Hazrat Baba Fareed Ek Haseen Aurat Aur 11 Kutte

 Hazrat Baba Fareed Ek Haseen Aurat Aur 11 Kutte


پاکپتن میں ایک تیل بیچنے والا تھا اسکی بیوی بہت حسین تھی اس لیے وہ اسے گھر سے نکلنے نہیں دیتا تھا وہ اپنی بیوی کی حفاظت کرنے کے لیے گھر پر رہتا پر انسان کی حفاظت کس کام کی اک بار اس کے محلے میں ڈاکو گھس آۓ ہر گھر کو لوٹنے کے بعد وہ لوگ اس تیلی کے گھر میں بھی کود گئے اتفاق سے وہ تیل والا گھر پر نہیں تھا اس کی بیوی اندر تھی جب ڈاکوں نے اس کو دیکھا تو نیت خراب ہوگئ شیطان سوار ہوگیا ان پر گھر پر جو تھوڑا بہت سامان تھا اس کو بھی ان لوگوں نے لوٹا اور اس تیل والی کی بیوی کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے یہی نہیں اس کے گھر کو بھی آگ لگادی سب جلکر ختم ہوگیا جب وہ واپس لوٹا تو اس کے ہوش اڑ گئے کہ یہ کیا ہوا پھر لوگوں سے پوچھا میری بیوی کہا ہے انہوں نےسارا ماجرا سنادیا اسکی پاگلوں والی حالت ہوگئ گھر بھی لٹا محبت بھی چھن گئی وہ گلیوں میں مارا مارا پھرتا کوئ اس کو کیا بتاتا کہ بیوی کو وہ ڈاکو کہآں لے کر گئے ہیں ایک دن غم سے نڈھال کسی درخت کے نیچے بیٹھا تھا کہ ایک گاٶں والا آیا اور کہا کہ بھائ مہینوں سے اپنی بیوی کوتلاش کررہا ہے تجھے ایک مشورہ دیتا ہوں زندگی جو تیری اجیرن ہو گئی ہے  آخر تیرے دکھ کا علاج بس ایک شخص کے پاس ہے۔
" مجھے اس کا پتا بتاؤ ۔ " روغن گر زار و قطار رونے لگا  میں اس کے پیروں پر سر 
رکھ دوں گا اور اس سے اپنے کھوئے ہوئے صبر و قرار کی بھیک مانگوں گا۔وہ شخص بولا تو بابا کے پاس چلا جاوہی تیرے درد کی دوا دے سکتے ہیں کیاوہ سب کے کام کردیتے ہیں کیا وہ میری بیوی کو واپس لے آئینگےمجھے بس کچھ اور نہیں چاہیے وہی چاہیے ہے ۔وہ آدمی بولا کہ ہاں سب کی مدد کرتےہیں وہ سب کے بگڑے کام بنادیتے ہیں بس یقین سے جاو ان کے پاس کہاں ہے ان کا ٹھکانہ مجھے جلدی بتاو  گاؤں والوں سے
حضرت بابا فرید کی خانقاہ یعنی عبادت خانہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
روغن گر اسی خراب حالت میں حضرت بابا فرید" کے حضور پہنچا کہ اس کی آنکھیں ویران
تھیں، بال بکھرے ہوئے تھے اور چہرے سے وحشت برس رہی تھی۔ خانقاہ کے خادموں
نے اسے پاگل ہی سمجھا مگر حضرت بابا فرید" کا حکم تھا کہ جو شخص زیادہ پریشان نظر آئے
زیادہ اہمیت دی جائے۔ تو اسے فورا ہی حضرت شیخ کی خدمت میں پیش کر دیا گیا۔
حضرت بابا فرید " کا اصول ہے اس کے لئے کھانا منگواتے۔ جب بھی کوئی پرتیں عمل میں آتا۔ آپ سب سے روغن گر کی حاضری کے وقت بھی ایساری کیا گیا خادم نے اس کے سامنے کھایا کر رکھا ت وہ نہایت شکستہ لہجے میں کہنے لگا۔ مجھے بھوک نہیں ہے۔ زمانہ ہوا کہ میں نے کھانا چھوڑ دیا ہے۔ “ روغن گر کی
آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ حضرت بابا فرید کو اس کی شدت غم کا احساس ہوا تو آپ نے فرمایا۔ ” تو اس حالت کو تو کس طرح پہنچا ؟  نے اپنی بیوی کے بچھڑنے کا پورا واقعہ سناتے ہوئے کہا۔ ” اس کے بغیر یہ زندگی ایک عذاب ہے۔ اگر آپ کے پاس بھی میرے غموں کا علاج نہیں ہے تو میں چلا جاتا ہوں۔ تم کھانا تو کھاؤ۔ " حضرت بابا فرید نے اس کا حال زار سن کر فرمایا۔ ” عجیب نہیں که حق تعالی تمہاری ساری پریشانیاں دور فرمادیں۔ "
