Pakode bechne wali 90 Sal ki banjh budhiya maa ban gyi Aur Ek Allah wale

 All rights reserved. This story was originally published on  https://best.92islamicquotes.com       Reproduction or use without permission will be considered a copyright violation.


کسی گاؤں میں ایک بوڑھی عورت تھی جو  پکوڑے بیچا کرتی تھی  اس کا کوئی بھی اس دنیا میں نہیں تھا وہ ایک 90 سال کی ضعیفہ تھی جو اس عمر میں بھی کام کرتی تھی  قسمت نے ظلم یہ کیا کہ اس کی کوئ اولاد نہیں تھی بس اپنے ہاتھوں کی  کمائی سے کھاتی تھی لیکن ان پکوڑوں کو بیچ  کر اس کا اتنا گزارا نہیں ہوتا تھا  اس  گاٶں میں کچھ لوگ تھے جو شرارتی اور شر پھیلانے والے  تھے کہ جو اس کو پیسے بھی نہیں دیا کرتے تھے پر وہ کسی کو منع نہیں کرتی اور بغیر پیسوں کے بھی پکوڑے دے دیا کرتی تھی  وہ چاہتی تھی رمضان کے مہینے میں اس کی خوب بکری ہو اس بار  رمضان کا مہینہ شروع ہو گیا تھا..اس کو بڑا شوق تھا کہ وہ رمضان کی رونق کا حصہ بنے... اس نے سوچا کہ میں اپنے کام کو کرنے کے لیے پہلے سے تیاری کر لیتی ہوں تو وہ سامان خریدنے کے لیے بازار گئی اس نے دکان والے سے کہا کہ یلو پیسے اور مجھے پکڑے کا سامان دے دو  دکان والا بہت کنجوس بھی تھا اور لالچی بھی بولا بڑھیا یہ تو پیسے اتنے کافی نہیں ہیں کہ تمہیں میں سامان دے سکوں تم جاؤ یہاں سے اس نے کہا  بھائی یہ سپو کیسے پورے ہیں مجھے پتہ ہے کہ میں ان میں یہ سامان خریدتی ہوں دیکھو رمضان کا مہینہ ہے افطاری سے پہلے مجھے پکوڑے بنانے ہیں ورنہ میری بکری نہیں ہوگی  وہ مذاق اڑاتے ہوئے کہنے کا صحی بھی تیرے پکوڑے خریدتا ہے اس نے کہا جو بھی ہے میں کام تو کرتی ہوں حق حلال  کی کماتی ہوں اچھا ایسا کرو کہ تم مجھے ادھار دے دو میں جب میری کمائی ہو جائے گی تمہیں پیسے لوٹا دوں گی  وہ تھا تو چالاک لیکن اس نے کہا چلو ٹھیک ہے یہ لو سامان اور جاؤ وہ اپنے گاؤں سنبھال لے کر اگئی اور پکوڑے بنانے کی تیاری کرنے لگی اس نے بہت ہی مزیدار سے پکوڑے بنائے ان کی خوشبو سن کر اس پاس کے لوگ انے لگے لیکن وہ بہت بےحس تھے انہوں نے ضعیفہ کو ستانے کے لیے منہ  بناتے ہوئے کہا کہ ابھی ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں تم ہمیں پکوڑے ایسے ہی دے دو دیکھو رمضان کا مہینہ ہے اچھا ہے تمہارے پکوڑوں سے ہم افطار  کریں گے وہ نیک دل ضعیفہ تھی اس نے کہا ٹھیک ہے لے لو فکر اس کو اس بات کی تھی کہ دکاندار کو اس نے پیسے دینے ہیں  وہ دن تو اس کا ایسے ہی گزر گیا کوئی بھی اس کی کوئ  کمائی نہیں ہوئی  بیچاری پریشان ہو کر اپنے گھر ا گئی ہو کہنے لگی اللہ میری مدد کر یہ لوگ تو مجھے پیسے بھی نہیں دیتے اور مجھے ان سے مانگنا بھی اچھا نہیں لگتا میں کس سے کہوں کیونکہ وہ دکاندار تو بہت ہی زیادہ  سخت ہے وہ مجھ سے پیسے لے کر رہے گا  عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد وہ روتی رہی ..

ادھر ایک اللہ والے رمضان کے مہینے کے شروع ہوتے ہی نیکی کے سفر پر چل پڑتے تھےکیونکہ رمضان میں کسی بھی نیکی کا دگنا ثواب ملتا ہے وہ راتکو  عشاء کی نماز کے وقت اسی  گاٶں میں پہنچے تو وہاں مسجد میں  نماز پڑھی جارہی تھی  اپ پھر جماعت میں شامل ہو گئےاس کے بعد تراویح ہوئ  تراویح پڑھنے کے بعد اللہ والے مسجد سے باہر آۓ ایک بزرگ کو گاٶں میں دیکھ کر لوگ ان سے سلام و دعا کرنے لگے اور  اپ کو خوش امدید کہا اپ نے کہا کہ میں سفر میں تھا آپ کا گاٶں نظر آیآ تو میں یہاں آگیا اپ لوگوں کی اجازت ہے کہ میں یہاں  رک جاؤں  انہوں نے کہا کیوں نہیں بالکل ایسے مبارک مہینے میں ہم تو ویسے ہی مہمان نوازی کرتے ہیں .. ان میں سے ایک ادمی تھا جو کہہ رہا تھا کہ بھائی یہ اجنبی ہیں ان کو کیوں  گاؤں میں رکنے کی اجازت دیتے ہو وہ کہنے لگے ہمارے مہمان ہیں اور بس کچھ نہیں اس کا منہ بن گیا 

