2 Sone ke Ande Dene wali Moti murgi aur lalchi Aurat Ek Allah wale ka waqia

 ایک اللہ والے جو کہ بہت عزت دار  جانے جاتے تھے....ان سے  دنیاوی دینوی باتیں سننے کے لیے لوگ دور دور سے آیا کرتے تھے ... اور ان اللہ والے کے بےحد چاہنے والے ہر جگہ  موجود تھے  یہ اللہ والے  اپنی کسی دولت اور جائیداد کی وجہ سے لوگوں کو اچھے نہیں لگتے  ہیں بلکہ یہ اپنے پیارے سلوک اخلاق  اور اچھے عمل کی وجہ سے لوگوں میں محبت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں آپ جس گاٶں میں رہتے تھے اس کے پاس ہی 

ایک چھوٹا سا شہر تھا شہر تو سب ہی ایسے ہوتے ہیں کہ  جہاں ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں پر اس شہر میں ایک عجیب بات تھی  اگر کوئ  میر تو بہت زیادہ امیر تھا اور اگر غریب تھا تو حد سے زیادہ غریب تھا..اس شہر کے لوگ بہت بے حس تھے کیونکہ جو امیر تھے ان کو فائدہ ملتا تھا جو غریب تھے وہ بیچارے اپنے دکھوں کو ہی جھیل رہے تھے...انسانیت نام کی چیز تھی ہی نہیں جو بھی تھا اپنا بوجھ خوداٹھاتا تھا  غریب لوگ بہت تنگ تھے کیونکہ اس جگہ کے لوگوں میں بہت پرانی رسم چل رہی تھی کہ جب تک کسی شخص کے پاس بہت سے جانور نہ ہوتے یا بہت سا مال و پیسہ  نہ ہوتا تو   اس وقت تک  اس کی لڑکی کیلئے کوئی شادی کا پیغام نہیں بھیجتا تھا۔جو غریب خاندان تھا ان کی لڑکیوں کی شادی ہی نہیں کی جاتی...ان کے والدین اپنی بیٹیوں کے نصیب کو روتے رہتے... امیر لوگ ان کو گھاس نہ ڈالتے .ان امیر اور بڑے لوگوں میں ایک عزت دار شخص تھا جو کہ پہلے بہت مالدار تھا وہ اتنا بڑا کاروباری شخص تھا کہ  سب اس کے پاس ا کر اس سے  قرضے لیا کرتے تھے لیکن اس کی بیوی ج بہت لالچی اور بےحد مغرور بھی تھی اور اگر کوئی مشکل وقت میں ان سے مدد مانگنے اتا تو وہ ان کو گھر سے بھگا دیا کرتی تھی اس کی ایک بیٹی بھی تھی جو اسے منع کرتی تھی کہ اپ ایسا نہ کیا کریں گناہ ملتا ہے اور اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے اس عمل سے 

