All rights reserved. This story was originally published on https://best.92islamicquotes.com Reproduction or use without permission will be considered a copyright violation."
ایک اللہ والے سفر کا شوق رکھتے تھے پر یہ سفر وقت کو برباد کرنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس سفر میں کوئی نہ کوئی اہم مقصد چھپا ہوتا آپ جہاں سے گزرتے ہمیشہ لوگوں کی پریشانیاں دور کرتے جاتے ایک بار آپ اللہ کی راہ میں نکلے ہوئے تھے کہ راستے میں ایک گاٶں آیا جہاں آگ روشن تھی اور اس کا الاٶ آسمان سے باتیں کررہا تھا آپ گاٶں میں داخل ہوئے تو وہاں پر سناٹا تھا جیسے کوئی رہتا ہی نہ ہو پر آگ ضرور جل رہی تھی اپ کو ایک گھر دکھا جو کہ سب سے الگ تھلگ بنا ہوا تھا اپ اس گھر کے پاس جا کر دروازہ کھٹکھٹانے لگے دروازہ ایک آدمی نے کھولا جو درمیانی عمر کا تھا اس کے چہرے سے پریشانی ٹپک رہی تھی اپ مسکرائے اور کہا بیٹا کیا ہوا سب خیریت اس نے کچھ نہ کہا پھر تھوڑی دیر بعد بولا اپ یہاں کے نہیں لگتے ہیں کیا آپ کوئی مسافر ہیں اپ نے کہا ہاں مسافر ہوں تو کیا اپ کچھ کھانا پسند کریں گے نہایت ہی نرمی سے اس نےپوچھا اپ نے کہا بہت شکریہ اگر کچھ مل جائے تو بہت اچھی بات ہوگی اس نے کہا ائیے گھر کے اندر آجائیے اپ گھر کے اندر آگئے اس نے اپ کو کھانا دیا اپ نے کھانا کھایا اور اس کے چہرے کو بغور دیکھتے رہے وہ کچھ نہیں کہہ رہا تھا بس خاموش بیٹھا تھا جیسے اندر کچھ ختم ہو رہا ہو یا کوئی چیز اس کو پریشان کر رہی ہو اپ نے پھر سے سوال نہیں کیا کیونکہ زبرد برستی تو نہیں کر سکتے تھے کھانا کھانے کے بعد اپ نے کہا چلو بیٹا میں چلتا ہوں اس نے کہا اگر آئے ہیں تو ٹہر جائیے اسی وقت اندر سے اس ادمی کی بیوی کے چلانے کی اواز ائی وہ شاید کسی کو ڈانٹ رہی تھی وہ بھی شرمندہ ہوا اس نے اپ کی طرف دیکھا اپ نے کہا جس گھر میں خواتین ہیں اس گھر میں میرا رکنا مناسب نہیں پر رات ہے اگر اس پاس درخت ہے تو میں وہاں پر بیٹھنا پسند کروں گا اس نے کہا جیسا اپ بہتر سمجھیں میں اپ کے لیے جگہ صاف کر دیتا ہوں وہ رحم دل تھا بہت ہی خدمت گزار تھا اور لگ ہی رہا تھا کہ وہ اللہ والوں کی بہت عزت کرتا ہے وہ اللہ والے کو لے کر ایک گھنے پیڑ کے پاس ایا اور وہاں پر ایک جگہ صاف کر کے
پانی کا مٹکا رکھ دیا اور اپ کے لیے چٹائی بچھا کر کہا اپ یہاں پر ارام کیجیے کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دیجیے گا اپ نے اس کو بہت دعا دی اور کہا تمہارا شکریہ تم نے مجھ بھوکے کو کھانا کھلایا اللہ تعالی تمہاری تمام پریشانی دور کرے اگر کوئی بھی مشکل ہو تو مجھے ضرور بتانا پھر اللہ والے نے کہا بیٹا یہ اتنی بڑی اگ کیوں یہاں جل رہی ہے اس نے کہا اس نے کہا کیونکہ یہاں پر رہنے والے اس اگ کی پوجا کرتے ہیں سوائے میرے یعنی تو میں ایک مسلمان ہو اس نے کہا اللہ کا شکر ہے تو یہ لوگ تمہارے دشمن نہیں ہیں نہیں ہیں ان لوگوں نے اب تک مجھے تنگ تو نہیں کیا ہے پر وہ کہتے کہتے چپ ہو گیا اور اپنے گھر چلا گیا
وہ شخص جس نے اللہ والے کو اپنے گھر میں جگہ دی تھی گاؤں کا سب سے نیک دل اور مخلص انسان تھا۔ گاؤں کے ہر چھوٹے بڑے کی مدد کرتا اور لوگوں کی خوشی اور غم میں شریک ہوتا۔ اس کا نام رحمت علی تھا۔ رحمت علی کے بارے میں مشہور تھا کہ اگر کسی کے گھر میں مسئلہ ہو، کوئی تکلیف ہو، یا کسی کو مدد کی ضرورت ہو، تو وہ ہر حال میں وہاں پہنچتا اور جو بھی اس کے بس میں ہوتا، وہ کر دیتا۔ اس کے اخلاق اور حسنِ سلوک کی بدولت گاؤں کے لوگ اسے بہت عزت دیتے اور اس سے محبت کرتے تھے پر سب کچھ جیسے بد گیا تھا وہ نام و شہرت سب خاک میں مل گئی تھی جب سے اس کی بیٹی پیدا ہوئی تھی
رحمت علی کی ایک ہی اولاد تھی، ایک بیٹی جس کا نام مریم تھا۔ وہ نہایت ہی خوبصورت اور باحیا تھی، لیکن گاؤں کے لوگوں کی نظر میں اس کے نصیب اچھے نہیں سمجھے جاتے تھے۔ لوگ اس کے نصیب کو کھوٹا سمجھتے اور اکثر یہ کہتے کہ کوئی بھی اس سے شادی کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔ اس بدقسمتی کی وجہ سے رحمت علی اور اس کی بیٹی روتے رہتے تھے رحمت کی بیوی تو کسی غم میں چڑچڑی ہو گئی تھی اور اپنی بیٹی کو ڈانٹتی رہتی تبھی اس دن جب اللہ والے ان کے گھر ائے ہوئے تھے وہ اپنی بیٹی پر چلا رہی تھی کہ تیری بدقسمتی کی وجہ سے دیکھ تیرے باپ کو کیا دن دیکھنے پڑ رہے ہیں ماں کا چڑچڑا بند تھا یا
