All rights reserved. This story was originally published on https://best.92islamicquotes.com Reproduction or use without permission will be considered a copyright violation.
شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے ۔ آسمان پر سرخی مائل روشنی پھیل رہی تھی ، اور پرندے اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹ رہے تھے۔ایسے میں وہ گھبرائی ہوئی لڑکی جس کے چہرے پر ڈر اور خوف کا سایہ تھا، جیسے کوئی اسے بہت بڑی مصیبت میں ڈال دے گا۔ بن ماں کی وہ بچی جس کا دل دہل رہا تھا، کسی سوکھے پتے کی طرح کانپ رہی تھی۔ وہ ڈرتے ڈرتے جنگل میں آئی تھی اور اسے فوراً اپنا کام کرنا تھا، کیونکہ کوئی اس کی جان کا دشمن تھا۔ شام کا اندھیرا پھیلنے سے پہلے اسے اپنے گھر جانا تھا۔اس نے جلدی سے جنگل کی لکڑیاں اکٹھی کیں اور اپنے گھر کی طرف قدم بڑھائے ہی تھے کہ ایک مدھُر، سریلی آواز نے اس کے قدم روک دیے۔ یہ آواز انجانی تھی، مگر پھر بھی جانی پہچانی لگ رہی تھی۔ اس نے آج تک یہ آواز نہیں سنی تھی، مگر جیسے ہی یہ آواز اس کے کانوں میں پڑی، اس کے دل کی دنیا بدلنے لگی اور فضا خوشگوار ہو گئی۔ وہ بہت دیر تک اس گونجدار آواز کو سنتی رہی، جیسے کوئی بہت پیار سے کسی کی تعریف کر رہا ہو۔ اس آواز کے ساتھ درختوں کے پتے اور پرندے بھی جھوم رہے تھے۔ وہ اس آواز کو سنتے ہی مسکرا دی، پھر لکڑیاں اُٹھا کر اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔ یہ مائرہ تھی، اور جس انسان کے بارے میں سوچ کر وہ کانپ رہی تھی، وہ کوئی اور نہیں بلکہ اس کا جلاد باپ تھا۔
وہ بے حس اور سخت دل انسان تھا، جس کے دل میں نہ رحم تھا نہ نرمی۔
وہ اپنی بیٹی کے لیے ایک آزمائش بن گیا تھا، جو ہر لمحہ اسے خوف اور پابندیوں میں جکڑے رکھتا۔اس کا دل ایمان سے خالی تھا، سچائی اس کے سامنے آکر بھی اسے نظر نہیں آتی تھی۔ وہ حق کو جھٹلانے والا تھا، اس کی سوچ نے اس کے دل کو پتھر بنا دیا تھا۔ وہ اس بستی کا سردار تھا۔ اس کا نام الیاس تھا ۔ وہ سب غیر مسلم تھے، الیاس کی بات گاؤں والوں کے لیے حکم جیسی تھی۔ اس لیے اس کو سب الیاس حاکِم کہتے تھے ۔ وہ جو کچھ بھی بتاتا، لوگ آنکھ بند کرکے اس پر بھروسہ کرلیتے۔
الیاس کا یہ ماننا تھا کہ انسان سے بڑی کوئی طاقت نہیں ہے۔ وہ کسی بھی خدا پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ ہم خود ہی پیدا ہو گئے ہیں اور ہمیں اس دنیا میں لانے والے، یعنی ذریعہ، صرف ماں باپ ہیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں جو اس دنیا کو چلا رہا ہے۔ اس کے نزدیک سب کام خود ہو جاتے ہیں، سب چیزیں اپنے آپ بن جاتی ہیں۔ انسان اتنا طاقتور ہے کہ وہ جو چاہے، اپنے بل پر حاصل کر سکتا ہے۔
اس گاؤں میں رہنے والے مرد سنہرے بالوں والے گوری رنگت کے جوان تھے۔ وہ کھیتوں میں کام کیا کرتے تھے، اور اس گاؤں کی خاص بات یہ تھی کہ وہاں پر بہت تازہ اور بڑے تربوز اگا کرتے تھے۔ ایسے تربوز کہیں اور نہیں اگتے تھے۔ اسی وجہ سے اس بات نے ان گاؤں والوں کو گھمنڈ میں مبتلا کر دیا تھا۔ الیاس ان میں سب سے بوڑھا تھا اس لیے تجربہ کار بھی سمجھاجاتا۔
الیاس بیٹی کی پیدائش کو گناہ سمجھتا تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ ماں سے کوئی غلطی ہو تبھی بیٹی پیدا ہوتی ہے۔ اسی سوچ کی وجہ سے وہ اپنی بیٹی سے سختی سے پیش آتا اور اسے گھر کے ہر کام پر مجبور کرتا۔ اگر اس کا بس چلتا تو وہ اسے مار دیتا، مگر اسے مفت کی نوکرانی جو مل گئی تھی۔ مائرہ نہ صرف گھر کے سارے کام کرتی بلکہ باہر کے کام بھی اسی کے ذمے تھے۔ وہ دن رات محنت کرتی، مگر پھر بھی اسے باپ کی نفرت اور سخت رویے کا سامنا کرنا پڑتا۔
آج جب وہ کھانا بنا رہی تھی تو اس کے دل میں عجیب سی خوشی تھی۔ جنگل میں سنی ہوئی وہ مدھر آواز اب بھی اس کے کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ آخر وہ کیسی آواز تھی جو سیدھی دل میں اتر گئی تھی؟ اس کے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ آ گئی۔ شاید پہلی بار اس نے کسی چیز کو سوچ کر خوشی محسوس کی تھی، ورنہ اس کی زندگی تو ہمیشہ خوف اور تکلیف میں گزرتی تھی۔
دوسرے دن روز کے کاموں کے بعد وہ پھر سے جنگل کی طرف چل پڑی
آج مائرہ کے دل میں عجیب سی خوشی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ کیسی خوشی ہے، مگر یہ پہلے جیسی نہیں تھی۔ اس کا دل ہلکا اور پرسکون محسوس ہو رہا تھا، جیسے کوئی روشنی اندر تک پھیل گئی ہو۔ وہ لکڑیاں چننے کے لیے جنگل کی طرف نکلی، مگر آج اس کے قدم عام دنوں کی طرح بوجھل نہیں تھے۔ جنگل میں شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے، درختوں پر چڑیاں واپس لوٹ رہی تھیں، اور ہوا میں ایک ٹھنڈک سی محسوس ہو رہی تھی۔ اچانک، اس کے کانوں میں پھر وہی سریلی آواز گونجی۔ وہی اذان جو اس نے پہلے دن سنی تھی۔ اس کے دل میں ایک خیال آیا، "کیوں نہ میں دیکھوں کہ یہ آواز کہاں سے آرہی ہے؟"
وہ بے اختیار اس آواز کے پیچھے چلنے لگی۔ جنگل کے درختوں کے بیچ راستہ بناتے ہوئے وہ دوسرے کنارے تک پہنچ گئی۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھتی، اسے ایک روشنی نظر آنے لگی۔ یہ روشنی بہت نرم اور پرسکون تھی، جیسے کوئی چراغ جل رہا ہو۔ روشنی کے قریب پہنچنے پر، اس نے دیکھا کہ ایک بستی آباد ہے۔ وہاں کا منظر بالکل مختلف تھا۔ ہر طرف خوشی اور رونق تھی، لوگ آپس میں محبت سے بات کر رہے تھے، ہنسی خوشی بیٹھے تھے، اور سب ایک ساتھ کھانے پینے میں مصروف تھے۔ یہ دیکھ کر مائرہ حیران رہ گئی۔ اس کے گاؤں میں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا تھا، وہاں کے لوگ زیادہ تر سخت مزاج تھے، اور سب اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف رہتے تھے۔
