Machli ne insan ka Baccha Paida Kiya | Banjh Aurat Aur Allah wale

All rights reserved. This story was originally published on  https://best.92islamicquotes.com       Reproduction or use without permission will be considered a copyright violation."

 ایک بار کی بات ہے ایک بڑا سا گاٶں تھا اللہ کی نعمتوں سے بھرپور وہ زمین تھی وہاں کے رہنے والوں کو اللہ نے بےپناہ دولت سے مالامال کیا ہوا تھا لیکن وہ دل کے سخت اور بے ادب تھے اتنی دولت ہونے کے باوجود، وہ ہمیشہ شکوہ شکایت کرتے رہتے غرور اور تکبر ان کے اندر تک بھرا تھا ان کے اکڑپن کے پیچھے وجہ یہ تھی کہ وہ سب تاجر تھے مٹی کو ہاتھ لگاتے وہ سونا بن جاتی ان کی ندی بہت بڑی اور خوبصورت تھی جس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ہزاروں مچھلیاں تھیں میٹھے پانی کی مچھلیوں کا لذیذ گوشت کھا کر بھی اس گاٶں کے لوگ نہ تو اللہ کا شکر ادا کرتے، نہ کسی کی مدد کرتے، اور نہ ہی کسی نیک انسان کی بات کو سمجھتے تھے وہ غیر مسلم تھے اور دین اسلام کے بارے میں جانتے ہی نہیں تھے اللہ نے ان پر ہر طرح کی مہربانیاں کی ہوئی تھی پر وہ لوگ انجان تھے کیونکہ اب تک ان کو سیدھی راہ دکھانے والا کوئی آیا نہ تھا کوئی آتابھی کیسے وہ سب کے سب بدمزاج تھے سنہری ندی سے وہ سب مچھلیاں پکڑتے تھے اور اپنا گزارا کرتے ان کا کاروبار چلتا اور چمکتا بھی تھا اج تک ان کو کسی بات کی پریشانی نہ ہوئی نہ مال میں کمی ائی پھر بھی وہ لوگ یہ نہیں مانتے تھے کہ یہ سب کسی بڑی ذات نے کیا ہے بلکہ وہ اسے اپنی محنت سمجھتے کہ وہ اس قابل ہیں کہ اپنے بل بوتے پر سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں چاہے مرد ہو یا عورتیں سبھی ایک ہی سوچ رکھتے تھے البتہ انہی لوگوں میں ایک عورت رہتی تھی ۔جو ایک نیک اور رحم دل عورت تھی، وہ بھی مسلمان نہیں تھی پر دل میں اس کے سب کے لیے نرمی تھی وہ اس بات کو پسند نہیں کرتی تھی کہ اس کے گاؤں والے اتنے گھمنڈی ہیں اور ہر بات پر اپنے آپ پر فخر کرتے ہیں اور کسی آئے گئے کی بےعزتی کرتے اس کا شوہر بھی ان جیسی ہی باتیں بڑھا چڑھا کر کرتا یوں تو اس کے ہاں بھی کسی شے کی کمی نہ تھی پر ایک کمی ایسی تھی جس نے اس کے جیون کو اذیت سے بھر دیا تھا کہ اُس

کا شوہر اس سے محبت نہ کرتا یہ زبردستی کی شادی تھی شوہر اس سے جان چھڑانا چاہتا تھا اس لیے اس کو بدنام کرنے کے نت نئے بہانے بناتا کہ وہ عورت بدکار ہے شوہر کے پیٹ پیچھے غیرمردوں سے ناجائز رشتے رکھتی ہے وہ اٹھتے بیٹھتے اس کو طعنے دیتا کہ تمہاری وجہ سے میری زندگی میں رونق نہیں بلکہ اداسی ہے اس کی دیکھا دیکھی گاٶں کے لوگ بھی اُس نیک عورت کا مذاق اُڑاتے اور اُسے کہہ کر دل دکھایا کرتے۔ اس شریف عورت نے کئی بار اپنے خدا سے دعا کی، لیکن اُس کی آزمائش ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی وہ اکثر مورتی کے سامنے کھڑے ہو کر رو رو کر کہتی کہ میرا کیا قصور ہے کہ اگر میرے ہاں اولاد نہیں ہے میں تم سے دعائیں مانگتی ہوں کیا تم مجھے اولاد نہیں دو گی میں تمہاری عبادت میں کوئی کمی نہیں چھوڑتی میں سب کے کام انا چاہتی ہوں اور سب کی خوشی میں میری خوشی ہے پر میں کیا کروں کہ میں اپنے شوہر کو ایک بیٹا نہیں دے سکتی کیا اولاد ایک عورت کے ہاتھ میں ہوتی ہے پر وہ مورتی اسے کیا جواب دیتی ایک دن وہ اسی طرح اپنی مورتی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر فریاد کر رہی تھی کہ ایک چالاک عورت وہاں پر کھڑی ہو گئی اور کہا کہ تم کچھ بھی کہتی رہو اپنا سب لٹادو لیکن تمہاری دعا ہرگز قبول نہیں ہوگی تم سدا لاچاری اور بےبسی کی زندگی گزارو گی تمہارا شوہر نہ تمہاری تعریف کرے گا نا تمھیں دل سے چاہے گا کیونکہ تم ایک بنجر کھیتی ہو سوکھی زمین ہو جس میں کبھی بھی کوئی اناج نہیں اگ سکتا بھول جاٶ کہ تم جیسی بدنصیب عورت اس کو اولاد کی خوشی نہیں پائیگی اس نے اس کی باتوں کو سنا تو اس کے دل پر ایک خنجر سا لگا سچ ہے کہ کڑوے بول اپ کے دل پر کسی تیر کی طرح لگتے ہیں اور اب تو کئی سال ہو گئے تھے اس کو اس طرح کے زہریلے جملے سنتے سنتے اب اس کی بس ہو گئی وہ عورت ہنستے ہوئے چلی گئی وہ بےساختہ بول پڑی کیا کوئی نہیں ہے جو میرے دل کو سہارا دے تسلی دے یا کوئی نہیں جو میرے لیے میرا اپنا بن کر ائے کوئی نہیں ہے جو میرے زخموں پر مرہم رکھے اس کے انسو نہیں رک رہے تھے جب رو رو کر وہ ہلکان ہو گئی تو پھر

اپنے گھر واپس اگئی اس کا شوہر کام سے واپس ایا اور کہا کہ اے منحوس عورت تو پھر میرے سامنے بیٹھی ہوئی ہے تو جانتی ہے تیری شکل سے مجھے نفرت ہے تو مجھے کبھی بھی وہ خوشی دے ہی نہیں سکتی جس کے لیے میں دس سال سے ترس رہا ہوں مریم کا دل شوہر کے الفاظ سن کر پہلے ہی چھلنی تھا، اور اب اس کی نظریں آسمان کی طرف اٹھ گئیں۔ دل ہی دل میں اس نے سوچا: "کیا واقعی دنیا میں کوئی ہے جو میری تکلیف کو سمجھے؟ کیا کوئی ہے جو مجھے اس غم سے نکال سکے؟