خیر آپ کو رکنے کے لیے ایک جگہ دے دی گئ... اپ نے سب کے ساتھ مل کر سحری کی اور فجر  کی نماز پڑھی اپ کا دل  خوش ہوا کہ یہ لوگ خود اتنے نیک ہے  لگتا ہے اس گاٶں میں کسی کو میری نیکی کی ضرورت نہیں میں اب یہاں سے نکل جاتا ہوں .. یہی سوچ کر اپ اپنا سامان اٹھانے لگے  کہ اپ کی نظر اسی  شخص پر گئی جو کسی کو ڈانٹ رہا تھا  کس پر چیخ رہا تھا  اس کی شکل نظر نہیں ائی لیکن اس کی جملے سن کر اپ کو جھٹکا لگا کہ رمضان کے مہینے میں روزے کی حالت میں یہ شخص ایسی لغو یعنی خراب باتیں کیوں کر رہا ہے اور جھگڑا بھی کر رہا ہے  اپ سمجھانے کے لیے اس کے پاس ائے تو دیکھا وہ ایک بہت ہی بوڑھی سی عورت  لگ رہی تھی جس کی عمر یہی کوئی 90 سال ہوگی  اس نے کہا بیٹا تمہارا روزہ ہے کہنے لگا ہاں روزہ ہے تم روزے کی حالت میں ایسا کیوں کر رہے ہو وہ  بھی اپنی ماں کے برابر کی عورت کے ساتھ جو کہ خود ضعیفہ ہے اس نے کہا یہ عورت ہے ہی اس قابل کہ اس کو جتنا  ذلیل کیا جائے تو کم ہے

کیوں کیا جرم کر دیا ہے اس نے

  اپ کو کیوں بتاؤں اپ ہمارے اس گاؤں کے تھوڑی ہیں  اللہ والے اس کی بدتمیزی کل رات سے ہی برداشت کر رہے تھے  اب اپ کے دل میں آگیا کہ مجھے اب اس گاؤں سے نہیں جانا چاہیے ضرور اس میں کوئی راز ہے اور اس ضعیفہ کے ساتھ یہ  غلط ہو رہا ہے   اپ اپنی جگہ ا کر بیٹھ گئے روزے میں تو ویسے ہی زیادہ وقت عبادت میں گزرنا چاہئیے اپ قران پاک پڑھنے لگے اس طرح دن گزر گیا جب  عصر کی نماز پڑھنے آپ مسجد جانے لگے تو دیکھا وہ عورت پکوڑے بنانے کا سامان باہر رکھ رہی ہے اس عمر میں اتنی محنت کرتے دیکھ کر افسوس تو ہوا پر آپ نے سوچا پہلے نماز پڑھ لوں پھر دیکھتا ہوں نماز پڑھنے کے بعد آپ نے ایک شخص سے پوچھا کہ یہ اسقدر ضعیفہ ہوکر پکوڑے کیوں بنارہی ہے وہ بھی گھر سے باہر بیٹھ کر اس نے کہا یہ اس کا کام ہے یہ پکوڑے بیچتی ہے کیونکہ اس  کا کوئ بھی نہیں 