پھر مزاجی اللہ والے اس وقت تو بات نہیں سمجھ پائے تھے کہ وہ شخص اخر اداس کس بات پر ہےاور بیوی کو ایسا ظالمانہ سلوک کیوں ہے وہ بھی سگی بیٹی کے ساتھ اللہ والے اپنے عمل سے سب کچھ پتہ لگا سکتے تھے لیکن اپ چاہتے تھے کہ وہ خود اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرے اور اپ سے اپنی بات کہہ دے کیونکہ اسی وجہ سے رحمت علی کی پیشانی پر اکثر فکر کی لکیریں ابھر آتی تھیں۔
مریم اپنے والد کی طرح وہ بھی نہایت نرم مزاج اور خوش اخلاق تھی۔ وہ گاؤں کے لوگوں سے مسکرا کر بات کرتی اور ہر کسی کے کام آنے کی کوشش کرتی لیکن لوگ اس کے نصیب کے بارے میں عجیب و غریب باتیں کرتے اور اس کی قسمت کو خراب کہتے۔ گاؤں کے کئی لوگوں نے اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر پہلی بار پسند کیا، لیکن بعد میں کسی نہ کسی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے۔ گاؤں والے کہتے تھے یہ لڑکی جب سے پیدا وہی ہے ہمارے اس گاؤں میں صرف اور صرف بدحالی ائی ہے اور ہم خوشیوں سے دور ہو گئے ہیں کیونکہ جس دن مریم پیدا ہوئی تھی اس دن چاند پورے جو بن پر تھا چاند کی 14 تاریخ تھی وہ جس دن پیدا ہوئی اس رات ایک حادثہ ہوا تھا کہ غیر مسلم جس اگ کی پوجا کرتے تھے وہ اچانک بجھ گئی تھی اور پھر گاؤں میں ایک بہت بڑا سانپ گھس آیا تھا جو دو مونہا تھا جس نے بہت سے گھروں میں گھس ان کو ڈس لیا تھا اور موت کے گھاٹ اترا دیا تھا یعنی مریم کی پیدائش سے گاؤں میں دس لوگوں کی موت ہو گئی تھی اور اسی وجہ سے اس لڑکی کو منحوس سمجھتے تھے کہ اسی کی وجہ سے اس گاؤں پر آفت ائی ہے وہ گاؤں والے تو مریم کو جلا دینا چاہتے تھے لیکن اس کے باپ کی محبت کے اگے وہ کچھ نہ کر سکے باپ نے ننھی سی بچی کو سینے میں بھر لیا تھا اور کہا تھا کہ نہیں اس کی وجہ سے کچھ نہیں ہوا ہے یہ تو ہونا تھا کہ وہ سانپ خونی درندہ بن کر ہمارے گاؤں پر ٹوٹ پڑا اب اس میں میری بیٹی کا کیا قصور ہے کہ اس کے جنم والے دن ہی یہاں پر لوگ مارے گئے انہوں نے اس بات پر یقین نہیں کیا اور تہمت پرستی میں لگے یعنی وہ لوگ وہم کرنے لگے کہ یہ سب اس لڑکی کے قدم سے
ہے مریم چھوٹی تھی تو بہت خوبصورت تھی جب بڑی ہونے لگی تو اور زیادہ اس پر حسن اترنے لگا پر اس کے حسن میں داغ تھا یعنی اس کے چہرے کو دیکھتے ہی سب منہ پھیر لیا کرتے اور اس کو دیکھتے ہی اس پر تھوکنا شروع کر دیتے یہ تو باپ کی محبت تھی کہ وہ اپنی بیٹی کو اپنی چھاؤں میں رکھتا اور اس پر کوئی آنچ بھی آنے نہیں دیتا پھر اس کی بیوی ایک منافق عورت تھی یعنی دو منہ والی تھی اپنے شوہر کے ساتھ تو بنا کر رکھتی پر گاؤں والوں کے ساتھ مل کر اپنی بیٹی کو طعنے دیتی یہ کیسی ماں تھی کہ جس نے اپنی بیٹی کی پیدائش پر خوشی نہیں منائی بلکہ اس نے گاؤں والوں کے ساتھ مل کر اپنی بیٹی کو ہی برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور اس رات اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی تھی پھر سونے پر سہاگہ وہ حادثہ کہ جس میں گاؤں والوں کی موت ہو گئی اسے تو موقع مل گیا مریم اس بات پر سوچتی کہ چلو گاؤں والے تو میرے اپنے نہیں ہیں میرے اپنے مذہب کے بھی نہیں ہیں لیکن یہ تو میری سگی ماں ہے ایک ماں کیسے اپنی بیٹی کو کوس سکتی ہے اگر اس کا باپ نہ ہوتا تو مریم زندہ نہ بچتی. رحمت اپنی بیٹی کو دیکھ کر جیتا تھا اللہ جانے اس کے چہرے پر کیا معصومیت تھی کہ باپ اس سے کہتا تم بہت نیک ہو اور دیکھنا ایک دن تمہارے لیے مدد ضرور ائے گی کوئی نہ کوئی ایسا ائے گا جو تمہیں ان غموں سے بچائے گا اور تمہارے اوپر لگنے والے گھٹیا الزاموں کو ہٹا دے گا جو تہمت تم پر لگی ہے جو الزام تم کو دیا گیا ہے وہ سب ہٹ جائے گا تمہاری گواہی اللہ کا نیک بندہ دے گا تو دیکھنا سب کے منہ بند ہو جائے گی تو وہ کہتی لیکن یہاں پر تو کوئی بھی اللہ کو ماننے والا نہیں اپ واحد مسلمان ہیں ان گاؤں والوں نے اپ کو اس جگہ ٹکنے کیسے دیا ہوا ہے وہ کہتا دراصل ان گاؤں والوں کو اس بات سے غرض نہیں کہ میں مسلمان ہوں یا وہ غیر مسلم بس جب سے وہ بلا اس گاؤں پر ٹوٹی تب سے ہی یہ حالات ہو گئے ہیں
بیٹا ہم تو مل کر رہا کرتے تھے اور یہ لوگ میری بہت عزت کرتے تھے لیکن بس ان کی سوچ کا کیا کروں اب تم بڑی ہو گئی ہو اور مجھے
تمہارے لیے ایک اچھے رشتے کی ضرورت ہے پر کوئی بھی میرا ساتھ دینے والا نہیں وہ کہتی کوئی بات نہیں اپ جس اللہ پر یقین رکھتے ہیں وہی ہمارے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکالےگا.
