All rights reserved. This story was originally published on https://best.92islamicquotes.com Reproduction or use without permission will be considered a copyright violation."
کہا جاتا ہے کسی جگہ ایک مداری تھا جس کے پاس بندر اور بندریا کی ایک جوڑی تھی اس بندر اور بندریا کو اس نے وہ کرتب سکھائے تھے کہ وہ جہاں جاتے لوگ جمع ہو جاتے اور بندر اور بندریا کا کھیل دیکھتے سب سے بڑی حیرانی کی بات یہ تھی کہ ان بندر اور بندریا کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا تھا مداری انہیں جہاں جہاں لے کر جاتا ان کا کھیل تماشا دیکھنے کے لیے بڑی سی بھیڑ لگ جاتی اور لوگ اس پاس سے بیگانے ہو کر ان دونوں کا کھیل دیکھتے ہیں اس طرح مداری کی اچھی امدنی ہو جاتی کیونکہ بندر اور بندر کا کھیل تماشہ دیکھ کر لوگ ان کو ہاتھوں ہاتھ لیتے اور ان پر پیسے لٹاتے اور پھر بھی مداری سوچتا کہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں اتے ہیں کہ جس سے اچھی گزر بسر ہو سکے لگتا ہے مجھے اور زیادہ محنت کرنی پڑے گی اور اپنے بندر اور بندریا کو بہت سے الگ کرتب سکھانے پڑیں گے ان چند سکوں سے میرا تو کچھ نہیں ہونے والا آدمی کا پیٹ تو کبھی بھرتا نہیں ناشکری اور زیادہ پانے کی لالچ چاہت ہم سے کبھی کبھی بہت برے کام بھی کروا لیتی ہے سیدھا سچا راستہ ہی انسان کو سکون دیتا ہے وہ مداری طرح طرح کی باتیں سوچنے لگا کہ ایسا کیا کرے کہ جس سے اس کے پاس بہت سی دولت ہو اور وہ ارام سے بیٹھ کر کھائے اس کہ بندر بندریا بہت محنت کرتے تھے اور جان لگا کر اس کا ساتھ دیتے لوگ ان سے بہت خوش بھی ہوتے تھے لیکن وہ قیمت اس کو اب تک نہیں ملی تھی جس کی وہ خواہش رکھتا تھا ایک بار وہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں گیا اور وہاں پر بندروں کا ناچ دکھانے لگا وہ ڈگڈگی بجاکر لوگوں کو بلا رہا تھا اؤ میرے
بندروں کا کھیل دیکھ لو ایسا کھیل تم نے اب تک نہیں دیکھا ہوگا اس پاس کے لوگ وہاں اکر بندروں کی حرکتوں کو دیکھنے لگے نت نئے انداز میں بندر اور بندریا اچھل کود کر رہے تھے اس کے بعد مداری نے بندر کو اشارہ کیا اور بندر ان کے سامنے ہاتھ پھیلا کر کھڑا ہو گیا کہ پیسے دے دیے جائے پر سب کے ہاتھ خالی تھے ایک کوڑی تک نہیں تھی بندر اداس مالک کے پاس اگیا وہ مداری کسی سے کیا کہتا یہ روز کی ہی بات
تھی کبھی پیسے مل جاتے کبھی نہیں کبھی زیادہ کبھی کم پر آج تو کسی نے ایک پیسہ نہ دیا صرف تعریفوں سے پیٹ تھوڑی بھرتا ہے مداری ان سے کیا شکوے کرتا وہ خالی گٹھری تھامے گاٶں سے باہر نکل گیا اس کا دل اج بہت بجھا ہوا تھا کوئی کمائی نہیں ہوئی تھی اس کے دل نے کہا ایسا کب تک چلے گا کوئی نہ کوئی بڑا ہات تو مارنا ہی پڑے گا مداری نے سوچا کہ وہ ایک ایسے گاؤں کا رخ کرے جہاں لوگوں کے پاس بہت دولت ہو۔ کچھ دن کی تلاش کے بعد، اسے ایک گاؤں کا پتہ چلا جہاں ہر طرف سونے چاندی کی دکانیں تھیں، اور لوگوں کے لباس اور انداز سے ان کی امیری صاف جھلکتی تھی۔ مداری اب جلد از جلد اس گاؤں میں پہنچنا چاہتا تھا اس نے اپنا سامان لیا اپنے بندر اور بندریا کے ساتھ اس گاؤں کی طرف نکل کھڑا ہوا وہ گاؤں بہت دور تھا اور وہاں تک پہنچنے میں اس کو بہت دل لگ جاتے اس لیے وہ تیز تیز قدم اٹھاتا آگے بڑھتا جا رہا تھا بندر اور بندریا بھی اچھل کود کرتے ہوئے کبھی اس کے کندھے پر چڑھتے کبھی اس کے ساتھ ساتھ سفر کر رہے تھے کہ ان کا گزر ایک جنگل سے ہوا مداری نے اپنے بندر سے کہا کچھ دیر کے لیے یہاں پر ارام کر لیتے ہیں کافی تھک گئے ہیں میں تھوڑا سا سستالوں تم لوگ کوئی شرارت نہیں کرنا یہ بول کر اس نے ایک درخت سے ٹیک لگا دیا اور انکھ بند کر لی تھوڑی دیر میں ہی اس کی انکھ لگ گئی تو بندر اور بندریا کو بھوک لگنے لگی اور وہ بے چینی سے ادھر سے ادھر کودنے لگے کوئی ایسا درخت بھی وہاں نہیں تھا جس پر پھل لگاہوتا بھوک سے پیٹ سے آوازیں آنے لگی کہ وہیں سے ایک اللہ والے کا گزر ہوا وہ درویشانہ لباس پہنے ہوئے تھے بندروں نے انھیں راہگیر سمجھا اور ان کی طرف لپکے پھر رک گئے غور سے دیکھنے لگے اور احتراما وہیں کھڑے ہوگئے اللہ والے کی شان میں گستاخی تو کوئی جانور بھی نہیں کرتا یہ تو ہم انسان بےادب ہوتے ہیں خیر اللہ والے کے پاس کچھ کھانے کا سامان تھا انہوں نے بندر اور بندر کو اشارہ کیا تو وہ کودتے ہوئے ان کے پاس اگئے
