عراق کا ایک مشہور شہر تھا جہاں پر ایک تاجر رہا کرتا جو جانوروں کو بیچنے خریدنے کا کام کیا کرتا وہ بہت نیک اور اللہ کی عبادت کرنے والا تھا ہمیں جو اس نے حلال پیسہ کمایا اور کبھی حرام کی طرف نہ گیا اس کی بیوی بچے اس کی پاک کمائی پر پل رہے تھے وہ تاجر تجارت کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر جایا کرتا تھا اور اکیلا ہوا کرتا کسی قافلے کے ساتھ کبھی اس نے سفر نہیں کیا اس کے ساتھ اس کے جانور بھی ہوا کرتے تھے ... رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا تھا اس کی خاص عادت تھی کہ وہ روزہ کبھی نہیں چھوڑتا تھا چاہے جتنی بھی دھوپ ہو اور سخت گرمی ہو وہ بھوکا پیاسا رہ کر بھی اپنا سفر کیا کرتا رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا تھا اس کو بہت ضروری کام ان پڑا کہ اپنے جانوروں کے ساتھ اسے شہر جانا تھا اور ان جانوروں کے بدلے اس سے موٹی رقم ملنے والی تھی اس کے بچے چھوٹے تھے اس کی بیوی نے کہا اپ اپنے کسی بیٹے کو اپنے ساتھ لے جائیے تو کہنے لگا دیکھو گرمی بہت زیادہ ہے اور بچے ایسے موسم میں سفر نہیں کر سکیں گے بہتر ہے کہ میں اکیلا ہی اس سفر پر روانہ ہو جاؤں تم دعا کرنا کہ اس بار بہت منافع ہو یہ موقع بار بار نہیں آئیگا بیوی نے کہا میرا دل بہت گھبرا رہا ہے اپ اکیلے مت جائیے کسی دوست کو ساتھ لے لیں کہنے لگا دوستوں پر بھروسہ نہیں کر سکتا اللہ سے بڑا تو کوئی بھی نہیں ہوتا اللہ ہی بچانے والا ہے اللہ ہی حفاظت کرنے والا ہے تم بس دعا کرنا کہ تم لوگوں کا حق کسی اور کے پاس کبھی نہ جائے یہ کہہ کر تاجر اپنے مویشیوں کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوا ... یہاں ان دنوں مویشیوں کا میلہ لگا ہوا تھا۔ اس کے پاس دنیا کے سب سے صحت مند موٹے تاز جانور تھے.. جن کی خوبصورتی دیکھیں کوئی انہیں ہاتھوں ہاتھ خریدلیتا اور یہی ہوا اس نے اپنے مویشی جلد ہی بیچ دیے اور ان کے بدلے اسے اتنے زیادہ پیسے ملے تھے جن کا کبھی وہ خواب دیکھتا تھا...... سوچا کہ کام تو ہوگیا ہے اب نکل جاتا ہوں یہی سوچ کر وہ چل پڑا وہ بڑا خوش تھا کہ اللہ نے اس کی دعا سن لی شام کا وقت تھا سفر میں آسانی ہوجاتی....
