80 Sal ki Banjh budhiya ne 101 Aulad Paida ki Allah wale ka Waqia

دکھے دل زباں سے  اللہ کا ذکر کرتے ہوئے وہ چلے جا رہے تھے راستہ بہت لمبا تھا سفر جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا بس دل کو امید تھی تو اللہ سے اس کے سوا کسی سے امید نہ تھی چلتے چلتے اللہ والے کو دور ایک بستی دکھائی دی  اپ نے وہیں ٹھہرنا مناسب سمجھا یہ رات کا  وقت تھا کوئ بھی موجود نہ تھا نہ آدم  نہ آدم ذات ...آپ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور ذکر میں لگ گئے پوری رات گزر گئی اور صبح کا اجالا ایک نئی زندگی لے کر ایا لیکن کچھ باتیں تھیں  جو ان کے دل کو لگی تھی انسان ہے انسان کبھی کبھی ٹوٹ جاتا ہے اپ کے جملے تلوار سے زیادہ اپ کے دل پر اثر کرتے ہیں اس لیے سخت جملے نہیں بولے جاتے ہیں اس اللہ والے تو اللہ سے لو لگانے والے اللہ سے محبت کرنے والے اور کبھی انسانوں کی باتوں کا برا بھی نہیں مانے والے لیکن جب اپ کی ذات کو نشانہ بنایا جائے تو پھر بھی دل تھوڑا زخمی ہو ہی جاتا ہے اور یہ سب ان کے ساتھ پچھلے گاؤں میں ہوا تھا جہاں وہ پہلے رہتے تھے ... اللہ والے وہ باتیں بھول جانا چاہتے تھے  کیونکہ اللہ والے کسی کی برائی اپنے دل میں رکھتے نہیں ہیں وہ جو کرتے ہیں اللہ کی رضا کے لیے اس کی چاہت کے لیے کرتے ہیں  اللہ والے انکھیں بند کیے اللہ کو یاد کر رہے تھے تسبیح پڑھتے جا رہے تھے  کہ اتنے میں کچھ لوگ وہاں سے گزرنے لگے جو اپ کو  عجیب انداز میں دیکھ رہے تھے  یہ بات اپ کو حیران کر دے گی  حضرت کی عمر اکیاسی سال تھی...  اور چہرے پر ایسی نورانیت تھی کہ دیکھ کر سب دنگ رہ گئے کیونکہ اللہ والوں کے دل صاف ہوتے ہیں ان کی نیت پاک ہوتی ہے اور بے شک اپ کے اچھے عمل اپ کی نیت کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں تو وہ لوگ اپ کو دیکھ کر کچھ باتیں کرنے لگے کیونکہ وہ حیران تھے کہ یہ کون ہے لیکن ان میں ہی ایک نیک شخص بھی تھا جو کہ اپ کو دیکھ کر مسکرایا بھی اور اپ کے پاس ا کر بیٹھ گیا.. کہنے لگا  بابا آپ کون ہو کہاں سے ائے ہو اج سے پہلے اپ کو یہاں دیکھا نہیں اللہ والے نے فرمایا میں یہاں سے کچھ دور موجود ایک گاٶں سے آیا ہوں  اس شخص نے دوبارہ سوال کیا تو  کیا یہاں اپ کا کوئی رشتہ دار ہے  اگر اپ کو کوئی جانے والا ہے یا رہتا ہے تو اپ اس درخت کے نیچے کیوں بیٹھے ہوئے ہیں چلیں میں اپ کو وہاں لے کر چلتا ہوں  اللہ والے نے فرمایا نہیں میرا کوئی رشتہ دار تو نہیں ہے اور نہ میں یہاں کسی کام سے ایا ہوں پھر کہتے کہتے آپ خاموش ہوگئے وہ ایک سمجھدار انسان تھا لوگوں کے کان ان دونوں کی باتوں کو سننا چاہ رہے تھے اس لیے اس نے بھی زیادہ زور نہ دیا بس کہا کہ  اچھا بابا آپ آگر یہاں بیٹھنا چاہتے ہیں تو ضرور تشریف رکھیے پر  آپ ہمارے مہمان ہیں...میں اپ کے لیے کھانا لاتا ہوں...وہ وہاں سے چلاگیا  اللہ والے پھر سے  ذکر میں مصروف ہوگئے 