لیکن وہ عورت نہیں مانتی تھی... اس کی زبان اتنی خراب تھی کہ کوئ اس کے پاس آنے سے بچتا تھا..ایک بار ایک غریب عورت جس کی بیٹی کی شادی نہیں ہوئی تھی وہ اس کے پاس ائی اور کہا کہ میری بیٹی کی شادی نہ ہوئ  اور کوئی بھی اس سے بیاہ کرنے والا نہیں ہے کیونکہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں اگر اپ کچھ پیسے سے  مدد کر دیں تو میں اپنی بیٹی کی شادی کر دوں گی وہ عورت اتنا ناراض ہوئی کہ اس نے اسے دھکا مار کر نکال دیا اس کی اپنی بیٹی جو کہ بہت چھوٹی تھی اور شادی کی عمر نہیں تھی اس نے کہا اگر یہ وقت ہم پر بھی ائے تو کیا کریں گی تو اس نے کہا ہمارے پاس اتنا پیسہ ہے اور کسی سے مانگنے کی نوبت نہیں ائے گی اللہ تعالی کو یہی بات بری لگی اس کے شوہر کے کاروبار میں بہت بڑا نقصان ہوا اور وہ لوگ فاقوں پر  ا گئے اور چونکہ برے وقت میں کسی کے ساتھ نہیں دیا تھا تو اب ان کا  بھی ساتھ دینے والا کوئی نہیں تھا رشتہ داروں   نے یاروں دوستوں نے منہ موڑ لیا اور کوئی طعنے مارتا کہ دیکھا وقت پلٹ کر آتاہے کل تک تمہارے پاس زیادہ پیسہ  تھا تم اس کی مدد نہیں کرتے تھے اور اج تم اس لائق نہیں ہو کہ تمھاری کوئ مدد کرسکے کونکہ اب تم بھکاری ہوگئے ہو اور ہمارے خاندان سے اب کو رشتہ نہ رکھنا  کے صدمے کو اس کا شوہر برداشت نہیں کر سکا اور ایک دن دنیا سے چلا گیا وہ عورت بیوہ ہو گئی تھی اس عورت کی وہ نیک لڑکی اب جوان ہوچکی تھی اور اب وہی ان کے ساتھ ہوا اتنے پیسے نہیں تھے کہ اس کی شادی کر سکتے تھے اور ان کی غریبی دیکھ کر اس لڑکی کا رشتہ نہیں آتا تھا۔لیکن وہ عورت اب بھی سدھری نہیں تھی اور بڑے بڑے بول بولتی تھی اور اگر دروازے پر کوئی ا جاتا تو کہتی ہمارے پاس تو خود کھانے کے پیسے نہیں ہیں اور تم ہم سے مانگنے ائے ہو یعنی  غریبی نے اس کے دماغ کو درست نہیں اس عورت کی بیٹی جو کہ نماز پڑھتی تھی اور بہت عبادت کیا کرتی تھی اس کو اپنی کوئی فکر  نہیں تھی لیکن ماں کو دیکھتی تھی کہ ماں اس کے غم میں گھلے جا رہی ہے کہ میری بیٹی کی شادی کب ہوگی ہم تو کنگال ہیں بیوہ ماں کے پاس پیسے  بھی نہیں ہیں نہ کوئی جانور  ہے اور نہ کوئی اتنی بڑی جائیداد ہے میں  کس طرح اس بچی کی شادی کرونگی  اور رو رو کر اپنے اپ کو ہی سنا رہی تھی لیکن وہ بیٹی تو بہت ہی نیک تھی نا 

  ایک دن ماں کا رونا اس سے نہ دیکھا گیا تو اس نے دعا کی اے اللہ رب ذوالجلال  ہماری مدد کے لیے کسی ایسے بندے کو بھیج دے کہ جن سے مانگ کر ہمیں شرمندہ نہ ہونا پڑے میری ماں زبان کی بری ہے لیکن مجھ سے محبت کرتی ہے تو اپنے کسی محبوب بندے کے ذریعے ہماری مشکلات دور کردے اب  لڑکی اپنی ماں جیسی نہیں تھی اس کا دل ہر طرح کی برائی سے بھاگ تھا اس کے دل میں کسی کے لیے کوئی غلط خیال نہیں اتا وہ اللہ سے محبت کرنے والی تھی اس لیے  اس کی دعا میں اثر تھا اور  اس کی دعا قبول ہوتی تھی پر  اج تک اپنے لیے اس نے  دعا نہیں مانگی تھی اج دعا مانگی بھی تو اپنی ماں کے لیے تاکہ اس کو سکون اور قرار ہو جائے 

بی رات میں وہ سونے لگتی اپنی بیوہ ماں کے دکھ کو دیکھتی جو دکھ اس کی وجہ سے تھا کہ اس کی شادی ہو جائے کسی اچھے شوہر کی بیوی بن جائے اپنے گھر کی ہو جائے ماں تو اس کے لیے تڑپ ہی رہی تھی  ماں کو دیکھ کر وہ اسی وقت ہاتھ اٹھا دیتی اور دعا کرتی رہتی دعا کرتی رہتی 