اس کی آس ٹوٹتی جارہی تھی وہ مایوسی کا شکار ہورہی تھی پر دل کا بھاری پن ختم ہی نہ ہوپایا اب دو چار روز گزرے کہ وہ ایک ایسی ہی اداس صبح تھی جب اس کا شوہر ندی کنارے مچھلیاں پکڑنے جاچکا تھا اور گاٶں کے سارے مرد بھی ندی کی طرف ہی گئے تھے وہ نیک عورت گھر کے کام کررہی تھی کہ گاٶں میں ایک نورانی چہرے والے بزرگ جن کا قدلمبا سینہ چوڑا کسی مضبوط بدن والے جوان کی طرح تھے کہ دیکھنے والے کی نگاھیں جمی رہ جائیں داخل ہوئے وہ اللہ والے بہت سے گھروں سے ہوتے ہوئے اس کے دروازے پر آ پہنچے۔ان کے چہرے پر سکون اور عاجزی کا رنگ تھا۔ وہ سفر سے تھکے ہوئے معلوم ہو رہے تھے انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا بولے:

"بیٹی، مسافر ہوں، اللہ کے نام پر کچھ کھانے کو ملے گا؟"

وہ جو ہردم مدد کے لیے تیار رہتی تھی، اس نے فوراً کہا:آپ بیٹھیں، میں ابھی کچھ لے کر آتی ہوں۔"

وہ اندر گئی اور جلدی سے روٹی اور تھوڑا سا سالن لے کر آئی 

آپ نے بسمہ اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا پھر الحمدللہ کہہ کر کھانا ختم کیا آپ کو اللہ کا نام لیتے وہ دیکھ رہی تھی پر اوروں کی طرح بد مزاج تو تھی نہیں اس لیے چپ چاپ کھڑی رہی آپ نے مسکراتی نظروں سے اس کو دعا دی اور کہا کہ چلتا ہوں صدا ہنستی مسکراتی رہو سارے غم دور ہوں پہلی بار کسی کے منہ سے دعا والے جملے سنیں دل کو بڑا اچھا لگا خاموش آنکھوں میں درد کا گہرا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا حال دل

کس کو سناتی کوئی اپنا تھا کب پر اللہ والے سب کے اپنے ہوتے ہیں وہ بنا کچھ کہے سب کے دلوں کو پڑھ لیتے ہیں ان سے ہمارا کوئی بھی راز چھپا نہیں ہوتا اپ نے کہا اچھا میں چلتا ہوں کو اپنا خیال رکھنا ٹھیک ہے یہ کہہ کر اپ گاؤں سے چلے گئے وہ اپ کو دیکھتی رہی اور دل میں سوچتی رہی یہ کون تھے جو میری زندگی میں کچھ پل کے لیے ائے لیکن ایسا لگا کہ جیسے ان کی وجہ سے میری بہت بڑی مشکل اسان ہو جائے وہ زرا دیر کے لیے رک جاتے تو میرے دل کو تسلی مل جاتی یہ سوچ کر وہ اپنے گھر ا گئی اور ایک بار پھر اپنے کاموں میں لگ گئی اس کا شوہر جب واپس ایا تو بہت خوش تھا وہ بولی کیا ہوا اج اپ بہت خوش ہے وہ کہنے لگا بات ہی ایسی ہے اج تو ندی سے اتنی ساری مچھلیاں پکڑی گئی ہیں اور ان کو بیچ کر مجھے بہت سے پیسے ملے ہیں سوچتا ہوں میرے پاس سب کچھ ہے پر تیری کم نصیبی کی وجہ سے ایک اولاد ہی نہیں ہے اس نے دل پکڑ لیا انسان ہر ناکامی کا الزام اس شخص پر کیوں لگاتا ہے کہ جو اس سے کمزور ہوتا ہے

شوہر کے سونے کے بعد وہ دعا کرنے لگی کہ جب میرے شوہر کو ہر طرح کا سکھ ملا ہے تو اولاد کی خوشی سے وہ محروم کیوں ہے کیا یہ سچ ہے کہ اس کی وجہ میں ہوں اسی وقت اس کو کسی کی اواز ائی نہیں اواز دینے والا کون تھا اسے نہیں پتا تھا کوئی اس کے کان میں اہستہ اہستہ بول رہا تھا کہ نہیں اس کی محرومی کی وجہ تم نہیں ہو بلکہ ناشکری ہے اور اللہ سے دوری ہے اللہ یہ کون ہے جانو خود کو پہچانو وہ چونکی بولنے والا دکھائیں نہیں دے رہا تھا اچانک سے اس کے دماغ میں اللہ والے آئے اس نے کہا مجھے ان بزرگ سے پوچھنا چاہیے جو اج دروازے پر ائے تھے ان کے چہرے پر کچھ ایسی بات تھی کہ میں اگر ان سے کوئی سوال کروں گی تو وہ میری بات کا جواب دیں گے نہ جانے کہاں سے ائے تھے کہاں کو چلے گئے 

اللہ والے کو یاد کرتے کرتے وہ سو گئی دوسرے دن بھی گاٶں میں چہل پہل تھی سب ندی کے پاس کھڑے مچھلیاں پکڑ رہے تھے پھر وہ لوگ اپنی مچھلیاں بازار بیچنے کے لیے چلے گئے 