روغن گر نے حضرت بابا فرید" کے اصرار پر دو چار لقمے حلق سے اتارے مگر اس طرح کہ جسے وہ کانٹے نگل رہا ہو ۔ کھانے کے بعد اس نے وحشت زدہ لہجے میں پوچھا۔ ” اب میں

کیا کروں ؟ کہاں جاؤں؟"صبر کرو حضرت بابا فرید نے فرمایا۔
پایا ! اب مجھ سے صبر نہیں ہوتا۔ " روغن گر حضرت شیخ کے قدموں سے لپٹ کر رونے لگا۔
صبر تو تمہیں کرنا ہی پڑے گا۔ " حضرت بابا فرید نے اسے تسلی دی۔ "کچھ دن
تک میرے پاس رہو۔ روغن گر کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا مجبورا خانقاہ کے ایک گوشے میں جا پڑا 
مگر اس طرح کہ ہر گھنٹے کے بعد حضرت بابا فرید" کے پاس آتا اور فریاد کر تا کہ ابھی تک اس
کی بیوی نہیں ملی۔اس حالت میں وہ دیوانہ ہوکر کچھ نہ کچھ کہہ جاتا اس کو کوئ ہوش نہ تھا
حضرت بابافرید هربار بہت پیار اور شفقت  کے ساتھ اس عاشق کو تسلی دیتےاور پھراپنے مریدوں کو مخاطب کر کے فرماتے۔ " تم لوگ دیکھ رہے ہو کہ عشق کی آگ کس انداز سے
بھڑک رہی ہے۔ بے چارے کی روح تک چلی جاتی ہے اگر چہ یہ دنیا کے عشق میں مبتلا ہے
لیکن اس کا عشق سچا ہے۔ "
آخر اسی کشمکش میں دو دن گزر گئے۔اس  کی مایوسی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی پھر
تیسرے دن ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ دیپال پور کے حاکم نے اپنے سپاہیوں کو علم دیا کر وہ اجودھن کے ایک شریف  کو پکڑ کر اس کے سامنے پیش کردیا  اگر چہ وہ بے قصور تھا لیکن پیچھے مخبروں نے حاکم دیپال پور کو اطلاع دی تھی کہ وہ اس کے خلاف سازشیں کر رہا ہے اور ڈاکووں کا سردار ہے  
شریف آدمی کو گرفتار کر لیا گیا پھر جب اسے دیپال پور لے جایا جانے لگا تو اس نے سپاہیوں درخواست کرتے ہوئے کہا۔ اگر تم لوگ مجھے کچھ دیر کے لئے حضرت بابا فرید" کی خدمت میں لے چلو تو میں تمہیں
ایک قیمتی چیز پیش کروں گا۔ " تو وہاں جا کر کیا کرے گا؟  بس چند لمحوں کی بات ہے ۔ " اس شخص نے بڑے ہی ہلکے لہجے میں کہا۔ " میں حضرت
شیخ کی خدمت میں سلام پیش کروں گا اور پھر تم لوگوں کے ساتھ دیپال پور روانہ ہو جاؤں "گا۔
سپاہی ویسے تو شاید انکار کر دیتے مگر بڑی رقم کے لالچ نے انہیں منشی کی بات ماننے پر مجبور کر دیا۔ پھر وہ شخص  اسی حالت میں حضرت بابا فرید" کے پاس پہنچا کہ وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا
تھا۔آپ نے اس کی بدحالی دیکھی تو فرمایا اے شخص! یہ کیا ماجرا ہے ؟ سرکار ! میں بے قصور ہوں مگر حاکم دیپال پور کے سپاہی مجھے گرفتار کر کے لئے
جارہے ہیں۔ مگر کیوں کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ میں ان لوگوں سے نہ ہوں جنہوں نے فلاں بستی کو لوٹا تھا  میرے پاس کسی اعلیٰ افسر کی سفارش نہیں اگر کچھ ہے تو بس آپ کی دعاؤں کا سہارا ہے۔ "