ایک بار ایسا ہوا صبح فجر کی نماز کے بعد کسی نے  دروازہ کھٹکھٹایا اس کی ماں چلانے لگی ارے کون ہے جو اس وقت اگیا ہمارے پاس کچھ نہیں ہے لیکن اس کی بیٹی نے اسے روکا اور کہا اماں ایسے نہ کہا کرو اللہ ناراض ہوتا ہے وہ باہر ائی  تو فقیر کے بھیس میں ایک اللہ والے کو دیکھا انہوں نے کہا مجھے پانی چاہیے کیا تم مجھے پانی پلا سکتی ہو صرف ایک گلاس پانی چاہیے بس لڑکی نے کہا ہاں ہاں بابا میں کیوں نہیں پلاؤں گی اپ بیٹھ جائیے اس لڑکی نے مٹکے سے پانی نکال کر اللہ والے کو دے دیا اور وہ پانی پی کر دعا دے کر چلے گئے

جب وہ لڑکی رو رو کر گڑگڑا کر دعا مانگا کرتی تھی تو اللہ والے کے خواب میں وہ لڑکی ائی اور جیسے وہ کہہ رہی تھی میری مدد کے لیے اللہ کسی کو بھیج دے کوئی ہے مسیحہ جو یہاں پر ا جائے اور میری مشکل کو اسان کر دے یہ میں اپنے لیے نہیں اپنی ماں کے لیے مانگ رہی ہوں اگر کوئی کسی کے لیے مانگتا ہے تو اللہ تعالی اس کے صدقے میں اسے دے ہی دیتا ہے  ابھی روز کا معمول بن گیا وہ اللہ والے اس کے دروازے پر اتے اور لڑکی پہلے سے پانی کا گلاس لے کر کھڑی ہوتی وہ اچھی لڑکی بڑی عزت ادب  سے اللہ والے  کو پانی پلاتی اور  اللہ والے اسے دعائیں دے کر چلے جاتے  اللہ والے چاہتے تو اس سے بات کر سکتے تھے لیکن اپ صرف خاموشی سے اتے پانی مانگتے اور حیران وہ اس بات پر ہوتی کہ انہوں نے ایک گلاس پانی کے سوا  کچھ نہیں مانگا تھا لیکن وہ  لڑکی  کچھ نہیں کہتی تھی نہ جانے ان کے نورانی چہرے پر اسے کیا نظر اتا کہ وہ بس انہیں دیکھتی رہ جاتی اور کہتی اپ پر اللہ تعالی کا بہت بڑا کرم ہے اللہ والے  کہتے بیٹا  تم ایک بہت ہی پیاری سی لڑکی ہو اللہ تعالی نے تمہیں بھی بہت کچھ عطا کیا ہوا ہے  