اسی گاؤں میں ایک ضعیفہ بھی تھی اس کی عمر یہی کوئی  اس کی عمر قریبا اسی نوے سال تھی  لیکن وہ بے انتہا حسین تھی لیکن  وہ باحیا  تھی اور کسی کے سامنے یوں ہی نہیں ایا کرتی تھی اپنے کام سے کام رکھا کرتی اللہ والے بھی تو اسی طرح پاکیزہ نگاہوں والے ہوتے ہیں اب  اللہ والے جس درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اس کے بالکل سامنے اس بڑھیا کا گھر تھا..اللہ والے نیچے نظریں جھکائے بیٹھے تھے اتنے میں وہی نیک  شخص دو روٹی لے کر اگیا اللہ والے نے دعا دی اور اللہ کا شکر ادا کر کے وہ روٹیاں کھا لیں اس گاٶں کے لوگ بہت بدتمیز تھے ان کو بزرگوں کا کوئ ادب نہیں تھا وہ خود کو بہت ہی کوئ پہنچی ہوئ شے سمجھتے تھے اس لیے اللہ والے کو دیکھ کر وہ لوگ کبھی ان کی عزت نہ کرتے بلکہ  ایک بوڑھا فقیر سمجھ کر ان کے پاس سے گزر جاتے ہیں پر وہ نیک شخص ہر روز  اللہ والے کے پاس آتا ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتا  اللہ والے بھی  اس سے خوشی خوشی بات کر لیا کرتے تھے اللہ کے نیک بندے کبھی خود کی ذات کے لیے نہیں سوچتے وہ جو بھی کام کرتے ہیں اللہ کی رضا اس کی خوشی کے لیے کرتے ہیں انسان چاہیں ان اللہ کے نیک بندوں کو جتنا توڑیں یہ کبھی کسی کو بددعا نہ دینگے اب جس پیڑ کے نیچے اللہ والے بیٹھتے تھے اس کے سامنے والے گھر میں جو بڑھیا رہتی تھی ایک دن وہ گبھرائ ہوئ باہر نکلی اس کو مدد کی ضرورت تھی لیکن جس سے مدد مانگتی وہ انسان اس کو ایسے دھتکار رہا تھا جیسے اس کو کوئ بیماری ہو اللہ والے نے لوگوں کو برا رویہ اس خاتون کے ساتھ دیکھا تو ان کو اچھا نہیں لگا وہ عورت چلتی ہوئ آپ کے پاس آئ اور کہا کہ کیا آپ میری مدد کرسکتے ہیں اللہ والے نے انسانیت کے ناطے کہا کہ ہاں کہیئے کیا کام ہے وہ دراصل میں روٹی پکانے کے لیے آگ جلارہی تھی لیکن دیکھا تو لکڑیاں گیلی ہیں اب میں تندور میں روٹیاں کیسے پکاٶنگی میرا تو کام ہی یہی ہے اسی سے پیسے کماتی ہوں کیا اپ میری مدد کر دیں گے میرے گھر میں کوئی بھی نہیں بالکل اکیلی ہوں اللہ والے نے فرمایا ہاں تو بتاٶ میں کیا کرسکتا ہوں بس وہ کچھ سوکھی لکڑیاں  رکھی ہوئی ہیں اپ ان کو چیر دیجیے بس یہ میرا یہ کام کر دیجئے کوئی بھی میری مدد کرنے کو تیار نہیں  اللہ والے یہ  بات سن کر ان کے گھر پہنچے اور لکڑیوں کو چیر دیا اور لکڑیاں کاٹ دی وہ بڑھیا بہت خوش ہوئی  اس نے اپ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اج اپ نے میری ایک مشکل کو حل کر دیا ہے  اللہ والے نے کہا چلو پھر میں چلتا ہوں چلتے چلتے  اللہ والے کو کچھ یاد ہے انہوں نے کہا ایک سوال پوچھ سکتا ہوں تم سے  