اب یہاں ایک شخص اس پر نظر رکھے ہوئے تھا سب دیکھ رہا تھا کسطرح اس نے جانور بیچے کتنا پیسہ اس کے ہاتھ لگا وہ ایک لالچی انسان تھا جو اس پر نظر رکھے ہوئے تھا اور اس سے ان پیسوں کو ہتھیانا چاہتا تھا اس لیے وہ اس تاجر کے پیچھے لگ گیا کہ اسے معلوم تھا کہ اس کے پاس ایک خطیر رقم لاکھوں درھم موجود ہیں... بہت بڑا ریگستان تھا تاجر کو تھکن ہو رہی تھی نیند سے اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں سوچا کہ ارام کر لیتا ہوں یہ اس کی قسمت تھی کہ راستے میں اس ویران جگہ پر ایک درخت دکھائ دیا اس کے نیچے وہ سستانے کیلئے رکا تو اس لالچی ادمی نے اس پر حملہ کردیا۔ اس نے تاجر کی گردن پر اپنا خنجر رکھا اور کہا ”جو کچھ تمہارے پاس ہے نکال کر میرے حوالے کردو“ تاجر نے ادھر ادھر دیکھااور شورمچایا کہ کوئی اس کو بچائے۔ مگر اس ویران جگہ پر اس کی کون سنتا؟ اس نے خاموشی سے اپنا تمام مال ڈاکو کے حوالے کردیا۔ تجھے مارنا بھی پڑے گا کیونکہ تو نے مجھے پہچان لیا ہے ۔ تاجر نے کہا کہ تم نے میرا تمام مال لے لیا ہے اب تمہیں میری جان سے کیا غرض ہے۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، میرے اوپر رحم کھاﺅ، مجھے قتل نہ کرو،میں کسی کو تمہارے بارے میں کچھ نہیں بتاؤں گا مگر ڈاکو پر خون سوار تھا۔ اس نے اس کی منت سماجت کی قطعاً کوئی پروانہ کی اور اس کو قتل کرنے لگا۔ تاجر بالکل نہتا تھا۔ یعنی نہ اس کے پاس تلوار تھی نہ چاقو تھا کچھ نہیں کر سکتا تھا اس شخص نے کوئ رحم نہ کھایا سینے میں خنجر اتار دیا اس نے دائیں بائیں دیکھا کہ کوئی اس کی مدد کرے،اچانک اس کی نظر اوپر درخت پر پڑی۔
اس کو دو کبوتر درخت پر بیٹھے نظر آئے۔ اس کی جان نکل رہی تھی۔ ڈاکو خنجر سے اس پر پے درپے حملے کررہا تھا کہ اچانک اس نے ان کبوتروں کو پکارا اور کہا : ”اے کبوترو!گواہ رہنا“۔
ڈاکو نے اسے قتل کردیا اور اس کے آخری الفاظ مزاحیہ انداز میں دہرانے لگا: ”اے کبوترو! گواہ رہنا.... گواہ رہنا“ بڑھایا بے زبان پرندے گواہ رہیں گے ارے ہاں کوئی نہیں تجھے بچانے والا اس کی لاش کو وہیں پھینکا اور پیسے گنتا ہوا وہاں سے چلا گیا راستے میں بھی وہ مرنے والے کے الفاظ ہنس ہنس کر بولتا رہا اس کیلئے یہ گویا ایک لطیفہ تھا، جو مرتے وقت تاجر نے سنایا تھا۔ اب اس کو اپنے گھر سے نکلے تین چار دن ہو گئے جبکہ کام صرف دو دن کا تھا ادھر اس تاجر کے بیوی بچے اس تاجر کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ لیکن وہ کیسے اتا ہے وہ تو مر چکا تھا بیوی کو رو رو کر برا حال ہو گیا ہے وہ اپنے بیٹے سے کہنے لگی دیکھا میں نے کہا تھا نا تمہارے باپ سے نہیں جانا لیکن چلا گیا دن گزرتے رہے، مگر اس کی کوئی خبر نہ ملی،
اس کا ایک بیٹا تھوڑا بڑا تھا یعنی وہ سفر کر سکتا تھا ماں کا رونا اس سے برداشت نہ ہوا اسے بھی اپنے باپ کی فکر تھی