وہ حیرت سے سب کچھ دیکھ رہی تھی کہ اچانک ایک بوڑھی عورت اس کے قریب آئی۔ عورت نے نرمی سے پوچھا، "بیٹی، تم کون ہو؟" مائرہ کچھ کہہ نہ سکی، بس خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی۔ بوڑھی عورت مسکرائی اور بولی، "اچھا، آؤ، افطار کا وقت ہو گیا ہے، ہمارے ساتھ روزہ افطار کرو۔" مائرہ حیران رہ گئی، "روزہ؟ یہ کیا ہوتا ہے؟" مگر اس نے کچھ نہیں کہا، کیونکہ اسے سخت بھوک لگی ہوئی تھی۔
بوڑھی عورت، جسے سب "بڑی اماں" کہہ رہے تھے، اسے اپنے ساتھ لے گئی اور کھانے کے پاس بٹھا دیا۔ اس کے سامنے نرم گرم روٹیاں، کھجوریں اور مزیدار کھانے رکھ دیے گئے۔ وہ بھوکی تھی، اس لیے زیادہ سوچے بغیر کھانے لگی۔ کھانے کی خوشبو بہت اچھی تھی، اور اسے لگا کہ جیسے وہ پہلی بار کسی محبت بھرے ماحول میں کھانا کھا رہی ہو۔ سب لوگ ایک ساتھ بیٹھے، مسکرا رہے تھے، اور کسی کے چہرے پر غصہ یا سختی نہیں تھی۔
مائرہ نے کھانے کے دوران اِدھر اُدھر دیکھا۔ ہر کوئی ایک ساتھ کھا رہا تھا، کوئی کسی سے اونچا یا نیچا نہیں تھا۔ سب کے چہروں پر اطمینان تھا۔ یہ سب کچھ اس کے گاؤں سے کتنا مختلف تھا! وہاں ہر کوئی خود میں مگن رہتا تھا، اور زیادہ تر لوگ سخت دل اور مغرور تھے۔ مگر یہاں، ہر کوئی ایک دوسرے کا خیال رکھ رہا تھا۔ یہ سب دیکھ کر مائرہ کے دل میں ایک سوال پیدا ہوا، "یہ کون لوگ ہیں؟
بوڑھی عورت نے نرمی سے مائرہ کی طرف دیکھا اور کہا، "بیٹی، تم کہاں رہتی ہو؟" مائرہ نے آہستہ سے جواب دیا، "میں پڑوس کے گاؤں سے آئی ہوں۔ ابھی کچھ دیر پہلے میں نے ایک گونجتی ہوئی آواز سنی تھی، وہ کیا تھی؟" بوڑھی عورت مسکرا کر بولی، "ارے، وہ مغرب کی اذان تھی۔ ہم سب مسلمان ہیں اور ایک خدا کو مانتے ہیں، جس نے ہم سب کو پیدا کیا ہے۔" مائرہ حیرانی سے سن رہی تھی۔ بوڑھی عورت نے مزید کہا، "ہم خدا کی عبادت کرتے ہیں اور اس کی رضا کے لیے روزہ رکھتے ہیں۔ روزہ بھی ایک عبادت ہے، جو ہمیں صبر اور شکر سکھاتا ہے۔"
یہ سب سن کر مائرہ کا دل چاہا کہ کچھ سوال کرے، مگر اندھیرا کافی پھیل چکا تھا وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور کہا، "مجھے گھر جانا ہوگا، ورنہ دیر ہو جائے گی۔" بوڑھی عورت نے نرمی سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا، "اچھا جاؤ بیٹی، مگر یاد رکھنا، خدا سب کا ہے اور وہ ہر کسی کے دل کی بات جانتا ہے۔" مائرہ کچھ نہ کہہ سکی، بس دل میں بہت سے سوال لیے واپس اپنے گاؤں کی طرف چل پڑی۔
جب وہ گھر پہنچی تو دروازے پر ہی اس کے باپ کی گرجدار آواز سنائی دی، "کہاں چلی گئی تھی تُو؟" جبار کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔ مائرہ خوف کے مارے کانپنے لگی اور نظریں جھکا کر بولی، "بس لکڑیاں بننے میں دیر ہو گئی تھی۔" جبار نے غصے سے کہا، "اب میرے لیے کھانا بنا، فوراً!" اس کی آواز میں ایسا حکم تھا جیسے وہ کسی غلام سے بات کر رہا ہو۔ مائرہ جلدی سے کھانا بنانے لگی، مگر اس کے دل میں ایک طوفان اٹھ رہا تھا۔
کھانا بناتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وہ سوچ رہی تھی کہ ابھی کچھ دیر پہلے وہ کتنی خوبصورت جگہ پر تھی، جہاں ہر کوئی محبت سے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھا تھا، جہاں کوئی کسی پر حکم نہیں چلا رہا تھا، جہاں سب خوش تھے۔ اور اب وہ ایک ایسے گھر میں تھی جہاں صرف خوف، غصہ اور سختی تھی۔ وہ ایک ظالم کے گھر میں قید تھی، جو خدا کو نہیں مانتا تھا، جو سمجھتا تھا کہ دنیا خود بخود چل رہی ہے اور انسان ہی سب کچھ ہے۔
مائرہ کے دل میں الجھن بڑھنے لگی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ آخر سچ کیا ہے؟
مائرہ نے کبھی اپنے باپ سے کوئی سوال کرنے کی ہمت نہیں کی تھی، لیکن اب اس کے دل میں ایک نیا جذبہ پیدا ہو چکا تھا۔ اگلے دن جب وہ کام کے لیے نکلی تو اس کے قدم خودبخود اسی بستی کی طرف بڑھ گئے۔ مگر اس بار وہ اذان سے پہلے ہی وہاں پہنچ گئی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اندھیرا ہونے سے پہلے گھر واپس جانا ہے۔ جب وہ بستی میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ آج کا منظر بدلا ہوا تھا۔ ایک بڑے درخت کے نیچے ایک نورانی چہرے والے بزرگ بیٹھے تھے اور سب لوگ انہی کی باتیں سن رہے تھے۔
یہ بزرگ یوسف بابا تھے، جو ایک نیک شخصیت تھے اور ہمیشہ دین کی تبلیغ کے لیے سفر میں رہتے تھے۔ اس بار وہ اس گاؤں میں اسلام کا پیغام پہنچانے آئے تھے۔ یوسف بابا لوگوں کو سمجھا رہے تھے کہ رمضان بہت بابرکت مہینہ ہے، اور اس میں زیادہ سے زیادہ نیکی کی دعوت دینی چاہیے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ایمان کی طاقت صرف زبان سے نہیں بلکہ روح کی پاکیزگی سے بڑھتی ہے، اور سب کو اپنی روح کو صاف رکھنا چاہیے۔ وہ سمجھا رہے تھے کہ اللہ ہی سب کو پیدا کرنے والا ہے اور اس کی مرضی کے بغیر دنیا میں کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔
یوسف بابا کی یہ باتیں مائرہ کے دل میں گھر کرنے لگیں۔ جب سب لوگ وہاں سے جانے لگے تو یوسف بابا کی نظر مائرہ پر پڑی، جو ایک طرف کھڑی تھی۔ انہوں نے اسے اپنے پاس بلایا اور نرمی سے پوچھا، ’’بیٹی، تم کون ہو اور کہاں سے آئی ہو؟‘‘ مائرہ نے جواب دیا، ’’میں ایک ایسی جگہ سے آئی ہوں جہاں خدا کو کوئی نہیں مانتا۔ کل میں یہاں آئی تھی اور سب کو روزہ افطار کرتے دیکھا تھا، اذان کی آواز بھی سنی تھی، جس نے مجھے مجبور کیا کہ میں دوبارہ یہاں آؤں۔‘‘
پھر مائرہ نے اپنا سوال پوچھا، ’’یہ خدا کون ہے؟ میرا باپ کہتا ہے کہ خدا نام کی کوئی چیز نہیں، سب کچھ خودبخود بنا ہے۔‘‘ یوسف بابا یہ سن کر مسکرائے اور نرمی سے بولے، ’’بیٹی، تمہارے سوال کا جواب میں بعد میں دوں گا، لیکن پہلے آؤ، ہمارے ساتھ روزہ افطار کرو۔‘‘ مائرہ نے گھبرا کر کہا، ’’نہیں، مجھے گھر جانا ہوگا، ورنہ میرے باپ مجھے بہت مارے گا۔‘‘