اللہ والے نے اپنے ہاتھوں سے ان کو کھانا کھلایا وہ دونوں شکر گزار نظروں سے اللہ والے کو دیکھنے لگے اللہ والے ایک بہت ضروری کام سے سفر کر رہے تھے اس لیے وہ وہاں پر ٹھہر نہیں سکتے تھے اپ نے ان دونوں بندوں کے سر پر ہاتھ پھیرا اور وہاں سے چل دیے مالک کو اب تک خبر نہیں تھی کہ وہاں پر ایک درویش اکر چلے بھی گئے ہیں اور بندر اپنی زبان سے کیا بتاتے مداری جب جاگا تو بندر اس کے پاس بڑے ارام سے سو رہے تھے وہ مسکرایا اس کے اٹھنے پر بندر بھی جاگ گئے وہ بولا تم کو بھوک لگی ہوگی پر میں کھانا کہا سے لاٶں بندر نا میں سر ہلانے لگے کہ ہمارا پیٹ بھرا ہوا ہے اور روٹی کا ایک ٹکڑا اس مداری کو بھی دے دیا بڑا حیران ہوا اس ویران جنگل میں ان کو روٹی کہاں سے ملی اس نے پر توجہ نہیں دی روٹی کھا کر اس نے کہا چلو پھر سے سفر شروع کرتے ہیں بس وہ گاؤں زیادہ دور نہیں ہے ہم شام سے پہلے پہنچ ہی جائیں گے وہ دونوں اس کی پیٹھ پر سوار ہوگئے اور وہ چل پڑا اس کا خیال بالکل ٹھیک تھا شام ہونے سے پہلے پہلے وہ اس گاؤں کے اندر داخل ہو گئے تھے وہ بہت بڑا سا گاؤں تھا جو گھنے درختوں سے گھرا ہوا تھا اس نے جو کچھ اس گاؤں کے بارے میں سنا تھا وہ بالکل سچ تھا اس گاؤں کی خوبصورتی دیکھ کر اس کی رال ٹپکنے لگی کہ میں یہاں سے خالی ہاتھ تو نہیں جاؤں گا گاؤں کی گلیوں سے وہ گزرنے لگا وہ پہنچا ایک بازار میں جہاں سونے چاندی کی بڑی بڑی دکانیں بنی ہوئی تھی اور وہاں پر لوگوں کی بھیڑ بھی جمع تھی ایسا لگ رہا تھا سونا مفت میں بانٹا جا رہا ہے اس نے دل میں سوچا کہ میں صحیح جگہ ایا ہوں یہ لوگ تو مجھے مالا مال کر دیں گے جس حساب سے سونا خرید رہے ہیں ان کے دل بھی بڑے ہوں گے اب وقت تھا بندر اور بندریا کا کھیل دکھانے کا کہ جن پر اتنے مہینوں سے محنت کر رہا تھا اج وہ محنت رنگ لے اتی تو وارے نیارے ہو جاتے خوشی خوشی اس نے گاؤں کے بازار کے درمیان ایک کھلی جگہ پر اپنی چٹائی بچھائی اور ڈگڈگی بجانے لگا۔ بندر اور بندریا نے اپنے کمالات دکھانے شروع کیے۔ بندریا
ناچنے لگی، بندر قلابازیاں کھانے لگا، اور لوگ حیرانی سے یہ تماشا دیکھنے کے لیے جمع ہونے لگے۔ مداری نے محسوس کیا کہ یہاں کی بھیڑ عام گاؤں سے تھوڑی الگ ہے اور کسی کے چہرے پر وہ دلچسپی نظر نہیں آرہی تھی جس کا وہ عادی تھا۔
تھوڑی دیر بعد ایک آدمی نے ہنستے ہوئے کہا، "واہ بھائی، تمہارے بندر اور بندریا اچھے ہیں، لیکن ہم یہ سب کھیل پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔ کچھ نیا دکھاؤ تو شاید ہم کچھ دیں!" مداری کو یہ سن کر بڑی حیرانی ہوئی۔ اس نے بندر اور بندریا سے مشکل کرتب کروائے، لیکن لوگ پھر بھی ویسے ہی کھڑے رہے، بغیر کوئی سکے پھینکے۔
مداری کو فکر ہونے لگی۔ وہ سمجھ گیا کہ یہاں کے لوگوں کو خوش کرنا آسان نہیں۔ پھر اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے بندر کے کان میں کچھ سرگوشی کی، اور بندر نے فوراً بازار کے ایک دکاندار کی میز پر رکھا سونے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اٹھا لیا اور اسے ہوا میں اچھالنے لگا۔ دکاندار غصے سے چیخا، "ارے! یہ بندر کیا کر رہا ہے؟" مداری نے فوراً کہا، "یہ میرا بندر ہے، اسے کچھ مت کہیے، یہ صرف کھیل رہا ہے بھیڑ کے درمیان سے کسی نے قہقہہ لگایا اور کہا، "واہ! تمہارا بندر تو ہمارے سونے کے زیورات کے ساتھ کرتب کر رہا ہے۔ یہ تو دلچسپ کھیل ہے!" لوگ ہنسنے لگے، لیکن دکاندار غصے میں اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا۔ مداری نے موقع دیکھ کر کہا، "اگر آپ لوگوں کو یہ کرتب پسند آیا تو کچھ انعام دیجیے، کیونکہ اج تک ایسا کرتب میرے بندر نے نہیں دکھایا ہے وہ سمجھ رہا تھا اس کی اس بات پر لوگ اب دل کھول کر اس پر نوٹوں کی بارش کر دیں گے پر کچھ نہ ہوا اور وہ لوگ ان کا مذاق اڑاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے مداری کو اپنی انکھوں پر یقین نہیں ارہا تھا کیا یہ وہی لوگ ہیں کہ جن کی دولت کے قصے میں نے دور دراز گاؤں تک سنے ہیں اور یہاں تک میں پیدل کا سفر کر کے ایا ہوں تھکا مارا خود کو میں نے اس گاؤں میں انے کے لیے اور یہ لوگ بے انتہا کنجوس ہیں اور پیسہ خرچ کرتے ہوئے کترا رہے ہیں کمال کی بات ہے میں نے ان کو اپنے