وہ عورت اپنے کاموں میں لگی ہوئی تھی کہ دروازے پر پھر سے دستک ہوئی  اس نے پوچھا کون  اللہ تعالی نے کہا میں ہوں بیٹی کل جو تمہارے پاس ایا تھا  وہ بہت خوش ہوئی جیسے اس کی کوئی پرسوں پرانی خواہش پوری ہو گئی ہو  اسے دروازہ کھولا اور کہا کہ میں تو اپ کو ہی یاد کر رہی تھی  میں جانتا ہوں اس سے پہلے کہ اپ اس سے کچھ کہہ دیں وہ اندر گئی اور اپ کے لیے کھانا لے کر آگئی  کل تو اپ نے اس سے کچھ نہیں کہا تھا پر اج اپ نے کھانا کھانے سے پہلے اس سے پوچھا 
"بیٹی، تم بہت نیک دل معلوم ہوتی ہو۔ لیکن تمہاری آنکھوں میں اداسی کی ایک گہری لہر نظر آتی ہے۔ کیا بات ہے؟"
یہ سن کر اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے۔ وہ گویا پھٹ پڑی اور اپنی تمام پریشانیاں ان بزرگ کے سامنے رکھ دیں۔ اپنے شوہر کی بے رخی   نفرت گاٶں کے لوگوں کے طعنے، اور اپنی بانجھ پن کی ذلت سب کچھ ان کو کہہ سنایا.بزرگ خاموشی سے سنتے رہے، پھر مسکراتے ہوئے بولے:
"بیٹی، تمہاری پریشانیاں صرف اُس وقت ختم ہوں گی جب تم حقیقی رب کو پہچانو گی۔ وہ رب جو سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے، جو انسانوں کو آزماتا ہے تاکہ وہ اُس کے قریب آئیں۔"
وہ حیران ہو کر پوچھنے لگی
"آپ کس رب کی بات کر رہے ہیں؟ میں نے تو ہمیشہ اپنی مورتی کے آگے دعا کی، لیکن اُس نے میری دعا کبھی قبول نہیں کی۔"
اللہ والے نے نرمی سے کہا:
"بیٹی، وہ مورتی تمہیں کیا دے سکتی ہے جو خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتی؟ وہ تو ایک بے جان چیز ہے، جسے تم نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ کیا تمہیں یہ خیال نہیں آیا کہ خالق جو بنانے والا ہو اور مخلوق جس کو بنایا گیا ہو دونوں میں فرق ہوتا ہے؟ میں جس رب کی بات کررہاہوں تم اس  رب سے مانگو گی، وہ ہر جگہ ہے، ہر وقت تمہارے پاس ہے، اور وہ دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔بس وقت اس کوپتہ ہے کونسی دعا کب قبول کرنی ہے "
وہ حیران ہو گئی۔ اُس نے کبھی اس زاویے سے نہیں سوچا تھا۔ اُس کا دل بزرگ کی باتوں پر کھنچ رہا تھا، لیکن اُس کے دماغ میں سوالوں کا طوفان اٹھا۔ اُس نے پوچھا:
"اگر یہ سچ ہے، تو پھر میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوا؟ میں نے کیا گناہ کیا تھا کہ میرے ہاں اولاد نہیں ہوتی؟اللہ والے نے فرمایا
"یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے۔ بعض اوقات اللہ اپنے بندوں کو آزمائش میں ڈال کر اُنہیں اپنا محبوب بنانا چاہتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمہاری دعا سنی  نہی جائیگی۔ یقین رکھو،  صبر کرو، اور اُس سے مانگو جو سب کچھ عطا کرنے پر قادر ہے
بزرگ نے کھانے کے بعد اس عورت کے لیے دعا کی ان کے الفاظ میں جادو تھا اسنے پوچھا  آپ کس مذہب سے ہیں اللہ والے نے کہا میں مسلمان ہوں اس کے دل میں اسلام کی محبت آئی تو بولی تو میں کیسے اپ جیسی بن سکتی ہوں یعنی اپ کے  مذہب میں ا سکتی ہوں اللہ والے نے کہا کہ تم بس کلمہ پڑھ لو اور مسلمان  ہو جاؤ گی پر 
وہ کہتے کہتے رکی میرے یہ گاؤں والے تو مجھے اس جگہ سے نکال دیں گے کیونکہ یہاں  اس کو کوئی بھی مسلمان  نہیں ہے اور یہ لوگ بہت ظالم ہیں  کسی کی جان لینے سے یہ لوگ پیچھے نہیں کرتے ہیں  اللہ تعالی نے کہا تم خاموشی سے کلمہ پڑھ لو اور مسلمان ہو جاؤ کسی کو یہ بات نہیں بتانا تب تک جب تک میں نہ کہوں   وہ تو بس چاھتی تھی کہ اس کی زندگی بدل جائے اور اس کے دل میں سکون آجائے اور ایسا ہی ہوا  اللہ والے  جب اس کو کلمہ پڑھا دیا تو اسے لگا کہ اس کے چاروں طرف روشنی ہی روشنی پھیل رہی ہے  اللہ والے نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھادئیے  اللہ تعالی اس کو ثابت قدم رکھنا اور اپنے دین پر پابند کرنا اور اس کا ساتھ دینا 
یہ عورت تیری طرف آنا چاہتی ہے، اس کے دل کو ہدایت کا نور اور راستہ دکھانا اور اس کی پریشانیوں کو ختم کر دے۔ جو بات اس کے نصیب میں ہے، اسے اس کے لیے آسان بنا دے۔
دعا کے بعد بزرگ نے عورت  سے کہا:
بیٹی، تمہارے گھر کے پاس جو ندی  ہے، اُس ندی کے کنارے میں بیٹھونگا رات کے وقت میں وہی عبادت و دعا کرونگا تم بھی آجانا  میرے ساتھ دعا کرنا اور اُس رب کو پکارنا جو سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے۔ اور یاد رکھنا، تمہاری آزمائش کے پیچھے حکمت ہے۔ ایک گہرا راز چھپا ہے  والے اس سے یہ باتیں کر رہے تھے تو وہی شاطر عورت   چلی ائی اور کہنے لگی ارے تجھے کوئی اور نہیں ملا جو تو اس بھکاری سے باتیں کر رہی ہے  اس نے کہا زبان سنبھال کہ بات کرو بھکاری نہیں ہے بہت بڑے بزرگ ہیں اور ان کے لیے ایسی باتیں نہ کرو  تم میرا جتنا مذاق اڑاتی ہو اڑاتی رہو  اور ان کا ادب اور احترام کرو ورنہ بہت برا ہوگا اس عورت نے کہا اچھا تو ہمارا کیا بگاڑے گی  اللہ  والے نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا تو وہ چپ چاپ وہاں سے چلی گئی اور اپ اس ندی کے پاس اگئے اب یہ خبر اس نے گاؤں میں پھیلا دی کہ ایک بوڑھا اس عورت سے باتیں کر رہا ہے لگتا ہے کہ اپنے دل کا حال کہتی ہے نہ جانے کون ہے جو اس گاؤں میں چلا ایا ہے  ابھی کسی کو یہ نہیں پتہ تھا کہ اس عورت نے کلمہ پڑھ لیا ہے اور مسلمان ہو گئی ہے یہ باتیں راز میں کی گئی تھیں. اور اس عورت نے کھانا پھوسی کر کے سب کے درمیان یہ جھوٹی خبر پھیلا دی کہ یہ عورت اس بوڑھے سے بچہ مانگ رہی ہے  اور یہ اسے کہتے ہیں کہ تمہارے ہاں اولاد ہوگی جبکہ اپ نے ابھی تک ایسی کوئی بات نہ کی تھی سوائے اس کے کہ اللہ پر یقین رکھو وہ سب کرنے پر قادر ہے 
جب گاٶں کے لوگوں کو پتا چلا کہ ایک اللہ والے بزرگ اس عورت کے گھر آئے تھے ، تو اُنہوں نے مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ لوگ کہنے لگے:
"اب تو یہ بھی دیوانی ہو گئی ہے۔ نہ اولاد ہوئی اور نہ عقل آئی۔ کسی اجنبی کی باتوں پر یقین کر رہی ہے جو ایک فقیر ہے  جو جھوٹی آس دلا رہا ہے اے منحوس عورت تو بانجھ ہے بانجھ رہے گی.ان کی باتیں دل کو جلا رہی تھیں 
لیکن اس عورت کے دل میں بزرگ کی باتوں نے امید کی ایک کرن جگا دی تھی۔ وہ گاٶں والوں کی باتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس ندی کے
پاس بیٹھے اللہ والے کے ساتھ دعا کرنے کے لیے تیار تھی 
اس کے شوہر نے بھی گاؤں والوں کی زبانی یہ بات سنی کہ ایک بوڑھے فقیر پر تمہاری بیوی بہت مہربان ہو رہی ہے ذرا خبر لو شوہر دندناتا ہوا اس کے پاس ایا اور کہا کہ کیا معاملہ ہے یہ کس بوڑھے بھکاری کے قصے سن رہا ہوں اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ کچھ بھی تو نہین انھوں نے مجھے کوئی ایی بات نہیں کہی لیکن ان کےآنے سے عجیب سے خوشی ہے ایک بھلے انسان ہیں وہ کسی کو تکیف نہیں دین گے کیا پتہ ہماری روٹھی قسمت بھی سنور جائے یہ سن کر وہ سخت غصے میں آگیا اور بولا:
"میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ تم پاگل ہو چکی ہو! اب تم کسی اجنبی کے پیچھے جا رہی ہو؟ یہ سب فضول ہے۔ تم مجھے کبھی خوشی نہیں دے سکتی! عورت کے لیے یہ الفاظ اور تکلیف دہ تھے، لیکن اُس نے دل ہی دل میں نیت کر لی کہ چاہے جو ہو جائے وہ اللہ والے بزرگ کی بات مانے گی۔ اُس نے آج رات ندی کنارے ان کے ساتھ دعا کرنے کا فیصلہ کیا تھا 
اس رات جب سب لوگ سو گئے تو وہ اللہ والے کے پاس آگئی اللہ والے نماز پڑھ رہے تھے وہ انھیں دیکھتی رہی انہوں نے کہا تھا جس طرح میں نماز پڑھوں اسی طرح تم بھی پیچھے کھڑی ہو جانا اور مجھ سے کوئی بات نہیں کرنا وہ بھی اپ کے پیچھے کھڑی ہو گئی اور جب تک اپ کھڑے رہے وہ بھی کھڑی رہیں پھر اپ نے سجدہ کیا تو وہ سجدے میں چلی گئی جب اپ دعا کرنے لگے تو وہ بھی دعا مانگنے لگی اللہ والے نے اس سے کچھ نہیں کہا وہ پھر گھر اگئی اج اسے بہت سکون کی نیند ائی تھی یہ نیند اسے کبھی نہ ملی ورنہ کوئی رات ایسی نہیں تھی جب وہ روئی نہ ہو اس کا شوہر گہری نیند میں تھا اسے پتہ نہیں چلا کہ اس کی بیوی باہر سے گھر میں اگئی اب یہ روز ہی ہوتا کہ اللہ والے نماز پڑھتے تو وہ بھی پیچھے کھڑی ہوجاتی اور انھی کی طرح عبادت کرتی 
 دن کے وقت اللہ والے کہاں ہوتے کسی کو خبر نہ تھی اللہ والے اللہ کے حکم سے ایک وقت میں کسی جگہ بھی آجا سکتے ہیں آپ بس رات کے
اندھیرے میں ندی پر آجاتے کیونکہ صبح سے شام تک تو گاٶں والے مچھلیاں پکڑا کرتے تھے اور ان کو منہ مانگے داموں بیچتے بھی تھے کہ ان کے گاؤں میں جو مچھلیاں تھی وہ کہیں اور پیدا ہی نہیں ہوتی تھی اسی بات کا فائدہ وہ لوگ اٹھاتے تھے وہ خوبصورت مچھلیاں ایسی تھیں کہ یہ ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا بھی جاتا تھا اسی لیے سے وہ لوگ بڑے شان سے زندگی بتا رہے تھے رات کے وقت کوئی بھی اس ندی کے پاس نہیں اتا لیکن ایک اللہ کے نیک بندے تھے جو کہ رات کو اس دینے والے کی عبادت کیا کرتے اور اب ساتھ میں تھی وہ عورت کہ جس کی زندگی دکھوں کا گڑ تھی جو اللہ والے کے پیچھے ہاتھ پھیلائے رب سے رب کو پکارتی رہتی 
ایک رات پورے چاند کی روشنی تھی اور ہر کوئی گہری نیند کے مزے لوٹ رہا تھا لیکن اللہ والے تسبیح ہاتھ میں لیے