اگر اس کا کوئی بھی نہیں ہے تو کیا تم لوگ اس کی مدد نہیں کر سکتے ہو اس عمر میں پکوڑے بیچتی ہے  ہم تو چاہتے ہیں کہ ہم اس کو یہ کام نہ کرنے دیں  لیکن یہ بہت خدار ہے اور کسی کی مدد نہیں لینا چاہتی... وہ شخص  بڑے ارام سے جھوٹ بول رہا تھا جب کہ وہ گاؤں والے تو اس کو کبھی اس کام سے روکتے ہی نہیں تھے الٹا  اس سے مفت کے پکوڑے خریدتے تھے اللہ والے معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہتے تھے  اپ اس ضعیفہ عورت کے پاس آئے اور کہا اے بوڑھی مائی کتنے پیسںوں میں پکوڑے دیتی ہو اس نے کہا جتنے دل چاہے  اپ پیسے دے دیں میں اپ کو پکوڑے دے دوں گی س کے   بڑے دل  سے بہت خوش ہوئے  جو نظریں جھکائے  اپنے کام میں لگی ہوئی تھی اللہ والے نے اس سے  ڈھیروں پکوڑے لے لیے اور اس کو پیسے  دینے لگے  تو پیچھے سے ایک گاؤں والا ایا اس نے کہا ارے اپ ہمارے مہمان ہیں اس کو پیسے مت دیں اور ایسے ہی پکوڑے لے لیں اچھا ہی افطار میں کام ائیں گے اللہ والے نے کہا لیکن یہ اس  کا حق ہے...ایک تو تم لوگ  اس سے یہ کام کروا رہے ہو اس کا ساتھ بھی نہیں دیتے ہو  الٹا مجھے پیسے دینے سے منع کرتے ہو وہ کہنے لگے اپ اس گاؤں میں نئے ائے ہیں اپ کو نہیں پتہ یہ کون ہے اس لیے ہم اس کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے ہیں اللہ والے خاموش ہو گئے  ضعیفة کی انکھوں میں انسو اگئے  لیکن وہ چپ چاپ سے پکوڑے بناتی رہی افطار کا وقت ہو چکا تھا سب گاؤں والوں نے مزے سے افطار کیا لیکن اس ضعیفہ کو کسی نے پوچھا نہیں اخر اس کے ساتھ اس قدر برا رویہ کیوں رکھا جا رہا تھا اپ کو جاننا تھا اپ  تراویح کی بعد  اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئے... اور تسبیح پڑھنے لگے جیسے جیسے تسبیح  پڑھتے جا رہے تھے اپ کو سچائی پتہ چل رہی تھی ...اللہ والے  عام انسانوں جیسی سوچ نہیں رکھتے ہیں... اپ کو عمل سے پتہ چل گیا کہ وہ لوگ اس 90 سال کی بڑھیا کے ساتھ ایسا برتاٶ کیوں کر رہے ہیں لیکن اپ کو اسے اس الزام سے نکالنا تھا .اس پر  سے یہ گھٹیا الزام ہٹوانا تھا ... دوسرے دن بھی اپ نے اس ادمی کو صحیفہ کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہوئے دیکھا بلکہ اج تو وہ اسی گالیاں بھی دے رہا تھا اللہ والوں نے کہا روزے میں ہوں تم اپنی زبان کو سنبھالو اس نے کہا جس عورت کو کہہ رہا ہوں نا اس کو گالیاں تو کیا پتھر بھی مارنے چاہیے... اور اپ پھر سے بیچ میں بولنے لگے اللہ والے نے کہا کل تک مہمان تھا لیکن اب میں اس گاؤں کا ہوں تمہارے گاؤں والوں نے ہی تو مجھے یہاں پر ٹھہرایا ہے اس لیے بنتا ہے میں تم سے سوال کروں کہ اس نے ایسا کون سا گناہ کر دیا ہے کہ جس کی وجہ سے روز تم اس کو یہاں بے عزت کرتے ہو کہنے لگا یہ میرے دکان سے ادھار لے کر جاتی ہے اور پیسے نہیں دیتی ہے اور پھر جو حرکت اس نے جوانی میں کی ہے