بندروں کا سب سے انوکھا کرتب دکھایا بجائے مجھے انعام دینے کے ہنس کر چلے گئے اب اس کے دل میں غصہ انا شروع ہو گیا پر وہ ان سے اپنا معاملہ بگاڑ نہیں سکتا تھا اس لیے کسی سے لڑا نہیں بلکہ سوچنے لگا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اور ان لوگوں کی جیب کیسے خالی کرا سکتا ہوں پہلے جو لوگ شوق سے اس کے پاس تماشہ دیکھنے ائے تھے اب وہ لوگ وہاں سے ان کو دیکھتے ہوئے اگے بڑھنے لگے کہ اتنے میں وہی دکاندار جس کے سونے کا ٹکڑا اٹھا کر بندر لایا تھا وہ اس کے پاس ایا اور کہا کہ تمہارے بندر نے جو کیا ہے اس کے بدلے میں تمہیں اس گاؤں سے نکلوا سکتا ہوں تم اس کو بندروں کا کھیل کہتے ہو ڈگڈگی بجا کر جو تم اپنے بندر کو نچا رہے ہو تو میری مانو یہ بیکار کا کام چھوڑو اور دوسرا کام ڈھونڈو اس کام میں کوئی پیسہ نہیں ہے وقت کی بربادی ہے اور جو امید لگا کر آئے ہو بڑے دکھ سے کہتا ہوں کہ یہاں سے تمہیں کچھ نہیں ملنے والا ہم محنت اس لیے نہیں کرتے ہیں کہ تم جیسے بھکاریوں پر اپنا پیسہ لٹائیں مداری کی نظر زمین میں گڑ گئیں وہ نہ جانے کتنے سالوں سے اس کام کو کر رہا تھا کبھی کسی نے اس کا مذاق نہیں اڑایا تھا اور اس کو دھتکارا نہیں تھا پر یہ پہلی بار ہوا تھا کہ جس گاؤں میں بڑی اس لگا کر وہ ایا کہ یہاں سے اسے منہ مانگی رقم ملے گی پر یہاں تو زہریلے جملے سننے کو مل رہے تھے جس سے اس کے دل کو بہت ٹھیس لگی دکاندار کی بات کا جواب بہت آرام سے دیتے ہوئے اس نے کہا میں بہت دور سے یہاں سفر کرتا ہوا ہوں کیا کچھ دن یہاں پر رہ سکتا ہوں اس شخص نے کہا نہیں کسی انجان ادمی کی ہمارے اس گاؤں میں کوئی جگہ نہیں ہے وہ اس کو دھکے مار کر وہاں سے نکالنا چاہتا تھا کہ ایک بہت رعب دار آواز آئی ٹہر جاؤ ایسا کسی کے ساتھ نہیں کرتے ہیں کیا اس گاؤں کا یہی رواج ہے کہ یہاں پر کسی مہمان کو نہیں ٹھہرایا جاتا تم کیوں اس کو یہاں سے نکالنے پر تلے ہو یہ روزی کمانے ایا ہے اس کو پیسے نہیں دے سکتے نہ دو پر اس طرح اس کی بےعزتی نہ کرو وہ اس گاٶں کے سب سے بڑے بزرگ تھے جن کو سب اللہ والے بابا
کہتے تھے مداری حیرت سے اللہ والے کو دیکھنے لگا۔ بابا کی عمر قریبا نوے سال ہوگی سفید داڑھی ان کی زندگی کے تجربہ کی گواہی دے رہا تھا۔ ان کی باتوں میں ایسی نرمی اور سمجھداری تھی کہ دکاندار، جو ابھی تک مداری کو دھتکارنے پر تلا ہوا تھا، فوراً خاموش ہو گیا۔ سب سے بڑی چیز جس پر مداری کو جھٹکا لگا تھا کہ وہ اللہ والے نابینا تھے اور ایک لاٹھی کے سہارے چلتے ہوئے اس کی طرف ارہے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ انہیں سب دکھ رہا ہے اور سچائی تو یہ تھی کہ وہ دیکھ نہیں سکتے تھے اللہ والے نے مداری سے کہا، "بیٹا، تم کہاں سے آئے ہو اور کیوں یہاں ٹھہرنا چاہتے ہو؟" مداری نے عاجزی سے جواب دیا، "بابا جی، میں دور دراز کے گاؤں سے آیا ہوں۔ میرا کام اپنے بندر اور بندریا کے ذریعے لوگوں کو خوشی دینا ہے، اور بدلے میں کچھ روزی کماتا ہوں۔ میں نے سنا تھا کہ یہ گاؤں دولت مند ہے، اس آس پر آیا تھا کہ یہاں مجھے اچھا انعام ملے گا۔ لیکن یہاں لوگ میری محنت کی قدر نہیں کررہے، الٹا میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔بابا نے گہری سانس لی اور کہا، "یہاں کے لوگ دولت مند ضرور ہیں، لیکن ان کے دل چھوٹے ہیں۔ وہ اپنی دولت کو بانٹنے کے بجائے اسے سنبھالنے میں لگے رہتے ہیں۔ مگر یہ تمہارا قصور نہیں۔ تم محنتی ہو، اور مہمان ہو۔ اس گاؤں میں کوئی بھی مہمان بن بلائے ہو یا بلائے، ہماری ذمہ داری ہے کہ اسے رہنے کا ٹھکانہ دیں۔