ندی کے صاف شفاف پانی کو دیکھ رہے تھے کہ اتنے میں پانی میں ہلچل ہوئی اور ایک مچھلی پانی کے باہر اگئی وہ اور مچھلیوں سے ذرا بڑی تھی اور بے انتہا خوبصورت تھی وہ اللہ والے سے کچھ باتیں کرتی رہی جیسے وہ انسان انسان سے باتیں کرتا ہے اللہ والے مجھ کو نہ مسکرا کر اس کو جواب دیتے رہے اتنے میں وہ عورت بھی وہاں اگئی اس نے جب اللہ والے کو اس مچھلی کے ساتھ محو گفتگو دیکھا یعنی بات کرنے میں مگن دیکھا تو ان کو دیکھتی رہی دیکھتی رہی اس کے دل میں ایمان اور بڑھ گیا کہ یہ اللہ والے کسی جانور سے بھی ارام سے بات کر لیتے ہیں جب وہ مچھلی اللہ والے سے بہت دیر تک باتیں کرنے کے بعد چپ ہوئی تو اپ نے کہا اب تم جاؤ اللہ بہت بڑا ہے وہ پانی میں چلی گئی اس عورت نے اللہ والے سے کہا اگر گستاخی معاف ہو تو ایک سوال کروں اپ اس مچھلی سے کیا باتیں کر رہے تھے اللہ والے پھر سے مسکرائے اور کہا کہ کچھ باتیں راز کی ہوتی ہیں وقت انے پر پتہ چل جائے گا چلو تم میرے ساتھ یہ تسبیح پڑھو اس کے بعد اپ نے اس کے ساتھ تسبیح پڑھنا شروع کر دی وہ لوگ رات بھر ذکر کرتے رہے اسے اللہ کا نام لینے میں بہت سکون اتا تھا اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ ساری زندگی اللہ والے کے قدموں میں گزار دے پر ابھی تو شوہر سے بھی نمٹنا تھا اور گاؤں والوں سے بھی 
وہ محسوس کرتی رہی کہ جب تک وہ اللہ والے کے ساتھ اللہ کا ذکر اللہ کا نام لیتی رہی وہ مچھلی بھی پانی سے باہر منہ کر کے اپنے ہونٹ ہلا رہی تھی جیسے وہ بھی اللہ اللہ کر رہی ہے اس کو بڑی حیرانی ہوئی اب صبح کو اجالا پھیلنے والا تھا اس نے نماز پڑھی اور اپنے گھر اگئی اس کا شوہر اب تک گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا پتہ ہی نہیں لگا کہ بیوی رات بھر کہاں تھی اس طرح اس کو اللہ والے کے ساتھ کئی مہینے ہوگئے 
گاؤں کی وہ بدزبان خبیث عورت جو اپنی باتوں اور حرکتوں سے اکثر ہی گاؤں میں فتنہ پھیلاتی رہتی تھی۔ 
ایک رات جب وہ بانجھ عورت چپکے سے اللہ والے کے پاس ندی کنارے جا رہی تھی کہ اس خبیث عورت نے اس کا پیچھا کیا اور یہ دیکھ کر اس کی انکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی کہ وہ اللہ والے کے ساتھ وہاں پر تھی اور وہ دونوں کچھ کر رہے تھے اس سے کیا پتہ تھا کہ وہ لوگ عبادت کر رہے ہیں یا نماز پڑھ رہے ہیں اس نے دیکھا کہ بانجھ عورت اللہ والے کے ساتھ وقت گزارتی ہے، تو اس کے دل میں حسد اور بغض پیدا ہوا
وہ خود سے بولی اچھا تو یہاں یہ کھچڑی پک رہی ہے اب دیکھتی ہوں اس عورت کا کیا انجام ہوتا ہے اسے صبح کا انتظار نہیں ہو رہا تھا صبح جب گاؤں والے جاگ گئے اور کام پر جانے لگے تو اس نے سب کو اکٹھا کیا اور کہا کہ میں تم لوگوں کو ایسی بات بتانے والی ہوں کہ تمہارے تو 14 طبق روشن ہو جائیں گے کہا کہ کیا بولن والی ہو وہ جو بانجھ عورت ہے نا وہ اس بوڑھے فقیر کے ساتھ رات میں غلط کام کرتی ہے وہ فقیر اس گاؤں میں کب سے ہے بانجھ عورت کا شوہر بھی وہیں پر کھڑا تھا کہنے لگا میں نے اپنی بیوی کو گھر سے باہر جاتے ہوئے تو نہیں دیکھا وہ ہنس کر کہنے لگی ارے جاگو گے تو پتہ چلے گا نا کب تمہاری بیوی رات میں جاتی ہے ارے میں تو کہہ رہی ہوں بڑا ہی کوئی کھیل کھیل رہے ہیں یہ دونوں مل کر ان میں سے ایک شخص نے کہا مجھے کسی بات کا ڈر نہیں ہے ہمارے پاس تو کسی چیز کی کمی نہیں کوئی ہم سے چھین بھی یا سکتا ہے سب کچھ ہے ہمارے پاس جو کہی وہ بوڑھا فقیر اتنا بوڑھا ہے ہم سے کیا لے سکتا ہے اس کو غصہ اگیا اس نے کہا ٹھیک ہے میری بات پر یقین نہیں کرنا چاہتے تو نہ کرو میں چلی سچ ہے کبھی کبھی لاپرواہی لے ڈوبتی ہے گاٶں مرد ندی کے پاس آکر رنگ برنگی مچھلیاں پکڑنے لگے وہ عورت باز نہیں آئی تھی دوسرے دن بھی اس نے گاؤں میں طرح طرح کی باتیں پھیلانا شروع کر دیں۔ وہ کہتی، "یہ بانجھ عورت اپنے شوہر سے بیزار ہے اور اس بوڑھے کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھتی ہے۔ اب تیر سیدھا نشانے پر لگا اس عورت کی باتیں آگ کی طرح پھیل گئیں۔اس نیک عورت کے شوہر نے بھی اس کی پہرے داری شروع کردی اور خبر صحیح نکلی کہ وہ گھر سے جاتی تو ہے اس نے سب سے کہا کہ میری بیوی اور بوڑھا ملکر کچھ تو کررہے ہیں میں تو کل رات ہی ان دونوں کی کہانی ختم کردیتا پر جوں ہی میں نے گھر سے نکلا مجھے نیند آگئی اور ایک قدم بھی اٹھانا مصیبت بن گیا پر جو بھی ہے دال میں کالا تو ہے 
چند دنوں میں گاؤں کے لوگ اس عورت کی باتوں پر توجہ دینے لگے تھے وہ کہتے، "یہ بانجھ عورت راتوں کو ندی کے پاس کیوں جاتی ہے؟ وہ بھی اس بوڑھے کے پاس؟" کچھ لوگ تو اتنے غصہ میں آگئے کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اللہ والے کو گاؤں سے نکال دینا چاہیے۔
لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ جب بھی وہ اللہ والے کے قریب جانے کی کوشش کرتے، ایک عجیب سا خوف ان کے دل میں بیٹھ جاتا۔ ان کے قدم بھاری ہو جاتے، جیسے کوئی غیبی طاقت انہیں روک رہی ہو۔ اسی وجہ سے وہ کبھی اللہ والے کو نقصان نہیں پہنچا پاتے تھے۔
دوسری طرف، بانجھ عورت ان باتوں سے بے خبر نہیں تھی۔ وہ جانتی تھی کہ گاؤں والے اس کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں۔ لیکن اس نے اللہ والے کی صحبت کو نہ چھوڑا۔ اس کا دل پہلے سے زیادہ اللہ کی یاد میں لگنے لگا۔ وہ ہر رات ندی کنارے جا کر اللہ والے کے ساتھ ذکر کرتی اور سکون پاتی۔
لیکن فتنہ عورت کا حسد بڑھتا جا رہا تھا۔ اس نے گاؤں کے کچھ لوگوں کو اکسا کر اللہ والے کے خلاف بغاوت کی تیاریاں شروع کر دیں۔ وہ چاہتی تھی کہ بانجھ عورت کو ذلیل کرے اور اللہ والے کو گاؤں سے نکال دے۔ اس کے دل میں یہ خیال تھا کہ اگر وہ ان دونوں کو نیچا دکھا دے گی تو وہ کام ہو جائے گا جو برسوں سے چاہتی تھی اس کی نیت بہت خراب تھی 
بانجھ عورت نے اپنی آزمائش کو صبر کے ساتھ قبول کیا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ایک امتحان ہے۔ اس نے اللہ والے سے کہا، "میں گناہ گار ہوں، لیکن مجھے یہ یقین ہے کہ آپ کے پاس رہنے سے میری آزمائش آسان ہو جائے گی۔" اللہ والے نے صرف اتنا کہا، "صبر کرو، ہر راز کا وقت پر پردہ اٹھتا ہے۔"
فتنہ عورت کی سازشیں بڑھ رہی تھیں۔ اب وہ بانجھ عورت کے شوہر کے پاس جا کر اسے بھڑکانے لگی۔ اس نے کہا 
"تمہاری بیوی تو رات بھر اس بوڑھے کے ساتھ رہتی ہے تم کیسے مرد ہو جو اسے رو نہیں پارہے قابو کرو بیوی کو ورنہ ہاتھ سے نکل جائےگی شوہر تو پہلے ہی بیوی کو ناپسند کرتا تھا پر یہ بہت عجیب تھا کہ جب بھی وہ اپنی بیوی کا پر ہاتھ اٹھانے لگتا اسے کوئی روک دیتا اس کا ہاتھ ہوا میں جھول جاتا اور جب وہ رات میں اس کے پیچھے جانا چاہتا تو کوئی اس کے پیروں کو پکڑ لیتا وہ چاہ کر بھی اپنی بیوی پر حکم نئیں چلا پارہا تھا  
 ایک رات اللہ والے نے اس عورت سے کہا کہ میں کسی کام سے باہر جارہا ہوں تم اپنا خیال رکھنا یہ کہہ کر خاموشی سے آپ گاٶں سے چلے گئے بستی والے تو سمجھ نہ پائے کہ بڑے میاں بنا کچھ کہے کہاں چلے گئے پر جو بھی تھا ان کو تو یہی چاہئیے تھا کہ جان چھوٹی وہ اپنے کاموں میں لگ گئے سب اچھا چل رہا تھا پر کچھ دن نہ گزرے تھے ایک دن جب سب مچھلیوں کو پکڑ رہے تھے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ندی کی ساری مچھلیاں مرنے لگیں ان کے تو ہوش اڑ گئے کہ نہ پانی گندہ نہ کوئی زہر ملا اس پانی میں پر یہ مچھلیاں مر کیوں رہی ہیں ان کی تو جان نکلنے لگی کبھی ایسا تو نہ ہوا تھا کہ اس طرح کی آفت سر پر پڑی ہو سب بوکھلاگئے اللہ والے تو وہاں سے چلے گئے تھے کس پر الزام لگاتے وہ سب سر پکڑ کر بیٹھ گئے جو رب نے نوازا وہ دھیرے سے لینا شروع کردیا تھا.یہی وبال جان نہیں ہوا تھاکہ صاف شفاف ندی اب سوکھنے لگی پہلے مچھلیاں پھر پانی کا غائب ہوجانا ان کا اناج ختم ہوگیا دانے دانے کو وہ لوگ ترسنے لگے اتنے میں وہ خبیث عورت پھر سے زہر اگلنا شروع ہوگئی یہ بانجھ عورت ہے نا سب کے اس بابا کی کارستانی ہے جنتر منتر کرتا تھا وہ دیکھ لو وہ جیسے ہی گیا ہماری خوشحالی بھی ساتھ لے گیا 
اس عورت  کو سب خبر ہوگی اس کے شوہر کو کہا گیا پوچھو اپنی بیوی سے کیا کرتی تھی اس کے ساتھ اس نے  کہا یہ کسی انسان کی وجہ سے نہیں ہے یہ ہم پر افت ہمارے اپنے ہی کرموں کی وجہ سے ہیں  اس پر وہ لوگ بھڑک گئے اور کہا کہ اچھا ہم نے کیا کرم کیے ہیں ہمارے پاس ساری نعمتیں تھیں کسی چیز کی کمی نہیں تھی لیکن جب سے وہ بوڑھا یہاں سے گیا ہے اس نے کوئی نہ کوئی تو جادو رونا کیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیں بدحالی دے گیا
وہ بولی ان کے لیے کچھ نہ کہو وہ تو سب کے لیے دعا کرنے والے ہیں اور ہم سب کو فائدہ پہنچانے ائے تھے  تو ان کے بہت گن گاتی ہے یہ بتا وہ تیرے ساتھ کیا باتیں کیا کرتا تھا  اس نے کہا  تم لوگوں کے تانوں سے تنگ ا چکی تھی اس لیے میں نے ان سے دعا کے لیے کہا کہ  مجھے بھی صاحب اولاد کر دیا جائے  تاکہ تم سب یہ نہ کہو کہ اولاد میرے بس میں ہے  اور میں ہی اس کو دنیا میں نہیں لانا چاہتی 