یہ سن کر یوسف بابا نے اسے روکا نہیں اور مائرہ جلدی سے واپس چلی گئی۔ مگر یوسف بابا گہری سوچ میں پڑ گئے۔ انہیں احساس ہوا کہ مائرہ کے دل میں سچ جاننے کی تڑپ ہے، اور یہ تڑپ اسے سچائی کی طرف ضرور لے جائے گی۔ وہ سوچنے لگے کہ کس طرح وہ اسے اللہ کی حقیقت سمجھا سکتے ہیں، تاکہ وہ خود اپنے دل سے سچ کو قبول کر سکے۔
مائرہ کے دل میں اب پہلے جیسی بے سکونی نہیں رہی تھی، لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ اسے پریشان رکھتا تھا۔ وہ اللہ کو ماننے لگی تھی، مگر زبان سے کلمہ نہیں پڑھا تھا۔ اس کا دل بےقرار تھا، لیکن اس کے باپ کی سختی کی وجہ سے وہ گھر سے باہر نہیں جا سکتی تھی۔ دوسری طرف الیاس کی بدمعاشی بڑھتی جا رہی تھی۔ اگر کسی کے گھر بیٹی پیدا ہوتی، تو وہ مردوں کو بھڑکاتا کہ تمہاری عورت نے کوئی گناہ کیا ہوگا، تبھی بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ اس کے کہنے پر کئی مرد اپنی بیویوں کو بلاوجہ مارتے اور ان پر ظلم کرتے تھے۔
یہ ظلم روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔ گاؤں کی عورتیں اذیت میں تھیں کیونکہ اولاد کا ہونا نہ ہونا ان کے بس میں نہیں تھا، لیکن پھر بھی انہیں موردِ الزام ٹھہرایا جاتا تھا۔ وہ بے بس تھیں اور اس ظلم سے نجات کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ آپس میں مل کر باتیں کرتیں اور سوچتیں کہ اس عذاب سے کیسے چھٹکارا پایا ج
ائے۔
ادھر مائرہ بھی کئی دنوں سے مسلمانوں کی بستی میں نہیں جا پا رہی تھی۔ وہ دل ہی دل میں یوسف بابا کو یاد کرنے لگی کہ کاش وہ ان سے مل سکتی۔وہ دل سے خواہش کرکے سونے کے لیے لیٹ گئی۔گہری رات کی خاموشی میں، جب مائرہ گہری نیند میں تھی، اس نے ایک خواب دیکھا۔ خواب میں یوسف بابا اس کے پاس بیٹھے تھے، اور وہ ان سے سوال کر رہی تھی: "بابا، مجھے بتائیں، میرے والد جو کہتے ہیں وہ سچ ہے یا جو میں نے آپ کے گاؤں میں دیکھا وہ حقیقت ہے؟" اس کی آنکھوں میں سوال تھے اور دل میں الجھنیں۔ یوسف بابا نے نرمی سے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "بیٹی، تمہارے والد غلط ہیں۔ یہ دنیا کسی خالق کے بغیر نہ کبھی بنی ہے اور نہ کبھی بن سکتی ہے۔ جو کچھ تم نے دیکھا، وہی سچ ہے۔" ان کی آواز میں یقین تھا اور ان کی باتوں میں سکون۔ مائرہ حیرانی سے انہیں دیکھتی رہی، جیسے اسے پہلی بار حقیقت کا احساس ہو رہا ہو۔
یوسف بابا نے مائرہ کو سمجھانے کے لیے ایک مثال دی: "بیٹی، ذرا سوچو، اگر تمہیں کہیں ایک شاندار محل نظر آئے، جس کی دیواریں خوبصورت ہوں، دروازے مضبوط ہوں اور ہر چیز بہترین ترتیب میں ہو، تو کیا تم یہ مان لو گی کہ یہ خود ہی بن گیا ہے؟ یا یہ کہ کسی نے اسے بنایا ہے؟" مائرہ فوراً بولی، "نہیں بابا! ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ کوئی نہ کوئی بنانے والا ضرور ہوگا جس نے اسے بنایا ہوگا۔" یوسف بابا مسکرا کر بولے، "بالکل! جب ایک معمولی مکان بھی خود نہیں بن سکتا تو یہ پوری کائنات، آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، دریا، پہاڑ اور خود ہم، کیسے بغیر کسی بنانے والے کے وجود میں آ سکتے ہیں؟ ہمیں بنانے والا ایک ہی ہے، اور وہ اللہ ہے، جو سب سے زیادہ علم رکھنے والا اور قدرت والا ہے۔
اس خواب میں مائرہ کو بہت کچھ معلوم ہو گیا تھا۔ اسے ایسا لگا جیسے اس کے دل کی ساری الجھنیں ختم ہو گئی ہوں اور حقیقت کا ایک نیا دروازہ اس کے لیے کھل گیا ہو۔ اس نے ٹھان لیا کہ وہ ضرور اس گاؤں میں دوبارہ جائے گی، تاکہ ان لوگوں سے مل سکے جو اللہ کی ذات پر ایمان رکھتے ہیں۔
وہ اللہ کو ماننے لگی تھی، مگر زبان سے کلمہ نہیں پڑھا تھا۔ اس کا دل بےقرار تھا، لیکن اس کے باپ کی سختی کی وجہ سے وہ گھر سے باہر نہیں جا سکتی تھی۔ دوسری طرف الیاس کی بدمعاشی بڑھتی جا رہی تھی۔ اگر کسی کے گھر بیٹی پیدا ہوتی، تو وہ مردوں کو بھڑکاتا کہ تمہاری عورت نے کوئی گناہ کیا ہوگا، تبھی بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ اس کے کہنے پر کئی مرد اپنی بیویوں کو بلاوجہ مارتے اور ان پر ظلم کرتے تھے۔
ایک دن مائرہ نے دیکھا کہ اس کا باپ کسی کام سے کام سے باہر گیا ہوا ہے تو اس نے بات کا فائدہ اٹھایا اور جنگل کے راستے سے ہوتی ہوئی بابا کے پاس پہنچی۔اس کی پریشانی بھانپ کر بولے کیا ہوا
مائرہ اداس ہو کر بولی، میرا باپ الیاس گاؤں کا سردار ہے، لیکن وہ بیٹیوں کی پیدائش پر لوگوں کو بھڑکاتا ہے، مرد اپنی بیویوں پر ظلم کرتے ہیں، اور یہاں ہر عورت مصیبت میں ہے۔‘‘
پھر مائرہ نے کہا، ’’میں جب آپکی بستی میں آئی تو یہاں پیار اور سکون دیکھا۔آپ لوگ اللہ کو مانتے ہیں اور کتنے خوش نصیب ہیں۔میری ایک گزارش ہے کیا میں بھی آپ کے دین میں شامل ہو سکتی ہوں؟‘‘ یوسف بابا نے مسکرا کر کہا، ’’بیٹی، اسلام میں ہر کوئی آسکتا ہے جو سچائی کو قبول کرنا چاہے۔‘‘ پھر انہوں نے مائرہ کو کلمہ پڑھایا اور کہا، ’’اب تم مسلمان ہو چکی ہو۔ اللہ تمہیں دین پر ثابت قدم رکھے۔‘‘
اس دن مائرہ کا دل خوشی سے جھوم رہا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اسے دنیا کی سب سے بڑی نعمت مل گئی ہو۔
یوسف بابا نے کہا کہ کل سے تم روزہ رکھو گی اور پھر اپ نے اسے روزے رکھنے کا طریقہ بتا دیا اور وہ گھر واپس آگئی ۔مائرہ نے روزے کی تیاری کرلی تھی۔ لیکن اپنے باپ سے یہ سب ابھی چھپانا تھا۔ رات کو جب اُس کا باپ گہری نیند میں تھا، تب اس نے اٹھ کر سحری کی اور روزہ رکھ لیا۔ اس کے بعد جس طرح یوسف بابا نے اسے سکھایا تھا، اسی طرح اس نے نماز ادا کی