جی پوچھیے  تو اللہ والے نے کہا میں نے دیکھا ابھی تم باہر گھر سے نکلی لوگوں سے مدد مانگ رہی تھی لیکن کوئی بھی تمہاری بات نہیں سن رہا تھا بلکہ الٹا تمہارے ساتھ برا رویہ رکھ رہے تھے کیا  یہاں پر تم اکیلی رہتی ہو کیا تمہارا شوہر فوت ہو گیا ہے  بڑھیا بولی نہیں ایسی تو کوئ بات نہیں بس لوگ تو ایسا کرتے ہی ہیں وہ بتانا نہیں چارہی تھی اسلیے اللہ والے نے فرمایا چلو ٹھیک ہے اب وہ باہر آگئے جیسے ہی وہ گھر سے باہر دروازے تک آۓ تو ایک عورت  جو وہاں سے گزر رہی تھی تو وہ اس عورت کے گھر سے اللہ والے کو نکلتا دیکھ کر چیخنے لگی اے بانجھ  بڑھیا  ایزیلی چھوڑا ہے نا کہ تو اچھے کردار کی مالک نہیں اور اب یہ بوڑھا جو یہاں پر ن جانے کب سے ا کر بیٹھا ہوا ہے تیرے گھر میں کیا کر رہا ہے توبہ توبہ کیا دیکھ لیا میں نے  وہاں پر بھیڑ جمع ہو گئی تھی  اللہ تعالی نے کہا اے خاتون کیا ہو گیا ہے تم کو تو ہم پر یہ گندا نظام نہ لگا ہوتا کہنے لگی اچھا یہ کوئی اچھی کردار کی مالک عورت نہیں ہے جانتے ہیں یہ بانجھ تھی بانجھ اور اس کا شوہر اسے طلاق دے کر اسے چھوڑ کر چلا گیا اکیلی عورت ہے کوئی بھی مرد اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتا ہے تبھی یہ جب باہر نکلتی ہے کوئی اس کی مدد نہیں کرتا ہے اکیلے سارے کام کرتی ہے اس کی کسی بدکرداری کی وجہ سے یہ تو ہمیں فاحشہ ہی لگتی ہے اب اس کی عمر دیکھو ذرا اس عمر میں یہ تمہارے ساتھ  اپنے گھر میں کیا کر رہی تھی  کی انکھوں میں انسو اگئے اس کی کردار پر تہمت لگائی جا رہی تھی یعنی اس کو برا بھلا کہا جا رہا تھا اللہ والے کو اچھا نہیں لگا  انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی سے  پیڑ کے نیچے آگئے اور بڑھیا بھی اپنے گھر میں چلی گئی رش تو ہٹ گیا تھا پر وہ مکار عورت اب اللہ والے اور اس بڑھیا کے نام سے خراب باتیں کرنے لگی   اللہ والے کو بہت دکھ ہوا تھا بڑھیا نے تو ان کو سچ نہیں بتایا تھا لیکن اس عورت کی زبانی ان کو حقیقت کا علم ہوا وہ دعا کرنے لگے یا اللہ اس خاتون پر اس عورت نے پورے گاؤں نے کتنا گھٹیا الزام لگایا ہے اولاد کا ہونا نہ ہونا تو تیرے ہاتھ میں ہی یا اللہ اس کا تعلق ایک اور عورت سے کیسے ہو سکتا ہے اور ایک مرد کسی عورت کو کہ اسی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے اور ان کو اس کے لیے ہمدردی ہو رہی تھی لیکن چونکہ لوگ بڑھیا پر ہی الزام لگاتے اسی وجہ سے انہوں نے سوچ لیا تھا کہ میں دوسروں کے سامنے  احتیاط کروں گا کہ ایک  خاتون پر کوئی بھی انگلی نہ اٹھائے  اللہ والے اپنے غم کو بھلا کر ایک خاتون کے غم کو محسوس کر رہے تھے یہی تو شان ہوتی ہے اللہ والوں کی کہ ان کو اپنا غم کم لگتا ہے اور دوسرے انسان کا دکھ بہت بڑا لگتا ہے