شوہر کا غصہ شدت میں بدل گیا تھا۔ گاؤں والوں کی باتیں سن سن کر اس کا دل بھی سخت ہو گیا تھا۔ اس نے اپنی بیوی کو غصے میں دھتکارتے ہوئے کہا:
"یہ سب تیری نحوست کی وجہ سے ہوا ہے! نہ تو ماں بن سکتی ہے، نہ کبھی بنے گی۔ ہم سب بھوکے مر رہے ہیں، ہماری زمینیں بنجر ہو چکی ہیں، اور مچھلیاں مر گئی ہیں۔ یہ سب تیرے اور اس اللہ والے کے چکر میں ہوا ہے۔ تو کیوں بار بار اس کے پاس دعائیں مانگنے گئی؟ کیا تو سمجھتی تھی کہ اولاد مانگنے سے مل جائے گی؟ یہ سب جھوٹ ہے، اور تیری حرکتوں نے ہمیں تباہ کر دیا ہے۔"
بیوی خاموشی سے سب کچھ سنتی رہی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، مگر وہ کچھ نہیں بولی۔ اس نے اپنے شوہر کو دیکھا، جو اپنی بے بسی اور غصے میں نہ صرف اسے بلکہ خود اپنی قسمت کو بھی کوس رہا تھا۔ عورت کو یاد آیا کہ اللہ والے نے اس سے کہا تھا کہ آزمائش کے وقت صبر اور دعا سے کام لینا۔ اس نے دل ہی دل میں دعا مانگی:
"یا اللہ! تُو بہتر جانتا ہے کہ میرا دل صاف ہے۔ ان کی باتیں سن کر بھی میں تجھ سے راضی ہوں۔ تُو ہی ہے جو مجھے حوصلہ دے اور ان کے دلوں کو بدل دے۔"