مائرہ اب روزے رکھتی، نماز پڑھتی اور اللہ کی عبادت کرتی تھی، لیکن یہ سب کچھ اپنے باپ کے سامنے عبادت نہیں کیا کرتی۔وہ روزہ رکھ کر دن میں لکڑیاں اکٹھی کرنے جنگل جاتی، اور شام کو گھر آکر اپنے باپ کی غیر موجودگی میں روزہ افطار کر لیتی۔ اللہ نے اسے ہدایت دے دی تھی، مگر اس کا دل اب بھی ان مظلوم عورتوں کے لیے دکھی ہوتا تھا جن کو ستایا جارہا تھا۔ ایک دن جب وہ کنویں پر پانی بھرنے گئی، تو وہاں کچھ عورتیں کھڑی تھیں۔ ان کے چہروں پر زخموں کے نشان تھے۔ مائرہ نے حیران ہو کر پوچھا، ’’یہ کیا ہوا؟‘‘ عورتوں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا، ’’رات ہمارے شوہروں نے ہمیں مارا ہے، کیونکہ ہم بیٹیاں پیدا کرتی ہیں، بیٹے نہیں اور ہمیں اپنے آپ کو پاک کرنا ہوگا۔
مائرہ، جو اب مسلمان ہو چکی تھی، کے دل میں شعور بیدار ہو چکا تھا۔ اسے احساس ہوا کہ اگر یہ عورتیں بھی عقل اور سمجھ سے کام لیں، تو شاید سب مل کر ان ظالم مردوں کے خلاف کھڑی ہو سکیں۔ وہ جانتی تھی کہ اگر ایسا نہ کیا گیا، تو یہ ظلم بڑھتا ہی جائے گا۔ یہی سوچ کر وہ ایک دن گاؤں کی عورتوں کے پاس گئی اور ان سے کہا، ’’ہمیں ہمت سے کام لینا ہوگا۔ ظلم سہنا کوئی اچھا کام نہیں، کیونکہ جو ظلم سہتا ہے، وہ بھی ظالم ہوتا ہے۔‘‘
عورتوں نے حیران ہو کر مائرہ کی باتیں سنیں اور بولیں، ’’تم اتنی بڑی باتیں کیسے کر رہی ہو؟‘‘ مائرہ نے مسکرا کر جواب دیا، ’’جب دل کی دنیا بدلتی ہے تو سوچ بھی بدل جاتی ہے۔‘‘ پھر اس نے ان سے پوچھا، ’’کیا تم چاہتی ہو کہ میں تمہارا ساتھ دوں؟‘‘ عورتیں پہلے ہی ظلم سے تنگ آ چکی تھیں، فوراً بولیں، ’’ہاں، ہم بھی اس عذاب سے نجات چاہتے ہیں۔‘‘ مائرہ نے کہا، ’’تو پھر تمہیں میرے ساتھ ایک جگہ چلنا ہوگا۔‘‘ عورتیں پہلے تو حیران ہوئیں، لیکن پھر تیار ہو گئیں۔
مائرہ ان سب کو لے کر مسلمانوں کی بستی میں پہنچی، جہاں بڑی اماں اور یوسف بابا موجود تھے۔ سب سے پہلے اس نے بڑی اماں سے ان عورتوں کو ملوایا۔ بڑی اماں نے ان سے بہت نرمی اور محبت سے بات کی، جس نے ان عورتوں کے دل جیت لیے۔ ان کے اخلاق، خلوص اور اپنائیت کو دیکھ کر وہ عورتیں حیران رہ گئیں۔ وہ نہیں جانتی تھیں کہ یہ مسلمانوں کی بستی ہے، مگر حیرانی سے ان سب کو دیکھ رہی تھیں۔اتنے میں روزے کا وقت ہو گیا اور افطار کا وقت ہونے والا تھا۔ مائرہ کا تو روزہ تھا ہی، بڑی اماں نے سب عورتوں سے کہا، ’’آؤ، ہم سب مل کر روزہ افطار کرتے ہیں۔‘‘ وہ عورتیں حیران تھیں کہ یہاں سب ایک ساتھ بیٹھ کر کھا رہے تھے، کوئی کسی سے نفرت نہیں کر رہا تھا۔ انہوں نے بھی ان کے ساتھ کھانے میں حصہ لیا یہ محبت بھرا ماحول ان کے لیے اب اجنبی نہیں تھا
افطار کے بعد مائرہ ان سب کو یوسف بابا کے پاس لے گئی۔ یوسف بابا نے فوراً سمجھ لیا کہ مائرہ انہیں یہاں کیوں لائی ہے۔ وہ جانتے تھے کہ ان عورتوں کو فی الحال زیادہ کچھ کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ ابھی انہیں صرف وہ محبت بھرا ماحول دیکھنا تھا، جس سے مائرہ خود پہلے متاثر ہوئی تھی۔
یوسف بابا نے عورتوں سے کہا، ’’یہ مسلمانوں کی بستی ہے، کیا تمہیں معلوم تھا؟‘‘ یہ سن کر وہ سب حیران رہ گئیں۔ لیکن یہاں کے لوگوں کے اخلاق، محبت اور عزت و احترام کو دیکھ کر ان کے دل پہلے ہی نرم ہو چکے تھے۔ ان میں سے ایک عورت نے پوچھا، ’’کیا آپ کے دین میں عورت کی عزت کی جاتی ہے؟ کیا یہاں بیٹی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے؟ یا اگر بیٹی پیدا ہو تو اس کا قصور عورت پر ڈال دیا جاتا ہے؟‘‘ یوسف بابا مسکرا کر بولے، ’’نہیں، اسلام میں عورت کو سب سے زیادہ عزت دی جاتی ہے۔ بیٹی خدا کی نعمت ہے اور ماں کے قدموں کے نیچے جنت رکھی گئی ہے۔‘‘ یہ باتیں سن کر ان عورتوں کے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہونے لگی، اور انہوں نے بھی مان لیا کہ دنیا کو چلانے والا صرف ایک اللہ ہے، جو ہر چیز پر قادر ہے۔
مائرہ کو لگا کہ گاؤں میں کسی کو خبر نہیں کہ وہ اور دوسری عورتیں مسلمانوں کی بستی میں جا رہی ہیں، لیکن ایسا نہیں تھا۔ کوئی ان پر نظر رکھے ہوئے تھا، اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ مائرہ کا اپنا باپ، الیاس تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ اس کی بیٹی روز گاؤں سے باہر جنگل میں جاتی ہے اور کافی دیر بعد واپس آتی ہے۔ شروع میں اس نے اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی، مگر ایک دن اس نے ایک عورت کو اپنے شوہر سے لڑتے ہوئے سنا، جو کہہ رہی تھی، ’’اب تم ہمیں گناہگار نہیں کہہ سکتے اگر بیٹی پیدا ہو جائے!‘‘ یہ سن کر الیاس چونک گیا۔
الیاس کے کان کھڑے ہوگئے کہ ان عورتوں کے اندر اتنی ہمت کہاں سے آگئی اور پھر ایک رات جب وہ سو رہا تھا تو اچانک ایک آہٹ سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے دیکھا کہ مائرہ چپکے سے کچھ کھا رہی تھی۔ پہلے تو اس نے زیادہ دھیان نہیں دیا، لیکن جب یہ روز کا معمول بن گیا تو اس کے شک کو ہوا ملی۔ وہ سوچنے لگا کہ آخر اس کی بیٹی آدھی رات کو کھانا کیوں کھارہی ہے۔
الیاس کو کچھ دنوں سے اپنی بیٹی کی حرکات عجیب لگ رہی تھیں۔ وہ دیکھتا کہ رات کے وقت وہ چپکے سے اٹھ کر کچھ کھاتی تھی اور دن میں خاموشی سے کام کرتی تھی۔ اگر وہ کبھی دن میں گھر آتا تو وہ اس کے ساتھ کھانے نہیں بیٹھتی اور بہانہ بناتی کہ اسے بھوک نہیں ہے۔ یہ سب دیکھ کر الیاس کو شک ہونے لگا کہ آخر اس کی بیٹی ایسا کیوں کر رہی ہے؟