چنانچہ بڑا بیٹا اپنے والد کی تلاش میں شام گیا۔ اس ٹائم جب اپ کا نام ہم نے بتایا اور کہا کہ اس نام کا تاجر یہاں ایا تھا لوگ اس کو پہچان گئے کہ سب سے اچھا سودا اسی کا ہوا تھا وہاں اس کو بتایا گیا کہ وہ فلاں تاریخ کو حلب آیا تھا، فلاں جگہ ٹہرا بھی تھا فلاں کے ہاتھ اپنے مویشی فروخت کئے، اتنا پیسہ اسے ملا تھا
لیکن بدقسمتی سے ہمیں کچھ دنوں بعد پتہ چلا کہ شام سے کچھ دور ویرانے میں کسی نامعلوم شخص نے اسے خنجر کے وار سے قتل کردیا اور ساری رقم چھین کر بھاگ گیا۔ ہمیں نہیں پتہ تھا کہ وہ کہاں سے ایا ہے ہم نے ایک دوسرے سے پوچھا کہ کوئی اس کو جانتا ہے پر کوئی بھی اس کا وارث نہیں ملا اس لیے تمہارے والد کو فلاں قبرستان میں دفنادیا گیا۔ بیٹا یہ خبر سن کر رونے لگا یہ خبر اس کی جانیں لے رہی تھی اس کے باپ کو اس طرح بھی دردی سے مار بھی دیا گیا اور گمنامی میں اس کی قبر بنا دی گئی وہ اپنی ماں کو یہ بات بتا نہیں سکتا تھا اس کی ماں تو ویسے ہی پاگل ہو رہی تھی اس نے سوچا کہ میں اسی شہر کے حاکم کے پاس جاتا ہوں اور اس سے مدد لیتا ہوں کہ کون ہے وہ ظالم جابر جس نے میرے باپ کو مار دیا
تاجر کا بیٹا حاکم شہر کے پاس گیا، وہاں دہائی دی، نے کہا دیکھو تم اس شہر کے نہیں اتنا ہی تمہارا باپ یہاں کا رہنے والا تھا لیکن ہم تمہیں قاضی کے پاس بھیج دیتے ہیں وہی صحیح فیصلہ کریں گے باقی ان کے کہنے پر وہ لڑکا غم سے چور قاضی کے پاس گیا قاضی نے اس کی بات کو سن کر کہا کہ یہ تو بہت ہی دل دہلادینے والی بات ہے لیکن میں جب تک وہ مجرم نہ پکڑا جائے اور ہمیں نہیں پتہ کہ وہ کہاں کا رہنے والا تھا کہاں سے ایا تھا اگر تمہارے باپ کے کوئی دوست وغیرہ ہیں تو ان سے ملو اور ان سے پوچھو کہ کہ تمہارے والد کسی کے ساتھ تو نہیں ائے تھے کسی نے اس کی کوئی دشمنی تو نہیں تھی.... قاضی کے کہنے پر وہ اپنے شہر واپس ایا اور اپنے باپ کے دوستوں سے ملا کہ کسی طرح قاتل کا پتہ چل سکے۔ اس کی تمام تر کوششوں کے باوجود نتیجہ صفر رہا، کیونکہ نہ کوئی اس وقت اس جگہ موجود تھا جو گواہ بنتا اور نہ قاتل نے کوئی نشان چھوڑا تھا۔ وہ مایوس ہوکر واپس گھر اگیا اس کی ماں نے پوچھا کہاں تھے تم اتنے دنوں سے بتاؤ تمہارا باپ کہاں ہے وہ کیا کہتا کہ اس کے باپ کو تو اتنے برے طریقے سے مارا گیا ہے کہ جیسے اس سے بھیانک بدلہ لیا گیا ہو اب وہاں سے وہ بات چھپا نہیں سکتا تھا اس لیے اس نے سچ بول دیا کہ اس کے شوہر کو اتنی بے دردی سی مار دیا گیا ہے وہ سن کر غم سے بے حال ہو گئی اس کو بھی سکل چین نہیں ا رہا تھا وہ اپنی ماں کو لیکن وہ کسی حال میں بھی سمبنھل نہیں رہی تھی.... اس لڑکے کو بھی تو سب کچھ چڑھ گیا تھا وہ لوگ اتنے چھوٹے تھے ان کو پتہ ہی نہیں تھا ان کا باپ کس طرح کاروبار کرتا ہے اور باقی پیسے کہاں رکھے ہوئے ہیں یہ تھوڑے بہت جانور ان کے پاس تھے وہ بھی بک گئے