وہ اس کے لیے ہی دعا کرتے  اب کچھ دن گزر گئے وہ نیک شخص ایک دن پھر ایا اور اس نے حضرت کو پریشان دیکھا تو  سوال کیا بابا جب سے یہاں آۓ ہیں چپ چپ رہتے ہیں اللہ کا ذکر کرتے ہیں پر  یہ تو کوئی بات نہیں کرتے اپ کو میں جب سے پریشان دیکھ رہا ہوں ہمت نہیں پڑی اور اج اپ سے میں کوئی پوچھنا چاہتا ہوں کیا آپ کے  بیوی بچے نہیں ہیں  کہ اپ کا کوئی بھی نہیں ہے اللہ والے اب اس کو اپنا ماننے لگے تھے  کیونکہ اس گاؤں میں وہی ایک واحد انسان تھا جو ان کو عزت دیتا تھا اور ان کا خیال رکھتا تھا اللہ والے نے کہا بیٹا مجھے پتہ ہے کہ تمہارے دماغ میں کب سے یہ سوال ہے  لیکن اج میں اپنے دل کی بات تمہیں بتا ہی دیتا ہوں  اور جو بہت اللہ والوں نے کہی اس کو سن کر وہ تو چونک گیا  اللہ والے نے کہا بیٹا  میں نے شادی ہی نہیں کی جب بیوی نہیں ہوگی تو بچے کہاں سے ائیں گے  میں نے شادی نہیں کی وہ حیرانی سے اپ کو دیکھنے لگا اخر کیوں اللہ والے نے فرمایا کیونکہ میں اللہ کی محبت میں اسقدر ڈوبا ہوا تھا کہ جوانی میں ہی میرا دل اللہ تعالی کی یاد میں ڈوبا رہا کبھی ذہن شادی کی طرف گیا ہی نہیں  لیکن کیوں شادی تو ضروری ہے نا  اور اپ تو اللہ والے اپ کو تو پتہ ہی ہوگا کہ یہ سنت نبوی بھی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے اپ نے فرمایا بے شک یہ میرے نبی کی سنت ہے اور شادی تو کرنی ہی چاہیے گناہ سے بچنے کے لیے انسان نکاح کرتا ہے لیکن میں اللہ کی یاد میں اتنا کھو گیا تھا کہ میں نہیں چاہتا تھا  کی شادی کر کے میں کسی ایسی ذمہ داری میں لگوں جس کی وجہ سے میری عبادت میں کوئی بھی خلل ائے یعنی میں جو رات میں قیام کرتا ہوں وہ عبادت کرتا ہوں اور روزہ رکھتا ہوں اس کی وجہ سے شادی کی وجہ سے اس میں کوئی کمی ائے اس کو اللہ والے کی بات سمجھ نہیں ائے اس نے کہا لیکن یہ تو ہمارے اسلام نے ہے ہی کہ ہم شادی کرتے ہیں اور ہماری نسل چلتی ہے اور پھر اس کے  ساتھ ہی ہم دوسرے کام بھی کرتے ہیں یعنی عبادت اور دنیاوی جو کام جو اللہ کی طرف سے ہمیں ملے ہیں وہ ہمیں کرنے ہی ہیں اللہ والے نے کہا بیٹا تم نے بالکل ٹھیک کہا لیکن ایسا کبھی ہوا ہی نہیں اس کو اپ کی بات سمجھ نہیں ائی  کہ اللہ کے اتنے بڑے نیک بندے ہو کر بھی ان کو یہ بات کیوں  معمولی سی لگی  اس نے دوسرا سوال کیا بابا جب اپ کو میں نے پہلی بار پوچھا تھا کہ اپ اس گاؤں میں کیوں ائے تھے تو اپ نے کوئی جواب نہ دیا تھا.... اپ مجھے بتا سکتے ہیں مجھے اپ اپنے باپ کی طرح لگتے ہیں میں اپ کو