اللہ والے اس درخت کے نیچے بیٹھے ہر چیز پر غور کر رہے تھے۔ ان کی آنکھیں تسبیح کے موتیوں کے ساتھ ساتھ آس پاس کے حالات کا بھی جائزہ لے رہی تھیں۔ وہ اس لڑکی کی زندگی اور اس پر ہونے والے ظلم و ستم کو دیکھ رہے تھے، لیکن وہ جانتے تھے کہ ان کا یہاں آنے کا مقصد کوئی معمولی بات نہیں تھی۔
ان کے استاد، ایک بڑے ولی اور بزرگ جنھوں نے انہیں اس گاؤں بھیجا تھا کہ وہ اس لڑکی کی فریاد کا جواب دیں۔ اللہ والے نے محسوس کیا کہ لڑکی کی ماں کا یہ سخت رویہ اس کی روح کو کس طرح زخمی کر رہا ہے۔ لیکن ان کا دل جانتا تھا کہ ایک آزمائش کے بغیر رہائی نہیں ملتی، اور اللہ کی طرف سے بھیجے گئے خاص لوگوں کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ دکھیاروں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی مصلحت کے تحت کام کرتے ہیں اور صحیح وقت کا انتظار کرتے ہیں اور جب تک کہ حکم خداوندی نہیں ہوتا کوئی بھی قدم نہیں اٹھاتے
وہ نیک شخص روز اللہ والے کے پاس کھانے لے کر آتا تھا اور اپ کا حال چال پوچھتا وہ کھانا بنانے والی اس کی اپنی بیٹی تھی کیونکہ اس کی بیوی نے صاف منع کر دیا کہ میں کسی بوڑھے کا خیال نہیں رکھوں گی نہ ہی کھانا بنا کر دوں گی ایک تو ویسے ہی بیٹے کے نہ ہونے سے میں بہت گہرے دکھ میں ہوں اوپر سے تم نے کسی کو مہمان بنا کر بٹھا لیا ہے اب تو اور تمہاری بیٹی ہی ان کی خدمت کرو ماں کی بے ادبی اور بدتمیزی کو دیکھ کر بیٹی باپ سے کہتی کہ کوئی بات نہیں میں اپ کا ساتھ دوں گی وہی والے کے لیے ان کی پسند کے کھانے بناتی اللہ والے جانتے تھے کہ وہ لڑکی کتنی اچھی ہے اور حالات کی ماری ہے لیکن ایک مسلمان باپ کی بیٹی ہے اسی وجہ سے باپ نے اس کی تربیت اچھے سے کی ہے یہ بہت سچ تھی کہ باپ ہمیشہ اس کو اسلام پر چلنے کی سیکھ دیتا مریم بہت عبادت گزار تھی اور اللہ والے کے انے کے بعد تو اور زیادہ
اس کے اندر روحانیت اگئی اسلام کی محبت اس کے اندر بڑھنے لگی اللہ والے کے اس گاؤں میں انے سے وہاں پر پہلے تو کسی نے کوئی سوال نہیں اٹھایا تھا لیکن جب اپ وہاں پر رہتے رہے اور رہتے اپ کو سات دن ہو گئے تو ایک ادمی نے اس نیک شخص سے کہا کہ یہ بوڑھا کون ہے جو درخت کے نیچے ڈیرہ جمع کر بیٹھا ہے کیا تمہارا کوئی رشتہ دار ہے اس نے کہا نہیں میرا کوئی رشتہ دار تو نہیں ہے لیکن ایک درویش ہیں اس نے کہا تو اس کا یہاں پر کیا کام ہے اس نے کہا ہمارے مہمان ہیں جتنا دل چاہے رہ سکتے ہیں کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں پہنچا رہے تکلیف نہیں پہنچا رہے لیکن کوئی اجنبی ہمارے گاؤں میں اگیا اور تم نے اسے انے بھی دیا دیکھو میرا کام ہے کسی کی خدمت کرنا کسی کی مدد کرنا لیکن میری وجہ سے کسی کے ساتھ برا نہیں ہونا چاہئے جو بھی تھا وہ کسی سے ڈرتا نہیں تھا اس لیے وہ غیر مسلم چپ تو ہو گیا پر وہ اپنے لوگوں کے پاس اکر سازش کرنے لگا کہ اس نے ایک بوڑھے کو اپنے پاس رکھ لیا ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ یہ بوڑھا کوئی جادوگر ہے کیونکہ یہ اپنے ہاتھ میں مالا لے کر جپتا رہتا ہے اور یہاں وہاں دیکھتا ہے یہ ہمارے اوپر کوئی بہت بڑی بلا لانا چاہتا ہے ادھر اللہ والے ان سب کے دماغوں کو پڑھ رہے تھے اس لیے اپ نے سوچا کہ آگے بڑھ کر کیسے اس ظلم کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ سے رہنمائی اور ہدایت مانگی کہ اس لڑکی کو اس عذاب سے نجات دلا سکیں۔
آپ نے محسوس کیا کہ گاؤں کے لوگ شاید اتنی آسانی سے ان کی بات نہ مانیں، کیونکہ ان کے دل میں نفرت اور غلط فہمیاں بھری ہوئی تھیں۔ مگر انہیں اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ تھا۔ انہوں نے سوچا کہ گاؤں والوں کے دلوں کو نرم کرنے کے لیے پہلا قدم اٹھایا جائے اور اس لڑکی کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ایک بات سوچی جائے
اب اللہ والے سمجھ چکے تھے انھیں کیا کرنا ہے ایک دن رحمت علی رو رہا تھا اور رب کے حضور دعا کررہا تھا کہ میری بیٹی کے لیے غیب سے اچھا رشتہ بھیج دے ان لوگوں کے تانے سن کر میں تنگ ا چکا ہوں جو چلتے پھرتے میری بیٹی کے انسوؤں میں اضافہ کر رہے ہیں ایک ماں ہے
جو کہ اس کے دکھ کو نہیں سمجھتی ہے کوئی تو ہوگا جو میری بیٹی کے دکھ کو کم کرے گا رات کا پہر تھا جب سارا گاٶں سورہا تھا سوائے ایک شخص کے وہ تھے اللہ والے