اور یو ں وہ لوگ سڑک پر ا گئے جو کبھی عیش و آرام کی زندگی گزار تے تھے اپ وہ لوگ اناج کے ایک ایک دانے کو ترس گئے ... اس لڑکے کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا تو کسی نے اس سے کہا جی شہر میں اللہ کا ایک بہت بڑی ولی رہتے ہیں تم ان سے مدد لو وہ ضرور تمہیں بتا سکتے ہیں کہ کون ہے وہ مارنے والا .. اس نے ہر طرح سے پریشانی دور کرنے کی کوشش کی لیکن اب اللہ کے ولی ایک اخری امید تھے وہ بڑی اس لگا کر ان کے در پر پہنچا اور کہا کہ حضرت میں آپ سے کیا کہوں بس میرے مظلوم باپ کے لیے مجھے انصاف چاہیے .... ہر طرح سے ڈھونڈ لیا لیکن کوئی بھی ہمارا پر سان حال نہیں جو جانور باپ نے چھوڑے تھے وہ بھی بک چکے ہیں میں اور میری ماں اور میرے بہن بھائی کھانے کو ترس گئے ہیں کیا میرا باپ حرام کماتا تھا جو اس کا پیسہ اس طرح ہم سے چھین لیا گیا اللہ والے نے کہا مجھے تین دن کا وقت تو میں تمہیں بتا دوں گا کہ اخر ہوا کیا ہے....تمھیں بلالیا جائیگا اور سنو اللہ کی ذات سے مایوس نہیں ہوتے وہ اگر چھینتا ہے تو پھر بدلے میں بہت کچھ دیتا بھی ہے ابھی اپ اس سے بات کر رہے تھے کہ کسی نے ا کر کہا کہ حضرت اپ کے لیے کھانا بھجوایا گیا ہے... یہاں شہر کے سب سے بڑے امیر رئیس ادمی نے اپ کے لیے کھانے کا تھال بھیجا ہے تو اپ کی خدمت میں پیش کر دوں اللہ والے نے کہا ہاں لے اؤ اس کے بعد کھانے کا وہ تھال اللہ والے کے پاس لایا گیا اپ نے وہ کھانا اس لڑکے کو دے کر کہا یہ لو یہ تم اپنے گھر والوں کو کھلاؤ ... دیکھیں گے تو اپ کے لیے ہے اللہ والے نے کہا میرا پیٹ بھرا ہوا ہے تم لے کے جاؤ تم زیادہ حقدار ہو وہ خوش ہوگیا کہ چلو آج میرے گھر والے پیٹ بھر کھانا کھا لیں گے وہ کھانا لے کر اپنے گھر آگیا اور انتظار کرنے لگا کہ اللہ والے اسے کب بلائیں گے پہلے دن تو اللہ والے کی طرف سے کھانا اگیا تھا لیکن وہ اس بات پر حیران ہونے لگا کہ اب ہر دن ان کے گھر کھانا انے لگا یہ کھانا لا والوں کی طرف سے ہی ا رہا تھا یہ کہہ کر کہ یہ تمہارا حق ہے کوئ صدقہ و خیرات نہیں تین دن کے بعد اللہ والے نے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا بیٹا ... تمہارے ایک سوال کا جواب تو یہ ہے کہ تمہارا باپ ارام نہیں حلال کماتا تھا بہت نیک عبادت گزار انسان تھا اور تم لوگوں کے لیے ہمیشہ اچھا سوچتا تھا صدقہ و خیرات زیادہ سے زیادہ کرتا ہے اس لیے اس کا پیسہ تم سے چھینا نہیں گیا ہے بلکہ کسی نے تمہارے حق پر قبضہ کیا ہے لیکن اللہ بہت بڑا ہے تم دیکھنا ایک دن وہ قاتل سامنے ا جائے گا لڑکا بے چین ہوکر کہنے لگا حضرت میں تو اپ سے اس قاتل کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اخر وہ کون ہے اپ نے کہا ابھی وقت نہیں ایا اس کے بارے میں بتانے کا تو میں انتظار کرنا ہوگا بس توکل اور یقین کا دامن نہیں چھوڑنا ادب کی وجہ سے وہ کچھ کہہ نہیں سکتا تھا اللہ والے نے کہا بے فکر رہو... صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے اور ہاں تم لوگوں کی مشکل بھی آسان ہو جائے گی.. اللہ تمہیں کبھی کسی کا محتاج نہیں کرے گا .