اب  وقت اگیا تھا کہ اللہ والے اس سے وہ بات کہہ دیتے کہ جس کام کے لیے اپ وہاں ائے تھے ایک دن اس نے اپ کو پانی کا گلاس دیا تو اپ نے پانی پی لیا پھر اپ نے اس کو دعائیں دی چلنے سے پہلے اپ کہنے لگے   میں تم سے کہنا چاہتا  ہوں  اب تک ا دنوں میں اللہ والے کی اواز سننا نہیں سنی تھی سوائے اتنا کہ پانی دے دو لیکن اج وہ کچھ بول رہے تھے اس نے توجہ سے بہت ادب کے ساتھ اپ کی بات کو سنا آپ نے کہا  جب کوئی مشکل  تو مجھ سے ضرور یاد کرنا  آپ یہ کہہ کر  وہاں سے جانے لگے  پھر اپ پلٹ کر ایا اپ نے کہا تم تو مجھے یاد کرو گی ہی میں جانتا ہوں لیکن  جب بھی کوئی مصیبت ائے یا پریشانی ائے  تم نہیں یہ بات تم نہیں  اپنی ماں سے کہنا  وہ مجھ سے ملنے کی خواہش کرے  یہ کہہ کر اللہ والے تو وہاں سے چلے گئے وہ ڈرنے لگی کہ  میری ماں تو بہت بد زبان ہے منہ پھٹ ہے نہ جانے اس  اللہ والے کی بے عزتی نہ کر دے اور اللہ تعالی خفا نہ ہوجائے مگر کیونکہ اللہ والے  نے خاص طور سے کہا تھا کہ تم اپنی ماں سے ہی کہو گی تمہیں نہیں کہنا ہے اسے کہنا ہے ... ایک دن اس کی ماں بہت بیمار پڑ گئی اس نے اپنی بیٹی سے کہا کہ دیکھو تمہارا باپ بھی اس دنیا میں نہیں ہے اور  میرے سوا تمہارا کوئی بھی یہاں نہیں ہے اگر مجھے بھی کچھ ہو جائے تو تمہارا کیا بنے گا میں چاہتی ہوں تمہارا ہاتھ  محفوظ ہاتھوں میں سونپ دوں  اس نے کہا اپ کو کچھ نہیں ہوگا اللہ اپ کو سلامت رکھے لیکن وہ جیسی بھی تھی ماں تھی  اس لڑکی  کی شادی کے لیے وہ ماں  بہت زیادہ پریشان رہنے لگی تو ایک دن اس لڑکی نے اپنی ماں  کو بہت  فکر میں ڈوبے ہوئے دیکھا تو ڈرتے ہوئے اس کے پاس ائی اور کہا  ماں اپ جانتی ہیں نا کہ اللہ والے ہمارے دروازے پر اتے ہیں صرف پانی پی کر جاتے ہیں  پانی پینے کے بعد انہوں نے مجھے بہت سی دعائیں دی ہیں  جب وہ عام فقیروں جیسے نہیں لگتے ہیں اور لگتا ہے کہ ان کی دعا ضرور قبول ہوگی کیا اپ ان سے میری شادی کے لیے بات نہیں کر سکتی ہیں ... کہ وہ میرے لیے دعا کر دیں تاکہ اپ کی بھی مشکل اسان ہو جائے اس کی ماں کہنے لگی ارے فقیروں کے پاس کیوں جاؤں میں نہیں مانگتی کسی فقیر سے وہ کہنے لگی اپ کی اسی بات کی وجہ سے اللہ تعالی سخت ناراض ہوتا ہے 

میں اپ سے کہا نا کہ وہ کوئی بہت ہی بڑے  بزرگ رکھتے ہیں  وہ کوئی عام انسانوں جیسے نہیں ہے اس لیے کہہ رہی ہوں کہ اپ ان سے کہیں گی اور اپ کو ایسا کرنا پڑے گا مجھے  امید ہے کہ ان کی دعا اللہ تعالی نہیں ٹالے گا اس نے یہ نہیں بتایا تھا کہ اللہ والے نے خود یہ بات کہی ہے ورنہ ماں اور بھڑک جاتی  اس کے اتنا بولنے پر  ماں نے کہا اگر یہ بات غلط ہوئی نا تو دیکھنا میں کیا کرتی ہوں وہ بچی دعا کرنے لگی یا اللہ ان کی زبان قابو میں رہے  اتفاق سے دوسرے دن وہ  اللہ والے آگئے لڑکی کی ماں نے درویش سے سختی سے بات کی کہ تو روز یہاں پر پانی پینے چلا اتا ہے ایک گلاس پانی کے لیے اتنی دور کا سفر کرتا ہے میری جو بیٹی روز تجھے پانی پلاتی ہے اور تیرے لیے کھڑی رہتی ہے اس کو تجھ سے کوئی فائدہ نہیں ہوا اور  تیری فقیری ہمارے کسی کام نہیں آتی۔ تو آتا ہے اور پانی پی کر چلا جاتا ہے، تیری نگاہ کی برکت سے ہمیں کوئی خوشحالی نہیں ملی کوئ بگڑے کام نہ بے  ہمارے حالات ویسے ہی ہیں جیسے تیرے آنے سے پہلے تھے۔"ہم غریب کے غریب ہیں 