آپ بھی اپنے مالک و برتر ودود المجیب کی تعریف و حمد میں گم تھے کہ دروازہ کھلا اور علی باہر ایا اس نے اللہ والے کی طرف دیکھا اور اپ کے پاس آکر بلک بلک کے رونے لگا اس کے بتحاشہ ہونے پر اپ کا دل بھی گھبرا گیا اپ نے کہا کیا ہوا کیوں روتے ہو اس نے کہا میں اپنے کمرے میں سونے کے لیے جا رہا تھا تو میں نے اپنی بیٹی کی اواز سنی جو اللہ سے کر رہی تھی وہ کہہ رہی تھی یا اللہ مجھ میں کیا کمی ہے جو میری ماں مجھے پسند نہیں کرتی ہے میں بیٹی ہوں تو میرا کیا قصور ہے اللہ والے نے کہا ہاں تو بتاؤ کیا وجہ ہے کیوں تمہاری بیوی کا سلوک تمھاری بیٹی کے ساتھ اسقدر برا ہے وہ کچھ کہنا نہیں چاہتا تھا لیکن اپ نے زبردستی کی تو اس نے سب کچھ بتا دیا بجے کو سن کر اپ کے چہرے سے مسکراہٹ چلی گئی پھر خود کو سنبھال کر آپ نے فرمایا دیکھو تم ابھی اپنے دل کو تسلی دو جا کر سو جاؤ میں کل تمہیں کچھ بتاتا ہوں اور جو میں کہوں گا اس پر عمل کرنا اس نے کہا جی جو اپ کو حکم ہوگاوہی کروں گا کہ میں اپنی بیٹی کے انسو نہیں دیکھ سکتا میں بہت تڑپتا ہوں اس کے انسو کو دیکھ کر اس کا کوئی نہیں میرے سوا
اللہ والے نے علی کو تسلی دی اور کہا، "تم اپنی بیٹی کے لئے فکر نہ کرو۔ وہ اللہ کی امان میں ہے اور اللہ نے تمہاری دعا قبول کر لی ہے۔ لیکن یاد رکھو، ہر آزمائش کا حل صبر اور اللہ پر یقین میں ہے۔ اب تم وہی کرو گے جو میں کہوں گا، اور یقین رکھو کہ تمہاری بیٹی کا نصیب بہت روشن ہوگا۔"
علی نے اللہ والے کے حکم پر سر جھکا دیا اور کہا، "میں تیار ہوں، جو آپ کہیں گے وہی ہوگا۔"
اگلے دن، فجر کی نماز کے بعد اللہ والے نے علی کو بلایا اور کہا، آج اعلان کر دو کہ تم اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہتے ہو، اور دولہے کا نام اور اس
کی پہچان بعد میں بتادیا جائے گا۔ مجھے تو بتائیے اپ کس سے اس کی شادی کرنا چارہے ہیں اللہ والے نے اس کے کان میں جو بات کہی اس سے اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا یہ تو غضب ہو جائے گا میری بیٹی کی جان پر بن جائے گی اپ کیا چاہتے ہیں میری بیٹی بے موت ماری جائے اور کیا ہمارے مذہب میں یہ شادی ممکن ہے اپ نے کہا کسی کی جان بچانے کے لیے اور اس بستی سے عذاب ختم کرنے کے لیے شادی بہت ضروری ہے تمہاری بیٹی برکت والی ہے اور اسی کے نصیب سے جو داغ اس پر لگا ہوا ہے وہ ہٹ جائے گا
علی نے کہا، "لیکن لوگ سوال کریں گے۔ وہ پوچھیں گے کہ دولہا کون ہے؟ اور میری بیوی کیا کہے گی؟ وہ تو پہلے ہی میری بیٹی سے خوش نہیں۔
اللہ والے نے مسکرا کر کہا، "جو اللہ کی رضا کے لئے کام کرتے ہیں، انہیں دنیاوی باتوں کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری بیٹی خوش رہے اور اس کا نصیب اچھا ہو، تو یہ قدم اٹھانا ضروری ہے۔"
علی نے ہچکچاتے ہوئے کہا، "میں مانتا ہوں، لیکن میری بیٹی کی جان کو خطرہ تو نہیں ہوگا؟
اللہ والے نے مضبوط لہجے میں کہا، "تمہاری بیٹی کی حفاظت خود اللہ کرے گا۔ تم صرف یہ دیکھو کہ جو کہا جا رہا ہے، اسے پورا کرو۔"
علی نے اپنے دل کو مضبوط کیا اور کہا، "میں تیار ہوں۔ جو آپ کہیں گے، وہی ہوگا۔"
نماز کے بعد وہ باہر آیا جہاں پر سب آگے کے آگے جھکے ہوئے تھے جب وہ سب دعا مانگ چکے تو اس نے گاٶں والوں سے کہا اس گاٶں میں ہم سب لمبے عرصے سے ایک ساتھ ہیں معنی کہ ہمارے مذہب ایک نہیں لیکن ہمارے دل جڑے ہوئے ہیں اور یہ ہمارے بڑوں کی وجہ سے ہوا ہے ہمارے بڑے ایک ساتھ مل کر رہا کرتے تھے لیکن اب بات ہے میری بیٹی کی شادی کی تو میں نے اس کے لیے لڑکا پسند لیا ہے اپ سب بھی یہی چاہتے تھے کہ میری بیٹی کی شادی ہو جائے اس نے تنزیہ مسکراہٹ سے سب کو دیکھا کیونکہ وہ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر سوالیہ
نگاہوں سے اب اس کو دیکھ رہے تھے کہ ایسا کیسے ہو گیا اس بد نصیب لڑکی کو کس نے پسند کر لیا جو کہ کسی کی جان لے لیتی ہے وہ سب کچھ سمجھ رہا تھا کہ وہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں اس نے ان کی سوچ کو نظر انداز کرتے ہوئے اعلان کیا، "میں اپنی بیٹی کی شادی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ دولہے کا نام اور اس کی پہچان اسی وقت بتائی جائیگی اور یہ راز اسی وقت کھلے گا جب یہ اللہ والے ہمیں بتائیں گے
یہ سن کر وہاں موجود لوگوں کے چہرے حیرت اور شک سے بھر گئے۔ علی کی بیوی بھی یہ اعلان سن کر غصے سے بھڑک اٹھی۔ وہ فوراً علی کے پاس آئی اور چلاتے ہوئے کہا، "یہ کیا مذاق ہے؟ تم نے مجھ سے مشورہ تک نہیں کیا!"
اللہ والے نے نرمی سے اس کی طرف دیکھا اور کہا، "بیٹی، سکون رکھو۔ جو ہو رہا ہے، وہ تمہارے اور تمہاری بیٹی کے لئے بہتر ہے۔ تمہیں وقت کے ساتھ سب سمجھ آ جائے گا۔"
علی کی بیوی نے غصے سے کہا، "مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا، بس یہ سب روک دو!