اپنی ماں سے کہو دعا کرے دعا میں بڑی طاقت ہوتی ہے..وہ خاموشی سے اپنے گھر اگیا....لیکن اللہ والے کی بات فورا سچ ہو گئی ان کے گھر غیب سے پیسے انے لگے کوئی دروازے پر پیسے کی تھیلی رکھ کر چلا جاتا وہ کون تھا نظر نہیں اتا تھا اس طرح تین سال بیت گئے وہ اس کی ماں بھی اب چپ چاپ ہو گئے تھے کہ لگتا ہے وہ قاتل کبھی پکڑا نہیں جائے گا سب اس قصے کو بھولنے لگے تھے لڑکا یہی سمجھا تھا کہ اللہ والے کو بھی شاید اب کچھ یاد نہیں.... ایک دن اللہ والے کی طرف سے اسے بلاوا ایا وہ بڑا حیران ہوا اتنے سالوں بعد اللہ والے نے مجھے کیسے یاد کیا وہ اپ کہ در پر پہنچا اور اس کی حضرت اپ نے مجھے کیسے یاد کیا وہ بھی اتنے سالوں بعد اللہ والے نے کہا ہاں اس شہر کے سب سے امیر تاجر نے ہمیں دعوت پر بلایا ہے سوچا تمہیں بھی اپنے ساتھ لے چلیں کیا تم ہمارے ساتھ چلو گے وہ کیسے منع کر سکتا تھا اللہ والے کے حکم پر وہ ان کے ساتھ اس دعوت میں پہنچا
وہ خاصا امیر کبیر شخص تھا، جس نے شہر کے بڑے بڑے لوگوں کو لایا تھا اور اللہ والے کی خاص دعوت تھی اس تقریب میں طرح طرح کے کھانے رکھے گئے تھے بہت تاجر اللہ والے کے پاس ایا اس نے کہا حضرت کہیے کیا کھانا پسند کریں گے اپ نے کہا یہاں کا سب سے بہترین شاندار کھانا کون سا ہے ہم وہی کھانا پسند کریں گے تو وہ ہنس کر کہنے لگا بھنے ہوئے کبوتر یہاں کا سب سے بہترین کھانا ہے اس نے اپنے نوکروں کو اشارہ کیا نوکر تھال اٹھا کر لائے اور وہ تھال اللہ والے کے سامنے رکھ دیا گیا اس تاجر نے اس بڑے طبق یعنی تھال سے ڈھکن اٹھایا تو سامنے دو بڑے کبوتر بھنے ہوئے پڑے تھے۔.. اللہ والے نے اس تاجر سے کہا تمہیں کچھ یاد ہے ان کبوتروں کو دیکھ کر کچھ یاد ایا
اس آدمی نے ایک لمبی سانس لی اور اس کی آنکھوں کے سامنے ایک درخت اس کے اوپر بیٹھے ہوئے کبوتر اور ایک مظلوم مقتول کی لاش گھوم گئی۔ اس کے کانوں میں مرنے والے تاجر کے الفاظ گونج رہے تھے: ”اے کبوترو! گواہ رہنا“
لیکن اس نے جھوٹ بولا کہ نہیں مجھے کیا یاد ائے گا اللہ والوں نے کہا اچھا تو تو وہ اپنے منہ سے سچ نہیں کہو گے وہ سچ جس کو تم اپنے سینے میں دبا کر بیٹھے ہوئے ہو ایک جرم کیا ہے تم نے اور اج اس جرم کا راز کھلنے کا وقت اگیا ہے اس نے کہا میں نے کچھ نہیں کیا ہے وہ لوگ جو اس کے دوست تھے انہوں نے کہا اے بزرگ تم کیوں ہمارے دوست پر لعن طعن کرتے ہو تم نہیں جانتے شہر کا سب سے امیر ادمی ہے یہ