بڑھاپے  پہ میں اس کی سزا بھگتنی تو پڑیگی.. وہ ضعیفہ اپنی صفائی میں کچھ بھی نہیں کہہ رہی تھی پھر افطار کا وقت ایا اور وہ پکوڑے بنا کر بیچنے لگی اس بار بھی گاؤں والوں نےاسے ایک ٹکا نہیں دیا اللہ والے  اسے پیسے دینے لگتے تو وہ روک دیتے .. اپ کو بات تو بتاتی لیکن گاؤں والے سے سننا چاہتے تھے اپ نے کہا مجھے تم لوگ بتاؤ کہ اخر کیا کیا ہے اس بڑھیا نے تو گاؤں کے بڑے ادمی نے جو کہ اس صحیفہ کے برابر ہی لگ رہا تھا کہا کہ عشاء و تراویح   کے بعد ہم اپ کو ایک جگہ بلائیں گے اپ وہاں آئیگا ہم اپ کو بتائیں گے اس نے کیا قصور کیا ہے ..اسی ضعیفة کے مفت کے پکوڑوں سے افطار کی گئ اللہ والے بہت غصہ  ان لوگوں کی بے حسی پر لیکن اپ نے اس وقت کچھ نہیں کہا مصلحتنا خاموش رہے عشا و تراویح کی نماز کے بعد ایک جگہ اپ کو بلایا گیا اور اسی بوڑھے  نے کہانی سنانا شروع کی اور کہا کہ ہمارے گاؤں کی سب سے خوبصورت عورت تھی یہ  ہم سب اس پر جوان تھے... جو اپ کو اس وقت اتنی مجبور لاچار دکھ رہی ہے اس وقت یہ بہت ہی عیاش عورت  تھی مردوں کو  لبھانے  گاٶں کے جوان مردوں کو اپنے پاس بلانے کے لیے کیا کچھ نہ کرتی... لیکن پھر یہاں کے سب سے شریف ادمی نے اس سے شادی کر لی کیونکہ وہ بہت ہی امیر بھی تھا تو اس نے اس سے شادی کر کے اسے اپنے جال میں پھنسا لیا پر اس کی کوئی اولاد نہ ہوئی   پورے اعمال کا پورا نتیجہ کئی سال تک اس کی اولاد نہ ہوئی اس کا شوہر اس کو کہتا رہا کہ میں اولاد چاہتا ہوں تو یہ تو اولاد پیدا کر ہی نہیں سکتی تھی اس کو حکیموں کو دکھایا گیا  اس کا علاج کروایا گیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اس کا شوہر اس سے بیزار ا چکا تھا اور ایک دن اسے چھوڑ دیا  رونے کے پیچھے اولاد نہ ہونے کی وجہ نہیں تھی بلکہ اس کا خراب کردار تھا  کی شادی شدہ ہو کر بھی غیر مرتبہ تعلق رکھتی ہے اور یہ نہیں چاہتی اس کے ہاں کوئی بچہ ہو اسی وجہ سے اس کا شوہر اولاد کی نعمت سے محروم ہے تبھی اس کے شوہر نے اسے  طلاق دے دی... اور اب وہ کہاں ہے وہ اس دنیا میں نہیں ہے اولاد کا غم لیے دنیا سے چلا گیا وہ یہاں کا سب سے اچھا نیک پارسا انسان تھا لیکن اسے بیوی ایسی ملی جو کہ فاحشہ سے کم نہیں اب بتائیں  ہم اس کے ساتھ یہ سلوک نہ کریں تو کیا کریں  اس نے ایک نیک انسان کا دل دکھایا تھا وہ اپنے گھر میں ایک بیٹا چاہتا تھا کہ اس کی نسل چلے لیکن اس نے اس کو وہ خوشی بھی نہیں دی  اور برے کاموں میں لگی رہی . وہ پاک انسان  تو اس کے سارے  گناہوں کو معاف بھی کر دیتا ہے اگر یہ اس کو اولاد دے دیتی تھی پر اس بانچ ضعیفہ نے اسے کوئی  نہ دیا وہ تڑپ تڑپ کر مر گیا  اس کے بعد اس کے طلاق دینے کے بعد اس کا کوئی تھا تو نہیں تو یہ سڑک پر اگئی اور اب یہ پکوڑے بیچ کر اپنا گزارا کرتی ہے  ہم میں سے کوئی اس کی مدد نہیں کرنا چاہتا  اس لیے اس کو اس طرح تنگ کیا جاتا ہے اس سے پکوڑے پیسے دے کر خریدے نہیں جاتے  اور جو کہ اس دکاندار سے ادھار لیتی ہے تو وہ اس سے روز جھگڑا کرتا ہے کہ میرے پیسے واپس کرو  اب اپ اللہ کے نیک بندے ہیں اپ بتائیے کیا ہم اس کے ساتھ صحیح نہیں کرتے ہیں اللہ والے نے کچھ نہیں کہا  کیونکہ اپ ان کو کچھ سمجھاتے تو بات سمجھ میں نہیں اتی اپ کہنے لگے چلو مجھے معاملہ تو سمجھ میں اگیا ہے اب میں بھی تم جیسا ہی بن جاؤں گا خوامخواہ اس گڑیا کے بارے میں اچھی سوچ رکھ رہا تھا وہ تو کوئی اچھی عورت ہے ہی نہیں اوپر سے بانجھ بھی ہے  اس کی کوئی اولاد نہیں  ہم اس کی کچھ لگتے بھی نہیں ہیں کیوں اس کے لیے اتنا اچھا سوچیں اس کے بعد سب اپنے گھروں کو چلے گئے اللہ والے اپنی عبادت میں لگ گئے  اس رات  وہ ضعیفہ حد سے زیادہ روئی تھی کیونکہ جو گناہ اس نے کیا نہیں اس کا الزام ان سب نے اس پر لگایا تھا سالوں سے ان کے جملے ان کے طعنے ان کے طنزوں کو برداشت کررہی تھی لیکن ایک اللہ والے بزرگ کے سامنے جب ان لوگوں نے اسے فاحشہ کہا تو  وہ یہ سہ نہیں سکی پوری رات روتی رہی اللہ سے کہتی رہی یا اللہ تو جانتا ہے دلوں کے حال تو تو اپنے بندوں کے بہت قریب ہے شہ رگ سے بھی قریب ہے