اپنے شک کو دور کرنے کے لیے اس نے اپنے ایک دوست سے بات کی۔ دوست نے گہری سوچ کے بعد کہا، "کہیں تمہاری بیٹی مسلمانوں والے طور طریقے تو نہیں اپنا رہی؟" یہ سن کر الیاس حیران رہ گیا اور غصے سے پوچھا، "مسلمان کون ہوتے ہیں؟" دوست نے جواب دیا، "وہ جو ایک خدا کو مانتے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ جنگل کے پار ایک بستی میں مسلمان رہتے ہیں، سنا ہے کہ اس وقت انکا مقدس رمضان کا مہینہ چل رہا ہے۔ اس مہینے میں وہ دن بھر بھوکے پیاسے رہتے ہیں اور شام کو کھاتے ہیں۔" تم خدا کو نہیں مانتے کہیں تمہاری بیٹی اس خدا کی پوجا تو نہیں کرنے لگی یہ سننا تھا کہ الیاس کے تو ہوش ہی اڑ گئے ایسا کیسے ممکن ہوا میری بیٹی اس مسلمان بستی میں کیسے پہنچی ۔ اب اپنی بیٹی کو کسی حال میں بھی روکنا چاہتا تھا ۔ وہ اس پر نظر رکھنے لگا ۔ کئی دن تک وہ اس کی نگرانی کرتا رہا، لیکن کوئی ثبوت نہ ملا۔ پھر ایک دن وہ اچانک گھر آیا اور کھانے مانگا۔ بیٹی نے خاموشی سے کھانا لا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ الیاس بولا، "میں ہمیشہ کھانا اکیلے کھاتا ہوں اج تمہیں میرے ساتھ کھانا کھانا پڑے گا۔ بیٹی نے دھیرے سے جواب دیا، "بابا، میں پہلے ہی کھا چکی ہوں، آپ کھا لیں۔"
یہ سن کر الیاس کو غصہ آگیا۔ اس نے سخت لہجے میں کہا، "کیا تم مجھ سے ڈرنا چھوڑ چکی ہو؟ جو اپنی من مانی کر رہی ہو؟ میں جو کہہ رہا ہوں، وہ کرنا پڑے گا!" مگر بیٹی خاموش رہی اور کسی صورت کھانے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ الیاس کا غصہ ساتھ میں اسمان کو چھونے لگا اور وہ اسے دھمکانے لگا، مگر بیٹی پھر بھی ڈری نہیں۔
الیاس ایک چالاک اور عیار شخص تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ اب اس کی بیٹی اس سے ڈرنے والی نہیں ہے، اور یہی رویہ گاؤں کی دوسری عورتوں میں بھی آسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اس کی دھاک ختم ہو جائے گی اور اس کی عزت خاک میں مل جائے گی۔ اسے ہر حال میں کوئی قدم اٹھانا تھا، ورنہ اس کی سرداری خطرے میں پڑ سکتی تھی۔
الیاس نے سوچ سمجھ کر ایک ترکیب بنائی۔ وہ اپنے گاؤں کے مردوں کے پاس گیا اور بولا، "میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری عورتیں ہمارے خلاف ہوتی جا رہی ہیں، یہ ہمارے لیے اچھی نشانی نہیں ہے۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ہماری برسوں کی محنت برباد ہو جائے گی۔ ہمیں پتہ لگانا ہوگا کہ آخر کون ہمارے گاؤں کے لوگوں کی سوچ بدل رہا ہے۔" اس کے بعد اس نے کچھ آدمیوں کو حکم دیا کہ وہ مسلمانوں کی بستی میں جا کر معلوم کریں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔
الیاس کے آدمی مسلمانوں کی بستی میں پہنچے۔ وہ اپنے آپ کو مسافر ظاہر کرنے لگے۔ بستی کے لوگ مہمان نواز تھے، انہوں نے ان اجنبیوں کو کھانے کی دعوت دی۔ وہ آدمی غور سے دیکھ رہے تھے کہ وہاں سب مسلمان روزہ رکھتے ہیں، چہل پہل ہے، لوگ ہنستے مسکراتے ہیں، اور خوشیاں بکھری ہوئی ہیں۔ وہاں کی فضا میں سکون اور محبت تھی۔
واپس آ کر ان آدمیوں نے الیاس کو بتایا کہ وہاں ایک بوڑھا شخص ہے، جسے بستی والے اپنا رہنما مانتے ہیں۔ انہوں نے کہا، "یہ وہی شخص ہے جس کی باتیں سن کر تمہاری بیٹی مسلمان ہو گئی ہے۔" یہ سنتے ہی الیاس کا غصہ آسمان کو چھونے لگا۔ اس کا دل چاہا کہ فوراً اپنی بیٹی کو ختم کر دے، لیکن پھر خود کو سنبھالا اور بولا، "اب تم لوگ دوبارہ وہاں جاؤ گے، مگر اس بار ہمارے گاؤں کے تربوز لے کر جاؤ اور ان سے گھلنے ملنے کی کوشش کرو۔"
چند دن بعد، وہ لوگ دوبارہ اس بستی میں پہنچے۔ انہوں نے یوسف بابا کو تربوز پیش کرتے ہوئے کہا، "یہ ہمارے گاؤں کے میٹھے تربوز ہیں، یہ ہماری طرف سے آپ کے لیے تحفہ ہیں۔" وہ ایسے ظاہر کر رہے تھے جیسے انہیں مسلمانوں کے طور طریقے پسند آرہے ہوں۔ یوسف بابا نے خوش دلی سے ان کی باتیں سنیں اور تربوز قبول کر لیے۔
بستی میں، یوسف بابا اکثر لوگوں کو نصیحت کرتے اور کہتے، "ہم سب کو اس دنیا میں ایک ہی ذات نے بھیجا ہے، اور وہ ہے اللہ جو ہر کمی سے پاک ہے۔ یہ دنیا خود نہیں بن سکتی تھی، اور نہ ہی کسی انسان میں اتنی طاقت ہے کہ وہ سب کچھ خود بنا لے۔ پیڑ پودے، زمین، آسمان، سب اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔" وہ حکمت اور محبت کے ساتھ لوگوں کو سمجھاتے تھے۔
الیاس کے آدمی روز وہاں جا کر ان کی باتیں سنتے رہے۔ ایک دن الیاس نے ان سے پوچھا، "بتاؤ، اس بوڑھے کے بارے میں کیا پتہ چلا؟" انہوں نے جواب دیا، "وہ تو صرف ایک خدا کی بات کرتے ہیں، کسی کی برائی نہیں کرتے، اور نہ ہی کسی کو ورغلاتے ہیں۔ ان کی باتیں کانوں میں رس گھولتی ہیں۔
یہ سن کر الیاس کو سخت غصہ آیا۔ وہ بولا، "یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں تم سب کا سردار ہوں، اور تم لوگ میرے سوا کسی اور کی باتیں سن رہے ہو؟ اب وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے، میں خود دیکھوں گا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ حسد کی آگ میں جل رہا تھا
ادھر مائرہ دن رات روزے رکھتی، اور اللہ کی یاد میں دل کو سکون بخشتی۔ اس کے چہرے پر پہلے سے زیادہ نور آ گیا تھا۔ وہ اپنے خوف سے نکل چکی تھی، اور اب اسے اپنے رب پر بھروسہ تھا۔
ہر روز جب وہ گھر آتی، تو قرآن پاک کی تلاوت کرتی اور چلتے پھرتے اللہ کا ذکر کرتی رہتی۔ وہ جان چکی تھی کہ اصل سکون اللہ کی یاد میں ہے۔ اس کا دل اب پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکا تھا۔
جس خوف کے سائے میں وہ زندگی گزار رہی تھی، وہ سایہ اب ختم ہونے لگا تھا۔ اس کے دل سے ہر ڈر نکل چکا تھا، اور وہ اللہ کے نور سے اپنا دل منور کر چکی تھی۔
مائرہ اپنے ایمان اور سکون میں تھی، لیکن اس کا باپ الیاس غصے اور جلن میں جل رہا تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنی بیٹی کو اپنی مرضی کرنے نہیں دے گا۔ ایک رات جب مائرہ سحری کر رہی تھی، تو الیاس چپکے سے آیا اور اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس نے سخت لہجے میں کہا، "یہ سب جو تم کر رہی ہو، یہ ٹھیک نہیں ہے!" پھر غصے میں آ کر اس کا کھانا چھین لیا اور کہا، "اب تمہیں کھانے کے لیے کچھ نہیں ملے گا۔ اگر روزہ رکھنا چاہتی ہو، تو بھوکی رہو!"