اللہ والے  اس عورت کی بات سن کر مسکرائے۔  اب تو یہی چاہتے تھے کہ وہ بیوہ عورت  اپنے بارے میں آپ کو بتائے   اپ نے فرمایا آخر تم کیا چاہتی ہو؟" میں اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہتی ہوں تم ایسا کچھ کر دو کہ ہمارے حالات  سدھر جائے اور میری بیٹی کی شادی ہو جائے ۔۔ہمارے پاس تو کوئی جانور بھی نہیں مال مویشی بھی نہیں کہ جس کو دکھا کر ہم اس کی شادی کر سکیں اپنی حالت زار بیان کرتے ہوئے رونے لگی۔

اللہ والے نے اس کی بات سنی تو انہوں  نے اس عورت کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ عورت حیران و پریشان درویش کے ساتھ چلتی رہی ۔ پھر وہ اللہ والے ایک بنئیے کی دکان پر پہنچے اور  اس عورت کو  بولا ۔ تمہیں جس چیز کی

ضرورت ہو اس شخص سے لے لینا مگر اپنے لئے سامان کی ذخیرہ اندوزی نہ کرتا۔"یعنی سامان کو کھانے پینی چیزوں کو جمع نہیں کرنا جس دن جو سنبھال لو گی اسی دن اس کو ختم کر دینا اور بانٹ دینا غریبوں میں اس کھانے پینے کو  اپنے پاس جمع نہیں کرنا۔۔۔اس کے بعد درویش نے کہا میرے ساتھ چلو وہ سے لے کر ایک مکان  میں ائے اور کچھ الگ الفاظ میں آواز دی  باہر ایک ادمی ایا اس کے ہاتھ میں ایک بڑی سی موٹی تازی مرغی تھی اس ادمی نے وہ عورت کو دے دی اپ نے کہا اس مرغی کو تم اپنے پاس رکھو اور اس کے بارے میں کسی کو نہیں بتانا یہ ہر روز دو انڈے دے گی جو سونے کے ہوں گے اور ان سے تم اپنی بیٹی کی شادی کردینا لیکن یاد رکھنا ان کو تم جمع نہیں کرنا ایک انڈا تمہاری بیٹی کے لیے ہوگا اور ایک  انڈا بچے گا اس کو بیچ کر  باہر لوگوں میں خیرات کرنا وہ عورت بہت خوش ہوئی لالچی تو تھی ہی اس نے کہا ہاں ہاں جو جو اپ کہہ رہے ہیں میں سن رہی ہوں۔۔وہ مرغی کو لے کر اپنے گھر اگئی اور بہت خوشی خوشی سب کو سب بتانے لگی کہ دیکھو ہمیں اللہ تعالی نے کتنا نواز دیا ہے اور  فقیر اللہ والے کی بات ہی نہیں کی اس کی بیٹی نے کہا کہاں ہے فقیر بابا  اس نے کہا مجھے نہیں پتہ میں نے تو اپنی محنت سے اور نیت سے اس مرغی کو پایا ہے  اور پھر اس دن کے بعد سے وہ اللہ والے  پانی پینے اس مکان پر نہیں آئے۔اللہ والے کی بات پر عمل کرتے ہوئے عورت چپکے سے  روزانہ پیسے کی دکان پر جاتی اور اپنی ضرورت کا کھانے پینے کا سامان  لے کر واپس آجاتی۔ اس کی مرغی روز دو انڈے دیا کرتی تھی ایک انڈا وہ اپنی بیٹی کے رکھ لیتی اور شروع شروع میں اس نے ایک انڈے کو بیچ کر لوگوں کی مدد بھی کی جس سے لوگ اس کی تعریف کرتے اب  کچھ دن بعدان کی حالت اتنی اچھی ہو گئے کہ علاقے میں ان کی دھوم مچ گئی کہ یہ لوگ اچانک سے امیر ہو گئے ہیں ان کے پاس پیسہ لوٹ ایا ہے اب اس لڑکی کے لیے رشتے انے لگے ان میں سے ایک  رشتہ آیا خاندان بہت اچھا تھا تو ماں باپ نے جھٹ سے ہاں کر دی اور شادی کی تاریخ طے ہوگئی۔ اب اس نے سوچا کہ گھر میں مہمان ائیں گے تو میں دکان دار سے سامان لے اتی ہوں اس لیے وہ بنیے  کے پاس گئی اور شادی کے لیے دال چاول اور پیسے لے لیے ۔ دکان دار نے بغیر کسی سوال جواب کے عورت کو مطلوبہ چیزیں دے دیں مرغی نے جو انڈے دیے تھے  ان کو بیچ کر اس نے اپنی بیٹی کے لیے بہت سا زیور بنایا  پھر شادی کا دن آیا اور عورت نے اتنی دھوم دھام سے اپنی بیٹی کی شادی کی کہ محلے والے دیکھتے رہ گئے۔وہ نہیں بیٹی جا چکی تھی۔یہاں تک اس کی نیت ٹھیک تھی تو اس لیے سارا معاملہ اچھی طرح ہو گیا اور کوئی مشکل نہیں ائی کوئی کمی نہیں ائی بلکہ الٹا اس نے دل کھول کر روپیہ پیسہ خرچ کیا لیکن اب اس کی نیت بدلنے لگی تھی اس کے دل میں پھر سے لالچ انے لگی تھی اب وہ مرغی کے انڈے کو جو دوسرا انڈا خیرات کرنے والا ہوتا تھا اس کو اپنے پاس رکھ لیتی اور دوسرا کام اس نے یہ کیا کہ وہ بنیے کی دکان پر گئی اور ذخیرہ کرنے کیلئے بہت سا اناج لے آئی۔