دنوں سے گھر سے غائب ہے آپ نے کہا میں تو اس کو جانتا بھی نہیں ہوں اس شخص نے حلیہ بیان کیا تو میں کہنے لگا ہاں ایک ایسا آدمی میرے پاس آتا تھا نہ معلوم کون تھا اور ایسی ایسی چند باتیں مجھ سے پوچھ کر چلا گیا اب اس کا حال مجھے بھی معلوم وہ لڑکی کہنے لگے ہم آپکو اللہ تعالیٰ کی قسم دیتے ہیں کہ جب آپکو اس کا حال معلوم ہو ہمیں ضرور خبر کر دینا ۔ آپ نے پوچھا کہ کیا تم لوگ اس کے بارے میں مجھے بتاٶگے.
ان لڑکوں نے کہا وہ اس شہر کا سب امیر دولت مند انسان ہے لیکن جس دن سے آپ سے ملا وہ بدل گیا تھا....اس نے سب چھوڑدیا ہے.. جیسا کہ اسے یہ بھی یاد نہیں کہ اس کی بیوی اور بچے ہیں اپ نے اسے کیا گھول کر بلایا ہے تو آپ کہنے لگے بھئی میں نے اسے کچھ گھول کر نہیں پلایا کیونکہ وہ اللہ کی راہ پر چل پڑا ہے . اس لیے اس نے دنیا سے زیادہ توڑ دیا ہے بہرحال اپ پھر مدینہ سے بغداد شریف کی طرف اگئے اور وہاں پر ایک مدرسے میں اپ پڑھانے لگے .. ایک روز عشاء کی نماز کے بعد آپ اپنے گھر میں بیٹھا ہوۓ تھے کہ یکا یک کسی نے دروازہ کی کنڈی کھٹکھٹائی آپ نے اندر آنے کے لئے پکارا تو وہی جو ان آنکلا اور آپکی پیشانی پر بوسة دے کر کہا اے سری ! جیسا اللہ نے دنیا کی غلامی سے مجھے آزاد کر دیا ہے ایسا ہی ہمیں دوزخ کی آگ سے آزاد کر دے۔
میں نے کہا ہے نوجوان تمہارے پاس اتنا پیسہ تھا دولت و جائیداد تھی تم نے سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا... تو وہ کہنے لگا نہیں میں نے اب تک دولت اللہ را کی اللہ کی راہ میں قربان نہیں کی میں تو بس اپنا سب کچھ چھوڑ کر نکلا ہوں تم اخر ہو کون اپ نے اس سے سوال کی اپ نہیں جانتے ہیں کہ میں کون ہوں اج میں اپ کو اپنے بارے میں تفصیل سے بتاؤں گا پھر وہ بتانے لگا کہ میں ایک ایک ایسا تاجر تھا جس کو اللہ تعالی نے بہت پیسہ دیا ہوا تھا لیکن یہ پیسہ حرام کمائی تھی میں لوگوں کے ساتھ برائی کرتا تھا میں لوگوں کے حق چھینتا تھا میں عورتوں کے ساتھ زنا کاری کرتا تھا... اپنی خوبصورتی اپنی جوانی پر ناز کرتا تھا اپنے گلے میں سونے کے ہار پہنتا تھا یہاں تک کہ میرے بچے بھی سونے سے لدے ہوتے تھے کئی بار ایسے موقع ائے جس پر مجھے سبق حاصل ہو جاتا لیکن میں پھر بھی غفلت کی زندگی جی رہا تھا اللہ تعالی نے مجھے ہدایت کے راستے پر چلانا چاہا لیکن میں نہ چل سکا اللہ تعالی نے مجھے بہت بار سبق سکھانا چاہا لیکن میں نہیں سیکھا پر اپ اللہ کے نیک بندے ہیں اس دن مسجد میں آپ کے اس جملے کو سن کر میرا دل بدل گیا... آپ نے کہا یہ تو بہت خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالی نے تم کو سچائی کے راستے پر چلایا لیکن اب تمہارے گھر والے تمہیں یاد کرتے ہیں تو کہنے لگا ہاں میں ان سے ملنے ایا ہوں لیکن ان سے پہلے میں اپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا...آپ نے اسے دیکھ کر اپنے ایک دوست کو اشارہ کر دیا کہ ان کے گھر والوں کو خبر دے دو ( کہ تمہارا آدمی آگیا ہے ) وہ اسی وقت گیا۔ اس کے جاتے ہی اس کی بیوی بال بچوں کو لیے ہوئے آئی ۔ اس کا ایک بچہ زیور وغیرہ پہنے ہوئے تھا۔ اس بچہ کو اس کی گود میں ڈال کر کہنے لگی کہ اے میاں ! تم نے اپنے جیتے جی ہی مجھے بیوہ بنا دیا۔ اور ان بچوں کو بھی برباد کردیا ۔ نوجوان بیوی بچوں سے کہنے لگا قسم ہے خدا کی بے شک تم میرے دل کے پھل اور میرے دلی محبوب اور پیارے ہو۔ میری اولا د مجھے تمام مخلوق سے زیادہ پیاری ہے لیکن کیا کروں اللہ کے اس ولی نے مجھ سے کہا کہ اگرتم اللہ سے رابطہ رکھنا چاہتے ہو تو اس کے سوا تمام اشیاء سے قطع تعلق کرلو، تو میرا دل پھر شہر میں نہیں لگا اور میں جنگل میں چلا گیا وہیں سے میں ایا ہوں صرف یہ دیکھنے کہ تم لوگ کیسے رہ رہے ہو کیونکہ تم سب کو میں اللہ کی امان میں چھوڑ کر گیا تھا یہ کہہ اس نے بچہ کے گلے میں جو زیور تھا اسے اتار لیا اور بیوی سے کہا کہ یہ زیور وغیرہ تم بھوکوں کو دے دو اور میری کملی میں سے تھوڑا سا کپڑا پھاڑ کر اس کے بدن پر ڈال دو۔ بیوی نے کہا اللہ کی قسم میں اپنے بچہ کو ایسی حالت میں دیکھنا نہیں چاہتی تم تو لگتا ہے دیوانے ہوگئے ہو کہ پھٹی چادر اس بچے پر ڈال رہے ہو یہ کہہ بچہ کو اس سے چھین لیا ۔ ابھی اس نے اپنے بیٹے کو شوہر سے چھینا ہی تھا کہ وہ سونے کا ہار جو اس کے بیٹے نے پہنا ہوا تھا وہ ایک دم سے کسی بچھو کی شکل میں بدل گیا اور اس کے بچے کو ڈنک مارنے ہی والا تھا کہ اس جوان نے اس بچھو کو پکڑ لیا اور اپنے ہاتھ میں اس کا پورا زہر لے لیا پر اللہ کی قدرت کہ اسے زہر نے کچھ اثر نہ کیا اس نے اس بچھو کو مسل کر پھینک دیا... اور کہا یہ سونا یہ چاندی یہی رہی ہے سب بہت نقصان دہ ہیں یہ بچھو کی شکل میں ہے ان سے دور رہو اور میرے بچوں کو ان سے دور رکھو بیوی دولت کے نشے میں تھی اس نے کہا میں تمہاری بات نہیں مانونگی اب تم جادوگری بھی دکھانے لگے ہو کہ تم نے اس سونے کے ہار کو ایک بچھو بنا دیا کرتب دکھا کر مجھے کیا دکھانا چاہتے ہو کہ تم نے کوئی عمل سیکھا ہے میں تمہاری باتوں میں نہیں آنے والی کہا تھا درویش دور رہو لیکن نہیں تم ان کے چکروں میں پڑ گئے .. نوجوان نے کہا افسوس کہ تم میری بیوی ہو.. حرام کمائی کو تم سمجھتی ہو کہ یہ پاک کمائی ہے یہ ہمارے کسی فائدے کی نہیں..... میں تو خود اپنے گناہوں کی وجہ سے شرمندہ ہوں میں چاہتا ہوں کہ میرا خاندان بھی اس گناہ سے نکل جائے اور یہ دولت جو ہم نے حرام سے کمائی ہے اس سے ہمیں نجات مل جائے بیوی نے کہا تم یہاں سے جا سکتے ہو میں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گی نوجوان کو بہت دکھ ہوا وہ اسی وقت وہ نکل کر چل دیا. اور بیوی رونے پیٹنے لگی... اپ رحمت اللہ علیہ نے سے کہا دیکھو تمہارا شوہر دنیا سے کٹ گیا ہے تم اسے یہ باتیں نہ کہو وہ اللہ والا ہو گیا ہے اس لیے تم اسے کوئی شکوہ بھی نہ کرو بیوی نے کہا یہ سب اپ کی وجہ سے ہوا ہے اپ ہی وہ جادوگر ہیں جس نے میرے شوہر کو جادوگری سکھائی ہے کہ وہ اب منتر پڑھ کر ایک سونے کے ہار کو بچھو بنا دیتا ہے اپ رحمت اللہ علیہ نے کہا اللہ تمہیں ہدایت دے کہ تم اپنے شوہر کے مقام کو سمجھ سکو اس نے کہا میں اپ کی بات نہیں مانوں گی اب میں جا رہی ہوں مجھے نہیں چاہیے اپنا شوہر ...