الیاس کی یہ ترکیب تھی کہ مائرہ بھوک اور پیاس سے مجبور ہو کر روزہ چھوڑ دے۔ اس نے صبح سے لے کر شام تک کچھ کھانے نہیں دیا۔ شام کو بھی اس نے سختی سے کہا، "آج تمہیں کھانے کے لیے کچھ نہیں ملے گا!" مائرہ سمجھ گئی کہ اس کا باپ اس کے بارے میں سب کچھ جان چکا ہے۔ اس نے کوئی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کوئی سوال کیا، لیکن الیاس نے ضد پکڑ لی تھی کہ وہ اسے ہار ماننے پر مجبور کر دے گا۔
دو تین دن گزر گئے، مائرہ بھوک اور پیاس سے بے حال ہو گئی۔ وہ کمزور پڑ رہی تھی تین دن کی بھوک اور پھر بھی اس نے روزہ بنا کھائے پیے رکھا تھا۔مگر پھر بھی اس نے اپنا روزہ نہیں توڑا ۔ تیسرے دن جب الیاس کو یقین ہوگیا کہ اب تو مائرہ تھک کر کہہ دےگی کہ چھوڈیا اسلام وہ غرور سے گردن اکڑا کر اس کے پاس آیا اور اس کو بہلاتے ہوئے کہا، "میں تمہیں صرف ایک شرط پر کھانا دوں گا۔ اگر تم کہو کہ تم روزہ نہیں رکھو گی اور اس دین کو چھوڑ دو گی۔مائرہ نے کہا ایسا تو نہ ہوگا۔وہ پیار سے پُچکارتے ہوئے کہنے لگا بیٹی
تم نے بچپن سے اچھا کھایا پیا ہے تو اب کیوں سارا دن بھوکی پیاسی رہتی ہو؟ آخر تم یہ سب کس کے لیے کر رہی ہو؟ تمہیں اس سے کیا ملے گا؟" مائرہ نے سکون سے جواب دیا، "میں صرف اپنے رب کے لیے ایسا کر رہی ہوں، جو ہم سب سے محبت کرتا ہے۔ روزہ ایمان کو کمزور نہیں کرتا، بلکہ اسے اور مضبوط بناتا ہے۔"
بابا، آپ نے ہمیشہ کہا کہ کوئی خدا نہیں ہے، کوئی بنانے والا نہیں، لیکن میں جانتی ہوں وہ سب جھوٹ تھا جو اپ نےہم سب کو سکھایا یہ سب بڑا سچ ہے کہ وہ ایک ہے، وہی ہمارا رب ہے، جس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ ماں باپ صرف ایک وسیلہ ہوتے ہیں دنیا میں لانے کا لیکن ہم خود سے نہیں بنے، بلکہ اللہ نے ہمیں بنایا ہے!"
یہ سن کر الیاس کی آنکھوں میں خوب اتر آیا۔ اس نے گھور کر کہا، "تو کیا تم مجھے اکسا رہی ہو کہ میں تمہاری جان لے لوں؟" مائرہ نے بغیر کسی خوف کے کہا، "اگر تمہیں یہی کرنا ہے، تو کر لو، لیکن یاد رکھو، میری جان لینے والا اور زندہ کرنے والا صرف اللہ ہے!"
مائرہ کے لہجے میں جو سچائی تھی، وہ الیاس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ وہ حیران ہو گیا، اس کی بیٹی کی آنکھوں میں ایک ایسا نور تھا جس میں جلال تھا جس سے الیاس کا غصہ یکدم ٹھنڈا پڑ گیا، وہ گھبرا کر وہاں سے ہٹ گیا۔ نہ جانے کیا تھا مائرہ کی آنکھوں میں کہ جس سے پہلی بار اس کا دل تھر تھرا گیا تھا۔
الیاس باہر آگیا، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے مائرہ کی باتوں نے اس کے دل میں ایک نئی روشنی جلا دی ہو۔ وہ سوچنے لگا، "میری بیٹی بالکل صحیح کہتی ہے۔ میں تو ہمیشہ مسلمانوں سے نفرت کرتا رہا، لیکن وہ تو اتنی پیاری اور سچی باتیں کرتی ہے۔ مجھے اپنی بیٹی سے معافی مانگنی چاہیے۔ اگر وہ صحیح راستے پر ہے، تو مجھے بھی اس کا ساتھ دینا چاہیے۔"
یہ سوچ کر الیاس، جو بستی کا سردار تھا اور کبھی کسی کے آگے جھکنا نہیں جانتا تھا، تیزی سے مائرہ کے پاس پہنچا۔ اس نے نرم لہجے میں کہا، "بیٹی! تمہاری باتوں نے میرے دل کو بدل دیا ہے۔ اب تم جس راستے پر چلو گی، میں تمہاری راہ میں رکاوٹ نہیں بنوں گا، بلکہ تمہارا ساتھ دوں گا۔ مجھے بھی وہ سب سکھاؤ جو تم نے سیکھا ہے۔"
مائرہ حیران رہ گئی۔ اس نے بے یقینی سے پوچھا، "بابا! آپ تو کسی کی بات سننے والے نہیں تھے، پھر آپ نے میری بات کیسے مان لی؟" الیاس نے مسکرا کر کہا، "بس وہی خدا ہے نا جس نے تمہیں سیدھا راستہ دکھایا، لگتا ہے کہ تمہاری باتوں کا مجھ پر بھی اثر ہو گیا ہے۔" یہ سن کر مائرہ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔ وہ شکر ادا کرنے لگی کہ اب اسے اپنے باپ سے لڑنا نہیں پڑے گا۔
الیاس اب اپنی بیٹی کا خیال رکھنے لگا۔ جب مائرہ روزہ رکھتی، تو وہ بھی اس کے ساتھ بیٹھ جاتا اور اس کی مدد کرتا۔ اب وہ اپنی بیٹی پر ظلم نہیں کر رہا تھا، بلکہ اس کے ساتھ محبت سے پیش آتا تھا۔ بستی کے لوگ الیاس کی اس تبدیلی کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ وہ جو ہمیشہ سخت اور ظالم تھا، اب نرم اور محبت کرنے والا بن گیا تھا۔
پہلے جو الیاس کہتا تھا کہ عورتوں کو قابو میں رکھو، اب وہ لوگوں سے کہنے لگا، "میں نے سچ کو پہچان لیا ہے، اور میری بیٹی نے مجھے یہ سبق سکھایا ہے کہ بیٹی تو خدا کا انعام ہے اور عورت کے کسی گناھ کی سزا نہیں جو اس کو سننے والے تھے وہ بھلا اس کی بات کا کیسے انکار کرتے گو کہ ابھی کسی نے کلمہ نہیں پڑھا تھا، مگر دلوں میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی تھی۔
اب جب مائرہ کنویں پر پانی بھرنے جاتی، تو دوسری عورتوں کے ساتھ دین کی خوبصورت باتیں کرتی۔ کچھ عورتیں جو پہلے اسلام قبول کر چکی تھیں، وہ بھی مائرہ کے ساتھ روزے رکھنے لگیں۔ ان کے شوہر، جو پہلے انہیں طعنے دیتے تھے، اب انہیں عزت دینے لگے تھے۔
یوں، الیاس کے گاؤں پر رحمت کی گھٹا چھانے لگی۔ بستی میں سکون اور محبت بڑھ گئی۔ ظلم و جبر کی جگہ نرمی اور سچائی نے لے لی۔ مائرہ کی ہمت اور سچائی نے نہ صرف اس کے باپ، بلکہ پوری بستی کی سوچ بدل دی تھی۔
یوسف بابا گہری نیند میں تھے کہ اچانک انہوں نے ایک عجیب خواب دیکھا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ایک روشن ستارہ ان کی گود میں آ گرا ہے۔ پھر خواب میں انہوں نے دیکھا کہ ایک بڑے کھیت میں بہت سے لوگ کھڑے ہیں، لیکن وہاں موجود تربوزوں میں کیڑے پڑنے لگے ہیں۔ خواب دیکھ کر بابا کو فوراً ان مسافروں کا خیال آیا جو کچھ دن پہلے ان کے پاس آئے تھے اور اپنے گاؤں کے میٹھے تربوز ان کے لیے لائے تھے، مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ مائرہ کے گاؤں کے رہنے والے ہیں۔