شوہر نے اس کی چپ کو اس کی کمزوری سمجھا اور سخت لہجے میں بولا:
"تجھے یہ سب جادو ٹونے کا شوق تھا؟ تجھے یہی کرنا تھا؟ اب دیکھ، نہ زمین پر اناج ہے، نہ گھر میں سکون۔ تیرے نصیب میں نہ اولاد ہے، نہ برکت۔ تُو ہمیشہ بے کار رہے گی، جیسے یہ زمین اب بیکار اور بےمول ہے۔"

یہ الفاظ بیوی کے دل کو چھلنی کر گئے۔ وہ کچھ لمحے خاموش رہی، پھر ہمت کر کے بولی:
"تمہاری باتیں سن کر دکھ ہوتا ہے، مگر میں جانتی ہوں کہ تم کڑوی زبان بول کر مجھے توڑ نہیں سکتے اب تمھاری زہریلی زبان مجھے مار نہیں سکتی میں مضبوط ہوچکی ہوں۔ اچھا بہت زبان چل رہی ہے شوہر سے اونچی واز میں بات کریگی وہ ہاتھ اٹھانے ہی والا تھا کہ ایک بھاری مردانہ آواز گونجی رک جٶ اے نامرد عورت پر ہاتھ اٹھانا کوئی بہادری اور مردانگی کا کام نہیں وہ عورت بیچارگی سے اللہ والے کو دیکھنے لگی 
اسی وقت اللہ والے تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے ان کی طرف آنے لگے پر چال میں کوئی غرور نہیں سب میں جب ان کو دیکھا تو کہا کر لو اگیا جس نے یہ سارا کھیل کھیلا ہے تو نے ہمارا ستیاناس کر دیا تو نے ہماری خوشیاں لے لی ہمارے گاؤں کی عورت کا استعمال کیا ہے تو ہی بتا کہاں گیا یہ پانی کہاں گئی مچھلیاں اور ہمارے پاس جو کچھ تھا سب کیوں ہم سے لے لیا گیا تم نے ایسا کیا کام کیا تھا کہ راتوں رات سر شرم سے جھکا کر گاؤں سے نکل گئے اپنے جرم کا تمہیں حساب دینا ہوگا اللہ والے نے مسکرا کر کہا میں نے کوئی جرم کیا ہی نہیں تو ندی کنارے بیٹھ کر کیا کیا کرتے تھے میں اس اللہ کا نام لیتا تھا جس کا یہ سب دیا ہوا ہے بس اس کا شکر ادا کرتا اور کچھ نہیں کون اللہ ہم تو اپنے معبود کی عبادت کرتے ہیں میں اس اللہ کی بات کر رہا ہوں جس کو مسلمان اپنا خدا کہتے ہیں اصل میں تو وہ سب کا خدا ہے سب کا خالق ہے چاہے کوئی اسے مانے یا نہ مانے 
سب اس رب کا ہے جس کو چاہے جیسے عطا کردے جب وہ دینے پر اتا ہے تو پہاڑوں سے بھی دودھ کی نہریں نکال دیتا ہے جو دینے پر اتا ہے تو ایک انسان کو کئی اولادیں دے دیتا ہے پر تم لوگ تو ہو ناشکرے تم لوگوں کو اللہ تعالی نے کیا کچھ نہ دیا پر پھر بھی تم نے شکر گزاری نہ کی دیکھو تم سے لے لیا گیا 
  بہانے مت بناؤ اے بوڑھے سب تیری وجہ سے ہوا ہے اج ہمارا کاروبار ٹھپ ہو گیا یہ مچھلیاں جنہیں بیچ کر ہم اپنی روزی کماتے تھے ان مچھلیوں جیسی مچھلیاں یہاں پر کسی جگہ نہیں تھیں پر تیرے آنے سے ہماری یہ مچھلیاں مر گئی ہم بھوکے ہیں ہماری زمین سوکھ گئی صرف تیری اور اس عورت کی حرکتوں کی وجہ سے بتاؤ تم نے کیا جادو ٹونہ کیا ہے اس ندی کے پاس بیٹھنے کا کوئی تو مقصد ہوگا کہ تم یہاں بیٹھ کر اس پر منتر پڑھتے تھے جب تمہارا کام ہو گیا تو تم چلے گئے 