حضرت بابا فرید چند لمحوں تک کچھ سوچتے رہے پھر اس شخص سے فرمایا۔ اگر وہ حاکم جس نے تیری گرفتاری کا حکم جاری کیا ہے تجھ پر مہربان ہو جائے تو کیا شکرانہ پیش
کرے گا؟"
” میرے پاس جس قدر مال و اسباب ہے، وہ سب آپ کی خدمت میں پیش کر دوں گا۔  اپ نے فرمایا اس کی ضرورت نہیں 
وہ شکرانہ بھی میں نے تجھے بخش دیا۔ پھر  حضرت بابا فرید نے فرمایا ۔ " مجھے اپنے اللہ کے کرم پر یقین ہے کہ وہ  ظالم حاکم تجھے آزاد کر دے گا۔ قیمتی گھوڑے سے نوازے گا اور تحفے کے طور پر تجھے ایک کنیز بھی دے گا مجھ سے وعدہ کر کے تو اس کنیز کو  اس تیل والے 
کے حوالے کر دے گا۔  وہ شخص کہنے لگا حضرت اپ جو کہیں گے میں وہی کروں گا بس میری جان چھڑوا دیجیے میں کوئی ڈاکو نہیں ہوں  بھی اس تیل والے کے حوالے کر دوں گا  اس تیلی نے جب یہ بات سنی تو رونے لگا۔اور بابا صاحب سے عرض کی  شیخ میرے پاس اتنی دولت ہے کہ آٹھ خوبصورت کنیزیں خرید سکتا ہوں مگر میں ایسا نہیں کروں گا مجھے صرف اپنی بیوی سے محبت ہے۔ اس کے سوا کسی کا ساتھ نہیں چاہیے۔ " حضرت بابا فرید نے مسکراتے ہوئے فرمایا ۔ " تو اللہ کا نام لے کر اس شخص  کے ساتھ چلا جا....
مجبورا وہ عاشق اس شخص  کے ساتھ چلا گیا مگر اسے اپنی بیوی کے ملنے کی امید نہیں
تھی۔
 اور چونکہ اس دوائیوں نے اس کی ملاقات بابا فرید سے کروا دی تھی اسی وجہ سے اس نے ان کو ایک ہیرے کی انگوٹھی دی.. مگر اس کو کہتے ہو پھر بھی ہونا پڑا  فیصلہ ہونا تھا 
دوسرے دن اس بےقصور  کو حاکم دیپال پور کے سامنے پیش کیا گیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ شخص حاکم کے قہر و غضب سے محفوظ نہ رہے گا اور اسے سخت ترین سزادی جائے گی خود حاکم کا یہ حال تھا کہ وہ اس شریف کے آنے سے پہلے سخت پیچ و تاب کھا رہا تھا یعنی غصہ س کھول رہا تھا پر جیسے ہی اس  کو حاکم کے سامنے پیش کیا گیا صورتحال یکسر بدل گئی حاکم دیپال پور
نے اپنے قیدی کی طرف دیکھا اور بے اختیار کہنے لگا۔
تو سازشی نہیں ہو سکتا۔ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔  ڈاکو کا ذاتی نہیں ہے بلکہ تو نے تو کچھ بھی نہیں کیا  اس کے ان سے بھائیوں میں سے ایک راتوں کا ساتھی تھا حاکم نے اس کو دیکھا اور کہا مجھے تو لگتا ہے کہ تیری وجہ سے سب کچھ ہوا ہے تو نہیں لوگوں کے گھروں پر ڈاکہ ڈلوائے ہیں مجھے بتا کہاں ہے وہ سارا مال وہ  سپاہی تھر تھر کانپ لگا اس نے کہا اپ کو کیسے پتہ  اس نے کہا مجھے سب پتہ چل گیا ہے جلدی مجھے بتا وہ حاکم کو اور جب ہم لوگوں کو جنگل میں لے گئے جہاں اس کے اور بھی ساتھی تھے ان سب کو حاکم کے سپاہیوں نے پکڑ لیا  وہاں پر ایک کنیز بھی تھی  جس کے چہرے پر کپڑا ڈلا ہوا تھا ان سب کو وہ محل لے کر ا گیا 
پھر حاکم نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس نیک شخص کی زنجیریں کھول دی جائیں۔ وہاں موجود تمام لوگ حیرت زدہ تھے کہ کیسےبنا گواہی کے یہ شخص چند لمحوں میں بے قصور  ثابت ہو گیا ؟ حاکم نے اس کے لئے کرسی منگوائی اور اسے اپنے قریب بٹھایا۔ کچھ دیر تک معذرت کرتا رہا پھر اس نے اس کو قیمتی لباس سے نوازا اور ایک اعلیٰ نسل کا گھوڑا دیا جب وہ  انعام لے کر جانے لگا تو حاکم دیپال پور نے اسی برقع پوش خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