پھر بابا نے دکاندار سے کہا "کیا ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ اپنے ہاں آئے مہمان کو دھکے دے کر نکالیں؟ کیا یہ ہماری روایت ہے؟" دکاندار نے شرمندہ ہو کر سر جھکا لیا۔ "بابا جی، میں غلط تھا۔ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔بابا نے مداری سے کہا، "چلو میرے ساتھ، میں تمہیں ٹھہرنے کی جگہ دوں گا۔ لیکن یاد رکھنا، یہاں کے لوگوں کو خوش کرنا آسان نہیں پر اگر نیت صاف ہو تو منزل اسان ہوجاتی ہے.مداری کے دل میں ایک نئی امید جاگی۔بابا جی کے ساتھ چلتے چلتے وہ وہ ایک ایسے گھر کے سامنے کھڑا تھا کہ جو بہت ہی چھوٹا تھا یعنی جھونپڑی نما تھا اس نے حیران ہو کر اس اللہ والے سے کہا کہ یہاں تو سب لوگ امیر ہیں اور
بڑے بڑے گھر ہیں پر اپ کا گھر تو بہت چھوٹا ہے اللہ والے بابا مسکرائے اور کوئی جواب نہیں دیا اسے اپنے گھر کے پاس ایک چھوٹے سے کمرے میں ٹھہرایا اور کہا، "یہ جگہ تمہارے لیے ہے۔ آرام کرو اور جتنا دل چاہے یہاں رہ سکتے ہو مداری نے شکر گزاری کے ساتھ کہا، "بابا جی، آپ کی مہربانی مداری کیا سوچ کر اس گاؤں میں ایا تھا اور اس کو کیا دیکھنے کو مل رہا تھا وہ سوچنے لگا کہ اس گاؤں میں سب سے مہربان تو یہ اللہ والے ہیں پر یہ نابینا ہے دیکھ نہیں سکتے ہیں مجھے کچھ نہ کچھ تو ایسا کرنا پڑے گا کہ جس سے میرا بڑا فائدہ ہو میں تو اچھی نیت کے ساتھ ہی اس گاؤں میں ایا تھا پر ان گاؤں والوں نے میرے دل کو توڑا ہے اس نے رات کو بہت غور و فکر کیا۔ اسے احساس ہوا کہ اگر اسے ان کنجوس گاؤں والوں کی جیب سے کچھ نکالنا ہے تو اسے ایسا کھیل دکھانا ہوگا جو ان کی توقع سے بالکل الگ ہو۔ اسی دوران اس نے اپنے بندر اور بندریا کو دیکھا، جو معصومیت سے اسے گھور رہے تھے۔مداری کے دماغ میں ایک خطرناک مگر چالاک ترکیب آئی۔
"میں نے آج تک تمہیں صرف کرتب دکھانے کے لیے تیار کیا ہے،" اس نے بندروں سے بات کرتے ہوئے کہا، "لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ تمہارے ہنر کو ایک نئے طریقے سے استعمال کیا جائے۔ کل سے تم دونوں ایک عجیب کھیل کھیلو گے، لیکن اس طرح کہ کسی کو کچھ پتہ نہ چلے۔" دونوں بندر ہاں میں ہاں سر ہلانے لگے وہ پوری رات سویا نہیں اور بندر اور بندریا کو وہ کرتب سکھانے لگا صبح ہوئی تو کسی نے اس کا دروازہ کھٹکھٹایا دروازہ کھولا تو نابینا اللہ والے وہیں کھڑے ہوئے تھے انہوں نے کہا تم کو بھوک لگی ہوگی میرے ساتھ کچھ کھا لو وہ ان کے ساتھ ان کے گھر اگیا کھانا کھانے کے بعد اللہ والے نے پوچھا اب کیا ارادے ہیں کیا تم یہاں پر رکو گے یا یہاں سے چلے جاؤ گے وہ کچھ یر خاموش رہا پھر کہا کہ آیا تو کمانے کی غرض سے تھاپر جو سلوک میرے ساتھ کیا گیا ہے اس کے بعد یہاں رکنا بنتا تو نہیں ہے لیکن میرا کام ہی یہی ہے کوشش تو کرونگا اپنی روزی چھوڑ کر یونہی تو نہیں جاسکتا اللہ والے
نے کہا ٹھیک کہتے ہو چلو کر لو کوشش میں زرا نماز پڑھ لوں کہہ کر اپنی عبادت کرنے گھر چلے گئے مداری سامان اور بندروں کے ساتھ بازار میں اگیا تھا جہاں پر گہما گہمی تھی ہلچل مچی ہوئی تھی اس نے بازار کے قریب ایک کھلی جگہ پر اپنی چٹائی بچھائی اور ڈگڈگی بجانے لگا۔ گاؤں کے لوگ، جو کل کے واقعے کے بعد اللہ والے کے ڈر سے سنبھل گئے تھے اس کا کھیل دیکھنے کے لیے جمع ہونے لگے۔ بندر اور بندریا نے قلابازیاں کھانی شروع کیں، جس سے بچے اور کچھ بڑے ہنسنے لگے بچے ہر قلابازی پر تالیاں بجارہے تھے مداری نے آہستہ سے بندر کو اشارہ کیا،اور بندر نے کھیل کھیلتے ہوئے ایک دکاندار کی جیب کے قریب پہنچ کر چپکے سے اس میں ہاتھ ڈالا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ دکاندار کو ذرا بھی شک نہیں ہوا، کیونکہ بندر اپنی حرکتوں سے سب کو ہنسا رہا تھا۔ جب بندر واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں چند سکے اور ایک چھوٹی سی سونے کی چین تھی۔ مداری نے فوراً اسے اپنے سامان میں چھپا دیا اور کھیل جاری رکھا۔ اب باری تھی بندریا کی مداری نے بندریا کو ایک دوسری طرف بھیجا، جہاں چند عورتیں کھڑی تھیں۔ بندریا نے اپنی چالاکی سے ایک عورت کی پوٹلی کو تھام لیا اور کھیل کے انداز میں اسے تھوڑا کھول کر چند سکے نکال لیے۔ عورت کو لگا کہ بندریا مذاق کر رہی ہے اور وہ ہنستی رہی۔ بندریا جلدی سے وہ سکے مداری کو دے کر دوبارہ کھیل میں شامل ہو گئی مداری نے بندروں کے لیے خاص تربیت دی تھی کہ وہ ہر چوری کو اس قدر چالاکی سے کریں کہ وہ کھیل کا حصہ لگے۔ اب صبح سے شام ہو گئی لوگوں کی بھیڑ چھٹنے لگی مداری اور بندر تھک چکے تھے تو وہ اپنے کمرے میں اگیا رات کو مداری نے اپنے بندر اور بندریا کے سامنے دن بھر کا حساب رکھا۔ "آج کا دن کامیاب رہا، لیکن یہ لوگ بہت چالاک ہیں۔ ہمیں اگلے دن کچھ نیا کرنا ہوگا تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔"بندروں نے اپنی مخصوص آوازوں میں جواب دیا، جیسے وہ مداری کے منصوبے کو سمجھ رہے ہوں۔مداری اپنے کھیل تماشے دکھانے کے ساتھ ساتھ اس گاؤں میں گھوم گھوم کر دیکھتا کہ کون شخص کس کام میں لگا ہوا ہے اللہ والے کے بارے میں تو اس نے
جان لیا تھا کہ وہ دیکھ نہیں سکتے ہیں اور بس اللہ کی عبادت کرتے رہتے ہیں اور باقی لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں یعنی کوئی کسی کو زیادہ روکتا ٹوکتا نہیں ہے عورتیں جن کے شوہر سنار تھے ان کے پاس ایک سے ایک زیور تھا اللہ والے کے کہنے پر اس کو اس گاؤں سے باہر تو نہیں کیا گیا تھا اور اسی بات کی اسے چھوٹ مل گئی تھی ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ اج وہ بندروں کا کھیل تماشہ نہیں دکھائے گا بلکہ وہ ارام کرے گا تاکہ گاؤں والوں کو کوئی شک نہ ہو اس لیے پورا دن کمرے میں بند ہوکر اس نے بندروں کو نت نئے جوہر دکھائے اور اپنی ذہانت سے ان کو مشق کراتا رہا تو پھر سوچا کہ باہر نکل کر ٹہلتا ہوں وہ کمرے سے باہر نکلا تو اس نے دیکھا اللہ والے درخت کے نیچے بیٹھے تسبیح پڑھ رہے ہیں اس نے ان کی فکر نہیں کی کہ ان کو کیا ہی نظر ائے گا میں کہاں جا رہا ہوں چلتے ہوئے وہ اسی کنجوس دکاندار سنار کے پاس دکان پر آگیا اس کی دکان پر بڑے بڑے سونے کے زیورات لٹک رہے تھے اس کے دماغ میں ترکیب ائی کہ اب کی بار وہ اپنے بندروں کے ذریعے اس کنجوس اور سخت دل دکاندار کو سبق سکھائے گا۔ یہی وہ دکاندار تھا جس نے پہلے اسے دھکے مار کر گاؤں سے نکالنے کی کوشش کی تھی۔رات میں سب سوچ کر وہ سوگیا دوپہر کے وقت، جب دکانوں پر گراہکوں کا رش کم تھا، مداری اپنے بندر اور بندریا کے ساتھ اسی کنجوس دکاندار کی دکان کے پاس پہنچا۔مداری نے دکان کے باہر ڈگڈگی بجانی شروع کی اور بلند آواز میں لوگوں کو بلانے لگا:آج دیکھو میرے بندروں کا ایسا کھیل جو پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا! سب آجاؤ!دکاندار، جو اپنی دکان کے اندر بیٹھا حساب کتاب کر رہا تھا، جھنجھلا کر باہر نکلا۔ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟میں نے کہا تھا کہ یہاں سے چلے جاؤ!مداری نے معصومیت سے کہا،اللہ والے بابا نے مجھے یہاں ٹھہرنے کی اجازت دی ہے، اور میں صرف اپنا کام کر رہا ہوں۔ اللہ والے بابا کا نام سن کر اس نے اسے دوبارہ نہیں ٹوکا یہاں بندر نے دکان کے باہر کھیلنا شروع کر دیا۔ کبھی وہ دروازےکے پاس چھلانگیں لگاتا، کبھی دکان کے ستون پر چڑھ
جاتا۔ بندر کی دیکھا دیکھی بندریا دکان کے باہر رکھی میز پر گھوم گھوم کر ناچنے لگی، اور لوگ ہنستے ہوئے جمع ہونے لگے۔ دکاندار بظاہر غصے میں تھا، لیکن وہ بندروں کی حرکتوں سے متاثر ہو رہا تھا اور دھیرے دھیرے اس کا دماغ الجھنے لگا وہ ان کو یہ کرتے دیکھ کر زور زور سے ہنستا جارہا تھا یہی تو فن اور کمال تھا ان کا کہ وہ کسی کی بھی توجہ اپنی جانب کرواہی لیتے اسی دوران بندر نے ایک نیا کرتب دکھانے کے بہانے دکان کے اندر چھلانگ لگائی اور سونے کے زیور کے پاس پہنچ گیا۔ دکاندار کو لگا کہ یہ محض کھیل کا حصہ ہے، لیکن بندر نے چالاکی سے ایک چھوٹا سا سونے کا زیور اٹھا لیا اور تیزی سے واپس باہر آگیا۔ بندر نے اس ٹکڑے کو مداری کی جھولی میں ڈال دیا،اور مداری نے فوراً اسے چھپا لیا۔