ایک تو تمہیں اس نے یہاں پر بلایا ہے اوپر سے تم اس کی عزت کی دھجیا اڑا رہے ہو اللہ والے نے کہا اس کی عزت کی دھجیاں نہیں اڑا رہا ہوں بلکہ اس کے منہ سے سچ اگلوا رہا ہوں ٹھیک ہے اگر یہ نہیں کہے گا تو یہ کبوتر کہیں گے وہ مزاق اڑانے لگا اس نے کہا میں تم کو بڑا بزرگ مانتا رہا تمہیں تحفے بھجواتا کھانا بھجواتا اس کا تم نے یہ صلہ دیا اللہ والے نے کہا وہ جس کا حق تھا اسے ملا ہے تو بے شک جھوٹا مکار انسان ہے اپ سب شہر والوں کے سامنے تیری سچائی کھلنے والی ہے اس کے بعد اپ نے ان کبوتر کی طرف دیکھ کر کہا یہ مرے ہوئے کبوتروں یاد ہے نا کسی نے تمہیں اپنا گواہ بنایا تھا اس نیک انسان کے کہے ہوئے کو یاد کرو اور کہہ دو سب کے سامنے جو کچھ اس ظالم نے کیا ہے اللہ والے کے کہنے کی دیر تھی کہ وہ بھنے ہوئے کبوتر زندہ ہو گئے اور اپنے پر بڑھاتے ہوئے کہنے لگی ہم گواہی دیتے ہیں کہ اس قاتل نے اس مظلوم تاجر کو جان سے مارا وہ اپنی جان بخشنے کی بھیک مانگ رہا تھا لیکن اس نے اس پر رحم نہ کھایا اس کے پیسے تو لیے ہی لیکن اسے بے دردی سے ختم کر دیا تمام لوگ سانس روکے کبوتروں کی گواہی سن رہے تھے اللہ والے نے کہا اب تو کبوتروں نے گواہی دے دی ہے بتایا اس لڑکے کو تو نے کیا کیا اس کے باپ کے ساتھ اب وہ کہتے ہیں چھپا سکتا تھا اس بات کو.
اس نے کہا ہے لڑکے ہاں میں تمہارے باپ کو مارنے والا غدار ہوں میں تمہارے باپ کا دوست تھا اس کی دولت سے جلتا تھا اس کے پاس کبھی پیسوں کی کمی نہیں ہوتی تھی وہ سب کی مدد کیا کرتا لوگ اسے دعائیں دیا کرتے میں چاہتا تھا کہ کسی طرح اس کو برباد کر دوں ایک بار مجھے پتہ چلا کہ شام میں جانوروں کا بڑا سا میرا لگ رہا ہے اس کے پاس دنیا کے سب سے قیمتی اور مہنگے جانور تھے وہ ان جانوروں کو بیچنے کے لیے وہاں جا رہا تھا میں نے اسے مشورہ دیا تھا کہ اکیلے جانا لوگ بھروسے کے لائق نہیں ہیں وہ میری ہر بات مانتا تھا اس لیے اکیلا اس سفر پر نکلا اور اسے اس تجارت سے بہت فائدہ ہوا اور بدلے میں بہت سے درہم ملے... وہ نہیں جانتا تھا کہ میری نیت تو شروع سے ہی خراب تھی میں تو موقع کا انتظار کر رہا تھا اب جب وہ اکیلا واپس انے لگا تو راستے میں میں اس کے سامنے اگیا وہ تو مجھے اپنا دوست اپنا ہمراز اپنا ساتھ ہی سمجھ رہا تھا لیکن میں نے اس سے کہا میں تیرا دوست نہیں کب صحت اسداق میں ہوں کہ تیری دولت اسے چھینوں اس کے بعد میں نے پیسے اسے لیے اور اسے مار دیا کیونکہ اگر وہ زندہ بچ جاتا تو مجھے پکڑوا دیتا تبھی اس کی جان لے لی لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ اللہ تو سب دیکھ رہا ہے اس منظر کو ان دو کبوتروں نے دیکھ لیا تھا اللہ کی شان یہ دو کبوتر اج میرے ہی دسترخوان پر رکھے گئے وہ بھی پکے ہوئے انہوں نے اس تاجر کی بات کو ٹالا نہیں اور گواہی دے دی