تو جانتا ہے نا کہ میں نے کیا کیا ہے کیا نہیں اب تو ہی میری گواہی دلوائے گا... کیونکہ میں اس طرح لوگوں کے الزام سہ کر اس دنیا سے نہیں جانا چاہتی میں سرخرو ہونا چاہتی ہوں تیری نظر میں  اللہ والے معاملے کی نزاکت کو سمجھ چکے تھے اپ چاہتے تھے کہ اس ضعیفہ کے لیے اپ کچھ کر سکیں لیکن اگر اپ  سامنے ا کر اس کی گواہی دیتے یا صفائی دیتے تو وہ یہی کہتے کہ اس نے اپ کو بھی پھنسا لیا ہے  بڑھاپے میں بھی  زانی بڑھیا بنی بیٹھی ہے.... رات میں جب سب گاؤں والے سو گئے تھے وہ ضعیفہ اور اللہ والے جاگ رہے تھے اور دونوں اللہ کی عبادت میں لگے ہوئے تھے اللہ تعالی خاموشی سے اس کے گھر کے دروازے پر ائے اور دستک دی اتنی رات میں کون اگیا اور سوچنے لگی اللہ والے نے جبکہ سے کہا میں ہوں دروازہ کھولو جب اس نے اللہ والے کو دیکھا تو کہا جی  کہئیے کیا کام ہے  اللہ والے بولے میں  یہ پیسے دے رہا ہوں یہ رکھ لو  کل میں پکوڑے خریدوں گا اس وقت پیسے نہیں دوں گا کیونکہ گاؤں والے مجھے منع کر دیں گے تو میں اس طرح ہی تمہیں پیسے دیا کروں گا ضعیفہ نے کہا  لیکن میں اتنے پیسے اپ سے نہیں لے سکتی کیونکہ ان پکڑوں کی قیمت اتنی زیادہ نہیں ہے اللہ تعالی نے کہا اللہ کو مانتی ہو نا کیوں نہیں مسلمان ہوں میں تو بس سمجھ لو اس اللہ کی طرف سے ہے تحفہ ہے تمہارے لیے یہ سن کر اس نے وہ پیسے رکھ لیے  اللہ نے کہا اس دکان کا ادھار بھی چکتا کر دو  وہ اپ کی بہت شکر گزار ہوئی اس طرح اللہ والے روز اسے پیسے دے دیا کرتے اور دوسرے دن اس سے پکوڑے خرید کر پورے گاؤں میں بانٹا کرتے  دکان والا بڑا حیران تھا کہ اس ضعیفہ کو پیسے تو کوئی نہیں دیتا ہے یہ مجھے میرے پیسے واپس لوٹا کیسے رہی ہے  وہ گاؤں کے اسی بزرگ کے پاس ائے اور کہا بتائیے ذرا کون اس کی مدد کر رہا ہے اس کے پاس اتنے پیسے کہاں سے ا رہے ہیں اس نے میرا سارا ادھار چکتا کر دیا ہے ان کے کان کھڑے ہوئے انہوں نے کہا ہمارے گاؤں کا تو کوئی بھی فرض ایسا نہیں کر سکتا ہے کہیں وہ بزرگ تو نہیں کر رہے وہ سب اللہ والے کے پاس ائے اللہ والے نے کہا میں کیوں اس کے کام اؤں گا تم لوگوں نے مجھے بنا کیا ہے وہ بولے ہاں لیکن ہو سکتا ہے اپ چپکے سے اس کے  ہاتھ میں پیسے رکھتے ہوں اللہ والے بولے ایسا کچھ بھی نہیں ہے یہ تمہاری بات ہے اور تم تک ہی ہے میں تو یہاں مہمان ہوں  اپ کی بات پر انہوں نے یقین نہیں ایا تھا کیونکہ جب اپ دوسرے دن اس سے پکوڑے لے کر پورے گاؤں میں بانٹتے تو اس کا مطلب تو یہی تھا کہ اپ اس کو پیسے بھی دیتے ہوں گے پر ان کے سامنے اپ نے کبھی بھی اسے پیسے نہیں دیے تھے اور پکوڑے ایسے ہی لے کر گاؤں والوں کو افطار کرواتے

گاٶں والوں کو  شک پڑ گیا تھا  اس گاٶں کے اسی  بوڑھے انسان نے اللہ والے کے پیچھے ایک ادمی لگا دیا تھا جو آپ پر نظر رکھے ہوئے تھا وہ جاسوسی کر رہا تھا اللہ والے جانتے تھے کیا ہو رہا ہے اس گاؤں میں