بیٹے کی طرح ہوں تو اپ مجھے اگر بتائیں گے تو مجھے اچھا  اب تک کی بات نہیں کہی تھی لیکن اب انہوں نے کہا چلو ٹھیک ہے اب صحیح وقت ہے کہ میں تمہیں بتا دیتا ہوں وہ کہنے لگے کہ پرانے گاؤں میں لوگ اس بات کا مذاق اڑاتے تھے کہ میں بچے نہیں پیدا کر سکتا اس لیے شادی نہیں کرتا جبکہ بات تو کچھ اور تھی میرا یقین ہے میں میں جب بھی شادی کروں گا اللہ مجھے اولاد دے گا پر لوگوں نے جینا عذاب کردیا تھا تو  مجبور ہو کر مجھے اس گاؤں سے نکلنا پڑا .. اس لیے میں سفر  کررہا تھا کہ کوئی ایسا گاؤں ائے گا جہاں پر مجھے اچھا لگے گا تو میں اس گاؤں کے اندر داخل ہو جاؤں گا تو میں اس گھر میں اؤ میں ایا تو مجھے درخت دکھا اور میں اس کے نیچے بیٹھ گیا  یہاں کے لوگ بھی بہت طعنے دینے والے ہیں لگتا ہے بہت  جلد مجھے یہ گاٶں بھی چھوڑنا پڑے گا لیکن ابھی وہ وقت نہیں ایا اور ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے   اللہ والے کی باتیں سن کر  اس کے دل میں بہت دکھ ایا اس نے سوچا کہ یہ تو اللہ کے نیک بندے ہیں لوگوں نے ان کو کتنا تنگ کیا ہے یہاں تک کہ ہمارے گھر والے بھی یہاں سے نکالنے پر تلے ہوئے ہیں لیکن میرے کو ایسا نہیں ہوگا اس نے کہا اپ کو بھوک لگی ہوگی بابا میں اپ کے لیے روٹی لے کر اتا ہوں اور وہ وہاں سے چلا گیا وہ اپنے گھر ایا اور اپنی بیوی سے اللہ والے کے لیے دو روٹی بنانے کو کہا اس کی بیوی وہی  بدتمیز عورت تھی جو سخت کڑوی زبان والی  تھی اس نے کہا اتنے دنوں سے کس کے لیے روٹی پکوا کر کر لے جارہے ہو اس نے کہا وہ جو پیڑ کے نیچے بزرگ ہیں ان کے لیے اچھا تو تم اتنے دنوں سے اسی بوڑھے کو روٹی دیتے ہو کہنے لگی اس بڈھے کو میں کچھ نہیں دینے والی اس نیک  ادمی نے پوچھا اخر کیوں کہنے لگی وہ بڑھیا اور وہ بڈھا ان دونوں کو میں نے ایک ساتھ دیکھا تھا وہ اس بانجھ طلاق یافتہ بدکرار عورت کے گھر سے نکل رہا تھا.... وہ شخص چلانے لگا کیا کہہ رہی ہو ہوش میں تو ہو  خبردار اللہ کا خوف رکھو  کیا وہ اللہ والے ہیں تم ان کے خلاف ایسی گندی بات کیسے کر سکتی ہو  کسی کو بے اولاد کہنا واج کرنا کتنا برا ہے تم کسی پر اس طرح کیسے کہہ سکتی ہو جب یہ سب اللہ کا معاملہ ہے اللہ کے ہاتھ میں ہے انسان کے بس میں کچھ نہیں کسی کو لعنت ملا مت کیا کرو کتنی بار کہا ہے  اور کیا اپنا وقت بھول چکی ہو  ہماری شادی کے دس سال بعد  ہماری بھی کوئی اولاد نہیں تھی پھر ایک اللہ والے کی بدولت ہمارے اولاد ہوئی  یہ الا والے کی ہی دعا تھی  جنہوں نے ہمارے لیے دعا کی تو اللہ پاک نے ہمیں  تم بھی آج شاید بانجھ  کہلاتی وہ  چیخ کر کہنے لگی    ہاں میں تو بانجھ نہیں کم از کم میں ماں تو بنی وہ بوڑھی اتنی اچھی ہوتی اس طرح بے آسرا نہ ہوتی اور ہاں میں اس عورت ہی کو نہیں کہہ رہی ہوں بلکہ اس انسان کو بھی کہہ رہی جس کو تم  بڑا مانتے ہو وہ خود بھی ایسا ہی ہے  