لوگ حیران ہوکر اس کی داستان سن رہے تھے۔ جیسے ہی اس نے اپنے راز کو فاش کیا تو اسے احساس ہوا کہ میں نے یہ کیا غلطی کردی۔ برسوں سے جس واقعے کو لوگ بھول چکے تھے اس نے خود اس کا چرچا کردیا تھا۔ مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ اللہ پاک نے کہا ہے لڑکے تمہیں پتہ چل گیا کہ تمہارے باپ کو کس نے مارا جی ہاں حضرت دیکھ رہا ہوں تو اس کس طرح یاری میں غداری کرتے ہیں اللہ والے بولے تم جانتے ہو ان سالوں میں تمہارے گھر جو کھانا ا رہا تھا وہ اسی کے پاس سے بھیجا گیا تھا دراصل یہ مجھے ایک بڑا بزرگ مانگ کر میری عزت کرتا یہ سمجھ لو اپنے گناہوں پر پانی پھیرنے کے لیے مجھے چند نوالے کھلاکر خود کو ہر گناہ سے پاک کرنا چاہتا تھا میں جانتا تھا کہ اس کے پاس تمہارے باپ کا ہی پیسہ ہے اج جس پیسہ پر یہ عیش کر رہا ہے وہ سب تمہارے باپ کا دیا ہوا ہے ورنہ یہ کہاں اور اس کی اوقات کہاں
میں وہ کھانا تمہارے گھر بھجوادیتا کہ تم اور تمہارے گھر والے اس کے زیادہ مستحق اور حقدار تھے اور تمہارے گھر کے باہر جو درھم کی پہلے تمہیں ملتی تھی وہ بھی اس کی طرف سے بھیجی ہوئی ایک بھینٹ تھی جو مجھے ہدیہ کی جاتی تھی وہ بھی میں اپنے پاس نہیں رکھتا ویسے بھی ہم درویش ان چیزوں کے محتاج نہیں ہوتے یتیم کا حق کھا کر ہم اللہ کو ناراض نہیں کر سکتے تھے اور اس شخص نے یتیم کے مال کو کھایا اور اپنے پیٹ میں اگ بھری پر اب سب کے سامنے اس کی پول کھل گئی وہی لوگ جو اس کو دولت مند سمجھ کر اس کے اگے جھک رہے تھے اس پر تھوکنے لگے ... یتیم اور بیواکے مال کو کھا کر تم نے اپنے پیٹ میں سانپ بھرے ہیں ان کو یتیم کرنے والے تم ہی ہو وہی شان و شوکت سب خواب میں مل گئی ہے اللہ والے نے کہا اے شخص جو کچھ تمہارے پاس ہے اب اس لڑکے کے حوالے کرو اس نے پورے شہر والوں کے سامنے اپنا سارا سرمایہ یہ اس تاجر کی بدولت اسے ملا تھا اس لڑکے کے حوالے کر دیا
چند گھنٹوں میں پورے شام میں یہ واقعہ ہر شخص کی زبان پر تھا حاکم کو بھی اطلاع مل گئی۔ اس نے فوراً اس شخص کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ قاضی کو ثبوت مل چکا تھا مجرم سامنے تھا قاضی نے مجرم کو پھانسی کی سزا سنادی۔
اگلے روز صبح سویرے اس کی پھانسی کے منظر کو دیکھنے کیلئے بے شمار لوگ جمع تھے۔ جب اس کی گردن میں رسی ڈل دی گئی جلاد نے رسی کھینچ دی۔ لوگوں نے ایک مجرم کو کیفر کردار تک اس کے انجام تک پہنچتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور سکھ کا سانس لیااور پھر اچانک ہی تمام لوگ بے اختیار نعرہ تکبیر اور خدا تعالیٰ کی کبریائی کے کلمات بلند کرنے لگے۔ اس وقت لوگوں نے دو کبوتروں کو دیکھا، جو قاتل کے سر پر بغیر کسی حرکت کے بیٹھے تھے۔ جو کہہ رہے تھے یہ تاجر ہم نے گواہی دی اے تاجر ہم تمہارے گواہ ہیں دیکھو تمہارے مجرم کو اس کی سزا مل رہی ہے اللہ والے مسکرائے کہ انسان ایک دوسرے سب کو چھپا سکتا ہے لیکن اللہ سے کچھ چھپا نہیں رہ سکتا تمام لوگوں نے بیک آواز کہا: ہم نے گواہی دی، ان دونوں کبوتروں نے بھی گواہی دے دی۔
Comments
Post a Comment