لیکن پھر بھی اپ کو اطمینان تھا کیونکہ جس کے ساتھ اللہ ہو اس کو کسی کا ڈر نہیں ہوتا اپ اسی طرح رات  کو جب سارا گاؤں سو گیا چپکے سے اس بڑھیا کے گھر کے پاس ائے اور دروازہ کھٹکھٹا کر اس کے ہاتھ میں پیسے رکھنے لگے تو  وہ بولی اپ روز مجھے پیسے دیتے ہیں مجھے اچھا نہیں لگتا ہے اپ نے مجھے اللہ کا واسطہ دیا تب ہی پیسے لے رہی تھی لیکن کل اپ افطار میری طرف سے کروا دیجیے گا اللہ والے نے کہا جب تمھارے  سارے مسئلے حل ہو جائیں اور  تمہارے پاس بہت پیسہ ہو تو تم افطار سب کو کروانا ابھی تو تمہاری حق حلال کی کمائی تمہیں مل رہی ہے اور سوچ لو کہ یہ رمضان پاک کا تمہیں تحفہ مل رہا ہے  زیفہ نے اپ کا شکریہ ادا کیا اور اللہ کی بھی شکر گزار ہو کر گھر کے اندر چلی گئ اس ادمی نے دیکھ لیا کہ اللہ والے نے خود اپنے ہاتھوں سے اس کے ہاتھ میں پیسے رکھے ہیں اس نے  آکر ساری خبر اس  ادمی کو دے دی   اس نے کہا ہم تو پہلے ہی جانتے تھے کہ یہاں پر یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے دیکھ لو اس ضعیفہ کی حرکتیں اس نے اس بوڑھے ادمی کو بھی نہیں چھوڑا بھئی بڑھاپے میں تو انسان اور  شیطانی کام کرتا ہے ہمیں یہ کام تو رکوانا پڑے گا رمضان کا مہینہ ہے توبہ توبہ رات کے اس پہر یہ بڑھیا اور بوڑھا کیوں ملتے ہیں ہم ان دونوں کو اب ایسا رسوا کر کے یہاں سے نکالیں گے  کہ پھر کبھی ایسے کام نہیں کریں گے جب  سحری کا وقت ہوا تو اس وقت گاؤں کے اس بوڑھے انسان نے اللہ والوں پہ کچھ نہیں کہا بلکہ بڑی عزت سے اپ کو سحری کروائی گئی  دوسرے دن سب انتظار کر رہے تھے افطار ہونے کا

بڑھیا افطار بنانے کی تیاری کر رہی تھی تبھی گاؤں والے اس کے پاس ائے اور کہا ہاں بھئی کتنے میں پکوڑے دو گی اس نے کہا تم لوگ پیسے کب دیتے ہو ایسے ہی لے لو  کیوں بڑے پیسے اگئے ہیں 

اچھا تو پیسے  اس بڈھے  نے دے دیے ہیں تمھیں.. وہ خاموش رہی افطار کا وقت ہونے والا تھا کچھ نہیں کہا اس نے اللہ والے بولے افطار ہو جائے پھر تمہیں سب کچھ معلوم ہو جائے گا جو کچھ جاننا چاہتے ہو افطاری ہو چکی تھی مغرب کی نماز کے بعد اللہ والے کہنے لگے  ہاں تو مجھ سے پوچھو کہ میں اس وحیفہ کو پیسے دیتا ہوں تو یا نہیں تو تم لوگوں کو پتہ تو چل ہی گیا ہے اپنے ادمی کو میرے پیچھے لگا دیا تھا ہاں میں اسے پیسے دیتا ہوں کیونکہ یہ حق حلال کی کماتی ہے محنت کرتی ہے اس کو اس محنت کے پیسے ملنے چاہیے  وہ بڑا ادمی کہنے لگا کہ اپ کو ہم نے یہ کہانی نہیں سنائی کہ یہ کون عورت ہے ایک فاحشہ کی مدد کرنا یا کوئی ثواب کا کام ہے  فاحشہ بھی انسان ہوتی ہے اور تم لوگ کون سے دودھ کے دھلے ہو  ہم سب اپنے اعمال کی ذمہ دار ہوتے ہیں اللہ تعالی نے کسی انسان کو یہ نہیں کہا کہ تم دوسرے انسان سے بدلہ لو یا اس کو تم جہنم دوزخ کے بارے میں بتاؤ یہ صرف فیصلہ اللہ کرتا ہے تم انسان نہیں  اور رہی بات یہ گنہگار ہے فاحشہ ہے تو یہ ایک پاکیزہ عورت ہے اس نے کوئی بھی گناہ نہیں کیا  اپ کو کیسے معلوم مجھے نہیں  معلوم تھا  لیکن مجھے معلوم ہو گیا ہے  اپ کو کیسے معلوم ہو گیا اپ اس گاؤں میں رہتے تھے یا اس کے بارے میں سب جانتے ہیں  اس بات کا ہمیں یقین ہے کہ یہ عورت اپنی میٹھی زبان سے کسی کو بھی اپنے جال میں پھنسا سکتی ہے  اور اپ کے کسی بات کا ہم بھروسہ نہیں کریں گے کیوں کریں بھروسہ  دکاندار بھی وہاں پر آچکا تھا ہاں میں بھی جاننا چاہتا ہوں کہ میرے ادھار کو چکانے میں اپ نے اس کی مدد کیوں کی  جبکہ یہ اس کا اپنا مسئلہ تھا

یہ اس کا اپنا مسئلہ نہیں ہے لیکن تم لوگوں نے جو گندے الزام اس پر لگائے ہیں اس کے بارے میں کہنا بہت ضروری ہے جس طرح اس کا نیک پارسا شوہر تھا تو یہ بھی اللہ کی نیک بندی ہے  اس نے کوئی بھی گناہ نہیں کیا ہے ایسا گناہ کہ جس کی وجہ سے اللہ اس سے ناراض ہو  تو یہ گاؤں والے جو اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ سچ نہیں ہے تمہیں کس نے کہا ہے یہ کہ یہ ایک خواہشہ عورت ہے یعنی اس نے جان بوجھ کر اولاد پیدا نہیں کی یہ جو ہمارے گاؤں کے سب سے بڑے بزرگ ہیں انہوں نے 