مداری نے ڈگڈگی بجانا بند کر کے کہا، "سنو سنو میرے بھائیو اب میری بندریا ایک خاص کرتب دکھائے گی! دیکھنا، یہ کمال تمہیں حیران کر دے گا۔" اس نے گردن ہلائی تو بندریا دکاندار کے قریب گئی اور کھیل کے انداز میں اس کے ارد گرد گھومنے لگی۔ دکاندار کو یہ سب مزاق لگا، لیکن بندریا نے انتہائی ہوشیاری سے دکاندار کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور چند سونے کے سکے نکال لیے۔ بندریا نے وہ سکے مداری کو دیے، اور مداری نے انہیں فوراً اپنی گٹھڑی میں چھپا دیا۔ دکاندار کو کچھ پتہ نہ چلا اور وہ لوگوں کے ساتھ کھیل دیکھنے میں مگن تھا دکاندار کی بے خبری اور بندروں کی چالاکی نے تماشائیوں کو خوب خوش کیا، لیکن کسی کو بھی چوری کی خبر نہ تھی۔ بہت دیر ہوگئی تھی مداری نے اب تماشا ختم کرتے ہوئے کہا، "میرے بندر اور بندریا بہت محنت کرتے ہیں۔ اگر آپ کو ان کا کھیل پسند آیا تو کچھ انعام دیں!لوگوں نے دو تین سکے مداری کی جھولی میں ڈال دیے، لیکن دکاندار نے ایک بار پھر کنجوسی دکھاتے ہوئے کہا، "میرے پاس ابھی چھوٹے سکے نہیں ہیں۔ کل دے دوں گا!" یہ سن کر مداری دل ہی دل میں طنزیہ مسکرایا، کیونکہ وہ پہلے ہی دکاندار کی جیب اور دکان سے کافی کچھ حاصل کر چکا تھا۔مداری نے سامان اٹھایا بندر کو بندریا کو لے کر
اپنے کمرے کے طرف بڑھ گیا درخت کے نیچے اللہ والے اب تک تسبیح پڑھ رہے تھے کچھ سوچ کر اس نے ان کے قریب اکر کہا اپ کا بہت شکریہ اپ نہ ہوتے تو مجھے میرا حق نہیں ملتا اللہ والے نے اس کی اواز پر اس کی طرف منہ پھیرا دیکھ تو سکتے نہیں تھے لیکن اندازے سے کہا ہاں جو بھی کرنا صفائی سے کرنا تمہارا تجربہ ہی کام ائے گا کسانوں سے اس کام کو تم کر رہے ہو اس نے کہا آپ کی دعا رہی تو سب کچھ مل جائیگا مجھے وہ جو میری چاہت ہے آپ نے کچھ نہ کہا وہ مسکراتا ہوا کمرے میں چلاگیا اور دروازہ بند کرلیا رات کو مداری نے اپنی گٹھڑی کھول کر بندروں کی "کمائی" گنی جیب کھنگالی تو سونے سکے نکلے اس نے بندر کے سر پر تھپکی دی اور کہا کہ شاباش تم لوگوں نے بہت اچھا کام کیا ایسے ہی میرے سکھائے ہوئے پر عمل کرتے رہے تو کامیابی زیادہ دور نہیں کہ ہم بھی دولت مند ہوجائینگے اب سنیں اس دکان دار کی کہانی جب شام کو دکاندار نے حساب کتاب کے لیے اپنا صندوق کھولا، تو اسے پتہ چلا کہ ایک سونے کا ٹکڑا اور بہت سے پیسے غائب ہیں کیونکہ وہ ایک ایک پیسہ گن کر رکھتا تھا اسی لیے اسے سب پتہ چل جاتا وہ حیرانی اور غصے میں تھا۔ اس نے سوچا کہ شاید کسی گراہک نے چوری کی ہے، لیکن اسے مداری یا بندروں پر شک نہیں ہوا کیونکہ بندروں نے اسے گھما جو دیا تھا وہ سمجھ ہی نہیں پارہا تھا کہ اس کے ساتھ کیا چالبازی کی گئی ہے بندروں کا اصل کھیل یہی تو تھا بیوقوف بنا کر پیسے چرانا کہ خبر بھی نہ ہو مداری کو بری لت لگ گئی تھی اور کم وقت میں قیمتی سونا ہاتھ لگ رہا تھا اس کو اس کام میں بہت مزہ ارہا تھا جب وہ شرافت سے کام کرتا تھا تو اس کو پیسے نہیں ملتے تھے اور اب جب اس نے چوری کر کے پیسے کمانے شروع کیے تو اس کی جیب بھرنے لگی پھر بھی چور گھبراتا تو ہے کہ اس کا چوری کا سامان پکڑا نہ جائے تو اسے اب فکر اس بات کی تھی کہ میری یہ کمائی کسی کے ہاتھ نہیں لگنی چاہیے میں اس کو کہیں چھپا دیتا ہوں لیکن اگر اس جگہ چھپاؤں گا تو لوگوں کو بھنک پڑ جائے گی ہاں ایک کام
ہوسکتا ہے اس گاؤں کے چاروں طرف جو گھنے درخت ہیں انہی درختوں میں سے ایک کی زمین کھود کر اس میں میں یہ گٹھری ڈال دونگا.