اگر میں تمہیں نقصان دینے والا تھا تو پھر واپس کیوں آیا کیونکہ تم دیکھنے ائے تھے کہ ہم لوگ کتنے اپاہج اور محتاج ہوچکے ہیں اور اب تم چاہتے ہو کہ ہم تمہیں سجدہ کریں اور تمہیں یہاں کا بڑا مانیں اللہ والے مسکرائے اور فرمایا نہیں میں بالکل نہیں چاہتا کہ تم مجھے سجدہ کرو کیونکہ میں جس کو سجدہ کرتا ہوں سجدے کا حکم حق تو صرف کے لیے ہے اس کے علاوہ کسی کے سامنے نہیں جھکا جاتا 

اسی دوران، اللہ والے ندی کے قریب پہنچ گئے۔ ان کے چہرے پر سکون اور آنکھوں میں چمک تھی۔ عورت کو دیکھ کر انہوں نے کہا:
"اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ تمہارے صبر کا انعام اللہ ضرور دے گا، اور ان لوگوں کو بھی جلد احساس ہو جائے گا کہ حقیقت کیا ہے۔
ہم بھوکے مر رہے ہیں، اور تم ہمیں نصیحت کرنے آئے ہو؟"
اللہ والے نے نرمی سے کہا،
"تم لوگ مجھ پر الزام لگا رہے ہو، مگر یہ سوچو کہ جو کچھ ہوا، وہ تمہارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ تم نے اللہ کی نعمتوں کی قدر نہ کی، تم نے ناشکری کی، اور یہی ناشکری تمہیں اس حال تک لے آئی ہے۔"