بہت خوش ہو رہی تھی اور یہ بات اپنی بیٹی کو  نہیں بتائی تھی اس کے دل میں اس قدر شیطانیت اور ہوس اور بھوک تھی  کہ اس نے  وہ پیسہ اور کھانا پینے کا سامان لوگوں کو دینا بند کر دیا تھا سونے کے  انڈے بھی جمع کرنے لگی تھی کہ میں یہ سب اپنے پاس رکھوں گی ان کو میں جمع کر کے رکھوں گی وقت ائے گا تو ان کو خرچ کروں گی یہاں تک کہ اپنے اپ کو بہت بڑا انسان سمجھنے لگی اس کے دل میں فخر اور غرور تو پہلے بھی تھا لیکن اب وہ اترانے لگی کہ میرے پاس اتنا سارا مال جمع ہے اس کے دروازے پر کوئی مدد کے لیے اتا تو پہلے کی طرح برا  رویہ رکھ کر ان کو دروازے سے دھتکار دیتی جبکہ اللہ والے نے منع کیا تھا کہ تم نے اس مال کو اور انڈوں کو جمع کر کے نہیں رکھنا ہے بلکہ راہ خدا میں خرچ کرنا ہے اپنے اوپر خرچ کرنے کے بعد ۔۔۔وہ سمجھ رہی تھی بات کسی کو نہیں پتہ چلے گی ایک دن جب بہت سارا سامان جمع ہو گیا اناج اور کپڑے بھی یہاں تک کہ پیسے بھی اور سونے کے انڈے بھی تو اس نے سجائے کہ بہت دن ہو گئے ہیں میں بنیے کے پاس نہیں گئی ہوں چلو اس جا کر میں اور سنبھال لے کر اتی ہوں  دوسرے روز کپڑے اور دوسری چیزیں  لینے کیلئے دکان پر پہنچی تو حیرت زدہ رہ گئی ۔ وہاں نہ بنیا موجود تھا اور نہ دکان ۔ بس ایک ویران جگہ پڑی ہوئی تھی۔ایسا علاقہ اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا وہ عورت  روتی پیٹتی واپس چلی آئی۔ سوچنے لگی چلو گھر میں تو سامان موجود ہے اس کو ہی استعمال کرتی ہوں پھر سوچیں گے کیا کرنا ہے لیکن یہ کیا نہ مرغی موجود تھی نہ وہ سونے کے انڈے موجود تھے نہ کھانے پینے کی چیزیں موجود تھیں اس نے سر پیٹ لیا اب وہ کس سے بھیک مانگتی کس کے پاس جاتی اور یہاں پر وہ فقیر اللہ والے بھی نہیں ارہے تھے اپنی بیٹی کے پاس گئے اور کہا بیٹی میری حالت تو بہت بری ہو گئی ہے کنگال ہو گئی ہوں اس نے اپنی بیٹی کو ساری صورتحال بتائی بیٹی نے کہا اپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ یہ ان اللہ والے کی وجہ سے ہوا ہے اپ نے ان کا دل دکھایا ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ اپ کو کھانے پینے کی چیزوں کو کپڑوں کو جمع کیا تو اسی لیے  اللہ تعالی نے آپ سے  اپ سے سب کچھ چھین لیا وہ سر پیٹنے لگی اب پچھتاوا کیا ہوت جب چڑیا چک گئی ہے وہ اللہ سے معافی مانگتی کی میں نے لالچ کی ہے فقیر اللہ والے کی بات کو نہیں مانا وہ نمازی بن چکی تھی وہ زیادہ سے زیادہ توبہ استغفار کرتی اس طرح ایک سال گزر گیا  ایک مدت کے بعد اس نے اللہ والے  کو دوبارہ دیکھا تو دیوانہ وار ان کے قدموں پر گر کر کہنے لگی۔ مجھے بس اتنا بتا دے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟پہلے تو اپ نے کچھ نہیں کہا لیکن پھر وہ منت سماجت کرنے لگی تو اپ نے فرمایا تو نے میری بات نہ مانی اور حاجت روائی کا ایک آسان ذریعہ کھو دیا۔ تیری وجہ سے کتنے غریبوں کا فائدہ ہو رہا تھا تو نے اس پیسے کو غریبوں میں نہیں دیا صدقہ خیرات نہیں کیا اور اپنی غرض سے اس پیسے کو اور سونے گھنٹے کو جمع کیا اللہ والے  نے پر جلال میں کہا اللہ کیلئے مجھے یہ راز  بتادیں بابا  کہ وہ دکان کہاں چلی گئی وہ عورت رو رو کر پوچھنے  لگی۔ اللہ والے  نے کہا گر تو اس دکان کا حال پوچھے گی تو پھر مجھے بھی نہیں پائے گی اللہ والے  نے عورت کو اس کے ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی ۔اور کہا کہ تجھے سب واپس مل جائے گا لیکن یاد رکھنا اپ غلطی نہیں کرنا ورنہ پوری طرح تباہ و برباد ہو جائے گی