اللہ والے نے مسکرا کر کہا، "جو اللہ چاہے گا، وہی ہوگا۔ تم دیکھنا، یہ فیصلہ تم سب کے لئے رحمت لے کر آئیگا اور تمہیں تو چاہتی ہو یہ لڑکی اس جگہوں سے نکل جائے تو تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ یہ اپنے شوہر کے ساتھ یہاں سے چلی جائے گی تم سب جشن منانا
بیوی نے کوئی جواب نہ دیا لیکن اس کے چہرے پر بے چینی اور غصہ صاف تھا جیسے جو ہورہا ہے وہ نہیں ہونا چاہئیے
اللہ والے کی طرف دیکھا۔ اللہ والے نے اطمینان سے کہا، "صبر کرو، علی۔ آج تم نے جو بیج بویا ہے، وہ کل ایک خوبصورت درخت کی شکل میں تمہارے سامنے آئے گا۔"
رات کو علی کی بیٹی اپنے کمرے میں بیٹھی دعا کر رہی تھی۔ وہ اپنے رب سے مخاطب ہو کر کہہ رہی تھی، "یا اللہ، میرا کوئی نہیں سوائے تیرے۔ میری دعا سن لے اور میرے دل کو سکون دے۔"
دلہن بنی لڑکی نے اللہ والے سے پوچھا، "لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ ایک انسان اور ایک سانپ کا نکاح؟"
اللہ والے نے مسکراتے ہوئے کہا، "اللہ کی مرضی کے آگے کوئی بھی چیز ناممکن نہیں۔ نکاح کا اصل مطلب دو روحوں کا ملاپ ہے، نہ کہ صرف جسمانی شکل و صورت۔"
اسی دوران، دو منہ والا سانپ آہستہ آہستہ لڑکی کے قریب آیا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ سانپ کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانے کی بجائے، انتہائی سکون اور احترام سے زمین پر لیٹ گیا، گویا وہ اپنا سر جھکا رہا ہو۔
لڑکی نے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے اللہ والے کی طرف دیکھا اور کہا، "اگر یہ واقعی اللہ کی مرضی ہے، تو میں اس پر راضی ہوں۔"
ادھر گاؤں والے جو ابھی چھپ کر بیٹھے ہوئے تھے وہ باہر ا گئے اور زور زور سے ہنسنے لگے کہا کہ دیکھو اس لڑکی کی شادی تو ویسے ہو ہی نہیں رہی تھی اس کے خراب نصیب کی وجہ سے کوئی انسان اس کا دلہا نہ بننا چاہتا تھا اس کی قسمت دیکھو اس کا شوہر کون بن رہا ہے ایک سانپ اب ماں جو پہلے چیخ رہی تھی اس نے کہا صحیح کہتے ہو تم لوگ اس کے باپ کا دماغ تو چل گیا ہے اس بڈھے کے ساتھ مل کر یہ اپنی بیٹی کو داٶ پر لگا رہا ہے مجھے کیا میں تو اس کو بچانا چاہتی تھی
اللہ نے کہا تمہاری ضرورت نہیں ہے جو اللہ کا فیصلہ ہے وہی ہوگا اس کے بعد اپ نے باپ کو اشارہ کیا اور وہ اپنی بیٹی کو اگے لے ایا
اللہ والے نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور نکاح کی رسم شروع کی۔ اور پھر پورے گاؤں نے دیکھا کہ دو منہ والے سانپ اور اس لڑکی کی شادی ہو گئی. سب ان دونوں کا مذاق اڑا رہے تھے کہ رحمت علی کی لڑکی دو منہ والے سانپ کی بیوی. اس سے عجیب اور انوکھی شادی تو کبھی نہیں دیکھی اللہ والوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور باپ سے کہا کہ بیٹی کو اندر لے جاؤ اب وہ سانپ اور وہ لڑکی گھر میں جا چکے تھے
وہ غیر مسلم آپس میں بات کرنے لگے کہ جو ہوا وہ اچھا ہی ہوا
کیونکہ ایک سانپ اور ایک انسان کا ملن اور ملاپ کیسے ہوگا وہ لڑکی ماری جائیگی اس باپ نے ہمارا کام آسان کردیا ورنہ اس لڑکی کا کیا کریں کہ یہ گاؤں سے دفع ہوجائے آج تو خونی رات ہے جشن مناٶ آگ جلائی گئی اور وہ سب اس کو پوجنے لگے اور پھر اس کے چاروں طرف گھومنے لگانا ساری رات ناچ گانا ہوا اللہ والے ان کو افسوس دیکھ رہے تھے کہ یہ کتنے گرے ہوئے ہیں اللہ ان کو سمجھ دے اپ تسبیح پڑھتے رہے اور وہ اپنی دنیا میں مگن صبح تک شراب چلتی رہی یہ سب تھک کر اپنے گھروں میں چلے گئے صبح سویرے اللہ والے مسکراتے ہوئے اٹھے اور رحمت علی کے گھر کا دروازہ بجایا وہ باہر ایا دکھ رہا تھا.وہ ساری رات نہیں سویا ہے سوجی ہوئی آنکھوں سے وہ آپ کی طرف دیکھنے لگا پر فکر تھی کہ کھائے جارہی تھی
اب اللہ والے نے کہا آٶ دلہن کے دروازے پر دستک دی تو مسکراتی دلہن نے دروازہ کھولا دو منہ والا سانپ اسکے پیچھے تھا لڑکی زندہ تھی یہ خبر گاؤں میں آگ کی طرح پھیل گئی جب کے رات کے نشے میں وہ چور تھے پر اس منحوس لڑکی کی خوشی اور زندگی دیکھ کر کھوج تھی اللہ والے نے دونوں کو باہر بلایا اس کی ماں نے پوچھا یہ ایک سانپ کے ساتھ رات گزار کر آئی ہے سانپ نے اس کو ڈسا ہی نہیں کا وجہ ہے اللہ والے نے اس سانپ سے کہا تم کہوگے آخر اصل کہانی کیا ہے سانپ کے ایک منہ نے بولنا شروع کیا میں
ایک جادوگر کے قبضہ میں پھنسا ہوا تھا جو وہ چاہتا تھا میں کردیتا تھا
جس اماوس کی رات یہ لڑکی پیدا ہوئی مجھے حکم ملا کس گاؤں میں اؤں اور دس لوگوں کو میں ڈس لوں تو اس سے کہنے پر میں نے یہ کام کر لیا پر پھر ان اللہ والے تک دکھی باپ اور بیٹی کے ساتھ ہونے والے جرم پہنچا ان کے استاد نے ان کو کہا کہ اس گاؤں میں اؤں لیکن اس سے پہلے انہوں نے کہا کہ اس جادوگر کے چنگل سے مجھے نکالا جائے کیونکہ میں تو پس رہا تھا اور جو وہ کہتا تھامیں کرتا رہتا تھا اس کی