اللہ والے نے اس بوڑھے انسان کو اپنے پاس بلا کر کہا اپ نے کہا تو ذرا اب سچ بھی بتا دو

میں سچ ہی بتا رہا ہوں 

تم نے جھوٹ بولا ہے 

اسے ان جانو اگر تم نے ابھی سچ نہیں کہا تو تم پر خدائ قہر نازل ہوگا 

اس نے کہا میں نہیں ڈرتا کسی قہر سے

یعنی تم مسلمان نہیں ہو تم اللہ کو نہیں مانتے میں اللہ کو مانتا ہوں

اللہ کو مانتے ہو تو اس کے عذاب کو نہیں جانتے 

بتاؤ ان سب گاؤں والوں کو کہ یہ  پکوڑے بیچنے والی عورت ایک بھلی عورت ہے جس نے کبھی انکھ اٹھا کر کسی مرد کی طرف نہیں دیکھا... اور یہ بانجھ بھی نہیں ہے یہ بھی بتاؤ 

اپ نے روبدال اواز میں کہا تو وہ کہنے لگا ہاں یہ سچ ہے دیکھ بھلی عورت ہے اس نے کبھی کوئی ایسا گناہ نہیں کیا کہ جس کی وجہ سے اس کی پکڑ ہو نہ ہی یہ فاحشہ ہے اور نہ ہی یہ بانجھ ہے یہ 90 سال کی ضعیفہ بانجھ نہیں ہے اس کی ایک اولاد ہے اس کا ایک بیٹا ہے  گاؤں والے منہ پھاڑے ہوئے کھڑے تھے کیونکہ اج تک تو یہی سنا تھا کہ وہ عورت کردار کی اچھی نہیں ... اللہ والوں نے کہا اب یہ بھی بتا دو کون ہے اس کا سگا بیٹا وہ بولا یہ دکاندار  لڑکا اس کا بیٹا ہے سب کو  اپنے کانوں بھائی کے نہیں ا رہا تھا وہ دکاندار لڑکا کہنے لگا کیا میں اس کا بیٹا ہوں یہ کیسے ہو گیا میں تو اپ کا بیٹا ہوں نا  اپ میرے والد ہیں نا اس نے اپنے سر کو جھکا کر کہا نہیں میں تمہارا باپ نہیں ہوں دراصل یہ ضعیفہ عورت ماں بننے والی تھی بیس سال بعد  اس کو دائی سے خوشخبری ملی تھی کہ یہ ماں بننے والی ہے اس کا شوہر یہ بات نہیں جانتا تھا یہ بہت خوش تھی اس دن اپنے شوہر کو بتانے جا رہی تھی لیکن میں نے اسے راستے میں روک لیا  اور اس سے کہا کہ اگر تو نے اپنے شوہر کو یہ بات بتائی تو میں تجھے تیرے شوہر کو مار ڈالوں گا یہ روتی رہی اور کہتی رہی میرے شوہر کو نہیں ماننا تو تجھے چپ رہنا پڑے گا  یہاں پر میں نے دائی کو بھی پیسے دے دیے اور کہا کہ کسی کو بھی خبر نہیں ہونی چاہیے کہ یہ عورت ماں بننے والی ہے اور اس کے بعد میں نے اسے سب کے سامنے رسوا کرنا شروع کر دیا کہ اس کا غیر مردوں کے ساتھ تعلق ہے اس  کا شوہر میرا دوست تھا میں نے اسے بھی یہ بات بتا دی اور کہا کہ تمہاری بیوی اس نے ماں نہیں بن رہی کیونکہ وہ تمہیں کوئی اولاد دینے کی چاہت نہیں رکھتی ہے  یہ ہمیشہ کے لیے جوان رہنا چاہتی ہے  تمہاری دولت کے لیے اس میں تم سے شادی کی تھی اور اب یہ تمہارے پیچھے مردوں سے تعلق رکھتی ہے شوہر کو اس بات پہ یقین نہیں ایا تھا پھر میں نے داعی کو اس کے پاس بھیجا اور کہا کہ اپنے اس کے شوہر کو غلط مت بتا دو دائی نے کہا ہاں یہ مجھے دوا لے کر کھاتی ہے تاکہ یہ کبھی  میں اولاد کی خوشی نہ دے  اس کے شوہر نے اس بات کی سچائ کو جانے بنا  اسے کھڑے کھڑے طلاق دے دی... یہ  اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہہ سکی اور شوہر نے دھکے مارکر سے گھر سے نکال دیا اس کا کوئی بھی گاؤں میں نہیں رہتا تھا پھر میں نے جو کہ اس کو سب کے سامنے غلط بنا ہی دیا تھا تو کوئی بھی اس کی مدد نہیں کرتا اس بیچ اس کا بچہ اس دنیا میں اگیا  میں نے اسے دھمکی دی تھی کہ بچے کے جنم کی خبر کسی کو نہیں ہونی چاہیے جب اس کا بچہ پیدا ہوا تو میں