پھر بہت سال گزر گئے وہ نوجوان آپ سے نا ملا پھر عرصہ دراز کے بعد ایک رات تہجد کے وقت اپ نماز پڑھ رہے تھے کہ اپ کو اس نوجوان کی اواز ائی جو کہہ رہا تھا حضرت میں اپ سے ملنا چاہتا ہوں میں بغداد شریف کے علاقے شونیزیا میں ہوں اپ وہاں کر مجھ سے مل لیجئے بس میں جانے سے پہلے اپ سے ملنا چاہتا ہوں اپ گھبرا گئے کیا اس کا وقت ا چکا ہے... اپ اٹھے اور اس جنگل کی طرف بڑھ گئے جہاں پر وہ نوجوان موجود تھا اپ جنگل میں پہنچے تو دیکھا رات کے اندھیرے میں ایک بہت ہی نورانی شکل والا شخص زمین پر پڑا ہوا ہے اتنے کالے گھنے جنگل میں اس کا چہرہ چمک رہا تھا کہ کسی بھی روشنی کی ضرورت نہیں تھی اب اس کے پاس گئے تو یہ تو تو وہی جوان پڑا ہوا تھا اس نے سر کے نیچے ایک اینٹ رکھی ہوئی تھی۔ آپ نے سلام کیا آپ کی آواز سن کر فورا اس نے آنکھیں کھول دیں اور کہنے لگا ...حضرت کیا خیال ہے کیااللہ کے ہاں میری خطائیں معاف ہو جائیں گی۔ آپ نےکہا...ہاں کیا میرے جیسوں کی بھی مغفرت ہو جاتی ہے آپ نے کہا ہاں ! کہا میں تو گناہوں میں گھراہوں نے کہا وہ غرق ہونے والوں کو بھی کو بھی بچادیتا ہے۔ کہا میرے ذمہ بہت ظلم اور حرام کام ہیں...
آپ نے کہا حدیث شریف میں یہ آیا ہے کہ خود جس نے تو بہ کر لی ، قیامت کے دن اس کے حقداروں کو بلایا جائے گا اور انہیں یہ حکم ہوگا کہ تم اسے چھوڑ دو اور اس کی طرف سے اللہ معاوضہ دے گا ۔ پھر اس نے کہا اے سری سقطی میرے پاس کچھ کھجور کے بیچنے کے بعد چند درہم موجود ہیں ۔ جس وقت میں مر جاؤں تو جس چیز کی میرے واسطے ضرورت ہو اسی میں سے خرید کر کفن دفن کر دینا اور میرے گھر والوں کو خبر نہ کرنا ورنہ وہ میری حرام کی کمائی میں سے میرا کفن خرید کر میرا کفن بدل دیں گے۔ اس جگہ کا میرے پاس بیٹھ جائیے اپ اس کے پاس بیٹھ گئے اس نے کہا ما لمثل هذا فليعمل العاملون (یعنی عمل کرنے والوں کو ایسے ہی اجر کے لئے عمل کرنے چائیں)
اور اس نے اپ کے سامنے ہی مسکرا کر دم توڑ دیا
اس کے لباس پہ اور درہم رکھے ہوئے تھے آپ نے وہ درہم لیے اور جس چیز کی ضرورت تھی خرید نے بازار گۓ ابھی واپس آرہے تھے کہ دیکھا کہ لوگ گھبرائے آرہے ہیں،آپ نے کہا خیر تو ہے کہا ایک ولی اللہ کا انتقال ہو گیا ہے ۔ ہم اس کے جنازے کی نماز پڑھنے جا رہے ہیں۔ لوگوں کی بات سن کر اپ حیران ہوئے واللہ ان کو کیسے پتہ چلا اسی وقت اواز ائی ہم اپنے ولی کے بارے میں سب کو بتاتے ہیں اور لوگوں کو پتہ چل گیا کہ ایک نیک نوجوان کا انتقال ہوا ہے اس لیے لوگ جنازے کی نماز پڑھنے ا رہے ہیں اب اس کو غسل دو اور اس کی نماز جنازہ پڑھاؤ ..