وجہ سے میں نے کتنے معصوموں کی جان لی ہے پھر اللہ والے نے اپنی طاقت سے اس جادوگر کو ہرا دیا اور مجھے اس کے قبضے سے رہائی دلائی مجھے مسلمان کیا اور اب میں ان اللہ والے کا غلام ہوگیا ایک دن انھوں نے کہا اس نیک لڑکی سے شادی کرنی ہے تو میں اس پر بھی راضی ہو گیا یہ خوب جانتے ہیں جو انھوں نے کیا
بس اتنی بات دلہن کی ماں کو یقین نہ آیا
اللہ والے نے کہا نہیں بات اتنی سی نہیں ہے
بات یہ ہے کہ تو ایک مسلمان کی بیوی ہے پر مسلمان نہیں سچ اگل کہ تو نے بیٹے کی چاہت میں اپنی بیٹی تو کتنی بار مروانا چاہے ہاتھ پر اللہ کی قدرت کی میں یہ نہیں کیونکہ اس کا باپ مسلمان ہے اور اللہ کا نیک
بندہ ہے تو اپنے باپ کے کہنے پر اس شخص سے شادی کی کیونکہ اس نے تیرے مرتے باپ کی بہت خدمت کی تھی تو تیرا باپ اس کے اچھے رویے سے خوش ہوکر خاموشی سے مسلمان ہوگیا کیونکہ سب اس کی جان کے دشمن بن جاتے اس نے یہ بات کسی کو نہ بتائی پھر اس نے اس کی شادی تجھ سے کر دی یہ کہہ کر کہ میں مر گیا تو میری بیٹی کو تم سنبھالنا تو نے منہ پر تو کلمہ پڑھا تھا پر تو مسلمان نہیں ہوئی تھی تونے کبھی اس رشتے کو نہ اپنایا اپنے شوہر سے بدلہ لینے کے لیے تو نے اس لڑکی پر جادو کے پہرے بٹھا دیے تاکہ اس کی شادی کسی سے نہ ہو کیونکہ تجھے اپن شوہرسے نفرت تھی اور بیٹے کی جگہ جب بیوٹی پیدا ہوں گی تو اور تیری نفرت بھڑک گئی تبھی تو نے اسی چاند کی چودہ تاریخ کو جادوگر سے کہہ کر اس سانپ کو اس گاٶں میں بلوایا کہ وہ ان گاون کے دس لوگوں کو ماردے پھر تو نے یہ بات مشہور کر دی کہ اس لڑکی کی پیدائش پر ہی سب کی موت ہوئی ہے اور سب نے اس کو منحوس سمجھنا شروع کر دیا تیرا مقصد صرف اپنے مسلمان شوہر کی بربادی تھا سچ ہے نا سب اس کو دیکھ کر کہنے لگے کہ کیا یہ صحیح کہہ رہے ہیں
اب اس کا راز کھل چکا تھا اس نے ہاں میں سر ہلایا کے دیکھو تمہارے اپنے ہی مذہب کی عورت نے تم سب کی جان لی اور اپنی معصوم بچی پر سارا الزام لگوا دیا دشمن تمھارا اپنا ہی تھا اور تم ایک مسلمان کی بیٹی کو وجہ سمجھنے لگے کسی کی موت کی
ایک آدمی جو اب بھی اللہ کے ولی کی باتوں سے متاثر نہیں ہوا تھا، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ آگ کی طاقت کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔ وہ آگ کے پاس گیا اور بولا، "یہ طاقتور آگ سب کچھ جلا کر بھسم کر دے گی، تم اس کو کچھ نہ کہو، یہ کسی کے قابو میں نہیں آتی۔" جیسے ہی اس نے یہ بات کہی، آگ میں اور زیادہ شدت آ گئی۔ شعلے اس قدر بلند ہو گئے کہ آسمان تک پہنچنے لگے۔ آگ کی لپیٹ اتنی تیز تھی کہ زمین دہک اُٹھی۔
سب لوگ خوف کے مارے لرزنے لگے۔ وہ جو اللہ کے راستے پر چل رہے تھے، ان کے دل میں اللہ کا خوف تھا اور وہ اس منظر سے بے خوف نظر آ رہے تھے، لیکن باقی سب لوگ اس آگ کے بڑھتے ہوئے شعلوں سے ڈر گئے۔ انہیں خوف تھا کہ شاید ان کا معبود (آگ) برا مان گیا ہو اور اب وہ اس سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ وہ سب ہاتھ جوڑ کر آگ سے معافی مانگنے لگے، لیکن آگ کی شدت کم ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔
اس دوران اللہ کے ولی نے اپنے چہرے پر سکون کی ایک خاص چمک کے ساتھ آگ کو دیکھا اور پھر بلند آواز میں کہا، "اے اللہ کی غلام! کس بات کی اکڑ؟ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہیں آگ کے ذریعے خدا بن جانا ہے؟" اللہ والے کی یہ بات سن کر لوگوں کو ایک لمحے کے لیے ٹھہر کر سوچنے کا موقع ملا۔ اس کی بات میں ایسی طاقت تھی کہ جیسے اللہ کی رضا اور رحمت کے سوا کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتا۔
اللہ کے ولی کی آواز میں اتنی برکت اور سکون تھا کہ جیسے ہی اس نے
یہ الفاظ کہے، آگ کی شدت میں کمی آنے لگی۔ شعلے آہستہ آہستہ کم ہو گئے اور وہ انسان جو آگ کے سامنے اپنی طاقت کا دعویٰ کر رہا تھا، وہ لرز کر پیچھے ہٹنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں اب خوف تھا، کیونکہ اسے اب حقیقت کا اندازہ ہو چکا تھا کہ اس کی طاقت اور دعویٰ کسی بھی قدرتی قوت کے سامنے بے بس ہے۔ سر جھکائے وہ سب کھڑے تھے آپ نے دیکھا اور کہا
اللہ کے حکم سے سب کام ہوتے ہیں آگ یہ پانی ہمارے خدا نہیں جس کے آگے جھک کر تم دعائیں مانگتے ہو آسمان تک بھی اس کے شعلے پہنچ جائے تب بھی یہ تمھارا بھلا نہیں کرسکتی اس گاٶں میں آنے والی بدحالی بھی تمھاری اپنے ہی عورت کی وجہ سے ہے صرف ایک مسلمان شوہر کو نیچا دکھانے کے لیے ان لوگوں نے کہا پر اس مسلمان لڑکی کی اسی دو منہ والے سانپ سے شادی کیوں کروائی تاکہ جادوگر نے جو اس لڑکی پر جادو کیا ہوا تھا وہ جادو کٹ گیا اور اب یہ سانپ اس کا شوہر ہے تو جادو ختم ہو چکا ہے