نے وہ بچہ  رات کے  پھر میں اسے چھین لیا یہ کچھ بھی نہ کر سکی  بس اتنا کہا تھا ایک دن کوئی ائے گا جو مجھے میری اولاد دلوائے گا اور مجھے انصاف بھی دے گا  اس کی جوانی گزر گئی میں اس دانے مار تھا کہ کوئی ائے نہیں تیرا بچانے والا جو تیری مدد کرے دیکھنا تو  بڑھاپا آنے  تک سسک سسک کر مر جائے گی   سب کی انکھوں میں انسو تھے اتنا بڑا ظلم ہو گیا اس گاؤں میں کسی کو پتہ نہیں چلا سب نام کے مسلمان تھے صرف نام کے روزے رکھے جارہے تھے نمازیں پڑھی جا رہی تھی  اللہ کا عذاب اس گاؤں پر نازل کیوں نہ ہوا وہ سب تو ایک دوسرے کا اپنا خیال رکھتے تھے سوائے اور صحیفہ کے جس کو تنگ کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور سب سے اگے وہ دکاندار تھا جو اصل میں اس کا بیٹا تھا وہ رونے لگا اس نے کہا میں نے اپنی ماں کے ساتھ اتنی بدتمیزی کی اپنی ماں کو میں نے ظلم کا نشانہ بنایا  کیونکہ میرے اس جھوٹے نقلی چور باپ نے میرے دماغ میں اس کے خلاف باتیں جو ڈالدی تھیں  وہ بھی ماں کے پاس اگیا اور اس کے پیر پکڑ کے معافی مانگنے لگا مجھے پتہ نہیں تھا تو میری ماں ہو  اللہ والا کہا اگر تمہیں پتہ نہیں بھی ہوتا تمہاری ماں ہے تو ایک عورت کی عزت کرنا ہر انسان پر ہر مرد پر فرض ہے  ہم ایک دوسرے کے لیے اچھے الفاظ استعمال کرنے چاہیے  روزہ رکھ کر اس کے اوپر دانہ زنی کرتے اس کو تم ڈانٹتے چیختے کم از کم یہی سوچ رہے تھے کہ یہ عورت ہے وہ بھی ایک بوڑھی عورت  اور ایک بزرگ ہوگا تم نے کیا کیا سب کے دماغوں تم نے ذہر  بھرا سارے بستی والوں کو  تم نماز پڑھنے کی دعوت دیتے رہے لیکن تم نے ایک ایسا ظلم کیا ہے جس کی تمہیں کبھی معافی نہیں ملے گی  پھر اللہ والے کہنے لگے تم ایک نیک بندی ہو کبھی تم نے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا  تم دیکھ لو اللہ پاک نے رمضان کے مہینے میں تمہارے ہی بنائےپکوڑٶں سے سب  کو افطار کروایا  اصلی روزے دار تو تم ہو تمہیں ہی ان روزوں کا اجر ملا ہے  باقی سب نے تو صرف فاقہ کیا ہے وہ سب  اللہ والے سے معافی مانگنے لگے اور کہنے لگے ہمیں معاف کر دیں اللہ والے نے کہا میں معاف کرنے والا  کون ہوتا ہوں تم لوگوں نے میرے ساتھ تھوڑی کیا ہے کچھ تم نے تو اس بیچاری ضعیفہ کے ساتھ کیا ہے جس کو عمر بھر تار نہ دیتے رہے فاحشہ ہونے کا اور بانجھ ہونے کا دیکھ لو اس کا بیٹا یہاں پر کھڑا ہوا ہے اور اے بیٹے اللہ تجھے توفیق دے کہ تو اپنی ماں کی آخری عمر میں اس کا سہارا بن  تاکہ یہ محنت کرنے کے بجائے اپنے اپ کو اللہ کی یاد میں مگن کر لے  اس نے اللہ والے سے وعدہ کیا اور کہا جی ہاں میں نے جو بھی گناہ کیا ہے اس کا میں ازالہ کروں گا اب میری ماں کبھی بھی چند ٹکے کمانے کے لیے یوں  روزے میں پسینہ پسینہ نہیں ہوگی اللہ والے مسکرائے اور کہا لیکن پکوڑے تو ضرور بنائے گی کیونکہ ان کے ہاتھ کے پکوڑے میں نے اج تک کہیں نہیں کھائے.... اپ جب تک اس  گاؤں میں رہے ان گاؤں والوں کو افطار کراتے رہے  ایک بے گناہ عورت بانجھ ضعیفة کو نوے سال میں بیٹا دلوا کر آپ نے سب سے بڑا نیکی کا  کام کیا تھا اس لیے اپ کا  دل خوش تھا

Author Name : Rabia Naz Saeedi 

Publish Date: 2 March 2024






Comments