اور یہ کنیز تیری خدمت کے لئے ہے۔ "
اس پر تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ وہ  کسی دیوار کی طرح بے جان کھڑا تھا مگر اس کا ذہن ایک درویش کے کوچے میں بھٹک رہا تھا۔ حضرت بابا فرید کی زبان مبارک
سے ادا ہونے والے الفاظ سچ ہو گئے تھے۔
"کیا کچھ اور چاہتا ہے ؟آپ کی خدمت کے لیے اور کیا پیش کروں ...میرے لئے آپ کی یہی عنایت بہت ہے ۔ " منشی اپنے تصورات کے حصار سے باہر نکل آیا کہ کیسے حاکم کی  نفرت، محبت میں  بدل گئی اور یہ کس کی دعاؤں کا صدقہ ہے۔ اب وہ  حاکم کے دربار سے باہر آیا جہاں اس کے ساتھ آنے والا وہ تیل والا کھڑا تھا برقع پوش کنیز اس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھیں پر اچانک کیا ہوا اس روغن گر سے جاکر وہ کنیز لپٹ گئی۔ وہ  گھبرا گیا یہ کیا حملہ ہو گیا اس نے غصے سے کہا عورت مجھ سے دور ہو جا 
مجھے اپنی بیوی کے سوا کسی عورت کی طلب نہیں۔  ہمت کیسے ہوئی میرے پاس انے کی  میں تجھے جانتا بھی نہیں ہوں ..میں ہی تو تمہاری بیوی ہوں ۔ " یہ کہتے ہوئے کنیز نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دیا۔ روغن گر کو سکتہ سا ہو گیا پھر کچھ دیر بعد وہ چیخیں مار کر رونے لگا۔ بابا بابا "

بابا فرید کو یاد کر رہا تھا۔ تم کسے پکار رہے ہو ؟ بیوی نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔
اسے آوازیں دے رہا ہوں جس کی دعاؤں کے طفیل مجھے تیرا دیدار نصیب ہوا ہے۔ " روغن گر زار و قطار رو رہا تھا۔ "اگر اس کی نگاہ کرم نہ ہوتی تو میں آتش فراق میں جل کر راکھ ہو چکا ہوتا ۔ تیری  تیرے بچھڑنے کی اگ مجھے جلا دیتی  کیا حال تھا لیکن وہ ایک مسیحا تھے جنہوں نے میرے دل پر محبت کا ہاتھ رکھا  اور اج انہی کی دعا سے تو مجھے ملی ہے .. بتا تیری عزت پر کوئی اج تو نہیں ائی وہ کہنے لگی واللہ وہ ڈاکو میرے قریب عادت دے لیکن ایسا لگتا تھا کوئی طاقت ہے جو ان کو پیچھے کر رہی ہے انہوں نے تو میرا چہرہ تک نہیں دیکھا مجھے ہاتھ کیا لگاتے  یہ بھی انہی اللہ والے  کی وجہ سے ہوا ہے  وہ کہنے لگا ہاں انہی کی وجہ سے ہوا ہے جب اس 
نے پورا واقعہ سنا تو اس کی بھی آنکھیں بھیگ گئیں۔  خدا شیخ کو سلامت رکھے کہ انہیں دیکھ کر ہمارے بے قرار دل سکون پاتے ہیں۔ 
اجودھن پہنچ کر روغن گر حضرت بابا فرید کے قدموں سے لپٹ گیا۔
” اب کیا چاہتا ہے ؟ جو چاہیے تھا تجھے مل تو گئی ہے باحفاظت تیری بیوی تیرے پاس ہاتھ ہو گئی ہے حضرت بابا فرید نے پوچھا۔
حضرت  عشق کی وہ آگ چاہتا ہوں جو کبھی نہ بجھے۔ " روغن گر حضرت بابا فرید کی ایک نظر
خاص کی بھیک مانگ رہا تھا۔ اللہ تیرے شعلۂ عشق کو اور بھڑ کا دے ۔ " حضرت بابا فرید نے دعا دی۔
پھر وہ روغن گر حضرت بابا فرید" کے حلقہ ارادت میں شامل ہو کر عشق مجازی سے عشق حقیقی کا سفر کرنے لگا

Comments