اللہ والے نے کہا، یہ دو منہ والا سانپ جو تمہارے گاؤں کے لوگوں کو ان کے اعمال کی سزا دینے آیا تھا، لیکن آج یہ تمہارے لیے ایک انعام ہے۔ اس کے دو منہ دراصل دو الگ سچائیوں کی نشانی ہیں: ایک وہ جو دنیا دیکھتی ہے، اور دوسری وہ جو اللہ کی نظر میں ہے۔"
کیا یہ اس جانور کے ساتھ زندگی گزارے گی ایک شخص بولا
نہیں بلکل نہیں تو
پھر آپ مسکرائے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھادئیے کہ اے سانپ اللہ کے حکم سے انسان بن جا سب کی آنکھی چکاچوند ہوگئی جب وہ ایک خوبصورت سے نوجوان میں بدل گیا ، پورے گاؤں میں حیرانی کا ایک سمندر چھا گیا۔ لوگ حیران تھے کہ کیسے ایک سانپ انسان بن گیا۔ نوجوان نے سر جھکایا اور اللہ والے سے کہا، "میں آپ کا اور اللہ کا شکر گزار ہوں۔ مجھے جادوگر کی قید سے رہائی مل گئی ہے، اور اب میں آزاد ہوں۔"
اللہ والے نے اس لڑکی کی طرف دیکھا اور کہا، دیکھا صبر کا انجام تم نے دعا مانگی اللہ نے تمھارا من پسند شوہر تمھیں دے دیا میرا مالک کسی کو ناامید نہیں کرتا اور جو اس کی مرضی پر زندگی گزارتے ہیں ان کو تو وہ ایسا انعام دیتا ہے کہ دنیا دیکھتی ہے یہ سب تمہیں منحوس کہتے تھے یہ سب تمہیں دھتکارتے تھے تمہیں طانہ مارتے تھے تمہارے پیدا ہونے پر اج تمہاری ہی وجہ سے ان سب کی زندگی بدل گئی اس گاؤں میں خوشحالی اگئی یہ سانپ جو سب کی موت بن کر ایا تھا اج تمہارا شوہر ہے بس دکھ اس بات کا ہے کہ اس نامراد عورت کے حسد کی وجہ سے سب کچھ برباد ہوا اس نے اپنے ہی لوگوں کی جان لے لی معصوم لوگ مارے گئے پر تمھیں دعا ہے اب تمہاری زندگی میں سے جادو کا سایہ ختم ہو چکا ہے۔ یہ نوجوان اب تمہارا شریکِ حیات ہے، اور اب تم دونوں اپنے رب کے حکم کے مطابق زندگی گزارو گے۔" لڑکی اور نوجوان کی آنکھوں میں امید کی کرنیں نظر آئیں۔ دونوں نے دل سے دعا کی کہ اللہ انہیں ایمان اور اخلاص کی زندگی عطا کرے۔
گاؤں کے لوگ جو ابھی تک اندھی عقیدت اور ریتی رواج میں پھنسے ہوئے تھے، وہم کی زندگی کا خاتمہ ہوگیا ان سب نے اس عورت کو برا بھلا کہا کہ تونے مسلمان سے بدلے کے لیے اپنے لوگوں کی جان کا سودا کردیا کون ماں اپنی اولاد سے نفرت کرتی ہے ہم تو ملکر رہتے تھے پر تیرے بوئے ہوئے نفرت کے بیچ کی وجہ سے تو دیکھ اس مسلمان پر ہم نے کتنا ظلم کیا اور یہ لڑکی ہماری لفظوں کے تیر کھاتی رہی تو نے لاکھ چاہا کہ اس گاؤں میں اسلام کی روشنی نہ پھیلے اس کوشش میں تو نے جان لگادی پر دیکھ ان اللہ والے کی وجہ سے اج ہمارے گاؤں میں خوشی ہی خوشی ہے جس لڑکی کو اپنی بربادی کی وجہ سمجھ رہے تھے وہی ہمارے لیے سکون کی وجہ بن گئی ہے اسلام اتنا پیارا مذہب ہے ہم تو جانتے ہی نہیں تھے کے بدلے کی طاقت ہو کر بھی انہوں نے ہم سے بدلہ نہیں لیا یہ چاہتے ہیں تو یہ سانپ ہمیں ڈس لیتا ہمیں کھا جاتا پر نہیں انہوں نے سانپ کو ہمارے لیے سچ میں رحمت بنا دیا اور جس اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور یہ سب اسی کی وجہ سے ہوا ہے ہم نے وہ
طاقت بھی دیکھی اب ہمیں اور ثبوت نہیں چاہیے
تم نکلو گاؤں سے تمہاری وجہ سے کتنا شر پھیلا ہے تمہاری برائی نے سب کچھ برباد کیا ہے تم بہت خود غرض ہو تم جادوگرنی ہو وہ چلانے لگی نہیں ہوں میں جادوگرنی جو کیا تم سب کی محبت میں کیا تمہارے اپنے ہی مذہب کی ہوں میں اور یہ مسلمان تم سب کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتا تھا تم سب اس کی محبت پر فدا تھے یہاں تک کہ میرا باپ بھی اس کے گن گاتا تھا مجھے بالکل پسند نہیں تھا پھر میں نے مرتے ہوئے اپ نے جب اس سے کہا کہ اس کی شادی مجھ سے ہوگی تو میں نے سوچ لیا کہ ہاں شادی تو کروں گی لیکن اس کو تباہ کردونگی اور اس سے ہی ایک بیٹا پیدا کرکے اس بیٹے کو غیرمسلم بناٶنگی اسی کام کے لیے جادوگر سے ملی اس سے کہا مجھے بیٹا ہی چاہیے اس نے کہا بیٹا ہی ہوگا لیکن اگر بیٹا نہ ہوا اور بیٹی ہوئی تو پھر کیا ہوگا اس نے کہا اس کے لیے پھر تمہارے گاؤں والوں قربانی دینی پڑی گی اگر بیٹی ہوئی تو تمہارے 10 لوگ مارے جائیں گے مجھے کچھ سمجھ نہیں ارہا تھا مجھے کسی بھی حال میں بیٹا چاہیے تھا میں اپنے شوہر سے بدلہ لینا چاہتی تھی اور اس لیے میں نے ہاں کر دی جب میری بیٹی ہوئی تو جادوگر کا بولا ہوا ہر لفظ سچا ہوا اور یہ وہ دو محاسب یہاں اگیا اور اس نے میرے ہی لوگوں کی جان لے لی تم نہیں جانتے مجھے کتنا دکھ ہوا تھا میں نے جو کیا تم سب کے لیے کیا تبھی میں اس لڑکی کو کوستی رہتی تھی کہ اس کی وجہ سے میرے لوگوں کی جان گئی یہ میں نے جادوگر سے کہا کہ اس پر ایسا جادو کرو کہ اس کو کوئی بھی قبول نہ کرے اور یہ رسوا ہو جائے اور کچھ بھی ایسا ہو جائے کہ یہ باپ اور بیٹی ہمیشہ کے لیے یہاں سے چلے جائیں پر تم اے اللہ والے یہاں اگئے اور ان کی جان بچا لی ان لوگوں نے کہا تجھے شرم نہیں اتی ہمارے بڑوں نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی تھی وہ مسلمان ہو یا کوئی اور مذہب کے کسی بھی مذہب کو برا نہیں کہتے تھے پر ہمیں کبھی یہ نہیں بتایا کہ یہ اگ ہمیں کچھ نہیں دے سکتی