تجھے میں ایک دن کا وقت دیتا ہوں تو جا سوچ اللہ سے مدد مانگ پھر میرے پاس انا بلکہ میں تیرے پاس ا جاؤں گا  وہ اپنی  بیٹی کے پاس گئی کیونکہ راستہ تو وہیں سے ملتا اس نے اپنی بیٹی سے کہا میری پیاری بیٹی وہ اللہ والے مجھے ملے اور انہوں نے مجھے کہا کہ اگر میں نے وہ دکان وہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی مانگ لی تو وہ پھر نہیں ائیں گے وہ کبھی مجھے راستہ دکھانے نہیں ائیں گی بیٹی نے کہا تو ماں تم ان سے کہو نا کہ وہ اپ کو مل جائیں اور باقی کچھ نہیں چاہیے لیکن بیٹی مجھے لگتا ہے کہ میری وجہ سے اس  نکاح کے غریبوں کی بہت مدد ہوئی ہے اور یہ سب اس اللہ والے کی وجہ سے ہے پہلے میں اس کو اپنا ہی عمل مانتی تھی لیکن ان کی وجہ سے یہاں کے کتنے غریب ہیں جن کی بیٹیوں کی شادیاں ہوئی ہیں ان کے گھر میں کھانے کے لیے روٹی نہیں ہوتی تھی لیکن اب وہ رخ ارام کی زندگی گزارتے ہیں ان کے گھر میں 10 10 20 بھی جانور ہیں تو یہ سب دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ میں اس  بیٹی مجھے اس کی بھی فکر ہے میری انکھوں میں انسو بھی ہیں کہ وہ مجھے چھوڑ کر چلے جائیں گے لیکن میں اس دل کا کیا کروں جو مدد کرنا چاہتا ہے سب کی میں نے جو کچھ کیا ہے لوگوں کے ساتھ بحرت برا کیا ہے اور اب میں اپنی اس غلطی کا کفارہ کرنا چاہتی ہوں میں نیکی کرنا چاہتی ہوں تاکہ جب اس دنیا سے جاؤں تو لوگ مجھے اب چھ نام سے یاد رکھیں