اس مداری نے یہی ارادہ کیا اور رات کے اندھیرے میں جب گاؤں والے سو رہے تھے وہ ایک گھنے درخت کے پاس گیا اور اس کی زمین میں اپنی گٹھری گاڑھ دی اور سکون سے گاؤں واپس آکر سو گیا لالچ اور حرص انسان سے کیا کچھ کرواتی ہے بندر بندریا کا کھیل اب چوری میں بدل چکا تھا لیکن یہ بات سب سے چھپی تھی البتہ سنار کی دکان روز خالی ہوتی جارہی تھی مداری پر کسی کو شک جا بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ اتنی مکاری سے اپنا فن دکھاتا کہ سب ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے وہی لوگ جو بیزار ہو رہے تھے اب وہ اس کے بندر اور بندریا کے عادی ہو گئے اور اسی بات کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا تھا وہ مداری جس کی جیب گرم ہوتی جا رہی تھی اسکی ہوس بڑھتی جارہی تھی اب کی بار بڑا ہاتھ مارنا چاہتا تھا ویسے تو اس گاٶں میں کوئی بھی غریب نہیں تھا اور ہر کوئی اچھا کھاتا پیتا تھا لیکن اس گاٶں کے سب سے امیر رئیس کی بیوی کو ایک دن اس نے سنار کی دکان پر سونا خریدتے دیکھا تو اسکے اندر ایک طوفان سا اٹھا کہ کتنی دولت ہے اس عورت کے پاس کہ اتنا زیادہ سونا خرید رہی ہے اس کا شوہر تو اس سنار سے بھی بڑا بیوپاری ہے مجھے اسی کے پاس چوری کرنی چاہیے پر کیسے کھوج لگانی پڑیگی جب اس عورت نے دکان سے سونا خرید لیا تو وہ اپنے گھر کی طرف چل دی وہ بھی پیچھے پیچھے جانے لگا دیکھا تو ایک خوبصورت سا گھر تھا وہ اس اندر چلی گئی اس کی آنکھیں لالچ سے چمکیں اگر یہاں کا مال مل گیا تو میری تو چاندی ہی چاندی ہے پھر میں یہ گاٶں چھوڑدونگا اور ایسی جگہ غائب ہوجاٶنگا کہ یہ لوگ مجھے ڈھونڈ کر بھی نہیں ڈھونڈ سکتے اب اس کا کام تھا بندریا کو سارے کرتب سکھانا تین چار دن میں وہ بندریا ہر فن مولا ہوگئ تھی اب ائی وہ رات جب اسے سب سے بڑا کارنامہ انجام دینا تھا وہ خاموشی کے ساتھ اپنے کمرے سے باہر نکلا بندر اور بندریا اس کے کندھے پر سوار
تھے جب وہ باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ درخت کے نیچے اللہ والے بیٹھے ہوئے ہیں پہلے تو وہ تھوڑا حیران ہوا کہ رات کے اس پہر یہ اپنے گھر کو چھوڑ کر یہاں کیوں بیٹھے ہیں اس کو وہم ہوا کہیں یہ دیکھ تو نہیں رہے مجھے وہ اہستہ اہستہ چلتا ہوا اللہ والے کے پاس ایا اور ہر طرف سے ہاتھ ہلا کر اپنی تسلی کی کہ ایا یہ مجھے دیکھ رہے ہیں یا نہیں پر اپ انکھ بند کیے اپنی دعا مانگتے جا رہے تھے اور اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی وہ چالاک مسکراہٹ سے اپ کو دیکھ کر وہاں سے چل دیا اب وہ پہنچ گیا تھا اس عورت کے گھر کے سامنے اس نے بندریا کو اشارہ کیا اور کہا جاؤ اپنا کام کرو اور جو جو اس نے اس کو ہنر سکھایا تھا سب کرنے کے لیے کہا اور اسے ایک تھیلا دے دیا جتنا مال تمہارے ہاتھ لگ سکتا ہے سب لوٹ کر لانا اسے بھروسہ تھا اس کی بندریا پکڑی نہیں جائے گی اور ایسا ہی ہوا کچھ دیر کے بعد بندریا اس خالی تھیلے میں بہت کچھ بھر کر لے ائی اس نے اس پاس دیکھا اور وہاں کوئی بھی نہیں تھا شکر ادا کیا اور بندر اور بندریا کے ساتھ کمرے میں اگیا جب تھیلا کھول کر دیکھا تو انکھیں خوشی سے پھیل گئیں اس میں بہت بڑے بڑے سونے کے ہار تھے اس کی انکھیں تو چمکنے لگی بہت بڑا ہاتھ مارا تھا اسکی بندریا جو یہ کام کرکے بڑی پھرتی سے آئی تھی اس کے بعد اپنا سر جھکائے کھڑی تھی جیسے کسی بات کی شرمندگی ہو اسنے اسکی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا تم نے حق ادا کردیا دیکھنا تم دونوں کو کتنے پھل کھلاٶنگا پر اس سے پہلے کہ ہم نظروں میں آئیں اور پکڑے جائیں ہمیں ان کو چھپانا پڑیگا اس نے بندر سے کہا کہ یہ تھیلا جا کر اس درخت کے پاس کی زمین کے اندر دفنا کر اجاؤ بندر تو جانتا ہی تھا کہ اس کا مالک کہاں پر مال کا خزانہ چھپاتا ہے بس اس نے ویسے ہی عمل کیا اور کام کر کے واپس اگیا اج وہ مداری بہت خوش تھا اس نے اپنی خواہش پوری کی تھی اس رات اسے بڑی چین کی نیند انی تھی اور وہ سونے کے لیے لیٹ گیا اس نے پکا فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ کل صبح ہی یہاں سے نکل جائے گا بنا کسی ملے دل میں