جس کے بجھنےپر ہم کیسے نابینا تھے یہ بھی نہ سمجھے کہ جو بجھ جائے کیا وہ ہمارا خدا ہے اللہ والے چلتے ہوئے آئے اور کہا ی آگ کسی کے نفع نقصان کی ذمہ دار نہیں جو ہوتا سب اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے یہ بھی اس کا حکم مانتی ہے تو جلتی ہے اللہ کو تو بےجان شے بھی مانتی ہے یہ تو بس انسان ہی ایک مطلب پرست مخلوق ہے جو رب کا کہا جھٹلاتی ہے اور اپنی اسی اکڑ میں انسان بہت کچھ کھو دیتا ہے پر ہر انسان الگ ہوتا ہے ہر کوئی اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے جس طرح وہ سانپ جو ایک بے دین جادوگر کےجال میں پھنسا تھا اس انسان نے اس سے کتنے غلط کام کروائے اور وہ مجبور ہوکر کرتا چلاگیا کیونکہ وہ ایک خبیث انسان تھا اور جب یہ ہمارے پاس ایا تو ہم نے اس سے اچھا کام کروایا اس میں ہماری کوئ اچھی بات نہیں بس اس رب کی عطا سے ہم نے ایک نیک کام کیا کیونکہ ہم صڑرف اس اللہ سے ڈرتے ہیں تو جو اللہ سے ڈریگا اور اس سے محبت کریگا وہ کبھی برائی کا راستہ نہیں چنے گا وہ ہمیشہ سچ کا ساتھ دے گا حق پر چلے گا جانتے ہو وہم تو ایسا کام کہ کیا کہوں کسی چیز سے بدشگونی لینا کسی کے مرنے جینے سے سمجھنا کہ جو ہوا ہے اسی انسان کی وجہ سے ہوا ہے اسی غلط فہمی میں تم لوگوں نے کتنے سال گزار دیے اور اس معصوم لڑکی نے تم لوگوں کے عتاب کو اور تمہارے کڑوے رویے کو برداشت کیا یہ تو اس کا صبر تھا اور اس کے باپ کا نیک عمل تھا کہ یہ لوگ سب کچھ سہتے رہے اور اللہ سے دعا مانگتے رہے یہ سب راستے اللہ نے ہی نکالے ہیں آپ ٹھیک کہتے ہیں
ہم اگر مسلمان ہو جاتے اوراللہ کو اپنا معبود مانتے تو اج یہ عورت یہ سب کھیل نہیں کھیل سکتی تھی وہ سب شرمندگی سے سر جھکائے کھڑے تھے اور وہ عورت جو ان کی باتیں سن رہی تھی اب اسکی طرف غصے سے دیکھنے لگے اس کا ہاتھ پکڑ کر دھکا مارا چل نکل یہاں سے سب گاٶں لوگ اس کو دھکے مارنے لگے کہ اس کی اپنی ہی بیٹی جو اپنے ماں کے ظلم کا نشانہ بنتی رہی اس نے کہا رک جائیے ایسا مت
کیجئے میری ماں کو یہاں سے نہیں نکالیے یہ جیسی بھی ہے میری ماں ہے شوہر نے بھی کہا نہیں اس کو نہیں نکالیے مجھےاس سے کوئی شکایت نہیں اگر اپ لوگ اس کو یہاں سے ہمارے لیے باہر کررہے ہیں تو ایسا نہ کریں اس عورت نے تمہارا جینا حرام کیا تمہاری بیٹی کو اس نے خون کے انسو رلایا تم پھر بھی اسے معاف کرتے ہو ہاں کیونکہ ہمارے دین میں کبھی برائی کا جواب برائی سے نہیں دیا جاتا جو کسی سامنے والے نے کیا ہے وہ اس کا عمل ہے ہم کیا کریں گے یہ ہمارا معاملہ ہے اللہ والے نے کہا دیکھو یہ ہے ہمارا دین اگر کوئی دین کے سچے راستے پر چلتا ہے تو وہ ہرگز کسی کو پلٹ کر جواب نہیں دے گا پھر اس نے کہا کہ یہ میری بیوی ہے اور میری عزت سے میں نے دل سے اس کو اپنایا ہے اچھی ہے یا بری میری ہے اس لیے میری بیوی کو میں اس گاؤں سے نکلنے نہیں دوں گا ان لوگوں نے کہا اگر تمہارے دل میں اس کے لیے کوئی برائی نہیں ہے تو ہم نے بھی اسے معاف کیا پھر وہ لوگ اللہ والے کے پاس ائے اور بہت ہی عاجزی سے ادب سے کہا
بس ہم سب کلمہ پڑھنا چاہتے ہیں اللہ والوں نے ان سب کی خواہش کا احترام کیا اور ان سب کو کلمہ پڑھا دیا وہ عورت جو دور کھڑی تھی
اللہ والے نے کہا تم بھی اب دل سے کلمہ پڑھ لو ایک نیک مسلمان کی بیوی ہو اس بات پر فخر کرو حسد بھری چالوں سے کچھ نہیں ہوتا جو ہوتا ہے اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے اللہ والے نے انہیں دین کی طرف رہنمائی دی اور انہیں بتایا کہ "اسلام کا پیغام محبت، امن اور نجات کا پیغام ہے۔ جو اس پر سچے دل سے ایمان لاتا ہے، اس کی زندگی میں نور پیدا ہوتا ہے۔"
اس کے بعد گاؤں کے لوگ، جو پہلے سانپ کے ڈر سے زندگی گزار رہے تھے،اور وہم میں گھر کر کسی دن یا انسان سے بدشگونی کو جوڑتے تھے اب ایک نئی روشنی ان کی زندگی میں آگئی انہوں نے اللہ کو مانا وہم کو چھوڑ دیا آگ جلائی گئی لیکن اس کی عبادت کے لیے نہیں بلکہ سردیوں میں ٹھنڈ سے بچنے کے لیے اور اس کا شوہر سب کو اسلام کی تعلیم
دینے لگے ماں کبھی جو اپنی بیٹی سے نفرت کرتی تھی اس کی نفرت محبت میں بدل گئی کیونکہ اللہ تعالی نے اس کے دل کو نور سے بھر دیا تھا اب وہ اپنے شوہر کی تابعدار اور فرمانبردار ہوئی اب سب لوگ پھر سے مل کر رہنے لگے لیکن اب ان کا مذہب ایک ہی تھا دین اسلام اللہ والے نے ان سب کو دعا دی اور اپنی نئی منزل کی طرف بڑھ گئے
Author Name: Rabia Naz Saeedi
Publish Date : 18 August 2024
Comments
Post a Comment