کیا کہنا چاہتی ہو میں نے سب سن لیا ہے  بڈھا تو خود بھی بانجھ ہے جب وہ تم کو سب بتا رہا تھا اب میں پورے گاؤں میں بتاؤں گی وہ جو اللہ اللہ کرنے والا انسان ہے اس کو غصہ آگیا اس نے ڈانٹ کر اس کو چپ کروادیا کہ تم اگر نہ  رکی اور اگر تم نے ان کے خلاف کوئی سی بات کہی تو تم نہیں جانتے کہ یہ اللہ والے اللہ کے دوست ہوتے ہیں اور اللہ تعالی نہ بھیجتے اور تمہاری وجہ سے کہیں ہم پر عذاب نہ ا جائے یقین کرو ایسا کرنے کی تمبول نہیں کرنا پر وہ عورت وقتی طور پر خاموش تو ہو گئی تھی  اور اس کے دل میں ہے اللہ والے اور اس ضعیفہ کے لیے بہت سی باتیں چل رہی تھیں... اس نے اس گاؤں کی عورتوں کو یہ باتیں بولنا شروع کر دی کہ یہ ادمی اور یہ عورت اچھے نہیں ہے تم دیکھ نا ان کا کوئی نہ کوئی ناجائز رشتہ ہے اللہ تعالی کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ کوئی کسی نیک انسان پر الزام لگائے یہاں پر اللہ والے اپنی عبادت میں لگے ہوئے تھے کہ ان کو ہلکی نیند آئ وہ سوگئے جہاں ان کے خواب میں ان کے ایک استاد آئے جنھوں نے کہا کہ اے میرے شاگرد نکاح کرو اس بانجھ کہلانے والی ضعیفة سے نکاح کرو پھر یہ بول کر وہ چے گئے  وہ صبح اٹھے  تو اس اشارے کو ایک وسوسہ جان کر اللہ کے ذکر میں لگے رہے کہ ناجانے میرے استاد مجھے ایسا کرنے کو کیوں کہہ رہے ہیں اب بھلا بڑھاپے میں نکاح کرتا اچھا لگونگا جب کہ ساری جوانی میں نے یاد الہی میں گزاردی بات سمجھ نہ آئ تھی لیکن جب دوسرے بھی وہی بات دہرائ گئ صبح ذہن کو جھٹکا اور فجر کی نماز پڑھنے لگے لیکن  تیسرے دن جب  خواب ایا تو انھوں نے اسی خواب میں  سوال کیا کیا مجھے ایسا کرنے کے لیے کیوں کر رہے ہیں جبکہ پوری جوانی میں نے تو اپ نے مجھے یہ حکم نہیں دیا تو انہوں نے کہا جان لو یہ حقیقت کہ  کسی نیک روح کو سکون پہنچانے کے لیے کیا جا رہا ہے 

میرے بیٹے ساری عمر تم نے نکاح نہیں کیا اور ہم نے کچھ نہیں کہا کیونکہ تمہارا عشق الہی اتنا زیادہ تھا لیکن اب جب کہ تم پر یہ بے پناہ الزامات لگ رہے ہیں  اور اب سوال اپ کی عزت نہ نہیں ہے  بلکہ اس خاتون کے صبر کا اب اس کوپھل ملنا چاہئیے جو بہت پاکیزہ اور باحیا ہے جس نے کوئی بھی گناہ نہیں کیا بلکہ ایک نا کردہ گناہ کی سزا پائی ہے اس کا شوہر اس پر ظلم کرتا تھا پھر بھی اس نے صبر کیا کبھی کچھ نہ کہا وہ اللہ کی نیک بندی ہے جو اللہ سے روز دعا کرتی ہے کہ اس کو اولاد دی جائے تمام گاؤں والے اس کے لیے بہت عجیب باتیں پھیلا رکھی ہیں سب اس کو چھوت سمجھتے ہیں اس لیے اب اس عورت کی عزت کے لیے تم کو نکاح کرنا ہے  تم نے نکاح کرنا ہے اب وقت ہے کہ تم نکاح کرو  انہوں نے کہا حضرت اس عمر میں نکاح کروں گا تو کیا ہوگا کیا کہینگے سب لوگو کو کہنے دو  یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے

تو وہ سمجھ گئے کہ اللہ کی طرف سے ان کو ایسا کرنے کے لیے کہا گیا ہے  تبھی اس کے استاد ان کو ایسا کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں اب استاد کا حکم سمجھ میں اگیا  فجر کی نماز ادا کی اللہ سے دعا کی  اور وہ بڑھیا کے گھر پر پہنچ گئے دروازہ  پر دستک دی گڑیا نے اواز دی کون کہا کہ درخت کے نیچے بیٹھنے والا وہی انسان جس کو تم نے اس دن مدد کے لیے پکارا تھا اس نے دروازہ کھول دیا  کہ میں اندر ا سکتا ہوں میں نے کی جی جی ائیے بڑھیا ان کو دیکھنے لگی اللہ والے وہیں بیٹھ گئے اور فرمایا بی بی میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں اللہ کی طرف سے مجھے تین رات خواب ایا  یہ بات کہتے ہوئے میں ہچکچا رہا ہوں لیکن چونکہ یہ حکم  مجھے ملا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ تم بھی  میری اس بات کو مان لو اس نے کہا کہ یہ اب کیا کہنا چاہتے ہیں میں اپ کی ہر بات ماننے کو تیار ہوں کیونکہ آپ کی آنکھوں میں میں نے عورت کےلیے  دیکھی ہے اور پہلا مرد جگہ ہے جو عورت کو دیکھ کر نظریں جھکا  لیتا ہے  آپ نے میرے  ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے   اللہ تعالی نے نیچی نگاھوں کے ساتھ کہا کہ  مجھے تم سے نکاح کرنا ہے  تم راضی ہو تمہارا کیا خیال ہے بڑھیا اچانک نکاح کی بات سن کر خاموش ہو گئی پھر کہنے لگی اللہ کا حکم ہے تو میں راضی ہوں اللہ والے ان سے نکاح کر لیا اب اپ اس گھر میں ایک ساتھ رہنے لگے ان کے شوہر ان کے محرم بن کر اب درخت کے نیچے نہیں اسی گھر میں رہتے تھے گاٶں والوں کے ہاتھ ایک اور خبر لگی وہ بدتمیز  لوگ عجیب باتیں کرنے لگے زیادہ الزام تو بڑھیا پر تھا کہ کیونکہ ایک عورت ہی ہر بار قصوروار ٹہرائ جاتی ہے خاص کر وہ جس کے شوہر نے اس کو چھوڑدیا ہو زیادہ بدکرداری کا نشانہ بنتی ہے پر یہاں اللہ والے کی صورت میں اس عمر میں خوشیاں مل رہی تھیں جو اس ضعیفہ کو کبھی نہ ملی سب سے بڑی بات ایک عبادت گزار شوہر ملنا عورت کی خوش نصیبی ہوتی ہے  لیکن وہاں کی عورتیں اب دوسرا وار کرنے کے لیے  ایک دن اس بوڑھی عورت کے گھر آئیں اور طنزیہ ہنسی ہنس کر کہا  اے بڑھیا اس بڑھاپے میں شادی کی کیا سوجھی جب کہ جانتی ہو کہ پہلے شوہر نے اسی لیے تم کو دھکے مار کر نکالا  تم ایک ماں بانجھ عورت ہو  شرم نہیں آتی  اب اولاد پیدا کرو گی  اور عورتوں کی غلیظ باتیں سن کر اللہ والے جو اندر بیٹھے ہوئے تھے ان کو مجبورا باہر آنا پڑا  کہنے