چور جو تھا مزے کی نیند اسے آئی لیکن صبح سویرے شور سے اس کی انکھ کھل گئی دروازہ کھول کر فورا باہر ایا تو لوگوں کی بھیڑ جمع تھی اور کچھ عورتیں رو رہی تھیں اچانک اسے یاد ایا رات میں جو کچھ اس نے کیا تھا کہیں اسی وجہ سے تو یہ تماشہ نہیں ہو رہا عورت وہی بیوپاری کی بیوی تھی اس کا شوہر اس کو دلاسہ دے رہا تھا پر چور کو کوستے ہوئے کہہ رہی اللہ غارت کرے اسکو جس نے میرے زیور چرائے وہ معصوم بن کر لوگوں سے پوچھنے لگا کیا ہوا یہ عورتیں کیوں رو رہی ہیں ارے کل تو بہت بڑی چوری ہوئی ہے کسی نے اس سے کہا بولا کہ اس عورت کا سارا مال لوٹ لیا گیا ہے اس کا شوہر تو بہت بڑا تاجر ہے وہ گھر سے باہر گیا ہوا تھا عورت گھر میں اکیلی تھی بس کوئی چور ایا اور رات کے اندھیرے میں سب چرالیا ابھی کچھ دنوں پہلے اس نے زیور خریدی تھی وہ سب بھی غائب ہیں بیچاری کسی نے کہا نہ جانے کون چور ہے جو ہمارے گاؤں میں گھس ایا ہے اسی وقت وہ دکان دار بھی ائے گا اس نے کہا صحیح کہتے ہیں ہم تو سمجھ نہیں پا رہے کون ہماری دکانوں سے اور گھروں سے سونے کی چوری کر رہا ہے
مداری نے اپنی مکاری سے لوگوں کو بہلانے کی کوشش کی اور چوری کا ذکر سن کر ایسے حیران ہونے کا ڈھونگ کیا جیسے اسے کچھ معلوم نہ ہو۔ لیکن اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو چکی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اگر اس کی چالاکی کسی پر ظاہر ہو گئی، تو اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔مداری نے اسی وقت اپنے بندر اور بندریا کو ساتھ لیا اور سوچا کہ ابھی کے ابھی گاؤں چھوڑ دینا بہتر ہوگا۔اس نے اپنے سامان کو سمیٹا بندروں کو اٹھا کر گاؤں سے نکل ایا لیکن جب وہ درخت کے پاس پہنچا تاکہ خزانہ نکال کر فرار ہو سکے، تو اس نے دیکھا کہ زمین کھدی ہوئی تھی اور خزانہ غائب تھا۔ مداری کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔اب وہ سمجھ چکا تھا کہ کسی نے اس کی چوری کا راز جان لیا ہے۔ وہ خوفزدہ ہو گیا کہ اگر یہ خبر گاؤں والوں تک پہنچی، تو وہ اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے پر میرا مال ہے کدھر کسی کو تو کچھ نہیں معلوم کہ میں نے چوری کے
گہنے یہاں چھپائے ہیں اب وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا گاؤں واپس جائے یا گاؤں کو چھوڑ کر اگے بڑھ جائے کیونکہ اس کے ہاتھوں خالی تھے سارے کیے کرائے پر کسی نے پانی پھیر دیا تھا پر کس نے یہ تو دیکھنا تھا وہ ہمت کر کے گاؤں لوٹااور دیکھنے لگا کہ بھیڑ چھٹی یا نہیں لوگ پریشانی میں ابھی تک وہیں کھڑے ہوئے تھے ان سے تو کچھ پوچھ نہیں سکتا تھا کیونکہ سب کو شک بھی ہو جاتا اپنی سوچ میں ڈوبا تھا کیا کرنا چاہیے اسی دوران، گاؤں کے ایک بچہ وہاں سے گزرنے لگا اس نے بچے کو روکا اور کہا کیا ہوا چور کا پتہ چلا یہ لوگ کیا ابھی تک وہی بات کر رہے ہیں بچے نے کہا نہیں بلکہ اب تو کچھ اور ہی داستان سنائی جا رہی ہے اچھا کیا ہوا بچے نے پاس آکر مداری کو بتایا کہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ درخت کے پاس رات کو ایک پراسرار سایہ دیکھا گیا تھا۔ مداری کے ہوش اڑ گئے۔ وہ سوچنے لگا کہ کیا واقعی کسی نے اسے چوری کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا، یا یہ کسی اور کی چال ہے؟مداری نے دل میں ایک نئی ترکیب سوچی: وہ گاؤں والوں کو یقین دلانے کے لیے اپنا کھیل جاری رکھے گا اور اس کا قیمتی مال غائب کرنے والے کو تلاش کرے گا لوگ تو اتنے فکر مند تھے کہ انہوں نے دیکھا بھی نہیں تھا کہ مداری گاؤں سے چلا گیا تھا اور آ بھی گیا مداری اپنی بے چینی اور گبھراہٹ کو چھپانے کے لیے گاؤں والوں کے پاس جا کر اُنہیں تسلی دینے لگا، کہ وہ یقیناً چور پکڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ وہ گاؤں والوں کے دکھ درد میں شامل ہونے کا ناٹک کر رہا تھا کہ اچانک اللہ والے ہجوم کے بیچ سے آگے بڑھے۔ اللہ والے نے کہا کہ اے گاؤں والوں اس مداری کا ہنر تو تم سب نے دیکھا ہے میں نابینا ہوں لیکن میں میں بھی جانتا ہوں کہ کس طرح بندر اور بندریا اپنا کھیل تماشہ دکھایا کرتے چلو میں بھی تم سب کو ایک کھیل دکھاتا ہوں مداری کی سانس تو اوپر کی اوپر رہ گئی اور لوگ نہ سمجھنے کی کیفیت میں اللہ والے کو دیکھ رہے تھے اللہ والے نے اپنی چھڑی زمین پر ماری اور بلند آواز میں کہا یہ چور زیادہ دور نہیں، بلکہ یہیں ہمارے درمیان ہے۔ وہ جس کے دل میں لالچ نے گھر کر
Comments
Post a Comment