آپ نے آکر اسے غسل دیا اور سب نے نماز پڑھ کر دفن کر دیا۔ اس کی وصیت تھی کہ اسے گھر والوں کو نہ بتایا جائے تو اس کی بیوی بچوں اور گھر والوں کو یہ بات نہ پتہ چلی ہے پر کسی نہ کسی طرح اس کے گھر والوں کو یہ خبر مل گئی وہ اپ کے پاس ائے اور رونے لگے اور کہا کہ ہمارے بیٹے کے بارے میں اپ نے ہمیں نہیں بتایا اسی وقت اس کی بیوی رونے پیٹتے آپکے پاس آئ نے اس کا سارا حال اس سے بیان کیا ..اس نے کہا حضور مجھے اس کی قبر دکھلا دیں۔ اس پر آپ کو اندیشہ ہوا کہ کہیں اب یہ اس کا کفن نہ بدل دے.آپ نے اس کی بیوی سے کہا تمھارے شوہر نے حرام کمائ سے پیسہ خرچ کرنے کو منع کیا ہے اس نے کہا....نہیں حضرت ایسا نہ ہوگا۔ غلطی پر تو میں تھی ایسا نیک شوہر جس نے میری فکر کی اس کو میں نے بھلا دیا اور میں نے مانا ہی نہیں کہ وہ میرا شوہر ہے وہ تو اللہ کی محبت میں گم تھا اور اللہ سے بڑھ کر محبت اور کسی کے کیسے ہو سکتی ہے اس نے اللہ کی خاطر پوری دنیا کو چھوڑ دیا اور میں اپنے شوہر کی خاطر اس دولت کو نہ چھوڑ سکی ایسی حرام دولت تو مجھے بھی نہیں چاہیے... اپ رحمت اللہ علیہ نے پوچھا تو تم کو کیسے پتہ چلا کہ تمھارا شوہر اس قدر نیک انسان تھا تو کہنے لگی ایک رات میں نے اپنے بیٹے کو جو سونے کا ہار پہنا کر رکھتی تھی وہ پھر سے کالا بچھو بن گیا اور وہ بچھو اس کو ڈنک مارنے ہی والا تھا لیکن اسی وقت نجانے کس کا ہاتھ ایا اس نے اس بچھو کو پکڑ لیا اور میرے بیٹے سے دور کر کے اس بچھو کو بالکل اسی طرح مسلدیا جس طرح میرے شوہر نے اپنے ہاتھ میں بچھو کو مسلا تھا میں نے جب غور سے دیکھا تو وہ کوئی نورانی چہرے والا نوجوان تھا وہ میرا شوہر ہی تھا تب میں سمجھ گئی کہ یہ کوئی جادوگر نہیں ہے یہ اللہ کا نیک بندہ ہے اور اس نے اللہ کی خاطر ہم سب کو چھوڑا ہے لیکن اللہ تعالی ہم سے محبت کرتا ہے اس لیے اس نے ہمیں بے اماں نہیں رکھا اور یقین جانیے میرے شوہر کے جانے کے بعد بھی میری حفاظت کرنے والی بہت سی ہستیاں تھی کہ کسی غیر مرد نے میرے شوہر کی غیر موجودگی میں انکھ اٹھا کر مجھے نہیں دیکھا تب مجھے یقین ہو گیا کہ میرا شوہر اللہ والا ہے اس کو تو یہی فکر تھی کہ اس نے ہمیشہ حرام کام کیا ہے اللہ اسے ضرور معاف کرے گا کیونکہ ہم سب اس سے راضی ہیں اللہ بھی اس سے راضی ہے اللہ اس کا کیوں معاف نہیں کرے گا بس میں چاہتی ہوں کہ ایک بار اس کی قبر کو دیکھ لوں آپ اطمینان رکھیں خیر آپ نے اسے قبر دکھا دی ۔ لیکن اس نے قبر پر فاتحہ پڑھنے کے بعد جو کام کیا اس نے سب کو چونکادیا بیوی نے دو گواہ بلوائے اور اپنے زیور اپنی سب لونڈیاں آزاد کر دیں اور اس نوجوان کی قبر کے پاس جو اس کی زمین تھی اس پر ایک مدرسہ بنادیا اور مال خیرات کر دیا...
Comments
Post a Comment