اللہ والے کی باتوں پر لوگوں کا غصہ کم ہونے کی بجائے بڑھنے لگا۔ وہ بولے، "ہمیں تمہاری نصیحتیں نہیں چاہئیں۔ تم بس یہ بتاؤ کہ تم نے ندی کے پاس کیا جادو کیا تھا؟ میں نے کوئی جادو نہیں کیا ہے آپ نے اب بھاری آواز میں کہا 
تو کیوں ائے ہو واپس اپنی جان پیاری نہیں تھی جو ہمارے بیچ ا گئے ہم تو تمہیں چھوڑنے والے نہیں ہیں میں صرف اس عورت کے لیے ایا ہوں کہ جس کے دل کو تم لوگوں نے اپنے طنز سے چکناچور کر دیا مت للکارو اللہ تعالی کی قدرت کو 
میں یہاں صرف تمہیں اللہ کی قدرت دکھانے آیا ہوں۔ اس کی نشانیاں بہت سی ہیں اب اس عورت کے شوہر کہنے لگا اچھا نشانی کیا دکھاؤ گے کیا تم مجھے میری اولاد دلوا سکتے ہو کیا میں بھی باپ بن سکتا ہوں یا پھر سے اس ندی کا صاف شفاف پانی آسکتا ہے مچھلیاں زندہ ہو کر اس پانی میں اسی طرح تیر سکتی ہیں اور یہ جب سب جو ہمارے میرے گاؤں میں سبزہ تھا ہریالی تھی کہ سب لوٹ سکتا ہے کیا تمہارا خدا اتنا طاقتور ہے ہاں میرا اللہ اتنا طاقتور ہے لیکن تمہیں بتانے کے لیے وہ طاقت نہیں دکھائے گا اس کو کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے وہ مذاق اڑاتے ہوئے ہنسنے لگا تو اس کا مطلب کہو نا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو اور صرف ڈینگیں مار رہے ہو بہتر یہ ہے کہ یہاں سے نکل جاؤ ہمارا معاملہ ہے ہم خود سدھار لیں گے ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے اللہ والے نے کہا جب تک اس عورت کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تب تک تو یہاں سے نہیں جاؤں گا تو تم کیا حل کرو گے اس کا مسئلہ اس کے ساتھ ناجائز تعلقات بنا کر جو گل کھلاتے رہے ہو پر افسوس یہ عورت پھر بھی ماں نہیں بن سکی میں نے کہا نا اس کے ساتھ ایک مرد تعلق بنا لے یا ہزار مرد یہ پھر بھی ماں نہیں بن سکتی ہے اللہ والے کو اس کے جملے سن کر جلال ارہا تھا کیونکہ اس عورت کے کردار پر تہمت لگ رہی تھی اور یہ بہت بڑی بات تھی جس کو اپنی بیٹی کی طرح رکھا اور جو ان کو اپنا باپ مانتی تھی اور اسلام قبول کر لیا تھا اس کے لیے ایسی باتیں سن کر اللہ پاک کا خون اب کھولنے لگا اپ نے کہا بہت ہو گئی تمہاری بے شرمی کی باتیں اتنے بے حیا ہو اپنی زبان پر قابو رکھو ورنہ جو تم یہاں کھڑے ہو اس ہستی سے بھی مٹا دیے جاؤ گے اس عورت کو کیا تانے مارتے ہو کہ یہ تمہیں اولاد نہیں دے سکتی جب میرے رب کا حکم ہوتا ہے سب ہو جاتا ہے تو کہو اپنے اللہ سے جس کو بڑا کہہ رہے ہو اگر وہی سب کو اولاد دیتا ہے تو پھر وہ اور وہی سب کو بنانے والا ہے تو دکھاؤ کوئی ایسا جلوہ اس کا کہ جس کی وجہ سے ہم مجبور ہو جائیں تمہارے خدا کو ماننے پر وہ جلوہ میں نہیں دکھا سکتا وہ جلوہ تو وہی دکھا سکتا ہے کیونکہ میں تو خود اس کا ایک غلام ہوں اور اس کے حکم پر چلتا ہوں میں کوئی نہیں ہوتا اسے حکم دینے والا یہ اس کی مرضی ہے وہ جب چاہے اپنا فیصلہ سنائیں میں بس دعا کر سکتا ہوں 
اللہ والے نے ندی کے قریب جا کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ لوگوں کی نظریں ان پر تھیں، اور ان کے دلوں میں تجسس تھا۔ اچانک کچھ ہلچل محسوس ہوئی۔ وہ ندی جو خشک ہو چکی تھی، اس میں سے ایک مچھلی باہر نکل آئی یہ وہی مچھلی تھی جو اللہ والے سے باتیں کیا کرتی اور جب آپ ذکر کرتے وہ آپ کے ساتھ لب ہلاتی وہ اس وقت بھی ہونٹ ہلارہی تھی سب تو یہ دیکھ رہے تھے پانی کے بغیر ایک مچھلی کیسے زندہ ہے جبکہ کوئی مچھلی وہاں پر بچی ہی نہیں تھی یہ کہاں سے ائی اللہ والے نے اس کی طرف توجہ کی اپ سے وہ کچھ کہہ رہی تھی اس نے کہا آپ نے سمجھ لیا ایک دم سے آنکھوں میں چمک آئی اور ہونٹوں پر مسکان پھر اپ ان لوگوں کی طرف اڑے اور آپ نے مچھلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، "تم لوگ کہتے ہو کہ یہ عورت بانجھ ہے اور اولاد نہیں دے سکتی؟ دیکھو، میرا اللہ وہ قدرت رکھتا ہے کہ مچھلی بھی بچہ پیدا کر سکتی ہے! اب وہ عورت جو کہ سب سے بڑی فتنہ باز تھی اس نے کہا مچھلی بچہ پیدا نہیں کرتی ہے وہ انڈے دیتی ہے ہمیں کیا سکھا رہے ہو کہ ہم جانتے نہیں کہ ایسا ہوتا ہی نہیں ہے کیا کسی نے کبھی دیکھا ہے مچھلی کو بچہ پیدا کرتے ہوئے وہ سب کی طرف دیکھ کر بولی ہاں کبھی نہ سنا کبھی نہ دیکھا یہ ادمی عجیب باتیں کرتا ہے دراصل یہ اپنے اپ کو بچا رہا ہے اور اس بانجھ عورت کو بھی
یہ دونوں ناجائز رشتے میں ہے اور اپنا گناہ چھپانے کے لیے اسے فضول کی باتیں کرکے ہم سب کا دھیان بھٹکانا چاہتے ہیں وہ اس عورت کے شوہر سے بولی اپنی بیوی کو اس گاؤں سے دھکے مار کر نکال دو اس بڈھے کے ساتھ ویسے بھی تمہارے لیے تو یہ کسی کام کی نہیں ہے وہ ادمی تو ویسے ہی اس کو پسند نہیں کرتا تھا اس نے کہا ٹھیک کہتی ہو یہ کہہ کر وہ اس کی طرف بڑھنا ہی چاہتا تھا کہ اللہ والے نے کہا رک جاؤ ابھی دیکھ لو وہ تماشا جو تم نے کبھی نہیں دیکھا پر یہ تماشہ تم سب کے لیے تم سب کی انکھیں کھولنے کے لیے ہے کرشمہ قدرت کا دیکھنا ددعد ہو تو دیکھو اس مچھلی کی طرف اپ نے ابھی یہ بات کی تھی اور سب حیرت سے سوکھی ندی کی طرف دیکھنے لگے جہاں وہ مچھلی  سب کے سامنے تھی اس کا پیٹ پھولنا شروع ہوگیا اور سب حیران رہ گئے کہ اس مچھلی نے واقعی  بچے کو جنم دیا اور وہ بچہ کسی جانور کا نہیں تھا وہ انسان کا بچہ تھا جو مکمل ہاتھ پیر کے ساتھ دنیا میں آیا تھا یہ منظر اتنا عجیب اور حیران کن تھا کہ سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کسی کی زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکل پایا۔اللہ والے نے وہ بچہ اس بانجھ عورت کے ہاتھ میں دے دیا یہ کہہ کر یہ تمھارے لیے تحفہ ہے تمھارے صبر کا تحفہ.پھر اس کے شوہر سے کہا اپنی مردانگی پر فخر کرنے والے اے شخص بانجھ تمھاری بیوی نہیں تم تھے بچہ پیدا نہ کرنے کی وجہ تمھاری کمزوری تھی تمھاری صابر بیوی کی نہیں. پر دیکھو مچھلی نے بچہ پیدا کیا تمھاری بیوی اب بانجھ نہیں کہلائیگی کیا کبھی سوچا تھا ایسا بھی ہوگا تمھارے طنز تمھارے دل توڑ الفاظوں سے اس کے دل پر کیا گزری تم جیسا پتھر دل نہیں سمجھےگا پر جب اس نے اپنے اللہ کو پکارا تو بےبس انسان کی دعا تو اللہ تک جاتی ہے پھر یہ اس کا کام وہ کس طرح اپنے بندے کی مراد پوری کرے اور اے گاؤں والو خود پر گھمنڈ کرنے کی بھی حد ہوتی ہے  کہتے تھے یہ سب ہمارا اپنا کیا دھرا ہے تو کہاں گیا ندی کا پانی کہاں گئی مچھلیاں  لوگوں کے دل خوف سے بھر گئے۔ انہیں احساس ہوا کہ وہ کس قدر غلط تھے۔ ان کی ناشکری اور الزامات نے انہیں تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ وہ سب اپنی جگہ کھڑے کانپنے لگے۔
اللہ والے نے گہری آواز میں کہا،
"یہ تمہارے لیے نشانی ہے کہ اللہ کی قدرت کے آگے کچھ بھی ناممکن نہیں۔ جس اللہ نے مچھلی سے انسان پیدا کر دیا، وہ تمہیں بھی ہر نعمت دے سکتا ہے، بشرطیکہ تم شکر گزار بندے بنو۔ لیکن تم نے کیا کیا؟ ناشکری کی، جھوٹے الزامات لگائے، اور اللہ کی نعمتوں کی بے قدری کی۔ اب بھی وقت ہے۔ اپنے گناہوں پر ندامت کرو، اللہ سے معافی مانگو، اور سچے دل سے اس کے شکر گزار بنو۔"
یہ سن کر لوگ اپنے کیے پر شرمندہ ہونے لگے۔ کچھ لوگ زمین پر گر کر اللہ سے معافی مانگنے لگے، اور کچھ رو رو کر اپنی ناشکری کا اعتراف کرنے لگے۔ بس ہمارا امتحان اب ختم ہوجائے اللہ والے کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی، جیسے وہ جانتے تھے کہ اب ان لوگوں کے دل بدل چکے ہیں۔اللہ تعالی تم سب کی مشکل کو آسان کرے اب میرے ساتھ دعا کے لیے ہاتھ اٹھاؤ سب نے آپ کے ساتھ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے تو اپ نے دعا فرمائی اے رب تعالی اب تو ان کی ازمائش کو ختم کر اس نیک عورت کے صدقے میں ندی پھر سے صاف پانی سے بھر جائے مچھلیاں واپس آجائیں تو سب کرنے پر قادر ہے تو سب کر سکتا ہے اللہ تعالی نے ان کی دعا سنی اور آسمان سے بارش برسنے لگی اسقدر جلتھل ہوئی کہ ہر طرف ہریالی ہوگئی اور ندی کا پانی پھر سے بھر گیا اب وہ مچھلی جس نے بچہ پیدا کیا تھا اللہ والے کے اشارے پر جوں ہی اس نے ندی میں چھلانگ لگائی ایک دم بہت ساری مچھلیوں نے پانی سے باہر سر نکالا گاٶں والے تو جھوم اٹھے ایسا نظارہ تو کبھی نہ دیکھا تھا ابھی تو مسلمان بھی نہ ہوئے تھے کہ دعا قبول کر لی گئی یعنی وہ رب اتنا مہربان ہے آپ نے سب کے دل پڑھ لیے اور کہا سب ایک ساتھ اسلام قبول کروگے جی ہاں بیشک اب سب کے دل میں سچی خوشی تھی کوئی غرور گھمنڈ نہیں تھا اس نیک عورت کا شوہر بھی اپنی بیوی سے معافی مانگنے لگا اور وہ عورت تھی جو کہ شر پھیلاتی تھی اس نے کہا یہ سب میری چال تھی میں تمہارے شوہر کو پانا چاہتی تھی بس اسی لیے میں تمہارے لیے ایسی پکڑ بھی باتیں کہتی تھی تم بھی مجھے معاف کر دو اپنے دل صاف کرلو وہ بولی میرے دل میں کسی کے لیے کوئی برائی نہیں میرے رب نے میری خالی گود کو بھر دے دیا مجھے صلہ مل گیا اب مجھے کوئی شکوہ نہیں اللہ والے کا شکریہ کہ جن کی وجہ سے یہ سب ہوا اپ نے کہا ہم تو بس اللہ کے بندے ہیں اور اللہ کی راہ میں نکلتے ہیں دکھ انسانوں کی مدد کرنے کے لیے بس جاتے ہوئے ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالی کی ناشکری کا بھی نہیں کرنا چاہے جتنا بھی تم امیر رئیس ہو جاؤ چاہے جتنی اولادیں تمہیں مل جائیں پر کبھی تم اپنے اپ پر فخر نہیں کرنا یاد رکھو جو ہے سب اللہ کا ہے 

Author Name - Rabia Naz Saeedi 

Publish Date - 11 August 2024


Comments