بابا سوچ میں پڑ گئے کہ اس خواب کی کیا تعبیر ہو سکتی ہے؟ انہیں محسوس ہوا کہ کسی گاؤں میں کوئی آفت آنے والی ہے۔ یہ جاننے کے لیے انہوں نے اللہ کا ذکر کیا اور دعا کی کہ انہیں صحیح راستہ دکھایا جائے۔ جب انہیں راستہ نظر آگیا کہ شاید تربوز کے گاؤں کی طرف جانے کا یہ اشارہ ملا ہے اب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ روزہ کھلنے سے پہلے ہی وہاں پہنچ جائیں گے۔
اگلے دن، یوسف بابا جنگل سے گزرے وہاں کچھ دیر قرآن پاک کی تلاوت کی اور پھر جنگل پار کر کے مائرہ کے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔
یوسف بابا کو پہلی بار اپنے گاؤں میں دیکھ کر وہ لوگ جو آپ کو جانتے تھے۔ حیرانی سے پوچھنے لگے۔ آپ یہاں؟" بابا مسکرا کر بولے، "ہاں، میرا دل چاہا کہ میں تم لوگوں سے ملوں، اس لیے آ گیا۔" گاؤں کے لوگ ان سے مل کر بہت خوش ہوئے اور ان کے رہنے کا بندوبست کر دیا۔ لیکن بابا نے ابھی تک کسی کو اپنے آنے کی اصل وجہ نہیں بتائی تھی۔ وہ خود وہاں رک کر دیکھنا چاہتے تھے کہ خواب کی حقیقت کیا ہے۔
یوسف بابا گاؤں میں عبادت کرتے اور گاؤں کی گلیوں میں کبھی کبھی گھوما کرتے ایک دن، وہ مائرہ کے گھر کے پاس آۓ دروازے پر دستک دی۔ مائرہ نے دروازہ کھولا تو حیرانی سے بولی، "بابا! آپ یہاں؟" بابا مسکرا کر بولے، "ہاں بیٹی، میں تمہارے گاؤں میں آیا ہوں۔ کئی دنوں سے تم گھر سے باہر نہیں نکلی، تو سوچا کہ تمہاری خیر خبر لے لوں۔"
مائرہ نے خوش ہو کر کہا، "بابا! اب مجھے باہر جانے کی ضرورت نہیں پڑتی، کیونکہ میرے والد میرا بہت خیال رکھتے ہیں اور مجھ سے کوئی کام نہیں کرواتے۔ اس لیے میں زیادہ تر گھر میں ہی رہتی ہوں۔" بابا نے اطمینان کا سانس لیا اور کہا، "یہ تو بہت اچھی بات ہے، بیٹی۔ اللہ کا شکر ہے کہ تم اب خوش ہو۔" وہ جاننا چاہتے تھے کہ اس گاؤں کے حالات اب کیسے ہیں، اور کیا ان کے خواب کا کوئی تعلق یہاں کے لوگوں سے ہے یا نہیں۔
یوسف بابا نے مائرہ سے باتیں کیں اور گاؤں کے دیگر لوگوں سے بھی ملنے کا ارادہ کیا۔
یوسف بابا کے آنے سے مائرہ کی خوشی دوبارہ لوٹ آئی تھی۔ اب وہ بے خوف ہو کر ان کے پاس جا کر قرآن پڑھتی اور ان کے ساتھ عبادت کرتی۔ گاؤں میں جو ندی بہتی تھی، وہ اکثر وہاں جا کر بیٹھتی اور رات میں ذکر الٰہی میں مصروف رہتی۔ اب اسے کسی روک ٹوک کا ڈر نہیں تھا، اس لیے وہ اپنے دل کی خوشی سے یہ سب کچھ کر رہی تھی۔ اس کا دل سکون میں تھا کہ اب نہ اسے کسی سے چھپنا پڑتا ہے اور نہ کسی کی سختی سہنی پڑتی ہے۔
لیکن یوسف بابا جانتے تھے کہ اللہ کے فیصلے وہی بہتر جانتا ہے مگر ان کے دل میں ایک انجانا خوف تھا، جو انہیں کسی بڑے طوفان کی آمد کا پتہ دے رہا تھا
انہیں احساس ہو رہا تھا کہ کچھ ایسا ہونے والا ہے جس کے لیے انہیں تیار رہنا ہوگا۔ مگر وہ اللہ پر بھروسہ رکھتے تھے اور جانتے تھے کہ جو بھی ہوگا، وہ اللہ کی رضا سے ہوگا۔
یہ رمضان کی آخری راتیں ایک صبح
الیاس نے مائرہ سے کہا کہ کیوں نہ ان بزرگ کو افطار کی دعوت پر بلایا جائے۔ وہ خوش ہو گئی اور بولی، "میں بھی یہی چاہتی تھی۔" الیاس نے کہا، "تو چلو، تم ہی انہیں دعوت دے دو۔" چنانچہ مائرہ نے یوسف بابا کو افطار کے لیے بلا لیا۔
جب یوسف بابا مغرب سے پہلے ان کے گھر جانے لگے تو راستے میں ایک آدمی ملا جو انہیں پہلے سے جانتا اور بہت مانتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا تربوز تھا۔ اس نے کہا، "بابا، کیا آپ الیاس حاکم کے پاس دعوت پر جا رہے ہیں؟" بابا نے کہا، "ہاں، کیوں؟ کیا ہوا؟" وہ بولا، "یہ میری طرف سے تحفہ ہے، اسے آپ گھر لے جائیے۔" یوسف بابا نے محبت سمجھ کر وہ تربوز رکھ لیا اور اسے لے جا کر مائرہ کو دے دیا۔ مائرہ نے خوشی خوشی وہ تربوز کاٹ کر دسترخوان پر رکھ دیا۔
الیاس ابھی تک گھر نہیں پہنچا تھا، اور افطار کا وقت شروع ہو گیا تھا میں نے کہا چلو ہم روزہ کھولتے ہیں اپ کھجور کھانے لگے لیکن مائرہ کو تربوز کھانے کا شوق تھا اس نے ایک ماں کو اٹھائی اور اس کو کھانا شروع کر دیا پر جیسے ہی وہ اس تربوز کو کھا رہی تھی اس کی رنگت بدل رہی تھی اچانک وہ جھٹکے کھانے لگی اور زمین پر بے ہوش ہو کر گر گئی۔ اس سے پہلے کہ یوسف بابا کچھ سمجھ پاتے، دروازہ کھلا اور الیاس اندر آیا۔ اس نے اپنی بیٹی کو بے ہوش زمین پر پڑے دیکھا تو چیخ پڑا، "یہ کیا ہوا میری بیٹی کو؟ تم نے کیا کیا اس کے ساتھ؟"
الیاس نے بغیر سمجھے بوجھے پورے گاؤں کو اکٹھا کر لیا اور چلانے لگا، "اس شخص نے میری بیٹی کو زہر دے دیا ہے! نہ جانے تربوز میں کیا ملا ہوا تھا! مائرہ تو اسے بہت شوق سے کھاتی تھی، اسی میں زہر ملا کر اسے کھلا دیا گیا ہے!" گاؤں والے، جو پہلے یوسف بابا کی عزت کرتے تھے، اب انہیں خونی نظروں سے دیکھنے لگے۔ عورتیں بھی بولنے لگیں، "بابا، ہم نے تو آپ کو اپنا بزرگ مانا تھا، آپ نے تو اس بچی کو زہر دے دیا، جس نے سب سے بڑھ کر اپ کو مان دیا۔افسوس کر رہے تھے یوسف بابا کی وجہ سے وہ جو اب کلمہ پڑنے والے تھے وہ سب اپنی اواز سے پھر گئےکہ اپ تو ایک خدا کے ہونے کے دعوے کرتے تھے اپ کو اپ نے ایک بچی کی جان لے لی اور اپ کو خدا اِسے بچا نہیں سکا۔
یوسف بابا سمجھ گئے کہ یہ کسی کی چال ہے اور کوئی ان کے خلاف سازش کر رہا ہے، مگر انہوں نے صبر کیا اور کہا، "یہ جس اللہ کو مانتی ہے، اور جس رب کی عبادت ہم سب کرتے ہیں، اس کی مرضی کے بغیر کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ اگر اس کی زندگی باقی ہے، تو کوئی اسے مار نہیں سکتا، چاہے وہ میں ہی کیوں نہ ہوں۔"
الیاس غصے میں چلایا، "تم نے تو میری بیٹی کو زہر دیا ہے! دیکھو، وہ تڑپ تڑپ کر زمین پر مر چکی ہے، اور تم کہتے ہو کہ اسے کوئی نہیں مار سکتا؟" یوسف بابا نے سکون سے جواب دیا، "کیا تمہیں یقین ہے کہ یہ مر چکی ہے؟" الیاس بولا، "ہاں، دیکھو، اس کی سانسیں رک چکی ہیں!"