لگے اگر اللہ کا حکم ہوا تو وہ بھی ہو جائے گا جو تم سوچ بھی نہیں سکتیں اور یہ کیا بانجھ بانجھ لگایا ہوا ہے اولاد کا ہونا کسی کے ہاتھ میں نہیں اور جن کے ہاں اولاد ہے وہ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ سب جو تمھارا ہے وہ س اللہ کا ہے یہ جان یہ مال یہ اولاد اس لیے  اس میں غرور مت کرو ورنہ سب چھن جائے گا اور ایک عورت کو اب تنگ نہ کرنا میں اس کا شوہر ہوں  تو اپنی پرواہ کرو ہماری نہیں ان عورتوں میں اس شخص کی بدتمیز بیوی بھی موجود تھی وہی بولی اچھا تو ٹھیک ہے ہم بھی دیکھنا چاہتے ہیں جن کے پیر قبر میں لٹکے ہوئے ہیں وہ کتنی اولادیں پیدا کرتے ہیں دوسری ہنستے ہوئے بولی 101  ...اور تمام عورتیں ہنسنے لگی اللہ والے جلال کی کیفیت میں ا   چکے تھے اور کہنے لگے  میری کوئی حیثیت نہیں لیکن اگر تم بات اللہ کی مرضی سے کر رہی ہو تو سن لو 

اللہ چاہےگا تو مجھ بوڑھے اور میری ضعیفہ بیوی  کو اللہ 101 اولاد سے نوازے گا یہ میرا یقین ہے اللہ پر جو رب چھ دن میں دن میں زمین و آسمان بنا سکتا ہے اس کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں تم نے رب کی سچائ ابھی جانی کہا ہے  اور  میرا یقین کبھی نہیں ٹوٹے گا 

السلام علیکم چڑھال کو دیکھ کر وہ عورتیں کام پہ ان کے کوئی الفاظ نہیں نکلے وہ خاموشی سے وہاں سے نکل  گئی اب دھیرے دھیرے  وقت گزرتا رہا گاؤں والوں نے جیسا ان کو اپنی بیہودہ باتوں کا نشانہ بنایا ہوا تھا پر یہ ایک پاک رشتہ تھا شیطان نکاح سے چڑتا ہے پر اللہ نکاح کو پسند کرتا ہے اب وہ گھر کے سارے کام کرتے اور اپنی زوجہ کو ملکہ بنا کر رکھا ہوا تھا وہ گھر سے بھی باہر نہیں جاتی تھیں ایسا شوہر اللہ نے اس عمر میں دیا کہ وہ ہر دم اللہ کا شکر ادا کرتی اب ایک کرشمہ ہوا قدرت کا ایسا کارنامہ جو کوئ سوچ بھی نہیں سکتا تھا سارا گاٶں سورہا تھا صبح کے اجالے کے پھیلتے ہی  اچانک ایک دن گاؤں والے کے کان میں بچے کی اواز سنائی تھی سب لوگ ہ جانا چاہتے تھے کہ یہ بچہ کس کے گھر ہوا ہے تو پتہ لگا کہ ان کی اللہ والے کی گھر میں ہوا ہے وہ عورت بھی بھاگ دی ہوئی ائے اور اپنی انکھوں سے دیکھنے لگی وہ حیرانی کے صدمے میں ٹوپی ہوئی تھی کہ اتنی ضعیف  بوڑھیا کی اولاد کیسے ہو گئی یہ ایک اولاد نہ تھی اب تو گاٶں والے انگیاں دانتوں تلے ڈالے حیرت سے گرےجارہے تھے کہ ہر دن ایک نئے بچے کی آواز آتی   اسی طرح ایک کے بعد بچے ہوتے گئے اور اللہ والے کی  101 اولادیں ہو گئی سبحان اللہ 101 اولادیں وہ بھی ایک بانجھ عورت کے بطن سے....جن جن لوگوں نے اللہ کے دوست کو تنگ کیا سب برباد ہوئے اور گاٶں چھوڑ کر چلے گئ  اور اس گاؤں میں سے اللہ والے اور انکی اولادیں رہنے لگیں

Comments