تو ٹھیک ہے مگر تمہاری سوچ اچھی ہے تو تم اللہ والے کو یاد کر لو اس نے اللہ والے کو یاد کیا اللہ والے اس سے  مل لیں اسی دن پہنچ گئے اس نے  اللہ والے سے کہا کہ میرے دل میں کوئی لالچ نہیں ہے نہ ہی میں اپنی غرض سے جا رہی ہوں اج میں اپنے مقصد سے نہیں ان لوگوں کے لیے جا رہی ہوں کہ جو اس چیز کے حقدار ہیں 

اللہ والوں سے لے کر اسے کہا گئے وہاں پر اب دکان پہلے سے موجود تھی  اناج، کپڑا ، دکان اور بنیا، سب کچھ وہی ہی تھا۔مجھے کوئی لٹکا دے گا تو وہ فقیر اللہ والے وہاں پر نہیں تھے اس کی انکھوں میں انسو اگئے کہ انہوں نے پھر سے مجھے نواز دیا اور میں اتنی لالچی مغرور عورت کہ ان سے مانگ کر کبھی ان کا شکرگزار نہیں کر سکی اور وہ گھر واپس ائی تو وہاں پر اس کی مرغی کوئی رکھ کر چلا گیا تھا نے دو سونے گھنٹے دیے تھے اس نے جھٹ سے ایک جھنڈا انڈا اپنی اواز رکھا اور ایک کو بیچ کر صدقہ و خیرات کیا اج تک اسے اللہ والے سے اس کی ملاقات نہیں ہوئی لیکن اب وہ باقاعدگی سے صدقہ و خیرات کرتی ہے بلکہ اپنے لیے تھوڑا بہت لگتی ہے باقی سب کچھ بانٹ دیتی ہے اپ جانتے ہیں وہ اللہ والے کون تھے ۔۔۔ وہ دکان دار  اور فقیر کے بھیس میں وہ اللہ کے نیک بندے میاں میر رحمت اللہ علیہ تھے کہ جنہوں نے اس نیک  لڑکی کی وجہ سے اس کی ماں کی مسیحائی کی اور اس کی مدد کی نہ صرف اسے لالچ سے بچایا بلکہ اس کو بہت کچھ عطا بھی کر دیا

Comments