اور جیسا کہ یہ لوگ کہہ رہے ہیں اور میں بھی یہ مانتا ہوں کہ وہ خدا ہے ہی نہیں کہ جس تم لوگوں کی عبادت کرتے ہیں وہ جس کے لیے تم لوگ سارا دن بھوکے پیاسے رہتے ہو اور اس کی تعریف کرتے ہو اگر وہ ہوتا تو کیا میری بیٹی اس طرح مری ہوتی۔تم ایک ڈھونگی ایک قاتل ہو۔
یوسف بابا کو اللہ کی ذات پر پورا یقین تھا کہ وہ کوئی نہ کوئی راہ ضرور دکھائے گا اس لیے اپ صبر سے وہاں کھڑے رہے اور اللہ سے دعا کرتے رہے ۔ الیاس سب کو یقین دلا رہا تھا کہ یوسف بابا نے مائرہ کو زہر دیا ہے۔ گاؤں والے بھی اسی کو سچ مان رہے تھے، مگر یوسف بابا بالکل
پرسکون تھے۔ انہوں نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا، "میرا رب جانتا ہے کہ میں بے قصور ہوں، وہی سچ سب کے سامنے لانے والا ہے۔" پھر انھوں نے گاؤں والوں کی طرف توجہ کی اور کہا اے لوگوں اگر میں اپنی صفائی میں کچھ کہوں گا تو تم مجھے جھوٹا ہی سمجھو گے، لیکن اگر یہ تربوز خود گواہی دے کہ اس میں زہر کس نے ملایا، تو کیا تم مان لو گے کہ میں بے گناہ ہوں؟" یہ سن کر سب آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے۔ کچھ لوگ ہنسنے لگے، بابا نے کہا میں تو اللہ کا ایک عاجز بندہ ہوں یہ میرے بس میں نہیں پر وہ اللہ چاہے تو سب کچھ ہو سکتا ہے یا اللہ تو جس کو چاہے بولنے کی طاقت دے سکتا ہے دکھا دے اپنا کرشمہ اور اپنی قدرت ۔
بس پھر کیا تھا دوستو ۔ وہ ہوگیا جس پر کسی کو اپنے کانوں پر یقین نہیں کیونکہ تربوز انسانی زبان میں بولنے لگا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کے حکم سے بول رہا ہوں یہ سچ ہے کہ یوسف بابا بے قصور ہیں! زہر میرے اندر اس شخص نے ملایا تھا جو مائرہ کا اپنا تھا، جس کا فرض تھا کہ وہ اس کی حفاظت کرتا، مگر وہی اس کی جان لینے پر تُل گیا تھا!" سب حیرت سے تربوز کو دیکھنے لگے۔ پھر تربوز نے اونچی آواز میں کہا، "یہ آدمی اور کوئی نہیں، مائرہ کا اپنا باپ، الیاس ہے! وہ کب سے اپنی بیٹی کو مارنا چاہتا تھا، اور آج اس کی یہ خواہش پوری ہو گئی۔ مگر جس طرح میں اپنے رب کے حکم سے بول رہا ہوں، اسی طرح وہ جو چاہے کرسکتا ہے ۔یہ سنتے ہی پورے گاؤں میں سناٹا چھا گیا۔ عورتیں اللہ کی قدرت دیکھ کر رونے لگیں، اور الیاس کے ساتھی شرمندگی سے نظریں جھکانے لگے، خاص طور پر وہ شخص جس نے زہر آلود تربوز یوسف بابا کو دیا تھا۔
یوسف بابا نے الیاس سے کہا، "دیکھو، تم نے اپنی بیٹی کو مارنے کی پوری کوشش کی، مگر یہ تربوز اللہ کے حکم سے بول اٹھا! کوئی بھی چیز اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی۔ تم نے سوچا تھا کہ تمہاری چال کامیاب ہو جائے گی، مگر تمہارے ارادے ناکام ہو گئے۔" پھر یوسف بابا نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی، "اے میرے رب! تو ہی زندگی دینے والا اور لینے والا ہے۔ اگر تیری مرضی ہے تو مائرہ کو واپس زندگی دے دے۔" اس کے بعد انہوں نے ایک خاص دوا نکالی، جو انہوں نے جنگل میں موجود زہریلے اثر کو ختم کرنے والے پودوں سے تیار کی تھی۔ جیسے ہی انہوں نے وہ دوا مائرہ کو دی، وہ اچانک ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی اور گہری سانس لی۔ گاؤں والے حیران رہ گئے اور زور سے بولے، "اللہ اکبر!" سب یوسف بابا کے قدموں میں گر کر معافی مانگنے لگے۔
الیاس شرمندہ کھڑا تھا، اس کی حقیقت سب پر کھل چکی تھی۔ یوسف بابا نے اس کی طرف دیکھا اور کہا، "تم نے بیٹی سے بدلہ لینے میں اتنی دور تک جانے کی کوشش کی کہ اپنی ہی اولاد کی جان لینے سے بھی نہ ہچکچائے، مگر دیکھو! اللہ نے نہ صرف تمہاری چال کو ناکام کیا بلکہ تمہاری بیٹی کو نئی زندگی بھی دی۔ اگر انسان اتنا ہی طاقتور ہوتا تو تم اپنی بیٹی کو مار بھی سکتے اور زندہ بھی کر سکتے، مگر یہ اختیار صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہی جسے چاہے بیٹی دیتا ہے، جسے چاہے بیٹا دیتا ہے، اور جسے چاہے بے اولاد رکھتا ہے۔ تم نے بیٹی سے نفرت میں اتنا آگے بڑھنا چاہا کہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی عزت اور ایمان کو مٹی میں ملا دیا۔ اب بھی وقت ہے، اپنے گناہوں کی معافی مانگو، ورنہ انجام بہت برا ہوگا!
Author Name : Rabia Naz Saeedi
Publish Date: 8 March 2025
Comments
Post a Comment